’’بھارت بند‘‘

| تحریر: لال خان |

2 ستمبر کو ہندوستان میں دس بڑی ٹریڈ یونینز کی جانب سے ’’بھارت بند‘‘ کی جراتمندانہ پکار اورنعرے پر کی جانے والی عام ہڑتال اس خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال تھی۔ ٹریڈ یونین قیادت اور کمیونسٹ راہنما اس ہڑتال میں دس کروڑ افراد کی شمولیت کا دعویٰ کر رہے تھے لیکن جب دو ستمبر کو پندرہ کروڑ افراد نے پورے ملک کو ایک دن کے لیے مکمل جام کر دیا تو خود یہ راہنما بھی ششدر رہ گئے۔
india general strike 1کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا CPI کے جنرل سیکرٹری ایس سدھاکر ریڈی نے کہا کہ ،’’میرے خیال میں یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ہماری توقع سے بڑھ کرکامیابی تھی۔یہ محنت کش طبقے کا تاریخی کارنامہ ہے اور حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف ان کی جڑت کا اظہار ہے‘‘۔ بائیں بازو کی سب سے بڑی پارٹی ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ)نے کہا،’’ہڑتال کامیاب تھی، اس کے باوجود کہ مرکز نے آخری وقت پر محنت کشوں کو احتجاج سے روکنے کی کوشش کی۔(دائیں بازو کی ہندو بنیاد پرست تنظیم)آر ایس ایس کی حمایت یافتہ ٹریڈ یونین بھارتیہ مزدور سَنگھ کو ہڑتال سے پیچھے ہٹنے کے علاوہ وہ کسی بھی مرکزی یونین کو پیچھے نہیں ہٹا پائے‘‘۔ یونین لیڈروں کے مطابق ہڑتال نے بینکوں، ٹرانسپورٹ سمیت بجلی، گیس اور تیل کی سپلائی جیسی اہم صنعتوں کو متاثر کیا۔ CPI کی حمایت یافتہ ٹریڈ یونین آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس(AITUC) کے جنرل سیکرٹری گروداس داسگپتانے اس تحریک کو ’’شاندار‘‘ قرار دیا۔
سابقہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مایوس و بدگمان تمام نام نہاد’ کمیونسٹ‘،’ سوشلسٹ‘ اور لبرل تجزیہ نگار جو ہندوستان کے محنت کش طبقے کی طاقت کو رد کر چکے تھے ، انہیں محنت کشوں کی ہڑتال میں اتنی بڑی تعدادکی شرکت اورشدت نے رد کر دیا ہے۔ان کے ہندوستان کے پرولتاریہ کے متعلق تجزیے مکمل طور پر غلط ثابت ہو گئے ہیں۔اس تاریخی بدھ کے روز ایک جرات اور دلیری کی لہر پورے ہندوستان میں موجود تھی۔اسی باعث انتہائی دائیں بازو کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات کو ہڑتال کی شاندار کامیابی کو تسلیم کرنا پڑا۔درحقیقت اس ہڑتال نے ہندوستان کے بڑے دانشوروں اور ماہرین پر سکتہ طاری کردیا۔ ہندوستان کے ایک اہم لبر ل اخبار ’’دی ہندو‘‘ کے مطابق ،’’دس بڑی مرکزی ٹریڈ یونینوں کی جانب سے لیبرقوانین میں تبدیلیوں اور سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف ہڑتال سے ملک کے بہت سے حصوں میں عام زندگی متاثر ہوئی جن میں مغربی بنگال،تری پورہ،کیرالا اور کرناٹکا شامل ہیں۔ہڑتال کے باعث ملک کے مختلف حصوں میں ٹرانسپورٹ، بینک اور دوسری صنعتیں شدید متاثر ہوئیں۔‘‘
ہندوستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ این ڈی ٹی وی کے مطابق، ’’تقریباً پندرہ کروڑ افراد ملک گیر ہڑتال پر ہیں اور بینکوں اور ٹرانسپورٹ جیسی اہم سروس ملک کے مختلف حصوں میں بند ہیں۔ کولکتہ میں بائیں بازو کی خواتین کارکنوں کو پولیس سڑک پر گھسیٹ رہی ہے۔بینک، دکانیں اور بہت سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر موجود نہیں۔اس بھارت بندھ سے جنوبی ریاستیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ 3500 کے قریب سرکاری بسیں حیدرآباد دکن میں کھڑی ہیں جبکہ کیرالا کے شہر تھری ونانتھاپورم میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ رکی ہوئی ہے۔بنگلور میں سکول اور کالج بند ہیں۔ وزیر خزانہ ارن جیٹلے سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد دس بڑی ٹریڈ یونینوں نے اس ہڑتال کی کال دی۔بہت سے بینکوں نے پورے ملک میں سارا دن اپنے دروازے بند رکھے۔‘‘
