گلیمر میں لپٹی قدامت پرستی

[تحریر: لال خان]
خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت چند ہی ماہ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ قومی وطن پارٹی کے چیئرمین اور سینئر وزیر سکندر شیر پاؤ نے ایک پریس کانفرنس میں حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان پر کرپشن اور سفارش کے الزامات عائد کئے ہیں اور عمران خان کا ایک سفارشی خط میڈیا کو دکھایا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی جانب سے بھی قومی وطن پارٹی کے وزراء کو برطرف کرنے کی وجہ بدعنوانی بتائی جا رہی ہے۔ کرپشن کے خلاف اتنا بڑا’’سونامی‘‘ برپا کرنے والے آکر کار خود اس الزام کی زد میں آگئے ہیں۔
تحریک انصاف کی مقبولیت دراصل مختلف رجحانات کی حامل درمیانے طبقے کی مختلف پرتوں پر مبنی ایک عارضی ابھار تھا جس کا کسی سنجیدہ نظرئیے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے نظرئیے کو نئے رنگوں اور القاب میں ڈھال کر اربوں روپے کی میڈیا کمپئین کے ذریعے دائیں بازو کی مقبول پرستی کا کھیل رچایا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی سیاسی حمایت جس درمیانے طبقے پر مبنی ہے اس کا سماجی اور طبقاتی کردار متضاد اور متزلزل ہوتا ہے۔ انقلابی ادوار اور محنت کش طبقے کی تحریکوں کے ابھار کے عہد میں درمیانے طبقے کا جھکاؤ محنت کشوں کی جانب ہوجاتا ہے جبکہ رجعت اور سیاسی جمود کے ادوار میں یہ حکمران طبقات کی پیروی، تقلید اور ان جیسا بننے کی خواہش میں مسلسل اضطراب زدہ رہتے ہیں۔ مڈل کلاس کے سماجی وجود کی طرح ان کے سیاسی مظاہر بھی غیر مستحکم اور متزلزل ہوتے ہیں۔
آفتاب شیر پاؤ پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں اور ان کی قومی وطن پارٹی اسی کرپشن زدہ سرمایہ دارانہ نظام کی پروردہ ہے۔ کیا عمران خان کو پہلے قومی وطن پارٹی کے جنم اور ماضی کے ریکارڈ کا پتا نہیں تھا؟ یا پھر جمہوری وطن پارٹی بھی تحریک انصاف میں شامل ہونے والے درجنوں کرپٹ اور موقع پرست سیاستدانوں کی طرح انقلابی غسل کر کے پاک صاف ہوگئی تھی؟ اس نظام میں اقتدار کے حصول کے لئے ہر قسم کی سودہ بازی کرنی پڑتی ہے اور اسے قائم رکھنے کے لئے ضمیر، اصول اور نظریات بازار میں نیلام کئے جاتے ہیں۔ اس بحران زدہ نظام زر کی سیاست کا یہی اصول، طریقہ کار اور لائحہ عمل ہے۔
پختونخواہ میں تحریک انصاف نے تمام تر نعرہ بازی اور لفاظی کے باوجود وفاق اور باقی صوبوں میں بننے والی مخلوط حکومتوں کی طرح اقتدار کے حصول کے لئے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھا تھا۔ پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی کی کل 124نشستوں میں سے صرف 53 تحریک انصاف کے پاس ہیں اور حکومت قائم رکھنے کے لئے اسے کم از کم 67ممبران کی حمایت درکار ہے۔ قومی وطن پارٹی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد تحریک انصاف کے پاس بہت ہی معمولی اور نازک اکثریت رہ جائے گی۔ باقی رہ جانے والے اتحادیوں کی تو موجیں لگ جائیں گی کیونکہ حکومت برقرار رکھنے کے لئے ایک ایک ووٹ تحریک انصاف کے لئے قیمتی ہوگا۔ بلیک میلنگ بڑھے گی اور اس حوالے سے کرپشن اور لوٹ مار میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوگا۔ عمران خان کی تمام تر بیان بازی کے باوجود خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ تحریک انصاف کے لئے بڑا دھچکہ ثابت ہوگا۔
پیسے کی سیاست میں زیادہ تر سیاسی کھلاڑی اپنی سرمایہ کاری سے زیادہ سے زیادہ مالی مفادات حاصل کرنے کے لئے حصہ لیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھنے کے بعد عمران خان کافی حد تک ’عملیت پسند‘ ہوگئے تھے اور بڑے پیمانے پر موقع پرست اور کرپٹ عناصر کو اپنی جماعت میں خوش آمدید کہا۔ تحریک انصاف کے پاس اس معاشی نظام کو بدلنے کا کوئی نظریہ ہے، نہ ہی پروگرام اور لائحہ عمل۔ تحریک انصاف کی حکومت کے زیر اثر خیبر پختونخواہ کے عوام کی حالت زار میں رتی برابر بہتری بھی نہیں آئی ہے۔ تعلیم اور علاج سمیت بنیادی انسانی ضروریات کے شعبے میں کسی تبدیلی کا نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ مخالف نعرے بازی میں سب سے نمایاں صوبائی حکومت امریکی اور دوسرے مغربی ڈونرز سے پیسے لے خیرات کرنے میں مصروف ہے۔ یہ کام تو عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے بھی بہت اچھا کر لیتے تھے تو پھر اس تمام تر زحمت کی کیا ضرورت تھی؟ تبدیلی کا کیا ہوا ہے؟ کیا خیبر پختونخواہ میں حکمران طبقات کے فائیو سٹار تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو ریاستی تحویل میں لے کر غریبوں کے لئے کھول دیا گیا ہے؟ کیا ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری کرنے والے سرمایہ داروں کو پکڑ کر ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئی ہیں؟ اگر ابھی تک کوئی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو اس کا ازالہ وقت خود کر دے گا۔
