شام: خانہ جنگی کا تاریخی پس منظر، موجودہ صورتحال اور تناظر!

| تحریر: عمر شاہد |

شام میں جاری سامراج کی جارحیت اور بنیاد پرستوں کی وحشت نے صورتحال کو سنگین بنا دیا ہے، پانچ سال پہلے شروع ہونے والے اس تنازعہ نے بربریت اور وحشت کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ا س خانہ جنگی میں 450,000 سے زائد شامی شہری مارے جا چکے ہیں جبکہ دس لاکھ سے زائد زخمیوں کی تعداد بتائی جا رہی ہے۔ ملک کی 12 ملین آبادی اس تنازعہ کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑکر ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اس جنگ کے اثرات دیگر ہمسائے ممالک لبنان، ترکی اور اردن میں بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں جہاں پر بڑی تعداد میں شامی مہاجرین نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ کئی ایک یورپ جانے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس خانہ جنگی نے ایک انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 70 فیصد آبادی کے پاس پینے کے پانی تک کی سہولت موجود نہیں، ہر تین میں سے ایک فرد اپنی بنیادی خوراک کی ضرور ت پوری کرنے سے قاصر ہے اور ہر چوتھا شامی اس وقت غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دوسری طرف قابل علاج بیماریوں کا علاج بروقت نہ ملنے کی وجہ سے اموات میں تیزی آرہی ہے۔ اس انسانی المیے سے نپٹنے کے لئے نام نہاد عالمی برادری کے پاس ’وسائل‘ تک موجود نہیں لیکن اسی عالمی برادری کے پاس شا م کی تباہی اور جنگ و جدل کے لئے وسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
اسی سال 26 نومبر کو شامی فوج نے حلب کو باغی گروہوں سے آزاد کروانے کے لئے بڑا حملہ کیا، ایک ماہ کے اندر روسی فضائی بمباری کی مدد سے شامی فوج 90 فیصد مشرقی حلب کو ’آزاد ‘ کروانے میں کامیاب ہوئی۔ 13 دسمبر کو شامی فوج نے اعلان کیا کہ مشرقی حلب کا 98 فیصد حصہ ان کے قبضے میں ہے۔ اس وقت تک حلب سمیت دارلحکومت دمشق، جنوبی شام کے کچھ حصے اور شمال مغربی ساحلی پٹی پر حکومت کا کنٹرول ہے جبکہ دیگر پورے ملک پر باغیوں، داعش اور کردوں کا کنٹرول ہے۔ اسی ضمن میں تاریخی شہر تدمر پر کنٹرول کے لئے داعش اور حکومتی فوج میں سخت لڑائی جاری ہے۔ موجودہ صورتحال میں باغی گرہوں کے مابین طاقت کے حصول کے لئے جھڑپوں کی خبریں آرہی ہیں۔ آزاد شامی فوج (FSA) جنگ کے دوران کافی کمزور ہوئی ہے جبکہ النصرہ فرنٹ اور دیگر شدت پسند اسلامی گروہ مضبوط ہوئے ہیں۔ حلب پر قبضہ کے بعد بشار الاسد اور شامی فوج کا مورال بلند ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کے حملوں میں شدت آئی ہے۔ اسی طرح روس کی مداخلت نے اس تنازعہ کو مزید خونخوار بنا دیا ہے۔ صورتحال کو بہتر سمجھنے کے لئے شام کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

تاریخی پس منظر
سرکاری طور پر شام نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپریل 1946ء میں فرانسیسی سامراج سے آزادی حاصل کی لیکن درحقیقت ایک لمبے عرصے تک یہ سامراج کے کنٹرول میں ہی رہا۔ آزادی کے بعد نام نہاد آزاد ریاست کا نیا بورژوا طبقہ تاریخی طور پر متروک ہو چکا تھا۔ ان میں آزاد اور فیصلہ کن طور پر قومی ریاست کی تشکیل کی اہلیت موجود نہیں تھی۔ پہلے ہی دن سے بورژوازی نے سامراج کی پشت پناہی پر قومی ریاست بنانا چاہی لیکن ان کی نا اہلیت اور تاریخی متروکیت نے ریاست میں فوج کے کنٹرول کو بڑھاوا دیا۔ فوج اور بیوروکریسی نے ریاست پر تسلط بڑھانا شروع کر دیا۔ یہی وجہ تھی کہ عوام میں بڑھتے ہوئے اضطراب اور بے چینی کو روکنے کے لئے فوج کے ایک دھڑے نے جمال عبدالناصر کی طرف رجوع کیا۔ اسی دھڑے نے مصر کے ساتھ مل کر ’متحدہ عرب جمہوریہ‘ کا قیام عمل میں لایا جو کہ تھوڑا عرصہ ہی قائم رہ سکی۔ اس دوران محنت کشوں کی ہڑتالوں پر سخت پابندیا ں عائد کی گئیں۔

baath-party-members-michel-aflaq-left-and-salah-jadid-right-in-1963-the-latter-was-a-senior-figure-in-planning-the-coup-detat
بعث پارٹی کے رہنما مائیکل افلاق اور صالح جدید

