ہالینڈ میں انتخابات: وحشت ٹلی لیکن جبر جاری

تحریر: لال خان

ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزیٹ کے حیران کن نتائج کے بعد بدھ کو ہالینڈ کے انتخابی نتائج نے ایک دفعہ پھر ذرائع ابلاغ کے تجزیہ نگاروں کو غلط ثابت کردیا، لیکن اس بار معاملہ الٹ تھا۔ اس بار انہوں نے انتہائی دائیں بازو کے گیرٹ ولڈرز کی شہرت کا غلط اندازہ لگایا۔ اُس نے جیت کی صورت میں ہالینڈ کو یورپی یونین سے نکالنے کی بات کی تھی۔ اس کی پارٹی 13.1 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی، میڈیا کے شوروغوغا کے باوجود اس کے ووٹوں میں صرف 3 فیصد اضافہ ہوا۔ اگرچہ ولڈرز کی زیر قیادت ایک ’نیو فاشسٹ‘ حکومت کا ’خطرہ‘ عارضی طور پر ٹل گیا لیکن دائیں بازو کی لبرل پارٹی اپنے لیڈر روٹ (Rutte) کی تیسری وزارت اعظمیٰ کے دوران محنت کشوں اور عوام کو حاصل فلاحی ریاست کی مراعات ( جو ماضی میں محنت کشوں نے اپنی جدوجہد سے حاصل کی تھیں) میں کٹوتیوں کا عمل جاری رہے گا۔ یورو زون مخالفت اور زینو فوبیا (غیرملکیوں سے نفرت) ختم نہیں ہوئی۔ روٹ نے ولڈرز کی نعرے باری کو قدرے ہوشیاری سے استعمال کیا ہے۔ مارچ کے شروع میں روٹ نے تارکین وطن کے نام ایک کھلے خط میں اُن سے کہا، ’’اگر تمہیں یہ جگہ پسند نہیں تو یہاں سے نکل جاؤ‘‘۔

