[تحریر: ارج نجف آبادی، ترجمہ: عمران کامیانہ]
گزشتہ سال سے ایران سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کی زد میں ہے، جوکہ گزشتہ چندماہ میں شدید افراطِ زر (Hyper Inflation) اور ایرنی کرنسی کی قدر میں کمی کا باعث بنا ہے۔ ایران کے حالیہ سفر میں موجودہ صورتحال کا تناظر زیادہ واضح ہوااور خاص طور پر یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ عام لوگ بگڑتی ہوئے حالات کے ساتھ کیسے نبرد آزما ہیں۔
ایران میں زیادہ تر وقت میں نے شمالی تہران میں گزاراجو کہ درمیانے طبقے کا علاقہ ہے اور یہاں کے لوگ باقی ملک کی نسبت مالی طور پر زیادہ خوشحال ہیں۔ لیکن یہاں بھی بحران کے منفی اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ 2011ء کے اواخر سے ایرانی ریال کی قیمت میں 80فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور ایک ایرانی ریال کی قیمت 35000 امریکی ڈالرز تک جا پہنچی ہے۔ اس افراطِ زر کا سب سے گہرا اثر مڈل کلاس کی قوتِ خرید میں کمی اور بچت کی مد میں جمع شدہ رقوم میں کمی کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ جن لوگوں سے میری بات ہوئی ان میں سے زیادہ تر اپنی آمدن میں کمی اور پر تعیش اشیا خریدنے کی نا قابلیت کا شکوہ کرتے نظر آئے۔ تجریش اور تہران بازار جیسے تجارتی مراکز پہلے کی نسبت خاموش دکھائے دئیے جس سے پتا چلتا ہے کہ خریداری میں کس حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
جتنے بھی لوگوں سے میری بات ہوئی تقریباً تمام نے موجودہ ابتر حالات کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا۔ مثال کے طور پر ہماری یونیورسٹی کے طالب علم نے اس طرف توجہ مبذول کروائی کہ کچھ عرصہ پہلے تک ایرانی حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ مغربی پابندیوں کا ایرانی معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑا، جس کی وجہ سے حالیہ سرکاری نقطہ نظر کو تسلیم کرنا عام لوگوں کے لئے مشکل ہے کہ موجودہ کرنسی بحران کی وجہ پابندیاں ہیں۔ مارکسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پابندیوں نے ایران کی صورتحال ابتر کی ہے، خاص طور پر ان کی وجہ سے معیار زندگی گرا ہے، لیکن اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہئے کہ ان پابندیوں نے ایرانی سرمایہ داری کے پہلے سے جاری بحران کو ہی بڑھاوا دیا ہے۔ تیل اور قدرتی گیس کی برآمدات پر انحصار کی وجہ سے ایرانی حکومت عالمی منڈی کی انارکی میں کمزور حیثیت کی حامل ہے اور تمام تر ممالک عالمی منڈی کی اسی افراتفری کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ میری جن لوگوں سے بات ہوئی ان میں سے زیادہ تر نے یہی کہا کہ پابندیوں کے اثرات سے ہٹ کر جن بنیادوں پر معیشت کو چلایا جارہا ہے انہی میں خرابی موجود ہے۔
یہ بات بھی بالکل واضح تھی کہ اس پرت کے لوگوں (مڈل کلاس) کے خیال میں صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے عملی جدوجہد ضروری نہیں ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ لوگ آرام دہ طریقے سے گزر بسر کرنے کے قابل ہیں۔ مزید برآں 2009ء کی سبز تحریک (Green Movement) میں حصہ لینے والے زیادہ تر لوگ بد دلی کاشکار نظر آئے، تہران سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ایک صاحب نے کہا کہ مزید احتجاج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تبدیلی کے لئے کی جانے والی پچھلی تمام تر کوششوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا سوائے خون خرابے اور ریاستی جبر کے۔ تمام لوگ حکومت میں موجود تقسیم ریاست کے اندر سے ڈھے جانے کے تناظر سے باخبر تھے جس سے ان کی براہِ راست عملی اقدام نہ اٹھانے کی سوچ کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ تاہم جن نسبتاً آرام دہ حالات میں یہ لوگ زندگی گزار رہے ہیں زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہیں گے۔
معاشرے کی غریب پرتوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن کے پاس بحران سے بچاؤ کے وسائل موجود نہیں ہیں اپنی بقا اور روزی روٹی کی جدوجہد میں آخری حد تک جا چکے ہیں۔ جب بنیادی ضرورت کی اشیا ہی پہنچ سے باہر ہوں تو اس کا نتیجہ غم و غصے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ 23 جولائی کو نیشابر میں گوشت کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں یہی لوگ سب سے نمایاں تھے۔