موجودہ پھوٹ کا سب سے زیادہ فائدہ جماعت اسلامی کو ہوا ہے۔ عمران خان جماعت اسلامی کے صوبائی وزراء کے ’’مثالی کردار‘‘ اور ’’دیانتداری‘‘ کے قصیدے پڑھتے رہے ہیں۔ عمران خان کی بطور ’’غیرت مند مسلمان‘‘ مشہوری کے بعد ہی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا فطری اتحاد قائم ہوگیا تھا۔ تعلیمی نصاب میں جہادی تعلیمات شامل کرنے سے مذہبی دہشتگردوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت تک، دونوں جماعتوں میں صرف نام کا فرق ہے۔ عمران خان کی سیاست میں دراصل جماعت اسلامی سے ملتی جلتی قدامت پرستی اور رجعت کو گلیمر کے رنگین غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا تھا۔ یہ چمک دمک، رنگ و سرور، فیشن اور میڈیا کمپئین ’’سول سوسائٹی‘‘ (جسے قاضی سعید ’’شغل سوسائٹی‘‘ بھی کہتے ہیں) کی اکثریتی پرتوں کو تحریک انصاف کی طرف لے آئی۔ جماعت اسلامی کی نحیف سماجی بنیادیں اس کی نظریاتی کمرشلائزیشن سے مزید سکڑ گئی تھیں۔ عمران خان کی ’’گلیمرائزڈسیاست‘‘ کی شکل میں انہوں نے اپنے لئے ڈھال تشکیل کی اور اب اسے استعمال کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب جماعت اسلامی کھل کر رجعتی اقدامات کرنے پر اتر ے گی تو تحریک انصاف کی حمایت کرنے والی فیشن ایبل سول سوسائٹی کدھر جائے گی؟ تحریک انصاف کے جلسوں میں پاپ میوزک پر ناچنے والے لڑکیاں اور لڑکے تب کہاں جائیں گے جب میوزک پر پابندی لگائی جائے گی، عورتوں کو گھروں تک محدود کیا جائے گا اور نجی زندگیوں میں بدترین مداخلت ہو گی؟جماعت اسلامی کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ایم ایم اے کی حکومت میں عورتوں کی تصویروں پر پابندی لگائی گئی تھی، حکومتی سرپرستی میں گاڑیوں سے ٹیپ اور ڈیک نکال کر توڑے جانے کی مہم چلائی گئی تھی اور ملا فضل اللہ جیسے درندوں کو سیاسی، مالی اور عسکری امداد کے ذریعے پروان چڑھایا گیا تھا۔ ملاؤں کی حکومت سے تنگ آکر پختونخواہ کے عوام نے اے این پی کو ووٹ دئیے لیکن ان لبرل اور سیکولرسٹوں نے معاشی جارحیت اور کرپشن کے ذریعے پختونوں کی وہ درگت بنائی کہ کسی متبادل کے فقدان کی وجہ سے انہیں مجبوراً تحریک انصاف کا رخ کرنا پڑا۔ اب بنیاد پرستی پر لبرل ازم کی پالش والی اس حکومت نے چند مہینوں میں ہی انہیں مایوس کر دیا ہے۔
جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو ایک ایسے سماج میں اس کا خاتمہ ممکن نہیں جس کی اکثریتی معیشت کالے دھن اور بدعنوانی پر مبنی ہو۔ اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 2012ء کی نسبت افیون کی پیداوار میں 49 فیصد اضافہ ہو اہے۔ طالبان اور مذہبی دہشت گرد منشیات کے ہر 10 کلوگرام میں سے ایک کلوگرام ’’ٹیکس‘‘ کی شکل میں وصول کرتے ہیں۔ منشیات کی یہ کالی دولت پاکستان میں پختونخواہ سے ہی داخل ہوتی اور اس کی پکڑ اس لئے ممکن نہیں یہ کالا دھن ’’روک تھام‘‘ کرنیوالے تمام اداروں کے اندر تک سرائیت کر چکا ہے۔ مذہبی دہشت گردی اسے کالے دھن کی پیداوار ہے۔ نیٹو سپلائی روکنے کی بڑھک بازی کی حقیقت بھی سب جانتے ہیں۔ نیٹو سپلائی کے مخالفین کے بہت سے معاشی مفادات اس کے جاری رہنے سے وابستہ ہیں۔ طالبان کے بیشتر گروہ اس سپلائی کی مد میں بھتہ وصول کرتے ہیں اور نیٹو کے ٹرکوں میں ہی اسلحہ اور منشیات سمگل کیا جاتا ہے۔
تحریک انصاف جتنی تیزی سے ابھری تھی اتنی ہی جلدی ناکام اور بے نقاب ہوگئی ہے۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ فی الوقت سیاسی جمود کا شکا ر ہے لہٰذا حکمران طبقات کی باہمی لڑائیوں اور درمیانے طبقے کی مصنوعی جذباتیت کے گرد کھیل تماشا کر کے عوام کو محود رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا کیونکہ مزدوروں اور دہقانوں کی سیاست کا وقت اب قریب آرہا ہے، ذلت کی انتہا اور برداشت کی حد ہوچکی ہے۔

متعلقہ:
سونامی کی ناکامی
ویڈیو: کیا تبدیلی کا نعرہ لگانے والی سیاسی پارٹیاں کوئی تبدیلی لا سکتی ہیں؟
ویڈیو: کیا تحریک انصاف حقیقی تبدیلی لا سکتی ہے؟