1963ء میں سماجی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے فوج کے ایک ریڈیکل بائیں بازو کے دھڑے نے بغاوت کر کے حکومت کا تختہ الٹ کر بعث پارٹی کے اقتدار کا باقاعدہ آغاز کیا اور شام میں ایک بونا پارٹسٹ ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس ریاست کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے بڑی حد تک اس وقت کے سوویت یونین کی طرز پر استوار کئے گئے۔ اس دوران زمینوں کی تقسیم، محنت کشوں کے لئے سماجی بہبود اور ملک میں نیشنلائزیشن کا عمل شروع کیا گیا۔ لیکن یہ سب کچھ ایک ’بونا پارٹسٹ‘ انداز میں ہو رہا تھا۔ ٹیڈ گرانٹ نے لکھا کہ، ’’اس انقلاب کا ایک طاقتور محرک یہ تھا کہ شامی بورژوازی اور جاگیرداروں کی طرف سے محنت کشوں، مزارعوں اور کسانوں کی لوٹی ہوئی قدر زائد کو ملکی معیشت کا حصہ بنانے کی بجائے بیرون ملک اپنے اثاثے بنانے میں خرچ کیا جا تا رہا تھا۔‘‘ فوجی انقلاب کے بعد تیزی سے بڑے جاگیرداروں سے زمینیں چھین کر بے زمین مزارعوں میں تقسیم کی گئیں۔ کمرشل بینکوں، انشورنس کمپنیوں سمیت کلیدی صنعتی شعبوں کو حکومتی تحویل میں لیا گیا۔ منصوبہ بند معیشت کی استواری کا عمل شروع ہوا۔ لیکن اس ریاستی ڈھانچے میں بھی طاقت کے توازن کے لئے آپسی جھڑپیں اور پے درپے اکھاڑ پچھاڑ جاری رہی۔ پارٹی اور فوج کے اندر کئی بغاوتیں ہوئیں۔
1970ء میں ایک کُو کے ذریعے حافظ الاسد کے اقتدار میں آنے کے بعد بیوروکریسی کی نئی پرت وجود میں آئی جسے ’مخمل نسل‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن بعث پارٹی کے اقتدار میں شام میں محنت کشوں کی صحت مند ریاست کی بجائے ایک منصوبہ بند معیشت پر مبنی ایک مسخ شدہ مزدور ریاست کی شکل نظر آئی۔ حکمران گروہ پارٹی کے دائیں اور بائیں بازو کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ بہرحال منڈی کی معیشت کے خاتمے سے عوام کے وسیع حصے کو تعلیم، روزگار، رہائش، علاج جیسی بنیادی سہولیات اور ضروریات میسر آئیں۔ ایک نسبتاً خوشحال معاشرہ پروان چڑھا جس کی ثقافت بھی بلند تھی۔ معیشت پر ریاستی تسلط نے جدید بنیادوں پر صنعتکاری کا عمل آگے بڑھایا۔ یوں جدید شام کی بنیاد پڑی۔

syrian-president-hafez-alassad-shakes-hands-08-october-1980-in-in-picture-id51396397
حافظ الاسد اور سوویت رہنما برژنیف۔ حافظ الاسد کے دور میں شامی ریاست اور معیشت اس وقت کے سوویت یونین کی طرز پر استوار کی گئی۔

