| تحریر: لال خان |
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی بمبئی میں تقریب رونمائی کے منتظم سدھنیدرا کلکرنی کے چہرے پر کالی سیاہی پھینکنے کی بیہودہ حرکت نے شیو سینا کی بڑھتی ہوئی فسطائیت اور ’’سیکولر ہندوستان‘‘ پر چھائی ہندو بنیاد پرستی کی تاریکی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس سے چند دن قبل ہی اتر پردیش میں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں ایک مسلمان اخلاق احمد کو ہندو مذہبی جنونیوں نے وحشیانہ انداز میں قتل کر دیا تھا۔ ترقی پسند مصنفین پر حملوں، ان کے قتل یا حراساں کرنے کے واقعات میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ ان واقعات کے رد عمل میں ادب سے وابستہ بہت سی نامور شخصیات نے احتجاجاً اپنے قومی ایوارڈ بھی واپس کر دئیے ہیں۔
ایسا نہیں کہ ایسے واقعات ہندوستان میں پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ لیکن تشویش کی بات ان وارداتوں میں آنے والی شدت اور ہندو بنیاد پرستوں کا ریاستی اقتدار میں آنا ہے۔ اور یہ سب زخم ایسے سماج پر لگائے جا رہے ہیں جہاں 80 فیصد آبادی پہلے ہی غربت اور محرومی سے کراہ رہی ہے۔ ’’چمکتے ہوئے بھارت‘‘ (Shining India)، ’’وکاس‘‘ اور اب ’’ڈیجیٹل انڈیا‘‘ کے نعروں سے چلائی جانے والی معیشت کی کوکھ میں پلنے والے استحصال اور طبقاتی تضادات کو چھپانے کے لئے مذہبی درندگی کے ایسے واقعات کو بڑی عیاری سے بنیاد پرستی اور ’’سیکولر ازم‘‘ کی لڑائی بنا کر معاشرے پر مسلط کیا جارہاہے۔
1980ء تک بمبئی میں شیوسینا کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ 1984ء کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کو پورے ہندوستان کی 514 نشستوں میں سے صرف 2 ملی تھیں۔ ہندو بنیاد پرستی کے ابھار میں سب سے بڑی قصور وار محنت کش طبقے کی روایتی قیادتیں ہیں۔ بمبئی میں دتہ سامند جیسے ٹریڈ یونین لیڈروں کی محنت کشوں سے بار بار غداریوں نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ مزدور تحریک کو تھکا کر چکنا چور کر دیا گیا اور طبقاتی یکجہتی پر کاری ضربیں لگائی گئیں۔ عالمی سطح پر سوویت یونین کے انہدام سے پھیلنے والی پراگندگی اور مایوسی سے سٹالن اسٹ بائیں بازو کی زوال پزیری گہری ہوتی چلی گئی۔ کمیونسٹ پارٹیوں نے پارلیمانی جمہوریت اور اصلاح پسندی میں غرق ہو کر محنت کشوں کی جدوجہد کے راستے مسدود کر دئیے۔ حکمران طبقے نے ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور نسلی اور مذہبی تعصبات کو بھڑکانے کا عمل تیز تر کر دیا۔
شیو سینا بنیادی طور پر ہندومت کا ایسا مسلک ہے جسے شیوا جی نلہوڑے کی پرستش کرنے والے مذہبی پیشواؤں نے مہاراشٹرا کے حکمرانوں کے لئے مزدور تحریک کے خلاف مہلک ہتھیار کے طور پر منظم کیا تھا۔ دوسری طرف انہی حکمرانوں نے مذہبی تعصبات کو بھڑکانے کے لئے حاجی مستان مرزا جیسے مافیا کے ان داتاؤں کو بھی خوب استعمال کیا۔ شیو سینا صرف مذہبی دہشت گردی میں ہی نہیں بلکہ بھتہ خوری، قبضہ گیری، سمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور دوسرے جرائم میں بھی پوری طرح ملوث ہے۔ سرحد کے اِس پار کی مذہبی بنیاد پرست تنظیموں کی طرح یہ بھی کالے دھن کے مافیا کی اہم کڑی ہے۔ شیو سینا کا بانی بال ٹھاکرے مذہبی جنونی غنڈہ تھا جو بالی ووڈ کے اداکاروں اور بڑے سرمایہ داروں کو بھی بلیک میل کرتا تھا اور ’پراپرٹی ٹائیکونز‘ کے لئے غریبوں کی کچی آبادیوں اور جھونپڑ پٹیوں کو بلڈوز کرواتا تھا۔ یہ سلسلہ اب بھی تقریباً 35 سال سے جاری ہے۔ جیسے نیویارک میں اتالوی مافیا حاوی ہے بالکل اسی طرح بمبئی اور دہلی میں شیو سینا کی غنڈہ گردی زیادہ چلتی ہے۔
