| تحریر: اویس قرنی |
’’میں نے کبھی سوچا نہیں تھا مگر میں عنقریب 90 سال کا ہو جاؤں گا، اور باقیوں کی طرح چلا جاؤں گا، ہم سب کی باری آنی ہے‘‘، کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کی اپریل 2016ء میں ہونے والی ساتویں کانگریس میں یہ فیڈل کاسترو کے الوداعی الفاظ تھے۔ انقلابِ کیوبا کے معمار فیڈل کاسترو26 نومبر ہفتے کی شب کووفات پا گئے۔ یہ خبر مختلف طبقات کے لئے مختلف نوعیت کی تھی۔ جہاں ایک طرف سرمایہ داروں اور سامراجیوں کی برسوں کی تمنا پوری ہوئی تو دوسری طرف محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے یہ ایک صدمہ تھا۔ الجزیرہ کے مطابق ’’کچھ لوگوں کی نظر میں کاسترو ایک ایسا درندہ تھا جس نے کیوبا کو ڈبو دیا ا ور ظلم وستم کی اندھی تاریکی میں غرق کر دیا، جبکہ کچھ لوگوں کے لیے وہ سوشلسٹ سپر مین تھا جس نے محرومی و نا انصافی کا خاتمہ کرتے ہوئے برابری کی بنیادوں پر وسائل کی تقسیم کی، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کی مفت فراہمی کی‘‘۔ اول الذکر نقطۂ نظر رکھنے والے وہ مٹھی بھرملٹی نیشنل کمپنیوں کے سرمایہ دار اور سامراج کے گماشتہ غنڈے تھے جن کی بیش بہا لوٹی ہوئی دولت پر چے گویرا اور کاسترو کی انقلابی حکومت نے قبضہ کرتے ہوئے مؤخر الذکر نقطۂ نظر رکھنے والے لاکھوں کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں پر خرچ کرتے ہوئے انسانی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔
تمام تر کارپوریٹ میڈیا اس عظیم انقلابی کو ’’آخری سوشلسٹ لیڈر‘‘ کے طور پر دفن کرنے کے در پے ہے اورمحض کاسترو کی انفرادی خوبیوں کوہی اس پہچان کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جبکہ فیڈل کاسترو کی حقیقی پہچان اس کے نیک و پرہیز گار ہونے سے زیادہ اسکی انقلابی فکر ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے اس نے اپریل کی پارٹی کانگریس میں واضح طور پر کہا تھا کہ’’ ہم سب نے مٹ جانا ہے، لیکن کمیونسٹ کیوبا کے نظریات اس کرہ ارض پرایک مشعل راہ رہیں گے کہ محنت اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے ایسی مادی اور ثقافتی بنیادیں تعمیر کی جاسکتی ہیں جو نسلِ انسان کی ضرورت ہیں۔‘‘
امریکی سامراج کے گماشتہ اور وحشی آمر جنرل بیٹسٹا کے خلاف فیڈل کاسترو، چے گویرا اور باقی ساتھیوں نے قصبوں اور دیہاتوں میں جا کر لوگوں کو ساتھ جوڑتے ہوئے ’’دی موومنٹ‘‘ نامی ایک گوریلا تنظیم کی بنیاد رکھی جوبعد میں ’’26جولائی کی تحریک‘‘ اور پھر 1965ء میں کمیونسٹ پارٹی بنی۔ 26 جولائی 1953ء کو فیڈل اور راؤل کاسترو نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سنتیاگو میں مونکاڈا بیرک پرناکام حملہ کیا جس میں 9 کے قریب ان کے ساتھی مارے گئے اور درجنوں کو بعد میں سولی پر لٹکا دیا گیا۔ کاسترو کو قید کیا گیا اور بعد میں ملک بد ر ہونا پڑاجہاں چے گویرا اور کاسترو کی ملاقات سے نظریات، جہدوجہد اور طریقہ کار کے نئے باب کھلے۔ ان کی گوریلا فوج نے 5 سال 5 ماہ اور 6 دن کی لڑائی لڑ کر آخر کار جنرل بیٹسٹاا کا تختہ الٹ دیا، تاہم انقلاب کی حتمی کامیابی میں د رالحکومت ہوانا اور دوسرے بڑے شہروں کے محنت کشوں کا کلیدی کردار تھاجن کی ہڑتال نے سرمایہ دارانہ ریاست کو مفلوج کر دیا تھا۔ 1959ء میں برپا ہونے والے انقلاب کے نتیجے میں امریکی کٹھ پتلی جنرل بیٹسٹا کی آمریت کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک عوامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انقلابِ کیوبا کے لاطینی امریکہ اور دنیا بھر میں دوررس اثرات مرتب ہوئے۔
اگرچہ اس قسم کی گوریلا جدوجہد کے ذریعے تبدیلی ایک کلاسیکی انقلابی اور بالشویک طریقہ کار نہیں ہے، بہرکیفمخصوص زمان و مکاں کی کیفیت میں کیوبا میں سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ کر منصوبہ بند معیشت کی بنیادیں ڈالی گئیں جو ایک ترقی پسند قدم تھا۔ انقلاب کے بعد کیوبا کی ریاست کا ماڈل اس وقت کی سوویت افسر شاہی کی طرز پر ترتیب دیا گیا تھا۔ لیکن اپنے تمام تر نقائص کے باوجود منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر دنیا کا سب سے ایڈوانس ترین صحت کا نظام متعارف کرایا گیا، تمام بنیادی ضروریات کی مفت فراہمی یقینی بنائی گئی۔ 1960ء کے اقوامِ متحدہ کی جنرل باڈی کے اجلاس میں تعلیم بالغاں کے لیے ہنگامی تحریک کا آغاز کا اعلان کیا گیا، پورے جزیرے میں رضا کارانہ طور پر پڑھانے والوں سے درخواستیں طلب کی گئیں، جس میں 250,000 درخواستیں موصول ہوئی، جن میں بڑی تعداد 18 سال سے کم عمر نوجوانوں کی تھی اور ان میں بھی اکثریتی درخواستیں خواتین کی طرف سے موصول ہوئیں، ان کو بنیادی ٹریننگ کے بعد پورے کیوبا خصوصاً دیہاتوں میں بھیجا گیا۔ یہ رضا کار وہیں پر مقیم رہے اور تدریسی عمل کا آغاز کیا۔ اسی دوران امریکی سامراج کے حملے بھی ہوئے، جن کااستادوں ا ور شاگردوں نے ملکر انقلابی جذبوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور فتح یاب ہوئے۔ اسی تحریک کے نتیجے میں آج کیوبا میں شرح خواندگی، دنیا کی بلند ترین سطح 99.8 فیصد پر ہے جو انقلاب سے قبل بمشکل 50 فیصد تھی۔
علاج اور صحت کے حصول کے لیے بنیادی انقلابی تبدیلیاں کی گئیں۔ 1960ء میں انقلابی لیڈر اور فزیشن چے گویرا نے اپنے ایک مضمون میں کہا کہ ’’آج صحت اور اس جیسے باقی اداروں پر ایک انقلابی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ممکنہ حد تک آبادی کی بڑی تعداد کو صحت اور علاج کی خدمات فراہم کی جائیں، بیماریوں سے بچاؤ کے پروگرام کا ادارہ بنایا جائے اور لوگوں کی توجہ حفظانِ صحت کے مطابق طرز عمل کی طرف مبذول کرائی جائے‘‘۔ اس اصول کے تحت کیوبا میں صحت کے شعبے کو ’’Prevention‘‘ کے طرز عمل پر ترتیب دیا گیا۔ یعنی بیماری کے علاج سے زیادہ اس کے تدارک پر توجہ دی گئی، جوکہ ایک سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ اگر بیماری کا پھیلاؤ ہی نہ ہو تو اس کے علاج کا کاروبار ہی ممکن نہیں اور نہ ہی منافع کا حصول، بیمار ی اور مفلوجی اس نظام کی دین ہے اور اس سے منافع کمایا جاتا ہے۔ 