ہڑتال اتنی شدید تھی کہ مغربی میڈیا بھی اس ہڑتال کے گہرے اثرات کو نہ چھپا سکا۔بی بی سی کے مطابق ،’’پورے ہندوستان میں آج محنت کش حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر نے کے لیے ایک روزہ عام ہڑتال کر رہے ہیں۔ان کے مطابق مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت کی ’’کاروبار دوست‘‘ پالیسیوں کے باعث ان کاروزگار خطرے میں ہے اور عام لوگ شدید متاثر ہو رہے ہیں۔یونینوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت سرکاری اداروں کی نجکاری اور لیبر قوانین میں تبدیلی نہ کرے ۔رپورٹوں کے مطابق تقریباً پندرہ کروڑ محنت کش جن میں بینک، مینوفیکچرنگ، تعمیرات اور کوئلے کی صنعت کے مزدور بھی شامل ہیں اور دس بڑی یونینوں سے تعلق رکھتے ہیں بدھ کے روز کام پر نہیں آئے۔ہڑتال سے پبلک ٹرانسپورٹ بھی شدید متاثر ہوئی ہے اور دارالحکومت دہلی سمیت بہت سے شہروں میں بس اڈوں پر مسافروں کی لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔‘‘
ہڑتال سے پہلے پیش کیے جانے والے بارہ نکات میں مہنگائی اور بیروزگاری روکنے کا مطالبہ بھی شامل تھا جبکہ دیگر مطالبات میں بنیادی لیبر قوانین پر سختی سے عملدرآمد،لیبر قوانین میں مجوزہ مزدور دشمن ترامیم کا خاتمہ اور سرکاری اداروں کی نجکاری کے منصوبوں کا خاتمہ شامل تھے۔یونینوں کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ تمام محنت کشوں کو جن میں غیر رسمی شعبے کے محنت کش بھی شامل ہیں انہیں سوشل سکیورٹی فراہم کی جائے اور کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے ماہانہ مقرر کی جائے۔بینکوں کی یونینیں بھی حکومت کی بینکوں کی مجوزہ نجکاری کیخلاف ہڑتال میں شامل تھیں۔غیر رسمی شعبے کے مزدوروں کو منظم کرنے والی بہت سی تنظیمیں بھی اس ہڑتال کی حمایت کر رہی تھیں۔
لیکن اس ہڑتال کا سب سے کلیدی پہلو محنت کشوں کا قیادت پر ایک لمبے عرصے سے بڑھنے والا مسلسل دباؤ تھا۔گزشتہ سال بھی فروری میں کانگریس حکومت کے خلاف دو روزہ عام ہڑتال کی گئی تھی جس میں دس کروڑ افراد نے شرکت کی تھی۔اس ہڑتال میں بی جی پی کی حمایت یافتہ یونین بھی شامل تھی۔لیکن بھارتیہ مزدور سنگھ کی عین موقع پر غداری کے باوجود ہڑتال میں پندرہ کروڑ افراد کی شرکت محنت کشوں میں موجود غم و غصے کا پتہ دیتی ہے۔
ہندو بنیاد پرست مودی کی گزشتہ سال مئی میں کامیابی اور پارلیمنٹ میں فیصلہ کن اکثریت کے بعد عالمی سرمایہ داری کے آقا خوشی سے جھوم رہے تھے۔مودی حکومت نے ’’اصلاحات‘‘ کے ایک سلسلے کا آغاز کیا تا کہ سرمایہ داروں کے منافعوں میں مزید اضافہ کیا جا سکے۔لیکن اتنی بڑی کامیابی اور سرمایہ داروں کی مکمل حمایت کے باوجود مودی کو اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ہندو بنیاد پرستوں کی حمایت ہونے کے باوجود مودی پر محنت کش عوام کا شدید دباؤ ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے نیو لبرل مزدور دشمن ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے سے خوفزدہ ہے۔ اسی وجہ سے اس پر سرمایہ داروں کی جانب سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ جلد از جلد ایسے قوانین بنائے جن سے ٹریڈ یونین کمزور یا بالکل ختم ہو جائیں اور ہندوستان کے محنت کشوں کا مزید استحصال کرنا آسان ہو جائے۔