اس دور حکومت کا معاشی حوالوں سے جائزہ لیا جائے تو ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 1953ء تک کل جی ڈی پی کا 40 فیصد زراعت پر مشتمل تھا جبکہ 1984ء تک یہ صرف 20 فیصد تک رہ گیا۔ اسی دو ر میں صنعت کا جی ڈی پی میں حصہ 10 فیصد سے بڑھ کر 15.1 ہو گیا تھاجبکہ 1984ء تک کل جی ڈی پی میں حکومتی خدمات کا حصہ 61 فیصد تک تھا۔ معاشی شرح نمو کے حوالے سے دیکھا جائے تو 1980ء تک اوسط شرح نمو 9.7 فیصد سالانہ رہی اور 1981ء میں یہ 10.2 فیصد تک گئی لیکن 1982ء کے بعد یہ تیزی سے گرنا شروع ہو گئی۔ یہاں درحقیقت ایک افسر شاہانہ منصوبہ بند معیشت اپنی حدود کو چھونے لگی تھی۔ اُس وقت شامی قیادت نے چین میں ڈینگ ژاؤ پنگ اور اور سویت یونین میں گوربا چوف کی پالیسیوں کی نقل کرتے ہوئے 1986ء میں معیشت پر ریاست کی گرفت ڈھیلی کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ اس عمل کے دوران زیادہ تر معیشت حکومتی کنٹرول میں ہونے کے باوجود نجی سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی۔ اسی امر میں ’سپیشل اکنامک زون‘ بنائے گئے جہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی، 1990ء تک چھوٹی اشیا کی صنعت، تعمیرات، آمدورفت اور سیر و سیاحت کے شعبوں میں نجی سرمایہ کاری ہونے لگی تھی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس عمل میں تیزی لائی گئی۔ لیکن معیشت کا بڑا اور فیصلہ کن حصہ اس وقت بھی ریاست کی ملکیت میں تھا۔ 2000ء میں حافظ الاسد کی موت کے بعد اقتدار پر اس کا بیٹا بشار الاسد قابض ہوا جس نے نجکاری کا عمل آگے بڑھانا شروع کر دیا۔ لیکن زیادہ تر ملکی اثاثوں کو ملکی بیوروکریسی نے ہی سستے داموں خریدنا شروع کر دیا۔ اس کی ایک اہم مثال بشار الاسد کا کزن رامی مخلوف ہے جو کہ ملک کی ٹیلی کام انڈسٹری، ڈیوٹی فری سٹورز، تیل کی صنعت کے وسیع حصے، ہوائی ٹرانسپورٹ، ٹی وی نیٹ ورک اور پراپرٹی کے کاروباروں پر قابض ہے۔ اس کے اثاثے پانچ ارب ڈالر ز سے زیادہ کے بتائے جاتے ہیں۔ نجکاری کے اس عمل سے مغربی سامراج، بالخصوص امریکیوں کو خاطر خواہ حصہ نہیں مل پا رہا تھا، ماضی کی طرح بشارالاسد کی حکومت بھی روس کے انتہائی قریب تھی، یہی وجہ ہے کہ مغربی سامراجی اس سے خار کھاتے تھے۔ لیکن بشارالاسد کے دور حکومت میں جہاں نجکاری اور معاشی لبرلائزیشن کی پالیسیوں سے مٹھی بھر افراد انتہائی امیر ہو رہے تھے، وہاں آبادی کے بڑے حصے میں اس ناہمواری، لوٹ مار اور عوامی اثاثوں کی لوٹ سیل کے خلاف غم و غصہ بھی بڑھ رہا تھا۔

موجودہ تنازعے کی بنیادیں
2011ء میں تیونس میں محمدبو عزیزی کی خود سوزی کے گرد بننے والی تحریک نے جلد ہی پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس تحریک نے بڑھتے ہوئے برسوں سے رائج آمریتوں کا خاتمہ کیا، وہیں پر اس عرب انقلاب نے پوری دنیا پر اہم انقلابی نقوش چھوڑے۔ شام میں بھی عرب بہار نے برسوں سے سطح کے نیچے موجودمروجہ نظام کے خلاف نفرت کو لاوے کی طرح سامنے لانے کا کام کیا۔ فروری 2011ء میں السذاجتہ أبازیدنامی نوجوان نے اپنے سکول کی دیوار پر، ’ڈاکٹر بشار الاسد اب تمہاری باری ہے‘ لکھا۔ اس جرم کی پاداش میں أبا زید کو حکومتی اہلکاروں نے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے خلاف مارچ 2011ء میں شام کے جنوبی شہر ڈیرہ میں جمہوریت کے حامیوں نے احتجاج کیا۔ اس پر حکومت نے سختی سے نپٹتے ہوئے احتجاج کو پرتشدد طریقے سے منتشر کر دیا۔ اس ریاستی جبر نے عوامی لاوے کو پھاڑ کر ایک انقلاب کا آغاز کیا۔ بظاہر احتجاجوں کے مطالبات زیادہ تر سیاسی نوعیت کے تھے لیکن جوں جوں تحریک آگے بڑھتی گئی تو معاشی و سماجی مطالبات کے ساتھ پورے نظامِ کو چیلنج کرنے لگ گئی۔

syria_opposition_top_pic_1
عرب بہار کے دوران نومبر 2011 میں حمس میں بشارلاسد کے خلاف ہونے والا مظاہرہ