1958ء میں ہر 10,000 شہریوں کے لیے صرف 9 ڈاکٹر دستیاب تھے جن کی تعداد 1999ء میں 58 ہوگئی۔ 60ء کی دہائی میں شروع ہونے والی بیماریوں کے تدارک کی مہم میں عالمگیرو ہمہ جہت ویکسینیشن سے پولیو اور روبیلا جیسی مہلک بیماریوں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ریکارڈ کے مطابق 2012ء میں کیوبا کے بچوں میں ہلاکتوں کی شرح فی ہزار 4 تھی (امریکہ سے کم)، اس سے 40 سال پہلے یہ تعداد 46 تھی۔ 1960ء کی دہائی میں کیوبا کے لوگوں کی متوقع عمر 63 سال ہوتی تھی جو کہ2014ء میں بڑھ کر 79 سال ہو گئی جبکہ امریکہ میں یہ 78 سال تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ میڈیکل کے شعبے میں قیمتی ایجادات کی گئیں، ماں سے بچے کو ایڈز کی منتقلی کا علاج کیوبا نے دریافت کیا۔ مغربی امریکہ میں ایبولا وائرس کا حملہ ہو یا ہیٹی کا بدترین زلزلہ، کیوبا کے ڈاکٹروں نے بیش بہا خدمات سر انجام دیں۔ 2005ء کے پاکستان کے زلزلے کی تباہ کاریوں میں 2400 ڈاکٹروں نے متاثر ہونے والے 74 فیصد لوگوں کا علاج کیا، 32 فیلڈ ہسپتال بناکر دیے اور کیوبا نے ہزاروں میڈیکل سکالر شپ دئیے۔ 50,000 سے زائد کیوبا کے ڈاکٹر تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں، 33 ممالک میں 30 لاکھ سے زائد آنکھوں کے مفت آپریشن کیے گئے ہیں۔ کیوبا میں صحت کے شعبے کی تمام تر ترقی کی وجہ بڑے پیمانے کی نیشنلائزیشن اور منصوبہ بندی ہے جس کی بنا پر دیہی اور علاقائی سطح پر پولی کلینکس کا قیام عمل میں لایا گیا، جوکہ علاج کی سہولیات کے ساتھ ساتھ نرسز، میڈیکل اور ہیلتھ سائنسز کے طلبا و طالبات کے لیے ٹیچنگ سینٹرز کا بھی کام کرتے تھے، اور یہی پولی کلینکس ہی کیو با کے ہیلتھ کئیر سسٹم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
اپنے 1953ء کے ٹرائل کے دوران فیڈل کاسترو نے اپنی تاریخی تقریر میں واضح طور پر زرعی اصلاحات کے قانون کی ضرورت پر زور دیا تھا، جس میں اس نے کہا تھا کہ ایک انقلابی حکومت بے زمین کسانوں کو زمین دے گی، فیکٹریوں کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو براہ راست منافع میں حصہ دیا جائے گا، ٹیلی فون اور بجلی کی اجارہ داریوں کو نیشنلائزکیا جائے گا، اور ان کی دولت کو ضبط کر کے فلاحی و بہبود کے کام کیے جائیں گے۔ اس وقت کاسترو ایک سامراج مخالف ریڈیکل ڈیموکریٹ تھا۔ لیکن بعد میں چے گویرا کی قربت اور ایک پسماندہ ممالک میں کوئی مسئلہ حل کرنے میں سرمایہ داری کی ناکامی نے اسے ناگزیر طور پر مارکسزم اور انقلابی سوشلزم کی طرف مائل کر دیا۔ انقلاب کے کچھ عرصہ بعد کیوبا میں معیشت کو نیشنلائز کر لیا گیا اور منصوبہ بند معیشت کی تعمیر شروع کی گئی۔ جنسی برابری کے لئے بھی انقلابی اقدام اٹھائے گئے۔ آج کیوبا کی پارلیمنٹ میں تقریباًنصف تعداد خواتین کی ہے۔