مودی کے سامراجی آقاؤں نے بھی اس ہچکچاہٹ پر ڈانٹ پلائی ہے۔ مودی کے ایک حمایتی اکانومسٹ نے 29 اگست کی اشاعت میں لکھا، ’’وزیر اعظم (مودی) بہت اچھا مقرر ہے۔لیکن وہ مشکل کام کرنے کی بجائے انہیں ملتوی کر رہا ہے۔۔۔ مودی کو سیاسی ناٹک کی زیادہ فکر ہے جبکہ قوانین پاس کروانے اور اصلاحات نافذ کرنے کے کٹھن کام کی اسے کوئی چنتا نہیں۔ایک سابق وزیر نے شکایت کی ہے کہ مودی پر جوش تقریریں تو بہت کرتا ہے لیکن ان منصوبوں پر عملی جامہ پہنانا بھول جاتا ہے۔۔۔سرمایہ کار شدید غصے میں ہیں کہ ٹیکس قوانین کی آسانی،کارپوریٹ ٹیکسوں میں کمی اور سرکاری اداروں کی نجکاری جیسے وعدوں پر تیزی سے عملدرآمد نہیں ہو رہا۔‘‘
یقیناًاس شاندار ہڑتال کے بعد دی اکانومسٹ اور دیگر سرمایہ دار سمجھ سکیں گے مودی کس سے خوفزدہ ہے۔لیکن اس کے باوجود مودی نے سرمایہ داروں کو نوازنے کے لیے ہندوستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اقدامات کیے ہیں۔اپنے پہلے ہی سالانہ بجٹ میں مودی اور اس کے وزیر خزانہ ارن جیٹلے نے کارپوریٹ ٹیکس میں 25فیصد کمی کا اعلان کیا تھا۔محنت کشوں پر ان شدید حملوں سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی نے پاکستان مخالف پراپیگنڈے کا بھی آغاز کیا اور مذہبی تعصبات کو ابھارا۔مودی کے اس عمل سے سرحد کے اس پار پاکستان کے ملا ؤں اور فوجی اشرافیہ کو مزید تقویت ملی اور انہیں ا پنی گرتی ہوئی مقبولیت میں جان ڈالنے کے لیے نئے مواقع میسر آئے۔آر ایس ایس ، شیو سینا اور وشوا ہندو پریشد جیسی ہندو بنیاد پرست تنظیموں کی متعصب تقریریں پاکستان میں ملاؤں کو یہاں پر نفرت پھیلانے کا موقع دیتی ہیں اور دونوں اطراف کے بنیاد پرست ایک دوسرے کی پھیلائی نفرت پر ہی پلتے ہیں۔اسی دوران سرحد اور لائن آف کنٹرول پر ہونے والی لڑائیاں اور ہلاکتیں دونوں اطراف کے رجعت پسندوں کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
مودی کے برسر اقتدار آنے کی وجہ جہاں کانگریس کے دس سالہ اقتدار کی ناکامی تھی وہاں بائیں بازو کی کمیونسٹ پارٹیوں کی نظریات سے غداری بھی اس کا ایک سبب تھی۔دس سال تک مزدور دشمن اقدامات کرنے اور سرمایہ داروں کو نوازنے کے نتیجے میں گزشتہ سال کے انتخابات میں کانگریس کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔بہت سی دیگر بورژوا پارٹیا ں بھی ذات پات، قوم پرستی سمیت لسانی، نسلی ، علاقائی اور مذہبی تعصبات کے گرد ہی سیاست کرتی ہیں اور اس حوالے سے ملک گیر پارٹیاں نہیں ہیں۔دوسری جانب کمیونسٹ پارٹیاں جنہیں 2005ء کے انتخابات میں بڑی حمایت ملی اور لوک سبھا میں 64 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئیں وہ بھی سوشلسٹ انقلاب کا پروگرام دینے کی بجائے کانگریس کی مخلوط حکومت کا حصہ بن گئیں۔ اس کے علاوہ مغربی بنگال، کیرالہ اور تری پورہ جیسی ریاستوں میں ایک لمبا عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود وہاں کے محنت کش عوام کی حالت زار میں تبدیلی نہیں لا سکیں۔ بلکہ اپنے آخری دور میں انہوں نے مزدور دشمن پالیسیوں کو اختیار کرتے ہوئے سرمایہ داروں کو نوازنا شروع کر دیا۔انہی پالیسیوں کے باعث گزشتہ سال کے انتخابات میں انہیں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس شکست کی اہم وجہ یہ تھی کہ کمیونسٹ پارٹیاں بھی وہی نیو لبرل پروگرام پیش کر رہی تھیں جس پر کانگریس اور دوسری مقامی بورژوا پارٹیوں کی حکومت عمل پیرا تھی۔
