کمیونسٹ پارٹی آف فرانس کے رہنماء کامریڈ گریگ اوکسلے پچھلے تیس سال سے یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف برسرِ پیکار ہیں اور سوشلزم کے نظریات کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ کیمونسٹ پارٹی آف فرانس کے یوتھ ونگ کی رہنماکامریڈ رافائل کے ہمراہ حالیہ دورہ پاکستان کے دوران انہوں نے مختلف شہروں میں محنت کشوں اور نوجوانوں سے ملاقاتیں کیں اور لیکچر دیئے، جن کی مختصر رپورٹ ہم پیش کر رہے ہیں۔
لاہور
رپورٹ: دانیال مزاری
20اکتوبر بروز ہفتہ PTUDC اور YDA(ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن) کے زیرِ اہتمام سروسز ہسپتال لاہور کے آڈیٹوریم میں ’’سرمایہ داری کاعالمی بحران اور طبقاتی جدوجہد‘‘ کے موضوع پر کامریڈ گریگ اوکسلے کے لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔سٹیج سیکرٹری کے فرائض YDAکے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کامریڈ آفتاب نے انجام دیے جبکہ YDAکے مرکزی صدر حامد بٹ سمیت حکومتِ پنجاب اور ریاست کو ناکوں چبوانے والے کئی نوجوان ڈاکٹرز نے لیکچر پروگرام میں خصوصی شرکت کی۔
اس کے علاوہ پی ٹی سی ایل، کوکا کولا، رستم ٹاولز، ایمکو ٹائلز، واپڈا سمیت دوسرے کئی اداروں کے ٹریڈ یونین رہنمااور محنت کش ہال میں موجود تھے۔لاہور بھر کے تعلیمی اداروں سے مختلف طلبہ تنظیموں( بی ایس او پجار، گلگت بلتستان پی ایس ایف، پی ایس ایف پنجاب، جے کے این ایس ایف، پشتون سٹوڈنٹ آرگنائزیشن)کے درجنوں نوجوان سیاسی کارکنوں نے لیکچر پروگرام میں شرکت کی۔
کامریڈ گریگ نے اپنے لیکچر میں تفصیل سے عالمی مالیاتی بحران کے پسِ منظر، وجوہات اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں اٹھنے والی نوجوانوں اور محنت کشوں کی انقلابی تحریکوں اور مستقبل میں ان کے تناظر پر بات رکھی۔مترجم کے فرائض کامریڈ آدم پال نے انجام دئے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے لیکچر کا آغاز کرنے سے پہلے میں کیمونسٹ پارٹی آف فرانس کی طرف سے یہ پیغام میں پاکستان کے محنت کشوں کو دینا چاہتا ہوں کہ دونوں ممالک سمیت دینا بھر کے محنت کشوں کی جدوجہد ایک ہے اور ایک ہی نظام کے خلاف ہے۔فرانس ہو یا پاکستان، عام آدمی کی صحت کی بہتری سرمایہ دارانہ ریاست کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔پاکستان میں صحت کے شعبے کے لئے انتہائی کم بجٹ مختص کیا جاتا ہے، جس کے خلاف نوجوان ڈاکٹرز نے آواز بلند کی ہے۔ نوجوان ڈاکٹرز کی جدوجہد کے بارے میں ہم نے اپنے جریدے La Riposte میں مضامین شائع کئے ہیں اور یہ جدوجہد فرانس کی مختلف مزدور تنظیموں میں زیرِ بحث ہے۔ میں فرانس اور دنیا کے دوسرے حصوں سے نوجوان ڈاکٹروں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے مختلف مزدور تنظیموں کی طرف سے بھیجے گئے بے شمار پیغامات لایا ہوں۔کامریڈ گریگ نے کیوبک (کینیڈا) کی کیمونسٹ پارٹی کے ایک رہنما،جنوبی فرانس کی ایک یونیورسٹی کی خاتون پروفیسر اور پیرس (فرانس) ائر پورٹ کی مزدور یونین کے پیغامات پڑھ کے سنائے۔