دائیں سے بائیں: مارک روٹ اور گیرٹ ولڈرز

روٹ کی VVD اور کرسچن ڈیموکریٹس کی دائیں بازو کی پارٹیوں کے ووٹ سکڑ گئے ہیں اور ان کی پارلیمانی سیٹیں 79 سے 42 ہوگئیں۔ 150 کی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کم از کم 76 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن سب سے بڑی ہار ہالینڈ کی لیبر پارٹی کو ہوئی، جو پچھلی حکومت میں ایک اہم اتحادی تھی۔ لیبر پارٹی کو محنت کشوں نے پچھلی حکومت کے دوران دردناک کٹوتیوں اور سوشل ویلفیئر پر حملوں میں ساتھ دینے پر سزا دی۔ اس کے ووٹ 25 فیصد سے گر کر 6 فیصد ہوگئے۔ اب صرف نو سیٹوں کے ساتھ یہ گرین پارٹی اور سابقہ ماؤسٹ سوشلسٹ پارٹی سے بھی چھوٹی پارٹی بن گئی ہے۔ سوشلسٹ پارٹی کے تارکین وطن اور دوسرے مسائل پر دائیں بازو والے مؤقف کی وجہ سے اس کے ووٹ بھی 9.6 فیصد سے 9.1 فیصد پر آگئے۔ اس کے برعکس گرین لیفٹ کے ووٹ 2.3 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد ہوگئے۔ 34 سال کی عمر کے ایک تہائی سے زیادہ لوگوں نے انہیں ووٹ دیئے اور ایمسٹرڈم میں تو رائے دہندگان کے پانچویں حصے کے ووٹ حاصل کرکے یہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔
ہالینڈ میں انتہائی منقسم انتخابی مہم اور کشیدہ سماجی صورتحال کی وجہ سے ٹرن آؤٹ 82 فیصد رہا، جو پچھلے 31 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ لیکن اپنی تمام تر شدید نعرے بازی کے باوجود گرین پارٹی والے اور ڈیموکریٹس، ’روٹ‘ کی قیادت میں ایک دائیں بازو کی حکومت میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی زیادہ تر حمایت پیٹی بورژوازی کی کچھ پرتوں میں ہے، جس کی وجہ سے یہ پارٹیاں امریکہ میں ان لوگوں کی طرح ہیں جو ٹرمپ کی مخالفت میں بالآخر وال سٹریٹ کی حمایت اور سرمایہ دارانہ ڈیموکریٹک پارٹی کی گود میں چلے جاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس حقیقی تبدیلی کا کوئی واضح پروگرام نہیں ہوتا۔
ان انتخابات کے نتیجے میں ہالینڈ شاید اپنی جدید تاریخ کی سب سے پیچیدہ اتحادی حکومت کی تشکیل کی طرف جائیگا، نتیجتاً کم از کم چار پارٹیوں کی مخلوط حکومت بنے گی جو سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے ’ہالینڈ کی بقا ‘کے لیے کٹوتیوں (آسٹیریٹی)کے فیصلے کریں گی، اگرچہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ہالینڈ کے محنت کشوں کی بغاوت ’فی الحال‘ فتح کا جشن منانے والی پارٹیوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوگی اور نئی حکومت بہت جلد تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کے برعکس مشکل میں پڑ جائے گی۔
ہالینڈ کے یہ انتخابات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یورپ اور دوسری جدید سرمایہ دارانہ ریاستوں میں معاشی توازن کے بگاڑ نے اصلاحات اور سماجی فلاحی ریاست کے نظام کو چکنا چور کردیا ہے۔ اس سے سیاسی توازن بھی بگڑ رہا ہے۔ یورپ میں محنت کشوں اور حتیٰ کہ سرمایہ داروں کی پارٹیاں بھی زوال کی کیفیت میں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہالینڈ کی سیاست پر راج کرنے والی دو بڑی پارٹیوں، کرسچن ڈیموکریٹس اور سوشل ڈیموکریٹس، کی شکست و ریخت اس عمل کی غمازی کرتی ہے۔ اتحادی حکومت کی تشکیل میں کافی وقت لگے گا، اس دوران خوب ہارس ٹریڈنگ اور پس پردہ معاہدے ہوں گے۔ یہ اپنے آغاز سے ہی بحران کا نسخہ ہوگا۔ اتحادیوں کا ایک حصہ اعتراضا ت، فیصلوں پر اختلافات اور ’تحفظات‘کا اظہار کرے گا تو نام نہاد بایاں بازو سخت ترین کٹوتیوں پر احتجاج کریگا اور حکومت چھوڑنے کی دھمکیاں دی جائینگی، کیونکہ سماجی عدم استحکام کے اس دور میں پارٹیوں پر نیچے سے بہت ہی زیادہ دباؤ ہے۔
ہالینڈ میں بعد از عالمی جنگ معاشی ابھار کے دور میں حالات بہت ہی مختلف تھے۔ ایمسٹرڈم کو’یورپ کا دل‘ کہا جا تا تھا۔ ستر کی دہائی میں لیبر پارٹی کی حکومت نے سب سے ریڈیکل اصلاحات کیں۔ وزیراعظم جوپ ڈینئل نے آمدنی کی مساوی تقسیم پر زور دیا اور صحت، تعلیم اور رہائش کے شعبوں میں ریڈیکل اصلاحات متعارف کروائیں۔ ڈینئل نے معاملات کے خفیہ رکھنے کو مسترد کیا اور سیاسی طاقت سے منسلک رعونت کو بھی مسترد کیا۔ وہ طلبہ اور ٹریڈ یونینز کے سرگرم کارکنان کے ساتھ میٹنگز میں شریک ہوتا اور حتیٰ کہ احتجاجی مظاہروں میں بھی جاتا۔ آج کل جب تارکین وطن کو تمام تر مسئلوں کی وجہ قرار دیتے ہوئے انہیں یورپ سے نکالا جا رہا ہے، کچھ لوگ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ڈینئل کی حکومت نے اُس وقت ہالینڈ میں رہنے والے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی حیثیت دی تھی۔ لیکن ڈینئل کی حکومت بھی اپنی بہت سی اصلاحات کو لاگو نہ کرسکی کیونکہ ہالینڈ کی سرمایہ داری کی حدود و قیود اپنے عروج کے دنوں میں بھی اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھیں۔ آنے والے سالوں میں معاشی ترقی کم ہونا شروع ہوئی، حکومتی اخراجات بڑھ گئے اور حکومتی اصلاحات کی وجہ سے بورژوازی اپنی شرح منافع کے بارے میں فکرمند ہونا شروع ہوئی۔ سرمایہ داری کے بحران کے پیش نظر کینشین ماڈل (ریاستی سرمایہ داری) کے انہدام اور نیو لبرل معاشیات کے اطلاق سے ہالینڈ کا سماج سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر زوال پذیر ہوگیا۔
’ولڈرز‘ کا ابھار ہالینڈ کی سیاست میں کسی حد تک دائیں بازو کی طرف شفٹ کی علامت ہے، اس کی وجہ نہیں ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ سماج کے گہرے بحران اور ہالینڈ کے بائیں بازو اور محنت کشوں کی روایتی سیاسی و ٹریڈ یونین قیادت کی محنت کشوں کو ایک انقلابی متبادل دینے میں نااہلی یا زوال پذیر نظام سے مصالحت کی غمازی کرتا ہے۔ یہ بحران دراصل نظام کے نامیاتی بحران کی غمازی کرتا ہے، باوجودیکہ جنوب یورپی ممالک کی نسبت ہالینڈ کی معیشت نسبتاً مستحکم ہے۔ یہ انتخابی نتائج آنے والے دنوں میں سیاسی عدم استحکام اور شدید طبقاتی جدوجہد کا پیش خیمہ ثابت ہونگے۔ ہالینڈ 17 ملین آبادی والا ایک چھوٹا سا ملک ہے، لیکن آج یہ گہرے سماجی، معاشی اور ثقافتی بحرانوں کا شکار ہے۔ ایک سابق نوآبادیاتی طاقت ہونے کے پیش نظر بعد از جنگ کے معاشی ابھار کے دور میں اس نے تارکین وطن محنت کشوں کی بڑی تعداد کو ملک میں قبول کیا۔ اب معاشی زوال کے عہد میں تارکین وطن بڑھتی ہوئی نابرابری میں سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔
80ء کی دہائی سے دائیں بازو کی لبرل جماعت کے ساتھ ساتھ لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونین قیادت بھی بورژوا پارٹیوں کے ساتھ مصالحت کررہی ہے اور محنت کشوں کی حاصل کی گئی حاصلات کو ختم کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہالینڈ کے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کی طاقتورروایات موجود ہیں۔ یہ تضادات اور دائیں بازو کے عارضی ابھار بہت جلد ختم ہونگے اور سماج ایک دفعہ پھر بائیں طرف پیش رفت کرتے ہوئے پورے یورپی براعظم کو اپنے لپیٹ میں لیں گے۔ یورپ کو صرف اور صرف ’سوشلسٹ فیڈریشن آف یورپ‘ کی بنیاد پر ہی متحد کیا جاسکتا ہے۔ یورپ کے کسی ایک اہم ملک میں پرولتاریہ کی انقلابی فتح اس عمل کو یقینی بنائے گی۔