تحریر: عامر رضا
کوک سٹوڈیو سیزن گیارہ کا آغاز فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ سے ہوگیا ہے۔ یہ گانا ایسے وقت میں ریلیز ہوا جب پی ٹی آئی ریاست اور طبقات کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیے بنا تبدیلی کے پاپولسٹ نعرے پر ووٹ کے ذریعے ’انقلاب‘ اور ’تبدیلی‘ لانے کے لیے حکومت بنانے جا رہی ہے۔
فیض احمد فیض کی شاعری جو سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کی معاشرت پر مارکسی نقطہ نظر سے تنقید کرتی ہے اسے کوک سٹوڈیو کے تحت ماس کلچر میں ڈھال کر پیش کرنا، کارپوریٹ ازم اور اس کی پرودہ بورژوا کلاس کی سوشل انجنئیرنگ کی ایک کڑی ہے۔
ایسے حالات میں جب ملک کا چیف جسٹس ٹریڈ یونین کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر چکا ہو، مزدوروں، کسان تنظیموں اور لیفٹ کی پارٹیوں کا بیانیہ مین سٹریم میڈیا سے غائب ہو، ایسے میں کوک سٹوڈیو کا یہ آئٹم انقلاب کی وہ تعبیر پیش کرے گا جسے بورژوا دانشور اور نیو لبرل اکانومی کے پرچارک عوام کے لیے تشکیل دیں گے۔ انقلاب کو خالصتاً مارکسسٹ لیننسٹ بنیادوں پر لینے کی بجائے ایک برانڈ اور اس کی فیس ویلیو کے طور پہ لیا جائے گا جس کا فائدہ معاشرے میں موجود بالائی پرت کے طبقات کو ہوگا۔
اعلیٰ آرٹ مخصوص سماجی حالات میں حقیقت کا ایک متبادل وژن پیش کرتا ہے۔ اس میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ سماج کے اندر موجود تضادات کو ابھار کر سامنے لا سکے۔ یہ آرٹ انسانوں کے سامنے ان کے مسائل کا حل سامنے رکھتے ہوئے انہیں بتاتا ہے کہ وہ سٹیس کو توڑ کر اس کے بدلے میں کیا حاصل کر سکتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ معاشرے میں اعلیٰ آرٹ کی جگہ کلچرل انڈسٹری، ماس (پاپولر) کلچر کو پیدا کرنے اور فروغ دینے کے لیے وجود میں آتی ہے۔ یہ کلچر ان خواہشات کو پورا کرتا ہے جو سرمایہ دارنہ نظام میں رہتے ہوئے پیدا کی جاتی ہیں ۔ کلچرل انڈسٹری اپنے صارفین کو سٹیٹس کو سے جوڑنے کا اہم ذریعہ بنتی ہے اور کلچر کو حکمران طبقات کے نظریاتی غلبے کا ایک ذریعہ بنا دیتی ہے۔
کارپوریٹ ازم کے تحت تخلیق کی جانے والی کلچرل پروڈکٹ کا مقصد سرمایہ داری کے تحت پیدا ہونے تفاوت اور صدمات سے چھلنی انسانی روح کو ایک عارضی ریلیف دینا ہوتا ہے۔ وقتی راحت کا یہ احساس انسان میں موجود انقلابی جذبہ محرکہ کو رفتہ رفتہ سلاتے ہوئے اسے ختم کر دیتا ہے۔
پاپولر میوزک بھی اسی کلچرل انڈسٹری کا حصہ ہے۔ یہ میوزک منڈی کی معیشت کو ذہن میں رکھتے ہوئے نفع کمانے کی غرض سے تخلیق کیا جاتا ہے۔ ایسا میوزک سرمایہ دارانہ نظام پیداوار سے جڑا ہونے کی وجہ سے پر تاثیر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ’کلچرل انڈسٹری‘ کے نظریے کے روح رواں تھیوڈور ایڈورنو ویت نام جنگ کے دوران ہونے والے سیاسی احتجاج اور جنگ مخالف ایجی ٹیشن میں پاپولر میوزک کے کردار کو ماننے سے انکاری تھے۔ ان کا کہنا تھا ویت نام پر تخلیق کیا جانے والا میوزک اعلیٰ آرٹ کا نمونہ نہیں بلکہ ایک کمرشل شے ہے جس کی تخلیق اور ترسیل سرمایہ دارانہ نظام پیدوار کے تحت ہو رہی ہے اور اس کا مقصد محض منافع کمانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ میوزک جنگ کی خوفناکیوں کو تو بیان کرتا ہے لیکن اس میں حریت کی روح نہیں ہے۔ تاہم اسی جنگ مخالف تحریک کے دوران نیچے سے عام ایکٹیوسٹوں کی جانب سے ایسا نان پرافٹ آرٹ (بشمول ترانے) بھی تخلیق ہوا جو جنگ کی حقیقی وجوہات یعنی سرمایہ داری اور سامراجیت کو بے نقاب کرتا تھا اور ان کے خلاف طبقاتی جدوجہد کا پیغام بھی دیتا تھا۔
کوک سٹوڈیو کی ’ہم دیکھیں گے‘ کی کمپوزیشن میں بھی کلچرل انڈسٹری اور کمرشلزم کا میکانزم کار فرما ہے جس نے بڑی حد تک نظم کی روح کو مجروح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹرعائشہ صدیقہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے خوب کہا ہے کہ ’ہم دیکھیں گے‘ کے اس ورژن کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سے عوامی طاقت کے حوالے سے موجود تمام ریفرنسز کو ختم کر کے اسے صوفی ورژن میں ڈھال دیا گیا ہے۔ جبکہ میرے خیال میں اس کے صوفی ورژن کے ساتھ بھی مسئلہ موجود ہے۔ کلچرل انڈسٹری وہ صوفی کلچر تخلیق دینے کی کوشش میں مصروف ہے جو مخصوص سیاسی اور سماجی حالات میں اسے ’وارے‘ کھاتا ہو۔ وہ صوفی جو سٹیس کو کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، جو استحصالی نظام اور طبقاتی سماج کو چیلنج کرتا ہے اس کی کارپوریٹ سیکٹر کی کلچرل پروڈکٹ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یوں کلچرل انڈسٹری کی پراڈکٹ میں ہمیں صرف وہی صوفی نظر آتا ہے جو صرف برداشت کے فلسفے کا پرچارک ہو جو درباروں اور تکیوں پر دھمال ڈال کر خوش رہتا ہو۔
کلچرل انڈسٹری نے جس ماس کلچر کو فروغ دیا ہے اس کی سب سے بڑی صارف مڈل کلاس ہے جس کی جڑت سٹیٹس کو کی طاقتوں کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ ریاست اور معاشرے میں اپنی طبقاتی حیثیت اور اہمیت کو سمجھے اور جانے بنا ایک ایسی جماعت سے تبدیلی کی امید لگائے بیٹھی ہے جس کا اپنا خمیر سرمایہ دارانہ معاشرے کے بالائی اور انتہائی رجعت پسند طبقات سے اٹھا ہے۔
کھاڈی کے کُرتے پہن کر کوک سٹوڈیو کے صوفی میوزک پر تھرکتی ہوئی مڈل کلاس اب اس بات پہ شاد نظر آتی ہے کہ اس نے ریاست کے ’استحصالی طبقات‘ کو ووٹ کے ذریعے شکست دے دی ہے اور اب وہ دن ظہور ہونے والا ہے جب ’ظلم ستم کے کوہ گراں‘ روئی کی طرح اڑ نے والے ہیں۔
ہم بھی دیکھ رہے ہیں!