کراچی: بالشویک انقلاب کی سویں سالگرہ پر ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کی تقریب رونمائی

رپورٹ: جنت حسین

اس سال اکتوبر انقلاب کے سو برس مکمل ہونے پر ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ اسی سلسلے میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) اور طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے آڈیٹوریم میں بالشویک انقلاب کی سویں سالگرہ کے موقع پر انقلاب کے رہنما لیون ٹراٹسکی کی شہر آفاق تصنیف ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کے پہلے اردو ایڈیشن کی تقریب رونمائی منعقد کی۔
تقریب میں پاکستان اسٹیل، کے پی ٹی، پورٹ قاسم، پاکستان ریلوے، پاکستان پوسٹ، پی آئی اے، اسٹیٹ بینک، نیشنل بینک، نیشنل شپنگ کارپوریشن، گارمنٹس ہوزری ورکرز، شہید ذوالفقار علی بھٹو لا کالج، کراچی یونیورسٹی، وفاقی اردو یونیورسٹی، ایس ذیبسٹ اور دیگر اداروں کے محنت کشوں، طلبہ اور اساتذہ سمیت ڈاکٹروں، وکلا، دانشوروں، صحافیوں، فنکاروں اور ادیبوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آرٹس کونسل کا آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سخت گرمی کے باوجود بارہ بجے سے ہی شرکا ہال میں پہنچنا شروع ہو چکے تھے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز ساڑھے تین بجے حبیب جالب کی انقلابی شاعری سے ہوا، جسے شیما کرمانی اور انکی ٹیم نے انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ اس کے بعد مہمانوں کو سٹیج پر بلایا گیا۔
سٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ ماجد میمن اور کامریڈ عرفان اللہ خان نے مشترکہ طور پر ادا کئے۔ سب سے پہلے آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور انقلاب روس اور ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کتاب پر بات رکھی۔ اس کے بعد معروف ترقی پسند رہنما مہناز رحمن نے انقلاب روس میں خواتین کے حوالے سے کتاب سے اقتباسات پر مشتمل خوبصورت مقالہ پڑھا۔ انہوں نے ترجمے کو خوب سراہا اور کہا کہ اکتوبر انقلاب میں محنت کش خواتین نے ہراول کردار ادا کیا اور انقلاب کے بعد خواتین کو سیاسی، سماجی اور معاشی حوالے سے مساوی حقوق دئیے گئے۔ اس کے بعد کتاب کے مترجم عمران کامیانہ نے آج کے عہد میں بالشویک انقلاب کی اہمیت اور لیون ٹراٹسکی کی جدوجہد پر روشنی ڈالی اور ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض تاریخ کی کتاب نہیں ہے بلکہ مارکسزم کے سائنسی فلسفے کا شاہکار ہے جس میں مصنف نے تاریخی مادیت، غیر ہموار اور مشترک ترقی، انقلابِ مسلسل، تاریخ میں فرد کے کردار، انقلابی پارٹی کی اہمیت اور تعمیر، سرکشی کے فن اور انقلاب کی میکانیات جیسے وسیع اور انتہائی اہم موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ آج سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کرنے والے ہر انقلابی کے لئے اِس کتاب کا مطالعہ ضروری نہیں بلکہ ناگزیر ہے۔ اِسی لئے اِس کتاب کی اردو میں اشاعت سے بہتر انقلابِ روس کے سویں سالگرہ کو منانے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد معروف آرٹسٹ اور سیاسی و سماجی کارکن شیما کرمانی نے سرمایہ داری میں خواتین کی حالت زار کے حوالے سے بات رکھی کہ آبادی کا نصف سے زائد حصہ کس طرح استحصال اور جبر کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کی تاریخ میں کولنٹائی، کرپسکایا اور روزا لکسمبرگ جیسی نڈر اور قابل انقلابی خواتین نمایاں ہیں، آج بھی یہ جنگ مرد و خواتین کو مل کر لڑنا ہے۔ اگلے مقرر پائلر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور نیشنل لیبر کونسل کے سیکرٹری جنرل کرامت علی تھے، جنہوں نے ٹریڈ یونین تحریک اور محنت کشوں کے حالات پر تفصیلی بات کی۔ کمیشن آف ہیومن رائٹس کے رکن انیس ہارون نے مدلل انداز میں انقلاب کے مراحل کا ذکر کیا۔ اس کے بعد سندھی روزنامہ عوامی آواز کے ایڈیٹر ڈاکٹر ایوب شیخ نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا جو سٹالن ازم حمایت میں تھا، انہوں نے لیون ٹراٹسکی پر تنقید رکھی۔ اس کے بعد بی بی سی کے نامور صحافی اور کالم نگار وسعت اللہ خان نے اپنے مخصوص دلچسپ انداز میں اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کتاب کے مترجم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترجمے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک ترجمہ عشق میں ڈوب کر کیا جاتا ہے، ایک ترجمہ پیسے کے لئے کیا جاتا ہے اور ایک ترجمہ نوکری کی مجبوری میں کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اِس کتاب کا ترجمہ پہلی قسم کا ہے جو عشق میں ڈوب کر کیا گیا ہے۔ انہوں انقلابِ روس میں لیون ٹراٹسکی کے کردار کو ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ سٹالن کے بغیر انقلاب برپا ہو سکتا تھا لیکن لیون ٹراٹسکی کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ روس کے برعکس پاکستان میں قومی مسئلہ بہت پیچیدہ ہے اور یہاں انقلاب کی بجائے ارتقا کے ذریعے چیزوں کو بہتر کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ اس کے بعد معروف کالم نویس مقتدا منصور نے اپنے مقالے میں کتاب پر بات رکھی اور کامریڈ لال خان کے تحریر کردہ کتاب کے تعارف کا حوالہ دیا کہ آج کے پاکستانی معاشرے اور قبل از انقلاب روس میں گہری مشابہتیں موجود ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ لینن کے دست راست لیون ٹراٹسکی کی اِس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ اس کے بعدمعروف کالم نویس و افسانہ نگار زاہدہ حنا نے اپنے مقالے میں اردو ترجمے سے اقتباسات پیش کئے۔ انہوں نے ترجمے کی سراہا اور لیون ٹراٹسکی کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔
پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور ایشین مارکسسٹ ریویو کے ایڈیٹر کامریڈ لال خان نے سٹالنزم کی مرحلہ وار انقلاب کی تھیوری کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے واضح کیا کہ روس کا انقلاب کوئی عوامی جمہوری یا قومی جمہوری نہیں بلکہ سوشلسٹ انقلاب تھا۔ انہوں نے ٹراٹسکی پر کی جانے والی تنقید کا مدلل جواب دیتے ہوئے ٹراٹسکی کے انقلاب مسلسل کے نظرئیے اور لینن کے اپریل تھیسس میں اِس نظرئیے کی توثیق کی وضاحت کی۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ روس میں بھی قومی مسئلہ بہت پیچیدہ تھا اور جارجیا، یوکرائن، بالٹک کی ریاستیں اور وسط ایشیا میں بے شمار قسم کی غیر روسی اقوام آباد تھیں۔ بالشویکوں نے جہاں محکوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کا دفاع کیا وہاں قومی مسئلے کو طبقاتی جدوجہد سے جوڑا۔ یہی پالیسی انقلابِ روس کی فتح کی ضامن بنی۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب صرف حکومت اور معیشت کو نہیں بلکہ جغرافیوں، ثقافتوں اور نفسیات کو بھی بدل دیتے ہیں۔ اِس دوران سارا ہال سوشلسٹ انقلاب کے نعروں سے گونجتا رہا۔
مہمانوں کو آرٹس کونسل کی طرف سے اجرک کا تحفہ پیش کیا گیا اور مقررین نے کھڑے ہو کر کتاب کی باضابطہ رونمائی کی۔ ایس ڈیبسٹ کے شعبہ سماجیات کے سربراہ ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے کہا کہ انقلاب روس گزشتہ صدی کا اہم ترین واقعہ ہے۔ محنت کش طبقہ آج بھی استحصا ل کا شکار ہے، جب تک ظلم و جبر اور ناانصافی رہے گی انقلاب کی ضرورت بڑھتی جائے گی۔ انہوں نے اِس مفروضے کو مسترد کیا کہ پاکستان میں قومی مسئلے کے پیچیدگی کے پیش نظر انقلاب نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے سنیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ نے کتاب کی اشاعت کو سراہا۔ انہوں نے انقلاب کی اہمیت اور آج کی سیاست پر بات رکھی۔ پروگرام کے آخری مقرر نیشنل پارٹی کے میر حاصل خان بزنجو تھے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی انقلاب روس کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ سویت یونین کے ٹوٹ جانے کا مطلب یہ ہر گزنہیں کہ نظریہ ختم ہوگیا ہے۔ انقلاب کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے لئے محنت کشوں کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ پروگرام میں سابق رکن قومی اسمبلی اور مزدور رہنما عزیز میمن، منظور رضی، پیپلز پارٹی کے رہنما ریاض حسین بلوچ، شیخ مجیب، لیاقت علی ساہی، سوئی سدرن کے مزدور رہنما سعید خان، کے پی ٹی کے مزدور رہنما رزاق میمن، سیمنز یونین کے آدم پنجیری، پاکستان اسٹیل سے مرزا مقصود، اکبر میمن، معروف فنکار طلعت حسین، معروف اینکر پرسن انیق احمد کے علاوہ اراکین آرٹس کونسل اور دیگر احباب کثیر تعداد میں موجود تھے۔ حاضرین نے کتاب میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور سٹال سے درجنوں کے حساب سے کتاب کی کاپیاں فروخت ہوئیں۔ تقریب کا اختتام انٹر نیشنل گا کر کیا گیا۔ کامریڈ شیما کرمانی نے اپنی ٹیم اور حاضرین کے ہمراہ محنت کشوں کا عالمی ترانہ گایا۔