انقلاب کے بعد ہنگامی بنیادوں پر رہائشی منصوبوں اور بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر کی بدولت ہر شہری کو رہائش فراہم کی گئی۔ زرعی اصلاحات کے ذریعے، بڑی کارپوریشنز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے وسیع زمینوں کا تسلط چھینا گیا۔ 1960ء کے اواخر تک اربوں ڈالر مالیت کی زمین کو قومی تحویل میں لیا گیا جس میں بڑا حصہ امریکی کمپنیوں کا تھا، تمام بڑے اور درمیانے سائز کی کمپنیوں کو نیشنلائز کیا گیا۔ ان میں فیڈل کاسترو کے خاندان کی کمپنی بھی شامل تھی۔ مذہب اور ریاست کو الگ کیا گیا اور تمام مذہبی تنظیموں، خاص طور پر رومن کیتھولک چرچ کی تمام جائیداد کو نیشنلائز کیا گیا۔ وہ تمام وسائل جو کیوبا کے محنت کشوں اور عوام کا خون نچوڑنے کے استعمال ہوتے تھے اب انسانی ترقی اور بہبود کے لیے بروئے کار لائے گئے۔ تمام بنیادی انسانی ضروریات ریاست کی ذمہ داری بنیں اور تعلیم و صحت کے کاروبار پر پابندی عائد کی گئی۔
انقلاب کے بعد کی خارجہ پالیسی میں پوری دنیا میں سامراجی تسلط کے خلاف قومی آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی گئی۔ اکتوبر 1962ء میں چے گویرا نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ’’ہمارا انقلاب لاطینی امریکہ میں امریکی سامراج کے تسلط کے خلاف ایک مسلسل خطرہ بن گیا ہے، ہم ان سب ممالک کو اپنا انقلاب برپا کرنے کا کہہ رہے ہیں‘‘۔ گھانا، انگولا، نکاراگورا اور دیگر ممالک میں 60 ہزار کے قریب کیوبا کے فوجی اور ماہرین آزادی کے لڑائی لڑنے والوں کے ساتھ شامل ہوئے۔ ڈاکٹروں کی بڑی کھیپ نے وہاں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ 1960ء میں فرانس کے خلاف الجزائر کی آزادی کی لڑائی کی کاسترو نے مکمل حمایت کی اور اپنے فوجیوں کو وہاں بھیجا۔ کیوبا کے ڈاکٹر اور فوجی وہ پہلی قوت تھے جنہوں نے فرانس کے خلاف آزادی کی لڑائی کو ایک نئی شکتی دی۔ اس کے بعد پورے افریقہ میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو کیوبا کی حمایت حاصل رہی۔ موزنبیق، نمیبیا، کانگو، گنی بساؤ اور دیگر ممالک کی آزادی کی جدوجہد ان میں شامل ہے۔
تقریباً نصف صدی سے کیوبا نے عالمی تنہائی اور سامراجی معاشی پابندیوں کے باوجود بہتر انسانی معاشرے کا قیام یقینی بنایا۔ کاسترو پر سی آئی اے کی جانب سے 638 جان لیوا حملے کرائے گئے لیکن تمام تر ناکام ثابت ہوئے۔ بدترین معاشی پابندیاں لگائی اور لگوائی گئیں۔ کیوبا پر مختلف براہ راست اور بالواسطہحملے کرائے گئے۔ ’’بے آف پگز‘‘ پر حملہ سب سے بڑا تھاجس میں سامراج کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جس طرح لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت نے ’داس کیپیٹل‘ کے صفحات پر نہیں بلکہ اپنی حاصلات کے ذریعے اپنا لوہا منوایا ہے۔ کیوبا میں بھی انقلاب اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی منصوبہ بند معیشت نے اسی طرح اپنا لوہا منوایا۔
سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف فیڈل کاستروکی طویل ناقابل مصالحت جدوجہد نے اسے امر کر دیا۔ 1953ء میں گرفتاری کے بعد عدالت میں تقریر کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ ’’کوئیبری کرے نہ کرے، تاریخ مجھے بری کرے گی۔‘‘ اپنے عمل سے اس نے ان الفاظ کو سچ کر دیا!