2011ء تک شام کے جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 2.3 فیصد تک گر چکی تھی۔ اس صورتحال میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑنے سے بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا، ورلڈ بینک کے مطابق 2011ء میں ملک میں بیروزگاری کی شرح 35 فیصد سے زائد تھی۔ معاشی عدم استحکام کی وجہ سے مڈل کلاس پرت میں خاصا اضطراب پایا جا رہا تھا۔ یہی وجوہات تھیں کہ مظاہروں اور احتجاجوں میں زیادہ تر نوجوانوں نے حصہ لیا۔ معاشی سست روی کے ساتھ موسمی تبدیلیوں نے زراعت پر نہایت منفی اثرات مرتب کئے۔ زیادہ تر غریب افراد کا روزگار زراعت سے وابستہ تھا، اس تبدیلی نے ملک کے 60 فیصد زیر کاشت رقبے کو متاثر کیا۔ اس کی وجہ سے دسیوں لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ ان افراد نے تیزی سے گاؤ ں سے شہروں کا رخ کیا۔ شہروں میں موجودہ ناکافی سہولیات، روزگار کے محدود مواقع اور ریاستی امداد نہ ہونے کے باعث ایک نیا بحران پیدا ہوا اور اس کے سماجی اثرات آگے چل کر ایک انقلاب کی شکل میں نکلے۔
خطہ میں جاری عرب انقلاب نے شام کے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی انقلاب کا آغاز نوجوانوں نے کیا۔ سچے انقلابی جذبات اور اپنے حالات زندگی کو بدلنے کے لئے ان نوجوانوں نے جس جرات اور بہادری کامظاہرہ کیا وہ ناقابل فراموش ہے لیکن یہ تحریک زیادہ تر نوجوانوں اور مڈل کلاس تک ہی محد ود رہی۔ آبادی کا لگ بھگ 75 فیصدحصہ چھ بڑے شہروں دمشق، حلب، حمس، حما، لتاکیہ اور ٹیرٹوس میں آباد ہے جہاں طاقتور محنت کش طبقہ موجود تھا۔ کل اجرتی ملازمین میں 25 فیصد کا تعلق ’ذہنی محنت‘ کے پیشوں مثلاً ڈاکٹری، تعلیم وغیرہ سے تھا۔ ان کی اجرتوں میں 1980ء کے بعد تیزی سے کمی آئی تھی جس کی وجہ سے زیادہ تر کو اپنی سماجی حیثیت برقرار رکھنے کے لئے دو دو نوکریاں کرنا پڑتی تھیں۔ مصر اور تیونس کے برعکس شام میں مزدور تنظیمیں ریاست سے جدا حیثیت نہیں رکھتیں۔ ان تنظیموں پر ریاست کا سخت کنٹرول موجود ہے۔ شام میں آخری بڑی ہڑتال 1980-81ء میں ہوئی تھی جس کے بعد ہزاروں یونین کے رہنماؤں کو پابند سلاسل کیا گیا اور کئی ایک کو قتل کروا دیا گیا۔ تیونس میں بڑ ی یونینز کے علاوہ نیم آزاد یونینز اور مصرکی فعال مزدور تحریک نے آمریتو ں کا خاتمہ یقینی بنایا۔ اس کے برعکس شام میں برسوں سے مزدور تحریک کو بری طرح مسلسل کچلا گیا، شام کی نصابی کتب میں لمبے عرصے تک ’سرکاری مارکسزم‘ سکولوں میں پڑھایا جاتا رہا اوراس دوران مزدور تحریک میں بیوروکریسی نے جدوجہد کے نقوش بھی ختم کردینے کی کوشش کی۔ ریاستی افسر شاہی کی جانب سے مضبوط صنعتی مراکز میں شعوری طور پر اپنی حمایت بنانے کے ساتھ ساتھ غیر رسمی شعبے میں محنت کشو ں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی مضبوط اور آزاد مزدور تنظیم بنانے کے عمل کو ٹھیس پہنچائی۔ یہی وجہ تھی کی تحریک کے دوران بھی نظام زندگی جام نہیں ہوا بلکہ ٹیلی کمیونیکیشن اور ریلوے سے لے کرعام فیکٹریاں تک بھی کام کرتی رہیں، جس کی وجہ سے بشارا لاسد کی آمریت کو مادی بنیادیں میسر رہیں جس کی بنیاد پر وہ عوامی مزاحمت کو کچلنے میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔

syria_pro_assad_129046954
اکتوبر 2011 میں دمشق میں بشارالاسد کے حامیوں کا مظاہرہ

دوسری اہم وجہ شام میں مختلف فرقوں اور مذاہب کا موجود ہونا ہے۔ حتیٰ کہ بشار الاسد کا تعلق بھی علوی اقلیت سے ہے۔ بشار الاسد نے اس کو خوب کیش کروایا اور علوی اقلیت پر ماضی میں ہونے والے مظالم کی وجہ سے ایک ہمدردی بھی اسے حاصل رہی۔ مشرق و سطیٰ میں پھیلتی ہوئی اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف اپنے آپ کو سوشلسٹ اور سیکولر لیڈر ثابت کر کے بشارالاسد نے علویوں، عیسائیوں، عام سنی مسلمانوں اور دروزیوں کی اکثریت میں اپنی حمایت کو مضبوط کیا۔ دوسری طرف سامراج مخالف لفاظی استعمال کرنے کی وجہ سے کئی بائیں بازو کے گروہوں کی حمایت بھی اسکو حاصل رہی ہے۔ امریکی سامراج کا عراق پر حملہ اور ایران کو مسلسل دھمکیاں دینے کا عمل بھی بشار الاسد کو مضبو ط کرتا رہا۔ لیکن ان تمام وجوہات کے باوجود شامی انقلاب میں عوامی ریلا تمام تفریقات کو بھلا کر نکلا تھا جس کا مقصد تبدیلی لانا تھا۔ لیکن ایک انقلابی قیادت کی عدم موجودگی اور واضح راستہ نہ ہونے کی وجہ سے اس خلا کو بنیاد پرستوں اور سامراجی یلغار نے پورا کیا۔ نام نہاد اپوزیشن ’شامی نیشنل کونسل‘ درحقیقت امیر ترین کاروباری افراد پر مشتمل ہے جن کا عوامی امنگوں اورمطالبات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جہاں اس ’سرکاری ‘ اپوزیشن کو کمپنیاں سپانسر کرتی رہیں، وہیں پر ان کا واضح مقصد موجود ہ حکومت کی جگہ خود اقتدار میں آنا تھا۔ اسد نے بہت خوب صورت طریقے سے امریکی سامراج مخالف تاثر دیتے ہوئے یورپین یونین اور روس سے تعلقات استوار کئے۔ روس کی اہم سرمایہ کاری اب بھی شام میں موجود ہے اور دونوں کے مابین خارجہ پالیسی سرمایہ دارانہ بنیادو ں پر قائم ہے جس کا حتمی مقصد محنت کشو ں کا خون نچوڑتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شر ح منافع کمانا ہے۔

خانہ جنگی
اگرچہ شام میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے لیکن حکومت میں زیادہ تر علوی فرقے کے افراد کا کنٹرول رہا ہے۔ مذہبی اقلیتوں نے اسد حکومت کی حمایت کی ہے لیکن علاقائی طور پر ایران اور سعودی عرب کے مابین جاری فرقہ وارانہ پراکسی جنگ کا شکار شام کی سرزمین بنی۔ ایران، عراق اور حزب اﷲ روایتی طور پر اسد کے حامی جبکہ قطر، سعودی عرب اور ترکی اس کے مخالف رہے ہیں۔ اسد کے خلاف اٹھنے والی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام میں سامراج نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کئے۔ سامراج نے اپنے مقاصد کے لئے فرقہ واریت کا کارڈ کھیلتے ہوئے اس لڑائی کو فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل کر دیا جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ یہ لڑائی سنی اکثریت کی علوی اقلیت کے خلاف حق و باطل کی لڑائی ہے۔ مارکس وادی ہمیشہ بیان کرتے ہیں کہ فوج بھی سماج کا ہی عکس ہوتی ہے اور فوج کا سماج میں کوئی آزادانہ وجود نہیں ہوتا۔ انقلابی ادوار میں فوج کے اندر بھی تضادات تیز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جولائی 2011ء میں فوج کے ایک دھڑے کی طرف سے آزاد شامی فوج (FSA) کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد اسد کو اقتدار سے بے دخل کرنا تھا لیکن جلد ہی اس میں نام نہاد سپانسرڈ ’’باغیوں‘‘ کی اکثریت ہوتی گئی جس سے اب یہ محض سامراجی آلہ کار بن کر رہ گئی ہے۔ اس خانہ جنگی میں تیز ی آتی گئی اور 2012ء تک یہ آگ دمشق اور حلب تک پھیل گئی۔ سعودی عرب اور قطر کی طرف سے پوری دنیا سے اسلامی شدت پسندوں کو شام میں لا کر اسد حکومت کے خلاف نا م نہاد جہاد میں جھونکا گیا۔ ان کی بڑے پیمانے پر مالی امداد کی گئی۔ نام نہاد اسلامی ریاست یا داعش کے قیام نے اس صورتحال کو مزید دردناک بنا دیا۔ دوسری طرف امریکہ کی طرف سے داعش جیسے گروہوں کو بالواسطہ یا براہ راست بڑی تعداد میں اسلحہ اور بھاری مالی امداد کی گئی، بش نے اپنے اقتدار سے علیحدگی تک مشرق وسطیٰ کو القاعدہ کا تحفہ دیا جبکہ اوباما کی طرف سے دنیا کو داعش کا تحفہ دیا گیا۔