عالمی بحران پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا کا ہر برِ اعظم سماجی و معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ہر ملک میں پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور یورپ کے بیشتر ممالک میں فیکٹریاں بند ہو رہی ہے جس کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔انہی حالات میں ہوگو شاویز نے وینزویلا میں ردِ انقلابی قوتوں اور سامراج کے خلاف لڑتے ہوئے انتخابات میں بہت بڑی فتح حاصل کی ہے۔وینزویلا میں انقلابی تحریک دراصل پورے لاطینی امریکی میں جاری انقلابی تحریکوں کا ایک حصہ ہے۔انہوں نے 1998ء میں ہوگو شاویز کے پہلی بار بطور صدر انتخاب اور 2002ء میں ان کے خلاف ردِ انقلابی قوتوں کی طرف سے فوجی بغاوت کے واقعات کا تفصیل سے تجزیہ پیش کیا۔کامریڈ گریگ نے کہا کہ اگرچہ ہوگو شاویز نے وقتی طور پر سرمایہ دارانہ اشرافیہ اور سامراج کو شکست دیتے ہوئے بڑی اصلاحات کی ہیں جس سے عوام کو کئی فائدے حاصل ہوئے ہیں لیکن کوئی بھی انقلاب ادھورا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ جب تک وینزویلا کا انقلاب مکمل نہیں ہوتا، شاویز حکومت کے تحت پچھلی ایک دہائی میں کی گئی تمام اصلاحات ختم کر دی جائیں گی۔انقلاب کو ختم کرنے کا مطلب معیشت کے کلیدی شعبہ جات کو قومی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینا اور سرمایہ دارانہ ریاست کا مکمل خاتمہ ہے۔
مشرق وسطیٰ کے انقلابات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مصر اور تیونس میں ہم دیکھتے ہیں کہ محنت کشوں نے خود کو بغیر کسی بیرونی قوت کے منظم کرتے ہوئے مبارک اور بن علی کا تختہ الٹا۔یہ انقلابی تحریکیں ان لوگو ں کے منہ پر تمانچہ ہیں جو کہتے ہیں کہ محنت کش کچھ نہیں کر سکتے۔فرانس کی حکومت نے جب بن علی کی حکومت کی مدد کے لئے اسلحہ تیونس بھیجنا چاہا تو پیرس ائر پورٹ پر کام کرنے والے محنت کشوں نے اس سازش کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے ہوئے بری طرح ناکام بنا دیا۔ یہ واقعہ عالمی محنت کش طبقے کی جڑت کی ایک شاندار مثال ہے۔اسی طرح مصر اور تیونس میں بھی نئی حکومتوں کے بننے کے باوجود لوگو ں کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں انقلاب ناکام ہو گیا ہے، بلکہ انقلاب نے محض پہلا مرحلہ مکمل کیا ہے۔حالات اور واقعات لوگوں کو ناگزیر طور پر انقلاب کے دوسرے مرحلے کی طرف لے کے جائیں گے جس میں وہ چہروں کے بعد نظام کو بدلنے کی جدوجہد شروع کریں گے۔شام اور لیبیا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان ممالک میں ہم آمرانہ حکومتوں کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف انقلاب کے نام پر لڑنے والے سامراجی پٹھووں کی بھی مزمت کرتے ہیں۔یہ عناصر ان ممالک کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کی کسی صورت بھی نمائندگی نہیں کرتے۔
یورپی یونین کے بحران کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس بحران نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سرمایہ دارانہ دانشوروں کی جانب سے نہ ختم ہونے والے معاشی بڑھوتری، ترقی اور خوشحالی کے دعووں کا پول کھول دیا ہے۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد لوگوں کو بتایا گیا تھا اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے اور سرمایہ داری انسانیت کی آخری منزل ہے۔ سابقہ سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں ملنے والی منڈیوں نے اگرچہ سرمایہ داری کو عارضی سہارا فراہم کیالیکن سرمایہ دارانہ نظام اپنے بنیادی تضادات کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے مستحکم نہیں رہ سکتا۔موجودہ بحران، یورپ کی تاریخ کا سب سے گہرا بحران ہے اور یونان سمیت کئی ممالک کی معیشتیں یا تو دیوالیہ ہو گئیں ہیں یا آنے والے عرصے میں ہو جائیں گی۔نیو لبرل ازم اور ٹریکل ڈاؤن اکنامکس نے محنت کشوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔امیروں پر ٹیکس لگانے کی بجائے ریاستوں نے ماضی میں بڑے پیمانے پر قرضے لئے جو کہ اب ناقابل ادا بن چکے ہیں۔یورپی ریاستیں مجموعی طور پر 10000ارب یوروکی مقروض ہو چکی ہیں اور اس قرضے کی ادائیگی کے لئے ایک بار پھر ریاست کے فلاحی اخراجات، تنخواہوں اور پنشنوں میں کٹوتیاں کی جارہی ہیں۔ان اقدامات سے قوت خرید مزید کم ہو گی، پیداوار گرے گی اور بحران مزید گہرا ہو گا۔فرانس اس وقت 1800 ارب یورو کا مقروض ہے جو کہ اس کے GDPکا 90فیصد ہے۔ فرانس سمیت یورپ کی دوسری ریاستوں کی آمدنی کا پچاس فیصد سے زائد حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی پر صرف ہو رہا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ جو پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیے وہ بڑے بینکوں کو دیا جا رہاہے۔موجودہ عہد میں Socialism or Barbarismکے نعرے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔آنے والے دنوں میں ہمیں یورپ اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑی تحریکیں نظر آئیں گی۔
پاکستان کے بارے میں انہوں نے کہا یہاں اپنے قیام کے دوران میں نے دیکھا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اس خطے کو لوگ جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ یہ تما م تر وسائل اور دولت چند لوگوں کے قبضے میں ہے۔پاکستان کے لوگ جلد یا بدیر ایک انقلاب کی طرف جانے پر مجبور ہوں گے کیونکہ کوئی بھی نظام جو انسانیت کی اکثریت کو غربت اور ذلت میں مبتلا کر کے آگے بڑھے، زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتا۔لیکن ہمیں اس وقت کے لئے تیاری کرنی ہو گی، کیونکہ اندھی بغاوت بے ثمر ہوتی ہے۔ہمیں ایک شعوری انقلاب کو برپا کرنے کے لئے مارکسزم اور کمیونزم کے نظریات کوسیکھنے، آگے بڑھانے اور ان کے تحت اپنے آپ کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔کیمونزم کامطلب سرمایہ داروں کی آمریت کا خاتمہ، معاشرے کی دولت اور وسائل کو محنت کشوں کے کنٹرول میں دینا اور اسے چند لوگوں کی بجائے پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرنا ہے۔اس مقصد کے لئے ہمیں واضح پروگرام، تھیوری اور تنظیم کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکے جو برِصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد بنے۔
اس کے بعد ڈاکٹر یاسر ارشاد نے نوجوان ڈاکٹرز کی جدوجہد کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ میڈیا اور حکمران طبقے نے ہماری جدوجہد کوبدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ناکام رہے۔نوجوان ڈاکٹرز بھی محنت کش طبقے ہی کا ایک حصہ ہیں اور سرمایہ داری کے استحصال کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ان لالچی اور ضمیر فروش حکمرانوں کی طرح محلات نہیں بلکہ باعزت روزگار، کام کرنے کا بہتر ماحول اور مناسب تنخواہ چاہتے ہیں تاکہ پر سکون اور آرام دہ زندگی گزار کر انسانیت کی بہتر طور پر خدمت کر سکیں۔ 7نومبر کو پورے پنجاب کے ڈاکٹرز لاہور کی طرف مارچ کریں گے اور اس خوف سے پنجاب پر براجمان فرعون ابھی سے کانپ رہے ہیں۔ اگر اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا جرم ہے تو یہ جرم کرکے ہم عوام کا خون چوسنے والے حکمرانوں کی نیندیں حرام کرتے رہیں گے۔
کامریڈ لال خان نے حاضرین کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے لیکچر پروگرام کا سم اپ کیا۔انہوں نے کہا کہ اس تاریک عہد میں جدوجہد کی شمع روشن کرنے والے نوجوان ڈاکٹرز مبارک باد کے مستحق ہیں اور ان کی جدوجہد محنت کش طبقے کی دوسری پرتوں کے لئے ایک نمونہ بن چکی ہے۔حکومت پنجاب جب نوجوان ڈاکٹروں کی تحریک کو خود نہ روک سکی تو اس نے نام نہاد آزاد عدلیہ کو ڈاکٹروں کو دھوکہ دینے کے لئے استعمال کیاجس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ریاست کے تمام ادارے، حکمران طبقے اور اس استحصالی نظام کی حفاظت کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔اپنے حقوق کے لئے ہڑتال اور احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے اور اسے ناجائز قرار دینے والی عدلیہ بذاتِ خود نا جائزاور بکاؤ ہے۔اس نظام میں انصاف خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ غریب آدمی، انصاف کی دعوے دار اعلیٰ عدالتوں کے سامنے سے بھی نہیں گزر سکتا اور ان عدالتوں کا مقصد محنت کشوں کو دبانا اور حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کا لے دھن کی سرایت نے پاکستانی ریاست اور فوج کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔سرکار کے اپنے اعدادوشمارکے مطابق پاکستانی معیشت کا 66فیصد حصہ کالے دھن پر مشتمل ہے۔ یہ نہ نظر آنے والی کالی معیشت کرپشن، منشیات کی سمگلنگ، بھتے اور جرائم پر مشتمل ہے۔ باقی بچنے والی 34فیصد معیشت میں اتنی سکت ہی موجود نہیں ہے کہ عام شہریوں کو علاج، تعلیم اور روزگار فراہم کر سکے۔ملکی آمدن کا 90فیصد تو سامراجی قرضوں کی ادائیگی، فوج، حکمرانوں کی عیاشیوں اور سرکاری اخراجات میں خرچ ہو جاتا ہے۔پاکستانی ریاست 64ارب ڈالر کے قرضے کے عوض IMF، ورلڈ بینک اور دوسرے سامراجی اداروں کو اب تک 77ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کر چکی ہے لیکن قرضے پھر بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔علاج کے لئے سرکاری بجٹ کا 0.04فیصد صرف ہوتا ہے جس سے تنخواہیں ہی بمشکل ادا کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ڈاکٹر مبشر حسن وہ واحد وزیرِ خزانہ تھے جو کسی سامراجی ادارے کے ایجنٹ یا تنخواہ دار نہیں تھے اور ان کے دور میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی اور آخری بار صحت اور تعلیم کی مد میں بجٹ کا 43فیصد مختص کیا گیا۔ یہ تمام حاصلات 1968-69ء کی انقلابی تحریک کا نتیجہ تھیں۔انہوں نے کہا حالیہ عرصے میں وینزویلامیں انقلابی تحریک کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آکر ہوگو شاویز نے تعلیم اور علاج کو مفت قرار دیا ہے۔ وینزویلا کے عام شہریوں کو علاج معالجے کی بہترسہولیات صرف اس وجہ سے حاصل ہوئیں ہیں کہ معیشت کے بڑے شعبوں خاص طور پر تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لے کر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو عوام کی فلاح پر خرچ کیا جا رہاہے۔کیوبا کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کے بعد صحت کا ایسا نظام قائم کیا گیا جو دنیا بھر کے لئے ایک مثال ہے اور امریکہ سے غریب لو گ اپنا علاج کروانے وہاں جاتے ہیں۔
ڈاکٹر لال خان نے کہا کہ بیرونی سرمایہ کاری کے نعرے لگانے والے سرمایہ دارانہ معیشت کے بنیادی مقصد اور طریقہ کار سے لا علم ہیں۔تیسری دنیا کے ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والے ملٹی نیشنل کمپنیاں انسانیت کی محبت میں ایسا نہیں کرتیں بلکہ ان کا واحد مقصد لوٹ مار اور ان ممالک کے عوام کا استحصال ہوتا ہے۔موجودہ نظام میں رہتے ہوئے برسرِ اقتدار آنے والی ہر سیاسی پارٹی محنت کشوں کو معاشی حملوں کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتی۔کرپشن کے خاتمے کا نعرہ بھی کھوکھلا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔کرپشن اس نظام کی رگ رگ میں شامل ہے اور اگر کرپشن ختم کردی جائے تو پوری ریاست دھڑام سے گر جائے گی۔کوئی معاشرہ جہاں علاج اور تعلیم بکتے ہوں کسی صورت انسانی معاشرہ کہلانے کے لائق نہیں ہے۔نوجوان ڈاکٹروں نے اس نظام کے خلاف جس جنگ کا اعلان کیا ہے اس میں ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ہمیں امید ہے کہ ان کی یہ لڑائی رنگ لائے گی اور پاکستان میں محنت کشوں اور نوجوانوں کے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
آخر میں تین قرار دادیں پیش کی گئیں جو کہ متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں:
1۔پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت کے غنڈہ گرد عناصر کو لگام دی جائے اور ان کی ریاستی سر پرستی بند کی جائے۔
2۔اکاؤنٹنٹ جنرل آفس کے ٹریڈ یونین رہنما بخش الٰہی کے قاتلوں کو گرفتارکر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔
3۔کوکا کولا پاکستان سے نکالے گئے تمام محنت کشوں کو بحال کیا جائے اور یونین پر حملے بند کئے جائیں۔
فیصل آباد
رپورٹ: کامریڈ عصمت
19اکتوبر بروز جمعہ’’پیرس کمیون کے اسباق‘‘ کے حوالے سے فیصل آباد میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین کے زیرِ اہتمام کامریڈ گریگ اوکسلے کے لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ فرانس سے کامریڈ رافیل نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین کے مرکزی راہنما آدم پال اور کراچی سے کامریڈ پارس جان نے بھی تقریب میں خصوصی شرکت کی۔ تقریب میں پاور لومز کے محنت کشوں، طلبہ، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ جھنگ اور چنیوٹ سے بھی PTUDCکے کارکنوں نے شرکت کی۔اسٹیج سیکرٹری کامریڈ ارتقاء نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اور شعوری جمود کے اس دور میں مجھے ہال میں بیٹھے ان لوگوں کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے جو کہ انقلاب کی خواہش دل میں لئے یہاں موجود ہیں۔
کامریڈارتقاء نے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے پاور لومز ورکرزنعمت آباد کے چےئرمین کامریڈ صفدر کو مزدوروں کے مسائل پر روشنی ڈالنے کی دعوت دی۔ کامریڈ صفدر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام کے اندر اب اتنی سکت نہیں رہی کہ محنت کشوں کے بنیادی مسائل کو حل کر سکے جبکہ مزدوروں کے مسائل کا حل اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے اور وہ صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔ کامریڈ بینش نے انقلابی نظم’’انقلاب زندہ باد‘‘پیش کی۔ اس کے بعد کامریڈ آدم پال نے پیرس کمیون کی تاریخ کے حوالے سے فرانس کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالی۔
اس کے بعد کامریڈ گریگ اوکسلے کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی تاکہ وہ 1871ء کے پیرس کمیون کے بارے میں تفصیلی لیکچر دے سکیں۔کامریڈ گریگ نے بہت تفصیل کے ساتھ پیرس کمیون کی تاریخ بیان کی اور اس انقلابی سرکشی کے ذریعے حاصل ہونے والی حاصلات اور اسباق کو تفصیل سے بیان کیا۔ کامریڈ نے کہا کہ یہ تاریخ کے اندر پرولتاریہ کی پہلی شاندار فتح تھی گو کہ واضح حکمت عملی اور تھیوری کی عدم موجودگی میں محنت کشوں سے غلطیاں بھی سر زد ہوئیں۔ مزدوروں نے بینک آف فرانس کو تحویل میں نہ لیا اور ایک مہلک غلطی ثابت ہوئی کیونکہ اشرافیہ نے پھر اسی بینک میں موجود دولت کو اپنی فوج کو منظم کرنے کے لیے استعمال کیا اور پیرس کمیون پر حملہ کرکے اسے کچل دیا۔کامریڈ نے اس واقعہ کے فرانس، یورپ اور باقی دنیا پر اثرات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ پوری دنیا کےمحنت کشوں کے مسائل اور ان کا حل مشترک ہے۔ پاکستان اور فرانس کے مزدوروں میں کوئی فرق نہیں۔ پیرس کمیون کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ محنت کش نہ صرف اقتدار پر قبضہ کر سکتے ہیں بلکہ سماج کو سرمایہ درانہ ریاست اور حکمران طبقے کی نسبت زیادہ بہتر طور پر چلا سکتے ہیں۔ اس کے بعد کامریڈ عصمت نے تاریخ کے اندر برپا ہونے والے انقلابات کے اندر عورتوں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اندر 52فیصد آبادی عورتوں کی ہے جنہیں سیاسی عمل سے الگ رکھ کر کوئی بھی انقلابی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ہمیں چاہیے عورتوں کو بھی مارکسی تنظیم کے اندر منظم کریں تا کہ مستقبل کے اندر اٹھنے والی تحریک کی راہنمائی کرتے ہوئے اسے منطقی انجام تک پہنچا جا سکے۔اس کے بعد کامریڈ پارس نے کراچی میں جاری وحشت، بربریت اور درندگی پر بات کی۔ کامریڈ نے کہا کہ ان تمام مسائل، جن کا سامنا پاکستان اور خصوصاًکراچی کو لوگوں کو ہے، حل اس نظام کی حدود رہتے ہوئے نا ممکن ہے۔ مگر تبدیلی لازم ہے اور اس کی ایک ہی صورت ہے یعنی ایک سوشلسٹ انقلاب۔پاکستان میں شروع ہونے والا انقلاب نا گزیر طور پر حکمرانوں کی قائم کردہ ان سرحدوں کو چیرتا ہوا بر صغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کا پیش خیمہ ثابت ہو گا اورانسانیت کو اس کے اعلیٰ معیارِ ثقافت اور نصب العین تک پہنچائے گا۔ آخر میں کامریڈ گریگ نے سم اپ کرتے ہوئے سوالوں کے جوابات دےئے اور کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب انسان خلاء، مریخ اور دوسرے سیاروں پر خلائی مشینیں بھیج رہا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں ہم پوری دنیا کی عورتوں، مردوں اور بچوں کو روٹی اور صحت کی سہولیا ت دے سکیں۔ کامریڈ نے کہا کہ پیرس کمیون محض ایک واقعہ یا کہانی نہیں ہے بلکہ ہمیں مارکسزم کے سائنسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے اس کا تجزیہ کرنے اور اس سے اسباق سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرایا جائے۔ آخر میں کامریڈ نے کہا کہ ہمیں ایک مارکسی قوت کی صورت میں منظم ہو کر انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جو وحشت اور بربریت کے اس طفیلی نظام کو جڑ سے اکھاڑپھینکے۔
انٹرنیشنل گا کر تقریب کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔
اسلام آباد
رپورٹ: کامریڈ آصف رشید
