تحریر: لال خان
فیض آباد دھرنے میں جہاں مقتدر قوتیں کافی بے نقاب ہوئی ہیں وہاں نواز لیگ کی حکومت کی خستہ حالی مزید کھل کر منظر عام پر آئی ہے۔ حال ہی میں نواز لیگ نے جن ’’نظریات‘‘ کی بات کی تھی وہ بھی عیاں ہوئے ہیں۔ آج کل کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف سے لیکر پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور دیگر حاوی سیاسی جماعتوں تک کے رہنما ’’نظریات‘‘ کا ذکر کچھ زیادہ ہی کر رہے ہیں۔ لیکن اِن ’’نظریات‘‘ کو سمجھنے کی جتنی بھی کوشش کی جائے انسان تذبذب اور مزید تجسس کا ہی شکار ہوتا ہے۔ کیونکہ مروجہ سیاست نظریات سے عاری ہوچکی ہے اس لئے نظریات کی رٹ صرف لفاظی کے لئے لگائی جا رہی ہے، جبکہ بنیادی معاشی، سماجی، سیاسی اور طبقاتی ایشوز پر تمام پارٹیوں کے اگر کوئی ’’نظریات‘‘ ہیں تو ان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ سب کے سب موجودہ گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندے اور پیروکار ہیں۔ دولت کا سیاست پر غلبہ ہے اور سیاست دولت کے اجتماع کے لئے ہی وقف کی جا چکی ہے۔ برطرفی کے بعد نواز شریف نے نظریاتی ہونے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ان نظریات کو ابھی تک واضح نہیں کیا گیا۔ اس کی پارٹی کی بنیادیں قدامت پرستی پر ترقی پسندی کا لیبل لگا کر تبدیل نہیں ہوئیں، نہ ہو سکتی ہیں۔ پرویز رشید جیسے سابقہ بائیں بازو کے رہنما نواز شریف کو جتنے بھی سبق پڑھا لیں نواز لیگ روایتی طور پر سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور نواز شریف اس طبقاتی نظام کے خلاف کوئی سنجیدہ موقف اختیار نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی بائیں بازو کے مفکروں کی سرمایہ دارانہ پارٹیوں میں اوقات ’کمیوں‘ سے زیادہ نہیں ہوا کرتی۔ لیکن پرویز رشید خود جس سٹالنسٹ یا ماؤاسٹ پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اس کے تحت بھی سوشلسٹ انقلاب ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ کے ایجنڈے کا ابتدائی مرحلہ کبھی تھا ہی نہیں۔ نواز لیگ پاکستان کی بورژوازی یا سرمایہ دار طبقے کی روایتی جماعت مسلم لیگ کا ہی تسلسل ہے۔ اس پارٹی کو برصغیر کے مسلمان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے ہی اپنے مالی مفادات کے لئے جنم دیا تھا۔ اس بالادست طبقے کا معاشی اور سماجی کردار قدامت پرستانہ ہے۔ اس میں ترقی پسندی کی گنجائش ان کے مخصوص تاریخی کردار کی وجہ سے نہیں ہے۔ جہاں یہ طبقہ اپنی سماجی حیثیت اور مالیاتی ہجم کو وسعت دینے کے لئے بدعنوانی پر مجبور ہے وہاں اسے مذہبی اور قدامت پرستانہ رحجانات کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔ جب لاہور کا دھرنا ختم کروانے کے لئے ایک صوبائی وزیر کو پیر سیالوی کے آستانے پر جا کر فریاد کرنی پڑتی ہے تو پھر فیصلے بھی انہی مذہبی پیشواؤں کی منشا اور مفادات کے مطابق ہوتے ہیں۔ جب 1977ء میں ’’نظامِ مصطفی‘‘ کی ’تحریک‘ شدت پکڑ چکی تو بھٹو کا اچھرہ میں جماعت اسلامی کے مرکز جا کر مولانا مودودی سے ملنا اس تحریک کو ختم کرنے کی بجائے اسکی اپنی معزولی کا باعث بنا تھا۔ اِس سے قبل بھی بھٹو نے ملاؤں کو خوش کرنے کے لئے جتنے بھی اقدامات کیے وہ اُس کی مضبوطی کی بجائے کمزوری کا ہی باعث بنے تھے۔ لیکن بھٹو کے برعکس یہاں تو نواز لیگ والے اپنوں کے پاس جا کر آہ وزاری کرتے پھر رہے ہیں۔ بھٹو نے ایوب خان کے خلاف کھل کر بغاوت تو کی تھی۔ نواز شریف تو کھل کر ضیا الحق کی مذمت بھی نہیں کرسکا۔ نوا ز شریف اور مریم کے ریاستی اداروں کے خلاف بیانات ظاہری طور پران کو مزاحمتی کردار رکھنے والے سیاست دانوں کا روپ دے رہے ہیں۔ لیکن عوام کے لئے یہ کسی امید کی کرن اور مسائل کے حل کے لائحہ عمل سے عاری ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں جتنی صلاحیت تھی اتنے پراجیکٹ تو ان حکمرانوں نے قرضے لے کر لگا لیے ہیں، لیکن عوام کی زندگیوں میں تو کوئی بہتری نہیں آئی۔ نہ ہی اس غربت اور محرومی کے بحر میں ایسے شاہی پراجیکٹوں سے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں سہل ہوسکتی ہیں۔
