| تحریر: ہر دل کمار |
کچھ دن انسانوں کی زندگیوں میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور پھر کچھ دن نسل انسان کی تاریخ میں بہت اہمیت کی حامل ہوتے ہیں۔ کسی دن شادیانے بجتے ہیں اور کسی دن صف ماتم بچھتی ہے لیکن کچھ دن ایسے بھی ہوتے ہیں جو آنے والی نسلوں پراور تاریخ پر اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جن کو مٹایا نہیں جاسکتا، ایسا ہی ایک دن یوم مئی ہے۔ یوم مئی نہ تو کوئی مقدس دن ہے، نہ ہی خوشی کا اور نہ ہی غم کا، یوم مئی کا دن ہنسنے اور رونے کا دن بھی نہیں ہے، یہ دن جشن منانے یا ماتم کرنے کا بھی نہیں ہے۔ یہ دن سوچنے کا، آگے بڑھنے کا، مقصد اورمنزل کے حصول کی جدوجہد کے فریضے کو یاد دلانے اور انقلاب کا عزم کرنے کا دن ہے۔ یوم مئی کسی مذہب، کسی قوم، کسی ذات یا کسی ملک، نہ ہی کسی خطے یا پھر کسی گروہ کا تہوارہے۔ یہ تہوار ہے ایک طبقے کا، وہ طبقہ جو دنیا کے ہر خطے میں اپنی محنت سے زندگی کو زندگانی بخشتا ہے۔
دنیاکی پہلی باقاعدہ مزدوروں کی یونینز میں سے ایک امریکہ کی ریاست فلاڈیلفیا میں 1827ء میں قائم ہوئی جس کا نام مکینکس یونین اینڈ ٹریڈ ایسوسی ایشن تھا، اس تنظیم نے پہلی مرتبہ مزدوروں کے اوقات کار میں کمی کا مطالبہ کیا تھا۔ 1834ء میں نیویارک میں بیکری کے محنت کشوں نے زیادہ اوقات کار کے خلاف ہڑتال کی، 1861ء میں کان کنوں نے اور 1862ء میں بوائلرز کے مزدوروں نے اپنی تنظیمیں بنائیں، 1864ء تک امریکہ بھر میں لگ بھگ 20 بڑی مزدور تنظیمیں قائم ہوچکی تھیں۔ 1866ء میں ان ٹریڈ یونیز پر مشتمل ایک اتحاد مزدور رہنما ویلیم سلوس کی قیادت میں قائم ہوا، 20 اگست 1866ء کو بالٹی مور میں ایک مزدور اجتماع ہوا، جس میں نیشنل یونین آف لیبر کا قیام عمل میں آیا، اس اجلاس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ کام کرنے کے اوقات کار 8 گھنٹے پر محیط ہوں، دنیا میں پہلی مرتبہ یہ مطالبہ ان الفاظ میں کیا گیا کہ ’’ہم 8 گھنٹے کام کریں گے، 8 گھنٹے آرام کریں گے اور 8 گھنٹے اپنی بیوی، بچوں اور دوستوں کے ساتھ گزاریں گے‘‘۔
اکتوبر 1884ء میں شکاگو میں’’فیڈریشن آف ٹریڈز اینڈ لیبر یونینز‘‘ کے زیر اہتمام امریکی محنت کشوں نے ایک نیشنل مزدور کنونشن میں اعلان کیا کہ یکم مئی 1886ء سے 8 گھنٹے کے کام کے اوقات کار قانونی تصور ہوں گے، اگر حکومت نے اس مطالبہ کو تسلیم نہ کیا تو مزدور تنظیمیں امریکہ بھر میں غیر معینہ مدت کیلئے ہڑتال پر چلی جائیں گی۔ اس مطالبے پر حکومت نے کان نہ دھرا، چنانچہ مزدور تنظیموں نے یکم مئی 1886ء کو ملک گیر ہڑتال کی تیاریاں شروع کردیں۔ بالا آخر یکم مئی 1886ء کو ٹریڈ یونینز میں منظم پانچ لاکھ مزدور ہڑتال پر چلے گئے، شکاگو میں 40 ہزار مزدوروں نے ہڑتال میں حصہ لیا، مظاہروں میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی، امریکہ کے تمام بڑے شہروں اور صنعتی علاقوں میں محنت کشوں نے ریلیاں اور جلوس نکالے، محنت کش مکمل طور پر پر امن تھے لیکن 3 مئی کو پولیس نے دو محنت کشوں کو گولیاں مار کے شہید کر دیا جس پر غم و غصہ بڑھنے لگا۔ 4 مئی کو شکاگو میں ’ہے مارکیٹ‘ کے مقام پر بڑا جلسہ منعقد ہوا، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس روز پورے امریکہ میں کم وبیش 6 لاکھ محنت کشوں نے ریلیوں میں شرکت کی اور 8 گھنٹے کے اوقات کار کا مطالبہ کیا۔ شکاگو میں اجتماع کے دوران پولیس نے جلسہ ختم کرنے کا حکم جاری کیا جس پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم شروع ہو گیا، پولیس نے آخر کار محنت کشوں پر گولی چلا دی اور قتل و غارت کا یہ سلسلہ کئی منٹ تک جاری رہا، عینی شاہدین کے مطابق پولیس اہلکار گولیاں ختم ہونے پر بندوقوں میں دوبارہ گولیاں بھرتے اور محنت کشوں پر داغنے لگتے۔ درجنوں محنت کش اس ریاستی دہشت گردی میں شہید ہو گئے۔ محنت کشوں نے پر امن رہنے کی علامت کے طور پر سفید پرچم تھام رکھے تھے جو ان کے لہو میں بھیگ کر سرخ ہو گئے اور مزدور تحریک اور انقلاب کا پرچم اس دن کے بعد سرخ ٹھہرا۔ آج تک یہ سرخ پرچم مزدوروں کی عظمت، جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کا نشان ہے۔
پیرس میں اس جدوجہد کے اعتراف میں پہلی مرتبہ دوسری انٹرنیشنل کے 1889ء کے اجلاس میں یہ قرار داد منظور ہوئی کہ یکم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طورپر دنیا بھر میں منایا جائے گا۔ اس اجلاس کی صدارت عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے کی تھی۔ 1889ء کے بعد سے یکم مئی کا دن دنیا بھر میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس روز محنت کش اپنی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے تک جاری رکھنے کا عزم کرتے ہیں۔
محنت کشوں کے عالمی دن کو پاکستان میں مزدور تحریک کی موجودہ کیفیت، حکمران طبقات کے پے درپے حملوں اور ان حملوں کے خلاف جدوجہد کے لائحہ عمل کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان اسٹیل مل، واپڈا، پی آئی اے، ریلوے اور دیگر تقریباً 60 اداروں کو نجی شعبے کو بیچنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے ان اداروں کی نجکاری کا حکم دیا ہے۔ یہ حکمران نجکاری کرنا بھی چاہتے ہیں مگر محنت کش طبقہ سے خوفزدہ بھی ہیں۔
اسٹیل مل، جو پاکستان کی صنعت کو بام عروج پر پہنچاسکتی تھی، آج خسارے کی دلدل میں ڈوب چکی ہے، حکمرانوں نے دوسرے اداروں کی طرح باقاعدہ منصوبہ مندی سے اسے برباد کیا ہے، پچھلے پانچ مہینے سے اسٹیل مل کے محنت کشوں کو تنخواہ نہیں ملی ہے اور ان میں شدید غم وغصہ پایا جارہا ہے۔ یہ حکمران صنعتی اداروں کو ترقی تو کیا دیتے الٹا یہ اداروں کا وہ معیار جو برطانوی سامراج سے ورثے میں ملا تھا، وہ بھی برقرار نہیں رکھ پائے۔
تقسیم کے بعد سے اس خطے میں جب مقامی سرمایہ دار طبقے نے آزادانہ جنم لیا تو اس وقت سرمایہ داری یا منڈی کا نظام معیشت قومی حدود سے باہر نکل کر عالمی حیثیت اور کردار اپنا چکا تھا۔ یہاں کے حکمران طبقات عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی سکت سے محروم اور مالیاتی اعتبار سے خصی تھے، وقت اور تاریخ نے سرمایہ داری کے استحصال کو جاری رکھنے کیلئے پاکستانی ریاست اور حکمرانوں کے سامنے ایک ہی راستہ رکھاکہ وہ سامراج کی کاسہ لیسی اختیار کریں۔ یہ راستہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی سامراجی اداروں کی اطاعت کا تھا۔ حکمران طبقات نے روز اول سے عالمی انسان دشمن مالیاتی اداروں کے قرضوں کا فیڈر منہ سے لگایا اور یہ بھوک آج تک نہیں مٹ سکی ہے۔