گزشتہ سال کے انتخابات میں یہ ’کمیونسٹ‘ راہنما سیکولرازم اور جمہوریت جیسے مبہم نعروں پر انتخابی مہم چلا رہے تھے جبکہ مودی جیسا ہندو بنیاد پرست انتہائی عیاری سے مذہبی تعصب کی بجائے معاشی پروگرام پیش کر رہا تھا۔ وہ اپنی تقریروں میں راہول گاندھی اور اس کی موروثی سیاست کو نشانہ بناتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ’’میں ایک چائے بیچنے والے کا بیٹا ہوں اور میری لڑائی سیاسی شہزادوں کے ساتھ ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے انتہائی مکاری سے دعوے کیے کہ وہ بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کرے گا۔ عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے اس نے انتخابات کو امیر اور غریب کی جنگ بنا دیا۔اس دھوکہ دہی کے باعث بی جے پی کو تاریخی کامیابی ملی جبکہ کمیونسٹ پارٹیاں جو طبقاتی نعرے ترک کر چکی ہیں، انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انقلابی سوشلزم کے پروگرام کو ترک کر کے پارلیمانی سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہونے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے اگر سرمایہ داروں کو نوازا جائے گا اور محنت کشوں پر گولیاں چلائی جائیں گی تو محنت کش ایسی قیادتوں کو کبھی قبول نہیں کرتے بلکہ سختی سے رد کر دیتے ہیں۔
اس شکست کے بعد بہت سے لیڈر مایوس ہو گئے تھے اور اپنے جرائم قبول کرنے کی بجائے ہندوستان کے محنت کش طبقے کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے تھے۔اسی دوران وہ مودی کی کامیابی کو ہندوستان میں فاشزم کی کامیابی قرار دے رہے تھے۔ ان کے خیال میں اب ہندوستان میں ایک تاریک دور کا آغاز ہو چکا ہے جو ایک طویل عرصے تک موجود رہے گا۔ان کے نزدیک پرولتاریہ ایک لمبے عرصے تک ابھر نہیں سکے گا اور یہ کہ طبقاتی کشمکش پس پشت چلی گئی ہے۔اسی تناظر کے پیش نظر بہت سے ’’کمیونسٹ ‘‘ راہنما اپنی مراعات کے تحفظ کے لیے بی جے پی اور دوسری دائیں بازو کی جماعتوں میں شامل ہو گئے۔لیکن اس کامیاب ہڑتال نے ان کے تناظر کو غلط ثابت کیا ہے اور ہندوستان کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی انقلابی صلاحیت پوری دنیا کے سامنے عیاں کی ہے۔ٹریڈ یونین کے راہنماؤں کو بھی نیچے سے ابھرنے والے دباؤ کو رستہ دینا پڑا اور وہ ہڑتال کی کال دینے پر مجبور ہوئے۔اگر وہ اس دباؤ کے باوجود ہڑتال کی کال نہ دیتے تو خود ان کی قیادت خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
لیکن اس کامیاب ہڑتال کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام کے حملوں میں کمی نہیں آئے گی اور نہ ہی محنت کشوں کی صعوبتوں میں کمی آئے گی۔مذاکرات تکلیف دہ حد تک طوالت اختیار کر سکتے ہیں اور کئی ماہ تک بے نتیجہ جاری رہیں گے۔حکمران طبقات کوشش کریں گے کہ محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیت کو زائل کیا جائے اور ان کو مایوس کیا جائے۔اس وقت اشد ضرورت ہے کہ اس انقلابی صلاحیت کو سیاسی رنگ دیا جائے۔کمیونسٹ پارٹیوں کی صفوں میں ہیجان موجود ہے لیکن ابھی اس کی شدت واضح نہیں ہے۔ان کی انتخابات میں شکست کے بعد بائیں بازو میں کوئی نیا متبادل بھی ابھر کر سامنے نہیں آیا۔ان پارٹیوں کی قیادتوں میں موجود تضادات اب زبان زد عام ہیں۔بد قسمتی سے یہ اختلافات کسی نظریاتی نکتے پر نہیں بلکہ تنظیمی اور ذاتی نوعیت کے ہیں ۔یہ قیادتیں سوویت یونین اور دیوار برلن کے انہدام اور چین کی سرمایہ داری کی واپسی کے عہد میں پروان چڑھے ہیں اور سخت مایوس اور بد گمان ہیں۔ لیکن انہی 25 سالوں میں ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے جس پر ماضی کی ناکامیوں کا کوئی بوجھ نہیں۔پرانے لیڈر سوویت یونین کے انہدام کو سوشلزم کی ناکامی سمجھ کر مایوس ہیں جبکہ درحقیقت وہ سٹالنزم کی ناکامی تھی۔اسی مایوسی میں وہ سرمایہ داری کے سامنے سر نگوں ہو گئے اور اس نظام سے مفاہمت کر لی۔بہت سے لیڈر تو سٹالنزم کے دو مرحلوں کے انقلاب سے پسپا ہو کر اب ایک ہی مرحلے پر اکتفا کر چکے ہیں جو سرمایہ دارانہ جمہوریت کا مرحلہ ہے۔