جمہوریت اور آمریت کی تکرار ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ ضیا آمریت کے خلاف ابھرنے والی محنت کش عوام کی مزاحمتی تحریک کو زائل کرنے کے لئے بے نظیر بھٹو نے انقلابی سوشلز م کے پارٹی پروگرام سے انحراف کرتے ہوئے اس تحریک کو طبقاتی جدوجہد سے ہٹا کر مغربی ’’جمہوریت ‘‘کی جدوجہد میں تبدیل کر دیا تھا۔ کئی جمہوری حکومتیں آئیں لیکن عوام کے حالات بدسے بد تر ہی ہوتے چلے گئے۔ اب نواز اور مریم نواز پھر اسی پرانے گھسے پٹے ریکارڈ کو دوبارہ بجانا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کی معزولی سے عوام کے کچھ حصوں میں ہمدردیاں تو پیدا ہوئیں۔ فوجی آمریتوں نے یہاں کے عوام پر جبر و استحصال کے جو پہاڑ توڑے ہیں ان کے خلاف مزاحمتی جذبات کو بھی انہوں نے کیش کروانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اگر پیپلز پارٹی کی شہادتوں اور قربانیوں کی سیاست دم توڑ چکی ہے تو نواز شریف کی سبکدوشی کی ’قربانی‘ بھی کسی بڑے عوامی طوفان کو نہیں ابھار سکی۔ تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی اور دوسری جمہوریت کا راگ الاپنے والی پارٹیاں اس لڑائی میں چونکہ ریاستی اداروں کی حامی بن کر بے نقاب ہوئی ہیں اس لئے ایک محدود حد تک سیاست میں متحرک درمیانے طبقے کی ہمدردیاں مریم اور نوازشریف کی جانب بڑھی ہیں۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار کا دھڑا اس تضاد میں ان کے مدمقابل مقتدر قوتوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن یہ فیملی ڈرامہ بھی زیادہ اثر انداز نہیں ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ سیاست کی وسیع اکثریت اب عوام کو فراموش کر کے اقتدار کے حصول کے لئے ریاستی اداروں کی کاسہ لیسی کر رہی ہے۔ عوام بھی اتنے بے خبر نہیں ہیں۔ اگر تین چار کروڑ کے درمیانے طبقے سے ہٹ کر محنت کش طبقات کی وسیع تر آبادی کا جائزہ لیا جائے تو بیشتر سرویز کے مطابق وہ نہ صرف اس سیاست سے بیزار ہیں بلکہ متنفر بھی ہیں۔ مختلف فرقوں کا ابھار بھی اس سیاست کو مزید دائیں جانب دھکیل کر عوام پر قدامت پرستی کو مزید مسلط کرنے کے پلان کا حصہ ہے۔ لیکن اگر دھرنے والوں اور ان سے تنگ عام لوگوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ مختلف سیاروں کی مخلوق نظر آتے ہیں۔ جب محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد شدت پکڑ کر تحریکوں کی شکل اختیار کرجاتی ہے تو پھر دھرنوں اور سول سوسائٹی کے پریس کلبوں کے باہر مظاہروں کو تماشائیوں کے طور پر دیکھنے والے محض ناظرین نہیں رہتے بلکہ اپنی زندگیوں کی اذیتوں سے چھٹکارے کے لئے اپنی عملی سیاست شروع کرتے ہیں۔ ایسی تحریکوں کا نہ مریم اور نواز کے پاس کوئی پروگرام ہے نہ ہی کوئی لائحہ عمل ہے۔ ان کا نظریہ اسی نظام سے شروع ہو کر اسی میں ختم ہو جاتا ہے۔ سیاسی افق پر کوئی متبادل نہ ہونے کی صورت میں خصوصاً پنجاب میں ان کو کسی حد تک سطحی حمایت ملے گی۔ لیکن ان کی اپنی پارٹی کے اراکینِ پارلیمنٹ جب استعفے جمع کرانے پیروں اور ملاؤں کے پاس جا رہے ہوں تو ایسے میں کچھ کرنے کے لئے یا تو اس پوری پارٹی کو ہی توڑنا پڑے گا یا پھر یہی سیاسی ہلڑ بازی اور مقتدر اداروں کی بالاستی ہی جاری رہے گی۔ عوام کو اِس سیاست سے ویسے ہی بے دخل کر دیا ہے۔ ان کے سلگتے ہوئے مسائل کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ لیکن جب ریاست اور سیاست سے عوام بیگانے ہو جاتے ہیں تو ادارے بھی بحران کا شکار رہتے ہیں۔ محنت کشوں نے اس جبر اور ذلت کو قبول کیا ہے نہ ہی کوئی انسان کر سکتا ہے۔ جب ان اداروں اور ان کے دھرنوں کا خوف ایک نفرت میں بدل جاتا ہے تو پھر اس کی تپش پہاڑوں کے کلیجے چیر کر نجات کے راستے نکال ہی لیتی ہے!