واپڈا جو اس ملک کے ہر شہر اور دیہات کو منور کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک بھی بجلی بیچ کر زرمبادلہ کا ذریعہ بن سکتا تھا، مگر آج اس سرزمین کو بھی روشن کرنے سے قاصر ہے۔ واپڈا میں نجی شعبہ سب سے پہلے نجی پاور پلانٹس کی شکل میں گھسا اور اس کے بعد سے ملک میں لوڈ شیڈنگ اورمہنگی بجلی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ آج تک نہیں تھم سکا۔ آج پورے واپڈا کو ہی بیچنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
اسی طرح پاکستان ریلوے 1975ء تک منافع بخش ادارہ تھا۔ آج اس ادارے کے 936 ریلوے اسٹیشنز میں سے 500 سے زیادہ کھنڈرات میں بدل چکے ہیں۔ نجکاری کے عمل کی کامیابی کے امکانات بھی کم ہیں۔ اس کی حالیہ مثال ریلوے کی صرف ایک ٹرین کی نجکاری سے سامنے آئی ہے جس کو دو سال تک نجی شعبے میں دے کر اتنا منافع بخش بھی نہیں بنایا جاسکا کہ وہ لاہور کراچی جیسے منافع بخش روٹ کا کرایہ اور واجبات حکومت کو ادا کرسکے۔ اسی طرح 11 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی آئی اے کو ایک کارپوریشن سے لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنے کے بل کی منظوری دراصل نجکاری کو نئے انداز میں پیش کرنے کی واردات ہے۔
نجکاری کسی بھی نام، کسی بھی شکل اور کسی بھی سطح پر ہو، اس کا ناگزیر نتیجہ محنت کشوں کی نوکریوں، سہولیات، مراعات کے خاتمے، تنخواہوں میں کٹوتی اور مہنگائی کی شکل میں ہی نکلتا ہے۔ آج یہ حکمران تمام ریاستی اداروں کی نجکاری کی تیاری کر رہے ہیں، اس میں کہیں کامیاب بھی نظر آتے ہیں لیکن نجکاری کے خلاف محنت کشوں کی تحریکیں بھی اٹھ رہی ہیں جن کی وجہ سے ریاست اپنے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پوری طرح نہیں پہنا پا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تحریکوں کو آپس میں جوڑا جائے اور دفاعی مطالبات سے بڑھ کر جارحانہ مطالبات کی طرف بڑھا جائے۔
یوم مئی کا پیغام ہے کہ یہ بربادی محنت کش طبقے کا مقدر نہیں ہے۔ اس نظام کے جبر سے نجات اس کے خلاف لڑائی اور بغاوت سے ہی ممکن ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ محنت کشوں نے تمام حاصلات لڑکر ہی جیتی ہیں، مصلحت اور دعاؤں سے خیرات ملتی ہے حق نہیں۔ آج اس خیرات کی گنجائش بھی اس نظام میں نہیں ہے۔ حق چھیننا پڑتا ہے، وحشت اور اذیت کے اس سماج میں زندہ رہنے کیلئے لڑنا پڑتا ہے۔
اس کرہ ارض پر انسانوں کی تمام ضروریات کے تمام وسائل موجود ہیں، مسئلہ ان کی ملکیت کا ہے، یہ وسائل ہمارے ہیں مگر ان پر قبضہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سامراجی اداروں کا ہے۔ ہمیں ان سے یہ سب کچھ واپس چھیننا ہے، ہم نسل انسان کے مستقبل کو بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں، ہمیں مل کر لڑنا ہے اور جیتنا بھی ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف خواب نہیں ہے بلکہ عملی طور پر عین ممکن ہے۔ تمام تر وحشت اور جبر کے باوجود حکمران آج جتنے کمزور اور بے بس ہیں، اتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ تاریخ کا فریضہ ہے کہ طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر سرمایہ داری کا طوق گلے سے اتارکر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جائے تاکہ استحصال سے پاک سماج کی طرف سفر شروع کیا جاسکے۔ یہی یوم مئی اور شکاگو کے شہیدوں کا پیغام ہے۔