تحریر: لال خان
موصل کے سقوط کے بعدایک عمومی تاثر یہ ہے کہ داعش اب مکمل شکست کے دہانے پر ہے۔ عراق کے اس دوسرے بڑے شہر پر عراقی اور امریکی افواج کے علاوہ ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا، کرد پیشمرگہ اور متعدد دوسرے گروہوں، جو عراق، شام اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے حصوں میں اس تباہ کن جنگ کا حصہ ہیں، کی مدد سے دوبارہ قبضہ کیا گیا۔ امریکی جنگی جہازوں نے بے تحاشا فضائی بمباری کی جس سے شہریوں کی وسیع ہلاکتیں ہوئیں جسے بے ہودگی سے ’کولیٹرل ڈیمج‘ کا نا م دیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش کے وحشی جنگجوؤں نے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے لیکن دوسری طرف عراقی اور دیگر کمانڈروں کی طرف سے بھی انسانی جانوں کے نقصان کو مکمل طور پر نظرانداز کیاگیا۔ عراقی اور دوسری فوجوں نے ایک طویل آپریشن، جو پچھلے سال اکتوبر میں شروع ہوا تھا، کے بعد موصل پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اکیسویں صدی کی اس نام نہاد خلافت کو حتمی طور پر شکست ہو چکی ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے مغربی رہنماؤں کی جانب سے داعش کی فیصلہ کن شکست اور اس کی ’’کمر توڑنے‘‘ کی باتیں شاید قبل از وقت ہیں اور اس بات پر یقین کرنے والوں کو شدید مایوسی ہوگی۔ یہ بات سچ ہے کہ حالیہ دنوں میں داعش کو عسکری پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے آدھے سے زیادہ علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے جس کی وجہ سے مایوس نوجوانوں کو بطور جہادی بھرتی کرنے کی ان کی صلاحیتیں ماند پڑ چکی ہیں۔
داعش کا لیڈر ابو بکرالبغدادی مبینہ طور پر یا تو مرچکا ہے یا بھگوڑا ہے۔ تاہم اس کا نائب اور داعش کے دوسرے سب سے طاقتور لیڈر ابو محمد العدنانی نے مئی 2016ء میں اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا، ’’جو کوئی بھی سوچتا ہے کہ ہم کسی زمین کے ٹکڑے یا اقتدار کو بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں یا یہ فتح کا پیمانہ ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ ‘‘ یہ داعش کی جانب سے اپنی صفوں کو حوصلہ دینے کی ایک آخری کوشش ہے لیکن مشرق وسطیٰ میں داعش کی پس قدمی واضح نظر آرہی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مذہبی وحشت اور قتل و غارت گری کایہ عفریت اب ختم ہوچکا ہے۔
لیوانت کے اِس خطے میں داعش کی ریاست کا انفراسٹرکچر کسی حد تک اب بھی موجود ہے اگرچہ 2014ء کے اپنے عروج کے دنوں کی سطح پر نہیں۔ موصل ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے لیکن عراق، شام (جہاں رقہ ان کا دارالحکومت ہے)، لیبیا، مصر میں سینائی اور مشرقی افغانستان (جسے وہ خراسان کی اسلامی ریاست کہتے ہیں جو جنوبی ایشیا میں ان کی کاروائیوں کا مرکز ہے) میں اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل کئی شہروں پراب بھی ان کا قبضہ ہے۔ اسی اثنا میں جیسے جیسے عراق اور شام میں داعش پر حملے بڑھ رہے ہیں اور انہیں پسپائی اختیار کرنی پڑ رہی ہے ویسے ویسے وہ اپنی حکمت عملی میں بھی تبدیلی لا رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے باہر دوسرے ملکوں میں دہشت گرد حملوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے جن کی ذمہ داریاں داعش نے قبول کی ہیں۔ یورپ، امریکہ اور ایشیا میں دہشت گردی کی ایک لہر شروع ہوئی ہے جسے داعش نے قبول کیاہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی، سویڈن، بیلجئم، پاکستان، بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں ہونے والی دہشت گردی کے لیے میڈیا نے داعش کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ افریقہ میں بوکو حرام اور فلپائن میں مسلح جہادی دہشت گردوں جیسی داعش کی شاخوں نے اس سے وفاداری کا اعلان کیا ہے جس سے خلافت کے نام نہاد مرکز پر بڑھتے ہوئے حملوں کے انتقام میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی نشاندہی ہوتی ہے۔
لیکن یہاں ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ داعش کوئی منظم اور یکجا مسلح تنظیم نہیں ہے جیسا کہ اس کے معذرت خواہ اور پرچارک ہمیں بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مغربی میڈیا فرقہ وارانہ اسلامی تنظیموں کی دہشت گردی اور ان کی آپسی جنگوں میں نہ توفرق کرتا ہے اور نہ ہی سمجھتاہے۔ مثلاً جن گروہوں کو وہ سُنی کہتے ہیں اُن میں دراصل وہابی، سلفی، بریلوی، دیوبندی اور دوسرے فرقے بھی شامل ہیں جن کے بنیاد پرست آپس میں اپنے بیرونی دشمنوں کی نسبت زیادہ وحشت کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح داعش اپنے ظلم و ستم کی خوب تشہیر کرتی رہی ہے۔ ایسے بہت سے دہشت گرد گروہ ہیں جنہیں داعش نے نہیں بنایا لیکن انہوں نے صرف اس برانڈ (داعش) کے نام کااستعمال کیا جس کی دہشت گردی کی منڈی میں بڑی مانگ تھی۔ مغربی دانشور اور تجزیہ نگار داعش اور دوسری اسلامی بنیاد پرست تنظیموں کے ابھار کی مادی اور سماجی و معاشی وجوہات کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں۔ طارق رمضان، جو مسلمان پس منظر رکھنے والا ایک دانشور ہے، سے بعض مغربی دانشور شدیدنفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اسلامی عقائد کی بجائے سیاسی اورمعاشی محرومیوں اور بربادیوں نے داعش جیسی تنظیموں کے جنم کے لیے راستہ ہموار کیاہے۔ لیکن اس اسلامی انتہاپسندی کے ابھار کی یہ اکلوتی وجہ نہیں ہے۔ کالے دھن کے معاشی چکر کو مغربی ملکوں نے ہی جنم دیا تھا۔ اس کی بنیاد منشیات کی تجارت، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دوسرے سنگین جرائم تھے تاکہ افغانستان میں سی آئی اے کے خفیہ آپریشن کے لیے فنڈ جمع کیا جاسکے۔ انہوں نے 1978ء کے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے ایک رجعتی ڈالر جہاد کی تخلیق کی۔ اب یہ ایک دہشت گرد معیشت میں تبدیل ہوچکا ہے اور مغربی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور اس کے پار اس کی وحشت و بربریت کی مارکیٹنگ ہوتی ہے۔ ریاستوں کے اندر موجود دولت مند افراد اور طاقتور ریاستیں ان بھاڑے کی تنظیموں پر بولی لگاتی ہیں اور خرید کر یا کرائے پر لے کر ان سے اپنی پراکسی جنگیں لڑتی ہیں۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کا یہی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
دہشت گردی کے اس جان لیوا سرطان کو محض وحشیانہ فوجی آپریشن اور فضائی بمباری سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف ان وحشی قوتوں سے مذاکرات یا ان پر اعتبار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن خطے اور عالمی سطح پر مسئلہ وہ سامراجی ممالک ہیں جو اپنے سامراجی اور مالی مفادات کے لیے ان وحشی عفریتوں کو تخلیق کرتے ہیں۔ یہ عمل مسلسل جاری ہے اور عرب بادشاہتوں اور دوسری ریاستی طاقتوں کو ان بربادیوں اور وحشتوں کو پھیلانے پر کوئی افسوس یا شرمندگی نہیں ہے۔ یہ حکمران ٹولے اپنی جنگوں کے لیے ان پراکسی جنگوں کو فی الحال ختم کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اس سے ان ممالک میں حالات مزید پیچیدہ اور پہلے سے زیادہ خطرناک بن گئے ہیں۔