جنوب مغربی صوبے خوزیستان کے صنعتی شہر ابادان میں سامان لادنے والے ایک مزدور نے مجھے بتایا کہ ماضی میں نسبتاًخوشحال یہ شہر موجودہ حکومت کے زیرِ اثر کس طرح غربت اور بدحالی کا شکار ہوگیا ہے۔ وجہ پوچھنے پر اس نے معیشت کو احسن طریقے سے چلانے میں حکومت کی ناکامی اور عوام کی فلاح و بہبود میں حکومت کی عدم دلچسپی کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ اس نے بتایا کہ کیسے گوشت اس کی قوت خرید سے باہر ہو چکا ہے۔ تاہم جب میں نے اس سے پوچھا کہ حالات کی بہتری کے لئے کیا کیا جانا چاہئے تو اس نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ۔ ایسے حالات میں جب کوئی سیاسی متبادل منظر عام پر نہ ہو، پنپنے والا خام غم و غصہ سیاسی عدم تحرک کا شکار ہی ہو سکتا ہے۔
تاہم معاشی بحران پورے ملک میں ابھی نہیں پھیلا۔ اصفہان صوبے کے ایک گاؤں میں قیام کے دوران مقامی لوگوں نے بتایا معمولاتِ زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ ان کے تجربات شہر میں رہنے والوں سے مختلف تھے کیونکہ استعمال کی تقریباً تمام اشیاء مقامی طور پر ہی پیدا ہوتی ہیں۔ مزید برآں وہ ملک کی سیاسی صورتحال سے کافی حد تک نا آشنا تھے۔ ایک مقامی باشندے نے سیاست پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ احمدی نژاد کا حامی تھا، اس کی بڑی وجہ سماج کی غریب ترین پرتوں میں بانٹی جانی والی ریاستی امداد تھی جو کہ ریاستی سبسڈی کے خاتمے سے لگنے والے دھچکے کو کم کرنے کے لئے دی جارہی تھی۔
صنعتی مراکز میں محنت کشوں کے خیالات اور جذبات کا تجزیہ میں زیادہ تفصیل سے نہیں کر سکا تاہم ایک بات واضح تھی کہ ریاست محنت کشوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ ابادان میں جہاں ایران کی سب سے بڑی آئل ریفائنری موجود ہے، اور ہفت تپہ میں گنے کے کھیتوں کے گرد سیکیورٹی بہت سخت تھی، مسلح اہلکار ریفائنری کو گھیرے ہوئے تھے اور ہفت تپہ سے ملحقہ سڑکوں پر کئی ناکے موجود تھے جہاں سے ہمیں گزرنے کی اجازت ایک قریبی تاریخی جگہ جانے کا بہانہ کر کے ملی۔ ایسا معمول ہے یا نہیں یہ میں نہیں جانتا، لیکن ہر دو صورتوں میں یہ اس بات کا اظہار ہے کہ حکومت محنت کشوں کے ان علاقوں کے بارے میں کتنی محتاط ہے۔ 1978-79ء کے انقلاب میں ابادان میں تیل کی صنعت کے محنت کشوں کی ہڑتال ہی نے شاہِ ایران کی حکومت پر کاری ضرب لگائی تھی اور موجودہ حالات میں ایسی کسی ہڑتال سے متشابہ نتائج برآمد ہوں گے۔ اگرچہ حکومت ابادان کے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ ’پاسدارانِ انقلاب‘ جیسے جبر کے آلات میں کام کرنے والے لوگوں کو اوسط سے زیادہ اجرتیں دیتی ہے لیکن معیارِ زندگی کی حالیہ بدحالی کی وجہ سے حکومت لازمی طور پر زیادہ محتاط ہو گئی ہے۔
ملک میں ہونے والے حالیہ واقعات سے یہ بات واضح ہے کہ محنت کشوں میں معیشت کو چلانے کے حکومتی طریقہ کار کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ چار مہینوں میں 13 مختلف صوبوں میں حکومت کے خلاف قراردادوں کی ایک مہم میں 23000 سے زائد افراد نے دستخط کئے ہیں جن میں افراطِ رز کے مطابق کم سے کم اجرتوں میں اضافے، نہ دی جانے والی اجرتوں کی ادائیگی اور کچھ صنعتوں میں مراعات میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ واضح اظہار ہے کہ محنت کش اپنی جدوجہد کو مشترکہ سمجھ رہے ہیں تاہم یہ بات معلوم نہیں کہ کیا ابادان کے محنت کشوں کے بھی یہی جذبات ہیں۔
ایسے واقعات کو مدنظر رکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ملک میں اٹھنے والی کسی بڑی عوامی تحریک کا کردار 2009ء کی سبز تحریک سے مختلف ہوگا۔ افراطِ زر کی وجہ سے حکومت کی مخالفت پر مجبور ہونے والی محنت کشوں کی پرتیں کسی بھی جدوجہد میں اہم کردار اد کریں گی۔ مڈل کلاس کی بد دلی کو دیکھیں تو اس خیال کو اور بھی تقویت ملتی ہے۔ اگرچہ موجودہ وقت میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد احتجاج کرنے پر مائل نہیں ہیں تاہم بحران کے مزید گہرا ہونے پر انہیں اپنا موقف تبدیل کرنا پڑے گا۔
متعلقہ:
تہران میں ایک بار پھر عوامی مظاہرے
ایران: تکلیف دہ امن آنے والی طبقاتی لڑائی کا پیش خیمہ