لیکن سرمایہ داری کا بحران سماج میں بے چینی کو جنم دے رہا ہے اور اس نظام سے نفرت بڑھ رہی ہے۔چونکہ تمام پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام پر ایمان لا چکی ہیں اس لیے نوجوانوں اور محنت کشوں میں سیاست سے ہی نفرت اور بیزاری جنم لے رہی ہے۔لیکن موجودہ عہد تیز ترین تبدیلیوں کا عہد ہے اور اس میں خلا کو پر کرنے کے لیے حادثاتی شخصیات اور پارٹیاں جنم لیتی رہیں گی اور سیاسی بیداری کا عمل جاری رہے گا۔دہلی کے انتخابات میں کیجری وال کی عام آدمی پارٹی اس کی ایک مثال ہے۔لیکن یہ عارضی اور سطح عمل ہے۔جیسے جیسے طبقاتی کشمکش میں شدت آئے گی ایسے عوامل دم توڑتے جائیں گے اور واقعات نوجوانوں اور محنت کش طبقے کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے انقلابی مارکسزم کی قوتوں کو پروان چڑھنے کے مواقع فراہم کریں گے۔ لیکن یہ عمل طویل ہوگا کیونکہ مارکسزم کی یہ قوتیں مکمل انقلابی تبدیلی کے لیے درکار موضوعی عنصر کے طور پر کمزور ہیں۔اس دوران یہ فیصلہ بھی ہوجائے گا کہ یہ کمیونسٹ پارٹیاں اس نئی انقلابی لہر کی قیادت کرنے کے قابل ہیں یا بالکل بوسیدہ ہو کر ناکارہ ہو چکی ہیں۔
telangana-strikeلیکن اس تمام عمل میں یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہڑتال بر صغیر میں طبقاتی کشمکش کے حوالے سے اہم سنگ میل ہے۔ یہ بھی خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اتنی بڑی کامیابی اس وقت حاصل کی گئی جب اس ہڑتال کے قائدین اتنی بڑی تعداد کی شرکت اور حمایت کی توقع نہیں کر رہے تھے۔سرمایہ داری ہندوستان کو ترقی دینے میں تاریخی طور پر ناکام ہو چکی ہے۔بلکہ اس نے غربت، ذلت، محرومی، بیماری اور جہالت میں مزید اضافہ کیا ہے۔اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے محنت کشوں کے لیے ایک چھوٹی سی بہتری بھی حاصل نہیں کی جا سکتی۔لیکن ہندوستان اب تیز ترین تبدیلی کے جس دور میں داخل ہو چکا ہے اس میں طبقاتی کشمکش میں شدت آئے گی۔ جلد سماج کی انقلابی تبدیلی کا سوال عوام کے سامنے آئے گا۔اس ہڑتال نے ثابت کیا ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر پہلو سماج میں بھی محنت کش ایک طبقے کے طور پر اکٹھے ہو کر فیصلہ کن لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ہندوستان کا سوشلسٹ انقلاب صرف ہندوستان کے محنت کشوں کو اس نظام کی جکڑ بندیوں سے آزاد نہیں کرے گا بلکہ پورے خطے میں پھیلتے ہوئے انقلابی فتوحات حاصل کرے گا جہاں دنیا کی 40 فیصد غربت موجود ہے۔ہندوستان، پاکستان،بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کے انقلابات ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ ایک ملک میں ابھرنے والی لہر پورے خطے میں پھیلے گی اور جنوبی ایشیا میں ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن یا سوویت یونین قائم کرے گی۔صرف اسی طرح دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کی نجات ممکن ہے۔ اس انقلاب کے پوری دنیا پر پڑنے والے اثرات ناقابل بیان ہیں!

متعلقہ:

ہندوستان: کوئلے سے اٹھتی چنگاری

ہندوستان: فریب جلد ٹوٹے گا!

ہندوستان: تبدیلی، کیسی تبدیلی؟

ہندوستان: مایوسی کا ووٹ

مایہ کی نگریہ میں جمہوریت کا بازار