تحریر: لال خان
9 اکتوبر کو کوئٹہ میں پچھلے 18 سال سے جاری درندگی کے معمول نے ایک بار پھر اپنا احساس دلایا۔ پانچ شیعہ ہزارہ سبزی فروشوں کو بے دردی سے کاسی روڈ پر قتل کر دیا گیا۔ 1999ء میں اس خونی کھلواڑ کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک 1400 سے زائد حملوں میں ہزارہ آبادی کے 550 سے زائد معصوم انسانوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔ اس بہیمانہ قتل کی واردات کے بعد ’چوک شہدا‘ پر ماضی میں درجنوں مرتبہ ہونے والے احتجاجوں کی طرح ایک مرتبہ پھر احتجاج ہوا۔ ہزارہ کمیونٹی کے سینکڑوں مرد و خواتین نے پھر باہر نکل کر آہ و بکا کی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ’’شدید مذمت‘‘ کی اور صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی چوک شہدا پہنچے، جہاں انہوں نے متاثرین سے اظہارِ ہمدردی کیا اور ان کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ صوبائی حکومت تمام دہشت گردوں کے خلاف اُس وقت تک لڑے گی جب تک کہ ہم ان کو اپنی پرامن سرزمین سے نکال باہر نہیں کرتے۔‘‘ اگر غور کریں تو کتنے وزیر اعلیٰ اور کتنے وزیر داخلہ بدلے ہیں لیکن یہ مذمتیں اور بیان نہیں بدلے۔ لیکن ان بیان بازیوں کی حقیقت یہ ہے کہ نہ تو ان دہشت گردوں کو ’نکال باہر‘ کرنے کے کوئی ٹھوس اقدامات ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ سرزمین پچھلے 70 سال سے کبھی ’پرامن‘ رہی ہے۔ کبھی کبھی بلوچستان کی اِس مظلوم سر زمین پر اسلام آباد سے آ کر بھی کچھ آقا تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی کا سلسلہ ایک مسلسل سفاکی سے جاری و ساری ہے۔ ہزاروں ہزارہ کوئٹہ سے اپنی جان بچا کر دنیا بھر کے کتنے دور دراز ممالک میں دربدر ہونے پر مجبور ہیں۔ ہزاروں پاکستان کے مختلف شہروں میں بھٹک رہے ہیں۔ لیکن یہ بے رحم نسل کشی جاری ہے۔
ہزارہ کمیونٹی کی تہذیب، ثقافت اور رہن سہن کو قریب سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان کا معیار کس قدر بلند ہے۔ ان میں کیسے کیسے با کمال لڑکیاں اور لڑکے ہیں اور عمومی طور پر ان کا اخلاق اور رویے کتنے لطیف ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلسل قتل عام سے دو چار اِس پرامن آبادی کے لئے حکمران صرف تعزیت ہی کر سکتے ہیں۔ نہ آج تک نہ کوئی قاتل پکڑا گیا ہے اور نہ ہی اس نسل کشی میں ملوث کسی دہشت گرد گروہ کو ختم کیا گیا ہے۔ دندناتے پھر رہے ہیں۔ سیاست میں ان کے سیاسی ونگ متحرک ہیں، ریاست میں ہمدرد موجود ہیں اور وہ جس طرح بے دریغ اور سر عام وارداتیں کر رہے ہیں اُسے دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ میڈیا کو پاناما سے فرصت حاصل نہیں ہے۔ ایک خبر چلتی ہے، کسی ٹاک شو میں ذکر ہو جاتا ہے اور پھر پاناما اور ایک دوسرے پر کرپشن کی الزام تراشیوں کا لامحدود سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دفاعی ’’تجزیہ نگاروں‘‘ کی بھرمار ہے لیکن نہ کسی کو غربت کا احساس ہے، نہ عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی اس نظام کے ناقدین کو یہ میڈیا برداشت کرنے کو تیار ہے۔ ایک طرف معاشی تو دوسری طرف بارود کی دہشت گردی لوگوں کو زندہ درگور کر رہی ہے۔ سرکار صرف محرم جیسے مواقع پر جلوسوں کے تحفظ کی ذمہ داری تک ہی محدود نظر آتی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور نسل کشی کی درندگی، جو مغربی سامراجیوں کی ہیروئن انگ سنگ سوچی کی حمایت سے برما کی فوج نے جاری رکھی ہوئی ہے، اس پر پچھلے چند ہفتوں سے ’قوم‘ اور مذہب کے ٹھیکیداروں نے بہت شور مچایا ہے۔ امت مسلمہ کو اٹھ کھڑے ہونے کے وعظ کئے گئے۔ ’’عالم اسلام‘‘ کی غیر ت کو جگانے کے لئے میڈیا خوب سرگرم نظر آیا۔ لیکن یہاں بلوچستان میں ہونے والی ہزارہ آبادی کی فرقہ وارانہ نسل کشی پر اِن دانشوروں، سیاستدانوں، ریاستی آقاؤں اور مذہبی پیشواؤں نے مسلسل چپ سادھ رکھی ہے۔ انسانی ضمیر کو یہ حقائق اور واقعات جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسے سوال اٹھتے ہیں کہ کیا ہزارہ مسلمان نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر ان کی نسل کشی پر ’’امت مسلمہ‘‘ کا درد کیوں غائب ہو جاتا ہے؟ لیکن یہ خاموشی، بے نیازی اور بے حسی بے سبب نہیں ہے۔ فرقہ واریت کا یہ زہر پچھلی چند دہائیوں کے دوران معاشرے میں اتنی گہری سرایت کر گیا ہے، یہ وحشت اتنی شدت اختیار کر گئی ہے کہ اب متحارب فرقوں کے ملاں کفر اور قتل سے کم فتوے بھی نہیں لگاتے۔ یہ فرقہ واریت اس بوسیدہ سماج کی ہر پرت، اس کی ریاست، سیاست اور رویوں میں گھس کر زہریلے تعصبات ذہنوں میں انڈیل رہی ہے اور انسانیت کا احساس مٹا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام اتنی زیادہ معاشی بدحالی اور سماجی بیگانگی پیدا کررہا ہے کہ قوم، ذات پات، رنگ، نسل، مذہب او ر فرقے کے تعصبات کو معاشرتی بنیادیں ملتی ہیں۔ دوسری طرف فرقہ وارانہ منافرت اور دہشت ایک منافع بخش کاروبار اور صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے جس میں درجنوں گروہ ملوث ہیں۔ ہر روز نئے نئے فرقے معرض وجود میں آ رہے ہیں۔ ماضی میں ’پر امن‘ سمجھے جانے والے فرقوں سے بھی اب وحشی اور بنیاد پرست رجحانات اٹھ رہے ہیں۔
اِن فرقہ وارانہ تنظیموں کو جن ’برادر ممالک‘ سے فنڈنگ ہوتی ہے اُن کا نام لینا بھی میڈیا پر ممنوع ہے۔ دہشت گردی میں ’بیرونی ہاتھ‘ملوث ہونے کے اتنے شور کے باوجود اِن مخصوص مداخلت کاروں اور سہولت کاروں کا ذکر کہیں سننے کو نہیں ملتا۔ بالخصوص جنوبی پنجاب اور بلوچستان جیسے پسماندہ خطوں میں قائم سینکڑوں مدارس فرقہ واریت اور دہشت گردی کی نرسریاں پروان چڑھا رہے ہیں جہاں غریبوں کے بچوں کو اِس آگ کا ایندھن بنایا جاتا ہے۔ اس فرقہ واریت کو حکمران طبقات اپنے مالی اور سماجی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ حکمران اِن تفرقوں کو محنت کش عوام کی طبقاتی جڑت توڑنے کے لئے بوقت ضرورت خود ہوا دیتے ہیں تاکہ استحصال زدہ طبقات باہمی تصادموں میں الجھے رہیں اور ان کی حاکمیت کو چیلنج نہ کر سکیں۔ دوسری جانب ہزارہ کمیونٹی کے بالادست حصے بھی اس ظلم وبربریت کے خلاف جدوجہد کو صرف فرقہ وارانہ بنیادوں پر احتجاج تک محدود کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ ہزارہ سب سے پہلے انسان ہیں اور ہر ذی شعور انسان کو اس فرقہ وارانہ نسل کشی اور قتل وغارت پر رنج بھی ہے اور غم وغصہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ اگر غور کریں تو ہزارہ آبادی کو جس طرح مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے اس کے پیش نظر یہ علاقے شاید غزہ کی پٹی کے بعد کھلے آسمان تلے دنیا کی دوسری بڑی جیل میں تبدیل ہو چکے ہیں، جہاں تقریباً پانچ لاکھ لوگ مقید ہیں۔ اس حصار سے باہر نکلتے ہی ان کی زندگی کو مسلسل خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور ان کے قتل عام کی خبریں آتی ہیں۔ لیکن یہ خبریں بھی جلد ہی دبا دی جاتی ہیں۔ جب ٹیلی ویژن پر ہزارہ آبادی کے لوگ حکمرانوں کی جانب سے ’’دہشت گردی کی کمر توڑنے‘‘ کے بیانات سنتے ہوں گے تو ان پر کیا گزرتی ہو گی؟ اپنی کمیونٹی تک جبراً محدود کر دیا جانا کتنی بڑی اذیت اور سزا ہے، یہ مری آباد اور غزہ کے باسیوں سے بہتر کون بتا سکتا ہے۔
ضیا الحق نے جس فرقہ واریت کے بیچ اِس سماج میں بوئے تھے وہ ایک ناسور بن کر پورے معاشرے کو برباد کر رہی ہے۔ لیکن بعد میں آنے والی فوجی اور جمہوری حاکمیتوں میں اِس ناسور کی جراحی کرنے کی خواہش تھی نہ صلاحیت۔ کیونکہ یہ سب کی سب اِسی بحران زدہ نظام کی پیداوار اور محافظ تھیں جو اِس بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی جڑ ہے۔ اس نظام کے تسلط میں رہتے ہوئے بھلا اس عفریت سے نجات کیسے ممکن ہے!