syria-middle-east-proxy-war-terrorism-islamic-stateنام نہاد باغی او ر مختلف اسلامی شدت پسند گروہ اس وقت شام میں قتل و غارت میں مصرو ف عمل ہیں۔ ان وحشی بنیاد پرست گروہوں کا اصل مقصد لوٹ مار اور کالے دھن کے کاروبار کو فروغ دینا ہے۔ روس کی ستمبر 2015ء سے جاری ان بنیاد پرستوں کے خلاف کاروائیوں کا مقصد آخری تجزیہ میں پھر اپنے سامراجی مفادات کا دفاع کرنا ہے۔ روس نے جہاں فضائی بمباری سے بشارالاسد کی حمایت کی وہیں پر اس نے اپنے فوجی مشیر بھی بھیجے ہیں۔ کئی باغی گروہوں کا سب سے بڑا حامی اردگان رہا ہے جس نے اپنے ملک کے راستے ان کی رسد جاری رکھی۔ تاہم آج کل وہ روس کے ساتھ ہاتھ ملاتا نظر آتا ہے۔ ترکی کی شام میں موجودگی بھی اب روس کے مرہون منت ہے۔ اردگان کی شام سے متعلق پالیسی کا اہم مقصد ’روجاوا‘ (شامی کردوں کا خودمختیار علاقہ)میں کرد وں کی طاقت کو کچلنا ہے۔ ’پیپلز پروڈکشن یونٹس ‘ (YPG) کے ان کرد جنگجوؤں، بشمول خواتین نے اپنی لازوال جدوجہد سے کئی محاذ وں پر ان داعش کے مذہبی جنونیوں کو شکست فاش دی ہے۔
امریکہ نے بھی بالآخر اپنا شامی ’باغیوں‘ کو ٹریننگ کا پروگرام گزشتہ سال اکتوبر 2015ء میں ’سرکاری‘ طور پر ختم کر دیا ہے۔ اس پروگرام کی اہم خاصیت یہ تھی کہ 500 ملین ڈالرز خرچ کر کے صرف 60 جنگجو ہی تیار کئے جا سکے۔ لیکن امریکہ کے داعش کے خلاف لڑنے والے باغی پھر داعش کے ساتھ ہاتھ ملا لیتے ہیں۔ جان کیری نے دعویٰ کیا کہ صرف 15 سے 20 فیصد ہی برے ثابت ہوئے، لیکن یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اس کی اہم وجہ مالی مفادات اور کالے دھن سے استفادہ حاصل کرنا ہے، امریکی پالیسی سازوں کے ہاتھوں تیار کئے جانے والے سپولیے پل کر پھر ان کو ہی آنکھیں دکھانے لگ جاتے ہیں، جن کا خاتمہ کر کے ان کی جگہ نئے سپولیے بھرتی کئے جاتے ہیں۔ گارڈین نے لکھا ہے کہ’’النصرہ فرنٹ، اصولی طور پر برباد نخلستانوں میں چھپ کر ملک شام میں اسلامی خلافت کا قیام عمل میں لانا چاہتا ہے لیکن شمال مشرقی شام میں النصرہ کئی اناج کے ڈھیروں، تیل اور گیس کے کنووں، حکومت سے لوٹی لاتعداد گاڑیوں اور بڑے بارود کے ذخیروں پر قابض ہے۔ ‘‘ داعش اور ان دوسرے نام نہاد باغیوں نے جو ظلم کی نئی داستانیں رقم کی ہیں شاید ان کے آگے ہلاکو خان اور چنگیز خان کے مظالم چھوٹے نظر آئیں۔
حلب پر دوبارہ شامی فوج کے قبضے کو پوری دنیا میں آزادی سے مشابہت دی گئی۔ حلب پر قبضہ بلا شبہ بشار الاسد اور روس کے لئے اہم کامیابی ہے لیکن سب سے بڑی کامیابی ایران کی ہے۔ ایران کو علاقائی طور پر اپنا اثرو رسوخ اور ایجنڈا آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ مثال کے طور پر ایرانی اشرافیہ کا خواب ہے کہ وہ عراق سے ہوتے ہوئے بحر روم تک تجارتی زمینی راستہ بنائیں جو کہ تہران کے لئے اہم اثاثہ بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایران نے براہ راست طور پر بنیاد پرست گروہ ’احرارالشام‘ سے بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ بظاہر حلب کی آزادی کا بہت شور و غل کیا گیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی دوران اہم تاریخی شہر تدمر میں دوبارہ داعش داخل ہو چکی ہے اور شا م کابڑا حصہ ابھی بھی داعش کے پاس ہے۔
حلب پر قبضے اور بشار الاسد کی پیش قدمی کی اہم وجوہات میں ایک سعود ی عرب اور قطر کا معاشی بحران بھی ہے۔ جہاں ایک طرف روسی بمباری سے اسد کی فوج کو مدد ملی وہیں پر سعودی عر ب کی طرف سے باغیوں کی مالی امدادمیں بھی کمی ہوئی ہے جس سے وقتی طور پر باغی کمزور ہو ئے ہیں۔ لیکن النصرہ فرنٹ اور دیگر بنیاد پرست تنظیموں کے پاس کچھ اپنے مادی وسائل موجود ہیں۔ گارڈین نے اپنے ایڈیٹوریل میں شامی جنگ کے مضمرات کو یوں بیان کیا ہے، ’’خطے میں عدم استحکام کے استنبول میں بم دھماکوں جیسے مضمرات واضح ہیں جسکے ذمہ داران کا تعین ترکی کے بارڈر کے اندر ناممکن ہے۔ یورپ جو کہ پہلے سے ہی مہاجرین کے بہاؤ کے پیش نظر اپنے تحفظ کے لئے پریشان ہے وہاں بھی خطرات محسوس کئے جا سکتے ہیں لیکن حلب کا سب سے بڑا المیہ جنگ کے خاتمے کے بعد شامیوں کے نہ ختم ہونے والے مصائب کا حل ہو گا۔ ‘‘

انسانی المیہ اور جنگ کی تباہ کاریاں
شام میں جاری خانہ جنگی نے جہاں ایک سماج کو تاراج کیا وہیں پر حالیہ تاریخ میں ایک بڑے انسانی المیہ کو جنم دیا۔ شامی سنٹر برائے پالیسی ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق 2014ء کے آخر تک 82 فیصد شامی عوام غربت کا شکار جبکہ 2.96 ملین افراد اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری کی شرح 58 فیصد ہو چکی ہے۔ ملک میں موجود انفراسٹرکچر کی تباہی کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے پہلے سے تباہ حال زراعت کی پیداوار میں مزید گراوٹ آچکی ہے۔ مثال کے طور پر صرف حما شہر میں سبزیوں کی پیداوار میں 60 فیصد تک کمی آچکی ہے۔ اس طرح دارا شہر میں زیتون کے تیل کی پیداوار میں 40 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔ اسی طرح ملک بھر میں گندم کی پیداوار میں صرف ایک سال میں نصف کمی ریکارڈ کی گئی۔ الزمان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بیروزگار ی کی شرح آنے والے وقت میں 80 فیصد تک جا سکتی ہے۔ اس میں اہم وجہ سیرو سیاحت کے شعبہ میں ریکارڈ 95 فیصد گراوٹ بھی ہے۔

destruction of civil war in syria
خانی جنگی نے بڑے پیمانے پر ملکی انفراسٹرکچر کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔

شامی مہا جرین کے بحران نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یورپ کے ساحلوں کے نزدیک شامی پناہ گزین بچوں کی لاشوں کی تصاویر عالمی میڈیا میں گردش کرتی رہیں، جس کے بعد عالمی طور پر سول سوسائٹی مافیا کو بھی اپنی دکان چمکانے کا موقع ملا۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے مطابق 48 لاکھ شامی پناہ گزین ترکی، لبنان، اردن، مصر اور عراق میں ہجرت کر گئے ہیں جبکہ ابھی تک 66 لاکھ سے زائد اندرون ملک بے گھر ہیں۔ اس تمام بحران میں صرف دس لاکھ کے لگ بھگ پناہ گزین ہیں جنہوں نے یورپ میں پناہ کے لئے درخواستیں دی ہیں۔ لیکن جنگ کی تباہ کاریوں کا خمیازہ آنے والی کئی نسلوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ شامی سنٹر برائے پالیسی ریسرچ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ شام کی ازسر نو تعمیر کے لئے 48 ارب ڈالر درکار ہیں۔ اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ شام کو تقریباً 25 سال صرف جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں ہونے والی بربادیوں کی ازسر نو تعمیرکے لئے درکار ہیں۔ عالمی بینک نے واضح کیا کہ 59 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان سالانہ معاشی سرگرمیاں بند یا محدود ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ شامی حکومت کی طرف سے خانہ جنگی کے خاتمے کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن مکمل طور پر خانہ جنگی ختم ہونے میں بھی کئی برس لگ سکتے ہیں۔ بشارالاسد بالفرض مخصوص حالات میں بڑے علاقے پر دوبارہ کنٹرول بھی حاصل کر لیتا ہے تو عدم استحکام، دہشت گردی اور انتشار کئی سالوں تک جاری رہے گا۔
عام رسمی سوچ کے مطابق افراد کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ افراد اور حالات کے مابین جدلیاتی رشتے کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جہاں ایک طرف بشار الاسد کی کامیابی کے چرچے ہیں تو وہیں پر کئی حلقوں کی جانب سے روسی اور ایرانی مداخلت کو ترقی پسند عمل قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن درحقیقت ایران اور روس دونوں کے اپنے سامراجی مقاصد ہیں، جن کے لئے وہ شام میں سرگرم ہیں۔ اسد کا اقتدار کمزور ترین بیساکھیوں کے سہارے کھڑا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت ملک کے ایک تہائی حصے تک محدود ہو چکی ہے اور میدان جنگ میں موجود تمام افواج کے تیسرے حصہ پر ہی اسکا کنٹرول موجود ہے۔ تمام روسی اور ایرانی حمایت کے باوجود وہ ایک سے زائد محاذوں پر سرگرم ہونے سے قاصر ہے۔ عالمی طور پر بدلتے حالات بھی شام میں گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں، امریکہ میں ٹرمپ کی جیت نے لامحالہ طور پردنیا میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران واضح طور پرالنصرہ فرنٹ اور دیگر اسلامی بنیاد پرست گرو ہوں کے خلاف سخت گیر موقف اختیار کیا ہے۔ پیوٹن کی طرف سے ٹرمپ کو اپنا ’سیاسی حمایتی‘ قرار دینا بھی خطہ میں اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے اپنی کمزوری کو چھپانے کی غرض سے دفاعی بجٹ میں اضافہ اس بات کا عندیہ ہے کہ آنیوالے عہد میں یہ فوری طور پر پراکسی جنگوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ایران میں مئی 2017ء کے ہونے والے انتخابات میں سخت گیر ملاوں کے دھڑے کا اقتدار میں آنا خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ان کیفیات میں خطے کا تناظر زیادہ پر پیچ، پیچیدہ اور خون ریز ہو گا۔
بیرونی مداخلت نے کبھی بھی کسی ملک کو استحکام نہیں بخشا، امریکی سامراج نے جمہوریت اور انسانی حقوق کی آڑ میں لیبیا، افغانستان اور عراق کو تباہ و برباد ہی کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سامراج کی کھینچی لکیریں آج وحشت ناک شکل اختیار کر چکی ہیں۔ عرب انقلاب کی پسپائی اور خطے میں جاری خانہ جنگیوں نے محنت کش عوام کی تحریکوں کو وقتی طور پر دبایا ہے لیکن ان کا ابھرنا ناگزیر ہے۔ جلد یا بدیر پھر سے وہ عرب انقلاب کی بہاریں واپس لوٹیں گی، اسی تاریک شب میں صبح کے دئیے جلیں گے اور مشرق وسطیٰ سمیت پوری دنیا کو منور کر دیں گے۔ اس کشت و خون سے آزادی صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

متعلقہ:

شام: کیا بشار الاسد جیت رہا ہے؟

شام: ’جنگ بندی‘ کا انتشار