شام میں رقہ پر قبضے کے لیے جنگ پہلے ہی شروع ہوچکی ہے۔ لیکن داعش کے خلاف نبردآزما فوجیں خود ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ کُردوں کی سربراہی میں امریکی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز (SDF) سے لے کر ترک حمایت یافتہ مذہبی انتہاپسند وں تک اور سب سے بڑھ کر روس اور ایران کی حمایت یافتہ شامی نیشنل آرمی، سب آپس میں مختلف محاذوں پر لڑتے رہے ہیں۔ اس لیے اگر رقہ ’آزاد‘ بھی ہوتاہے تو پورے شہر میں مکمل انتشار اور بربادی ہو گی۔
داعش کے علاوہ القاعدہ اور طالبان جیسی وحشی تنظیمیں اب بھی متحرک ہیں اور خون خرابہ کررہی ہیں۔ لیکن خطے کی حریف ریاستوں کے شام اور عراق کی قتل گاہوں میں اپنے اپنے متحارب مفادات ہیں۔ ایران، سعودی عرب، قطر اور دوسری ریاستیں آپس میں پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں۔ اس لیے امریکی سامراج کی جانب سے دہشت گردی مخالف اتحاد کوئی حل نہیں بلکہ بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ یہ حکمران ٹولے ان جنگوں میں کسی مذہبی عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ سفاک معاشی مفادات اور خطے کے وسائل پر قبضے کے لیے مداخلت کررہے ہیں۔
ان عرب بادشاہتوں کی بے تحاشا دولت اور بے ہودہ اور پر تعیش طرز زندگی ان غیر مستحکم ریاستوں اور معیشتوں کی وجہ سے ہے جو خود اب بحران کی زد میں ہیں۔ یہ بحران مسلسل گہرا ہو رہا ہے۔ ان کی اس دولت نے مشرق وسطیٰ کے عوام کوصرف غربت اور محرومی دی ہے۔ لیکن اب ان کے مفادات کا ٹکراؤ ان ریاستوں کے نامیاتی بحران کی بھی غمازی کرتا ہے۔ سامراج بھی ان کی جابرانہ حکومتوں کو بچانے کی کیفیت میں نہیں ہے۔ داعش اور دوسری بنیاد پرست تنظیمیں انہی تضادات پر پلتی ہیں، ان وحشیوں کی مالی پشت پناہی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لیکن سامراجی ان درپردہ شاہی طاقتوں کو بے نقاب کرنا تو درکنار چھونے کی بھی جسارت نہیں کر سکتے۔ سعودی عرب جیسی یہ دیوہیکل اور متروک ریاستیں اپنی بنیادوں تک گل سڑ چکی ہیں اور بڑی مشکل سے 2011ء کے عرب انقلابات کی زد میں آنے سے بچ گئیں۔ مظلوم عوام کی بغاوت کی جو ایک جھلک انقلابی ابھار کے دنوں میں دیکھی گئی تھی، اس انقلاب کی پسپائی نے وقتی طور پر اس کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
اس پسپائی سے ان سماجوں میں موجود جمود اور بے چینی نے رجعتی رجحانات کو پنپنے کا موقع دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں داعش اور دوسرے گروہوں کا ابھار نظر آتا ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی بربریت اور سماجی و معاشی محرومی کی اس کیفیت میں سماجی زندگی کے لیے حالات ناقابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام‘ بہت سوں کی توقعات کے برعکس جلد اٹھیں گے۔ ایک انقلابی قیادت کی موجودگی میں یہ عوامی لہر داعش، القاعدہ، النصرہ اور دوسرے سرطانی گروہوں کو ہزاروں سال کی تہذیب کے حامل سماجوں پر سے اکھاڑ پھینک دے گی۔ بادشاہوں اور آمروں کی یہ جابرانہ ریاستیں ایک انقلابی طوفان میں خس و خاشاک کی مانند بہہ جائیں گی۔