ذرا اور گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس مذہبی تفریق اور سماجی خلفشار کی جڑیں اس بٹوارے میں پیوست ہے جسے انگریز سامراج یہاں کے مقامی حکمرانوں کے لئے منافرتوں کے ماخذ کے طور پر چھوڑ کے گیا ہے۔ اس برصغیر کا نام ’’ہندوستان‘‘ یہاں کے سب سے بڑے ’دریائے سندھو‘ (India کا لفظ Indus سے ماخوذ ہے) کے نام سے منصوب ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب ہندومت، بدھ مت، اسلام اور دوسرے مذاہب کے یہاں آنے یا جنم لینے سے بھی بہت پہلے موجود تھی۔ لیکن 1947ء کے بٹوارے کے بعد جہاں پاکستان بنا وہاں باقی کا ہندوستان بھی ماضی کا متحدہ ہندوستان قطعاً نہیں تھا۔ یہ خونی تقسیم کروانے میں گاندھی، نہرو، پٹیل اور دوسرے کانگریسی رہنماؤں کا کردار مسلم لیگ سے کہیں زیادہ تھا۔ فروری 1946ء میں رائل انڈین نیوی کے جہازیوں کی بغاوت صرف فوج تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ برصغیر کے طول و عرض میں پھیل گئی تھی۔ ٹیکسٹائل اور ریلوے جیسے کلیدی شعبوں کے محنت کش ہڑتال کر رہے تھے۔ انگریزوں کے ہاتھ سے اقتدار سرکتا جا رہا تھا۔ اس بغاوت کو مقامی حکمرانوں کی مدد سے زائل کرنے کے بعد ہی برصغیر کی تقسیم ممکن ہو سکی تھی۔ ہندوستان سے ’’بھارت‘‘ بن جانے والے ملک کے حکمران سیکولرازم کی گردان تو پڑھتے رہے لیکن اس بٹوارے میں ان کا کردار کلیدی تھا۔
1947ء میں دوسری عالمی جنگ کی بربادیوں کی تعمیر نو سے عالمی سطح پر سرمایہ داری کے معاشی عروج کا آغاز ہو رہا تھا۔ اس کے کچھ بالواسطہ ثمرات ہندوستان کو بھی حاصل ہوئے۔ نہرو نے ریاستی سرمایہ داری کے معاشی ماڈل کے تحت 70 فیصد سے زائد معیشت کو نیشنلائز کرکے ریاستی وسائل، مراعات اور انفراسٹرکچر کے ذریعے ٹاٹا، برلا، مہندر، اوبرائے اور دوسرے بڑے سرمایہ داروں کو پروان چڑھایا۔ ایک نئے ہندوستانی سیکولر نیشنل ازم کو ابھارا گیا اور ظاہری طور پر ہندو بنیاد پرستی کو پسپا کرنے کا تاثر دیا گیا۔ لیکن لامتناہی ریاستی وسائل اور پشت پناہی کے باوجود بھی ہندوستان کا سرمایہ دار طبقہ ایک جدید صنعتی معاشرے کی تشکیل میں ناکام رہا۔ یہ کھرب پتی حکمران معاشرے کو مذہبی تعصبات سے پاک تو کیا کرتے، الٹا محنت کشوں کی یکجہتی توڑنے اور تحریکوں کو کچلنے کے لئے اس رجعت کو استعمال کرنے لگے۔ ان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں آج بھی ہندو پنڈت اور جوتشی بیٹھتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی پر براجمان یہ کارپوریٹ سرمایہ دار طبقہ اپنی ذہنیت میں کتنا رجعتی اور قدامت پرست ہے۔ اس نفسیات کے سیاسی اثرات ناگزیر ہیں۔
کانگریس ہندوستان کے سرمایہ دار طبقے کی روایتی پارٹی ہے جس کا زوال بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ کارپوریٹ سرمائے کی جانب سے BJP اور نریندرا مودی کی حمایت کا مقصد ہندو بنیاد پرستی کے جبر کے زور پر مزدور دشمن پالیسیاں، نجکاری اور معاشی لبرلائزیشن کو لاگو کروانا ہے تاکہ شرح منافع میں اضافہ کیا جا سکے۔ شیو سینا، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشت اور راشٹریا سوائم سیوک سنگھ جیسی ہندو فاشسٹ تنظیمیں مذہبی منافرت اور پاکستان دشمنی کے جنون کے ذریعے سماج پر مسلسل رجعت اور خوف مسلط رکھتی ہیں تو ساتھ ہی اپنے کارپوریٹ آقاؤں سے خوب مال بھی بٹورتی ہیں۔ دوسرے مذاہب کی انتہا پسندی کی طرح ہندو بنیاد پرستی بھی ایک منافع بخش کاروبار ہے جسے سیاسی، ریاستی اور مالیاتی طور پر حکمران طبقہ استعمال کرتا ہے۔
محنت کش عوام کی تحریک کے فقدان میں ممبئی جیسے واقعات ان بنیاد پرستوں کی دہشت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ان کے کاروبار کے لئے یہ دہشت سب سے اہم سرمایہ ہے۔ ہندوستان ہو یا پاکستان، ایک ملک میں مذہب جنونیوں کی ایسی نفرت انگیز وارداتوں سے دوسری طرف کے جنونی تقویت پکڑتے ہیں۔ نفرت کا یہ دھندا چلتاہی اس عمل اور رد عمل کے ذریعے ہے۔ ایک کے بغیر دوسری مذہبی بنیاد پرستی ادھوری ہے۔ ریاستیں اپنی داخلی کمزوریوں کے پیش نظر بیرونی محاذ کھولنے اور قومی شاونزم کو ہوا دینے کے لئے اس مذہبی جنون کا خوب استعمال کرتی ہیں۔ یہ کھلواڑ تب تک چلے گا جب تک سرمائے کی کالی دیوی محنت کش عوام کی بَلی مانگتی رہے گی۔ معصوم لہو کی یہ پیاس بڑھتی ہی جاتی ہے۔ حکمرانوں کا کوئی ’’سیکولر‘‘ یا ’’لبرل‘‘ دھڑا عوام کو اس عذاب سے نہیں نکال سکتا۔ دونوں اطراف کے حکمران طبقے کا ہر حصہ رجعتی اور عوام دشمن ہے۔ تاریخ ایک بار پھر کارل مارکس کے اس قول کو وقت کی کسوٹی پر سچ ثابت کر رہی ہے کہ ’’محنت کش طبقے کی نجات کا فریضہ صرف اور صرف محنت کش طبقہ خود ادا کر سکتا ہے۔‘‘
متعلقہ: