| تحریر: عمران کامیانہ |
یونان میں 5 جولائی کو ہونے والے ریفرنڈم میں محنت کشوں اور نوجوانوں نے ٹرائیکا (یورپی مرکزی بینک، آئی ایم ایف، یورپی کمیشن) کی شرائط کر یکسر مسترد کر دیا ہے۔ یہ ایک انقلابی جست ہے جس کے اثرات پورے یورپ پر مرتب ہوں گے۔ ریفرنڈم میں ٹرن آؤٹ 62 فیصد رہا۔ ووٹ ڈالنے والے 61.31 فیصد لوگوں نے ’’OXI‘‘ پر مہر لگا کر آسٹیریٹی (عوامی سہولیات میں کٹوتیوں) کے خلاف فیصلہ سنایا۔ صرف 38.69 فیصد افراد نے ٹرائیکا کی شرائط پر معاہدے کے حق میں ووٹ دیا۔
ریفرنڈم سے قبل کارپوریٹ میڈیا نے دھمکی آمیز پراپیگنڈا مہم وسیع پیمانے پر چلائی تھی جس میں عوام کو قرض دہندگان کے خلاف ووٹ ڈالنے پر ’’سخت نتائج‘‘ کی تنبیہہ کی گئی تھی ۔ لیکن یونان کے محنت کش عوام نے یورپی حکمرانوں کی تمام دھونس کو خاطر میں نہ لا کر ثابت کیا ہے کہ وہ معاشی حملوں اور کارپوریٹ ڈاکہ زنی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ریفرنڈم سے قبل ٹرائیکا کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے پورے ملک میں ہوئے۔ 3 جولائی کو ایتھنز میں ہونے والے مظاہرے کو پچھلی کئی دہائیوں کا سب سے بڑا احتجاج قرار دیا جا رہا ہے جس میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس سے قبل 28 جون کو بھی دارالحکومت کے مرکزی چوک پر عوام کا جم غفیر سرخ جھنڈوں اور احتجاجی پلے کارڈز کے ساتھ جمع ہوا تھا۔
اس ریفرنڈم کے بعد یونان میں کئی سال سے جاری انقلابی تحریک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یونان کے عوام کا فیصلہ بالکل واضح ہے۔ انہوں نے سائریزا کی حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ ’’ٹرائیکا‘‘ کہلائے جانے والے ٹھگوں اور سود خود بھیڑیوں کے ٹولے کی شرائط کسی صورت قبول نہیں ہیں۔ مزید برآں یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ سائریزا حکومت اگر انتہائی ریڈیکل اقدامات کی طرف بھی بڑھتی ہے تو عوام اس کے ساتھ کھڑے ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ عوام ایسے اقدامات کا مطالبہ خود کر رہے ہیں۔ لیکن سائریزا کی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک اصلاح پسندی کی نفسیاتی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اور ٹرائیکا کے ساتھ ’’مصالحت‘‘ کی کوشش میں ہے۔ ریفرنڈم کے بعد وزیر خزانہ ’وورافکس‘ نے اچانک استعفیٰ دے کر سب کو حیران کر دیا ہے۔موصوف کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی گزشتہ نشستوں میں ٹرائیکا کے ساتھ ان کے تعلقات چونکہ بگڑ چکے ہیں لہٰذا کسی ’سافٹ‘ وزیر خزانہ کا انتخاب معاہدہ طے کروانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔وزیر اعظم الیکسس سپراس ریفرنڈم کو کسی انقلابی قدم کی بجائے قرض دہندگان پر ’’دباؤ‘‘ بڑھانے کا ذریعہ سمجھ رہا ہے جو کہ خوش فہمی اور کھلی حماقت ہے۔ عوام کے حق میں قرض دہندگان سے کوئی معاہدہ ممکن ہی نہیں ہے اور پچھلے کئی مہینوں کے واقعات نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے۔بینکنگ اور معیشت کے دوسرے کلیدی شعبوں کو نیشنلائز کر کے سوشلسٹ بنیاد پر یورپی یونین سے تعلق توڑنے کے علاوہ نجات کا کوئی راستہ یونان کے سامنے نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یورپی یونین سے اخراج کے نتائج گزشتہ سات سالوں سے بھی بھیانک ہو سکتے ہیں جن میں یونان کی معیشت 25 فیصد سکڑ چکی ہے۔
ریفرنڈم کے نتائج سے جرمنی میں طاقت کے ایوان خاص طور پر لرز اٹھے ہیں کیونکہ یونان نے اپنے ریاستی قرض کا بڑا حصہ جرمن بینکوں کو ادا کرنا ہے۔ یونان کی طرح ریاستی قرض میں ڈوبے سپین اور پرتگال جیسے ممالک کے عوام کو ان واقعات سے نئی شکتی مل رہی ہے اور پورے یورپ میں یونانی عوام کے حق میں اور آسٹیریٹی کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یونان کا قرضہ اگر جی ڈی پی کے 180 فیصد تک جا پہنچا ہے تو سپین 100 فیصد، پرتگال 128 فیصد اور اٹلی 135 فیصد کے ساتھ قطار میں تھوڑا ہی پیچھے کھڑے ہیں۔ یونان سے اٹھنے والی بغاوت کی ان ممالک میں سرائیت ناگزیر ہے۔ یہ حالات یورپ کے حکمران طبقے کے لئے سراسر ناقابل برداشت ہیں اور ’’جمہوریت‘‘ کے یہ ٹھیکیدار ریفرنڈم میں سامنے آنے والی عوام کی منشا کو تسلیم کرنے سے مکمل انکاری ہیں۔ جرمنی کے وزیر معیشت سگمار گیبرئیل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ریفرنڈم کروا کے ’’الیکسس سپراس نے آخری پل بھی توڑ دیا ہے۔ یورو زون کے قوانین کو مسترد کر دینے کے بعد اربوں یورو کا (نیا بیل آؤٹ)پروگرام کم و بیش ناممکن ہو گیا ہے۔ سپراس اور اس کی حکومت یونان کے عوام کو ’مایوسی‘ کے راستے پر دھکیل رہے ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ 30 جون سے قبل تک چلنے والے مذاکرات میں ٹرائیکا کی کئی تلخ شرائط پر الیکسس سپراس راضی ہو گیا تھا، حتیٰ کہ عوام پر ٹیکسوں میں اضافے، پنشن میں کمی اور پرائیویٹائزیشن جیسے مطالبات بھی سائریزا کی حکومت نے مان لئے تھے لیکن ٹرائیکا ’’ڈو مور‘‘ پر بضد ہے۔ قرض دہندگان کی شرائط یونان کے عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہیں اور مکمل اطاعت کی صورت میں سپراس کو پارٹی کے اندر پھوٹ پڑ جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ یہ ایک ’ڈیڈ لاک‘ کی صورتحال ہے جس کے سلجھنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ اس ریفرنڈم کے ذریعے سپراس نے غیر ارادی طور پر کسی حد تک ٹھنڈی پڑی ہوئی تحریک کو پھر سے بیدار کر دیا ہے اور ٹرائیکاکی تابعداری کی گنجائش کم کر کے خود اپنے لئے مسائل پیدا کر لئے ہیں۔
یونان کا بحران تاریخی طور پر اہمیت کا حامل ہے جس سے ٹھوس اسباق اور دور رس نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ یہ بحران عالمی سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کی ہی ایک علامت ہے اور واضح کرتا ہے کہ اپنی ترقی یافتہ ترین شکل میں بھی سرمایہ دارانہ نظام عوام کا معیار زندگی بلند کرنے سے قاصر ہے۔الٹا محنت کشوں اور نوجوانوں سے وہ مراعات اور سہولیات بھی چھینی جا رہی ہیں جو کئی دہائیوں کی مزدور تحریک اور جدوجہد کے ذریعے انہوں نے حاصل کی تھیں۔ یورپ وہ خطہ ہے جہاں جاگیر داری کے خلاف انقلاب کے نتیجے میں سرمایہ داری اپنی کلاسیکی شکل میں پیدا ہوئی اور نمو پائی۔ لیکن تاریخی طور پر خوشحال اور ترقی یافتہ سمجھے جانے والے اس خطے میں بھی معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ آج کا معمول ہے۔
یورپی یونین کا انتشار ٹیڈ گرانٹ جیسے عظیم مارکسی نظریہ دانوں کے اس تناظر کو سچ ثابت کرتا ہے کہ مختلف نوعیت کی معیشتوں اور سیاسی اکائیوں کو ایک کرنسی میں یکجا کرنا نا ممکن ہے۔ ماضی میں صنعتی طور پر نسبتاً کم ترقی یافتہ ، یونان اور پرتگال جیسے ممالک کرنسی کی قدر میں کمی کے ذریعے اپنی برآمدات کو سہارا دے لیا کرتے تھے لیکن یورو زون کا حصہ بننے کے بعد ایسا ممکن نہ تھا۔ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک کی سستی اجناس کی یلغار میں ان کی صنعت اور معیشت کی تباہی نا گزیر تھی۔ معاشی عروج کے عہد میں یہ تضادات سطح کے نیچے دبے رہے اور معیشت کو قرضوں کے انجکشن لگا کر چلایا جاتا رہا۔ یہ قرضے دینے والے بھی جرمنی یا فرانس جیسے بڑے ممالک تھے جو قرض خواہ معیشتوں کی منڈی میں اپنی ہی اجناس بیچ رہے تھے۔ بینکار خوب مال بنا رہے تھے اور جعلی بنیادوں پر سرمایہ داری کو چلانے کا یہ عمل داخلی اور خارجی سطح پر پوری دنیا میں جاری تھا۔ 2008ء میں قرضوں کا یہ پہاڑ رائی کی طرح ڈھے گیا اور اس مالیاتی کریش سے معیشت کے ’’عظیم بحران‘‘ (Great Recession) کا آغاز ہوا جو آج تک چل رہا ہے۔
آج ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی صورتحال یہ ہے کہ ’’ویلفیئر سٹیٹ‘‘ کہیں سر عام تو کہیں غیر محسوس طریقے سے منہدم کی جا رہی ہے کیونکہ ریاستوں کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تین دہائیوں کی وسیع نجکاری اور دوسری نیو لبرل ’’اصلاحات‘‘ کے بعد ریاستوں کی آمدن کے ذرائع معدوم ہو چکے ہیں، سرمایہ دار ٹیکس دینے سے انکاری ہیں اور ریاستیں ان کے سامنے بے بس ہیں۔ریاستی آمدن میں کمی کا ’’حل‘‘ ماضی میں قرضے کے ذریعے نکالا جاتا تھا لیکن قرضوں کا یہ بوجھ اب ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔
دوسری طرف عالمی سطح پر سرمایہ داری زائد پیداوار کے بحران سے دوچار ہے۔ نئی سرمایہ کاری کی گنجائش ہی موجود نہیں ہے جس سے نیا روزگار پیدا ہو سکے کیونکہ معیشت میں پہلے ہی زائد پیداواری صلاحیت موجود ہے۔مزید برآں سرمایہ کاری ہوتی بھی ہے تو اس کا کردار Capital Intesive ہے جس سے روزگار مزید کم ہی ہوتا ہے۔اجرتیں مسلسل سکڑ رہی ہیں، بیروزگاری بڑھ رہی ہے جس سے منڈی بھی سکڑ رہی ہے اور زائد پیداوار کا بحران شدت پکڑ رہا ہے۔
یہ ایک گھن چکر ہے جس میں یہ نظام انسانیت کو غرق کرنے کے درپے ہے۔ سرمایہ داری کے اس بحران کی قیمت پوری دنیا میں محنت کش عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔ مزاحمت، رد عمل اور بغاوت نا گزیر ہے۔ آج انسانی سماج اس بھٹی میں تبدیل ہو چکا ہے جس میں ایک نظام پگھل رہا ہے اور ایک نئے نظام کی امنگ سلگ رہی ہے۔ اس آرزو اور امنگ کو ایک راستہ، لائحہ عمل اور پروگرام چاہئے جو صرف بالشویک قیادت ہی فراہم کر سکتی ہے۔ یونان کے واقعات صرف ایک جھلک ہیں۔ یورپ اور پوری دنیا میں آنے والا عہد غیر معمولی واقعات سے لبریز ہے!
متعلقہ:
سرمائے کے بھنور میں ڈوبتا یونان