PYAاور PTUDCکے زیر اہتمام مورخہ 12 اکتوبر بروز جمعہ آبپارہ کمیونٹی سینٹر اسلام آباد میں ایک لیکچر پروگرام بعنوان انقلاباتِ فرانس کی تاریخ کے حوالے سے کیا گیا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی کامریڈ گریگ اوکسلے راہنما کمیونسٹ پارٹی آف فرانس تھے۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ چنگیز نے سرانجام دیئے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز کامریڈ اسلم سیال کی انقلابی نظم سے کیا گیا۔اس کے بعد کامریڈ لال خان انٹرنیشنل سیکرٹری PTUDC، کو مہمان خصوصی کامریڈ گریگ اوکسلے راہنماکمیونسٹ پارٹی آف فرانس اور کامریڈ رافائل راہنما یوتھ ورک فرانس کے باقاعدہ تعارف کے لیے سٹیج پر مدعو کیا۔ کامریڈ لال خان کے باقاعدہ تعارف کے بعد مہمان خصوصی کامریڈ گریگ اوکسلے کو’’ انقلابات فرانس کی تاریخ‘‘پر روشنی ڈالنے کے لیے تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔کامریڈ فرہاد کیانی نے مترجم کے فرائض سر انجام دیئے۔
کامریڈ گریک اوکسلے نے اپنے لیکچر میں 1789-91ء، 1848ء، 1871ء، اور 1968ء میں فرانس میں ہونے والے بورژوا انقلابات اور محنت کش طبقے کی انقلابی تحریکوں کا مارکسی نقطہ نظر سے مکمل اور جامع تجزیہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ آج عالمی سرمایہ داری بحران نے پوری دنیا سمیت یورپ کی تمام ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ایک کے بعد کئی ممالک دیوالیہ پن کی طرف جارہے ہیں۔فرانس براعظم یورپ کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔فرانس میں انقلابات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔فرانس کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں نے براعظم یورپ اور پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج سرمایہ داری نظام کے اندر یہ سکت ختم ہو چکی ہے کہ پیداوار اور اس کے نتیجے میں ذرائع پیداوار اور زائد پیداواری صلاحیت کو اپنے اندر سمو سکے۔ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے تمام تر مسائل کا حل صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب ہے اور اس مقصد کیلئے IMTکے کامریڈ فرانس پاکستان اور دنیا بھر میں انقلابی قیادت کی تعمیر میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے لیکچر کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ ہر بورژوا انقلاب کے بعد ایک سرمایہ دارانہ یپبلک بنتی ہے، لیکن میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اب کی بار فرانس میں اٹھنے والی محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی تحریک ایک سوشلسٹ ریپبلک پر منتج ہو گی۔
تقریب کے آخر میں مندرجہ ذیل قراردادیں پیش کی گئیں جو متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔
1۔ کوکا کولا فیکٹری میں جبری برطرفیوں اور جھوٹے مقدمات کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
2۔لاہور کراچی کی فیکٹروں میں شہید ہونے والے محنت کشوں کو 15لاکھ روپے فی کس اور زخمیوں کو 10لاکھ روپے فی کس معاوضہ ادا کیا جائے۔ فیکٹری مالکان اور نااہل انتظامیہ کے خلاف 302کا مقدمہ درج کیا جائے اور سزائے موت دی جائے۔
3۔ ہم ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔
4۔ ہم مذہبی بنیاد پرستی اور امریکی سامراج کے ڈرون حملوں کی وجہ سے معصوم جانوں کے قتل عام کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
لیکچر پروگرام کا اختتام مزدوروں کا عالمی ترانہ ’’انٹرنیشنل‘‘ گا کر کیا گیا۔