غزہ پر اسرائیلی جارحیت؛ مقاصد کیا ہیں؟

’’جب سیاسی رہنما امن کی بات کریں تو عام لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ جنگ شروع ہونے والی ہے‘‘ (برتولت بریخت)

[تحریر: ایلن وڈز، ترجمہ: عمران کامیانہ]
15نومبر کی صبح اسرائیل نے حماس کے رہنمااحمد الجباری کو غیر عدالتی طور پر قتل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل اور غزہ کے درمیان خونی تنازعے کا آغاز ہو گیا۔ یہ تمام تر سلسلہ پہلے سے سوچی سمجھی اشتعال انگیزی کی پیداوار تھا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو واضح طور پر حماس کو جنگی تنازعے میں الجھانا چاہ رہا تھاجس میں وہ کامیاب ہوا۔ حماس نے غزہ کی سرحد پر واقع اسرائیلی شہروں پر جواب میں راکٹ داغے جنہیں اسرائیل نے غزہ کو تباہ و برباد کرنے کا جواز بنایا۔ 16 اور 17 نومبر کی درمیانی شب اسرائیلی فضائیہ نے پولیس سٹیشنوں، حماس کی وزارتوں، مصر کی سرحد پر واقع سرنگوں سمیت غزہ کی پٹی میں کئی دوسرے اہداف کو نشانہ بنایا۔ بعد کے حملوں میں غیر ملکی صحافیوں کے زیرِ استعمال ایک عمارت کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی پراپیگنڈا مشین نے جھوٹ کی انتہا کرتے ہوئے فوجی کاروائی کو ’’دہشت گردوں کے حملوں‘‘ کا جواب قرار دیا۔ بڑی فرمانبرداری سے پیروی کرتے ہوئے مغربی میڈیا نے تنازعے کو دو برابر طاقتوں کے درمیان جنگ قرار دیا، یعنی ’’اسرائیلی بمباری بمقابلہ حماس کے راکٹ‘‘۔ لیکن یہ تنازعہ مبالغہ آرائی کی حد تک دو غیر مساوی قوتوں کے درمیان ہے۔
غزہ ایک کھلا قید خانہ ہے جہاں 17 لاکھ لوگ محض 140 مربع کلومیٹر کے رقبے میں مقیم ہیں۔ یہ علاقہ مکمل طور ہر اپنے ہمسائے اسرائیل کے رحم و کرم پر ہے جس کے پاس خطے کی سب سے طاقتور فوجی طاقت موجود ہے۔ اسرائیلی ہتھیاروں کا خرچہ، جس میں ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہیں، سالانہ 3ارب ڈالر کی امریکی امداد سے چلتاہے۔ غزہ کی طرف سے داغے جانے والے قدیم زمانے کے راکٹ کسی بھی طور پر اسرائیلی فوج اور فضائیہ کے مد مقابل نہیں ہیں۔ اسرائیلی جیٹ طیارے اور ڈرون دن رات غزہ پر بمباری کر رہے ہیں۔
اسرائیلی دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ ’’دہشتگردوں‘‘ اور حماس کے کارکنوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن ٹی وی کیمرے اس تمام تر پروپیگنڈا کا پول کھول رہے ہیں۔ اسرائیل کے ان دعووں کے بر عکس کہ اہداف کو بڑی احتیاط سے نشانہ بنایا جارہا ہے، مرنے والوں میں زیادہ تر تعداد عورتوں، بچوں اور عام شہریوں کی ہے۔ چھوٹے بچوں کی لاشیں اٹھائے رشتہ داروں کے خوفناک مناظر نے دنیا بھر کے لوگوں کی رائے کو اثر انداز کیا ہے۔
جنگ بندی کی باتوں کے باوجود اسرائیل کی فضائی بمباری اور غزہ کی طرف سے دور تک مار کرنے والے راکٹوں کے حملے جاری ہیں۔ اسرائیل کی طرف جانے والے راکٹوں کے مناظر مورال کو بلند کریں یا نہ کریں، لیکن جنگی ہتھیار کے طور پر وہ بالکل بھی موثر نہیں ہیں۔ سوموار کی شام تک کم از کم 100فلسطینی جبکہ صرف 3 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔ یہاں خون کے بدلے خون والا معاملہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کا جانی نقصان اسرائیل سے 30گنا زیادہ ہے۔
اسرائیل کے مطابق انہوں نے اپنے Iron Doom دفاعی نظام سے زیادہ تر راکٹوں کو راستے میں ہی تباہ کر دیا ہے اور اسرائیل میں ہونے والے کم جانی نقصان سے ایسا لگتا بھی ہے، لیکن یہ دعویٰ کہ اس دفاعی نظام نے 90 فیصد راکٹوں کو تباہ کیا ہے سراسر مبالغہ آرائی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اب زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ 16نومبر کو اسرائیلی کیبنٹ نے وزیرِ دفاع ایہود براک کی 75000ریزرو فوجی بلانے کی درخواست منظور کی ہے۔ یہ تعداد 2008-2009ء میں غزہ پر حملے کے دوران فوجیوں سے زیادہ ہے۔ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، آرٹلری اور فوجی بڑی تعداد میں بارڈر کی طرف لائے جا رہے ہیں۔ تاہم دیکھنا ہو گا کہ ایسا صرف دھمکی اور دہشت کے لئے کیا جارہا ہے یا پھر اس سے بڑھ کر کسی چیز کی تیاری کی جارہی ہے؟

اس سب کا مقصد کیا ہے؟
اس وقت غزہ پر حملے کرنے کے پیچھے اسرائیل کے کیا مقاصدہو سکتے ہیں؟
حملے کے اوقاتِ کار محض اتفاق نہیں ہو سکتے۔ آج سے چار سال پہلے، 4نومبر 2008ء کو جب امریکی صدارتی الیکشنوں کی تیاری کر رہے تھے، اسرائیلی فوج ٹینکوں، توپوں اور بلڈوزر لے کر غزہ میں گھس گئی تھی۔ اس وقت اس کا مقصد حماس کے زیرِ اثر اسلحہ سمگل کرنے والی سرنگوں کی تباہی بتایا گیا تھا۔ حماس نے مارٹر اور راکٹوں سے جواب دیا۔ 27 دسمبر 2008ء کو ’’آپریشن کاسٹ لیڈ‘‘ کا آغاز کیا گیا جس میں 7دن کی فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ 15دن کا زمینی حملہ بھی شامل تھا۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فوج کے مطابق صرف 10 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے، جن میں سے 4فرینڈلی فائر کا نشانہ بنے۔ حماس کی طرف سے داغے جانے والے ہزاروں راکٹوں سے صرف 3اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے۔ جبکہ 1166فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں سے 709 کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ جنگجو تھے۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ نیتن یاہو ایران پر بمباری کرکے اس کا ایٹمی پروگرام ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ نیتن یاہوامید کررہا تھا کہ امریکی الیکشنوں میں مٹ رومنی جیتے گا۔ ریپبلکن ایران پر حملے کی حمایت کے لئے مشہور ہیں۔
اوباما امریکی سرمایہ داری کا زیادہ محتاط نمائندہ ہے اور ایران پر فضائی بمباری سے برآمد ہونے والے نتائج کے بارے میں پریشان ہے۔ امریکی انتخابات سے کچھ ہی دنوں بعد نیتن یاہو یہ پیغام واشنگٹن بھیجنا چاہ رہا ہے کہ ’’اوباما کا جو دل چاہے وہ کہے، لیکن دنیا کے اس خطے میں کیا ہوگا اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘‘۔
یہ کہا گیا ہے کہ غزہ میں موجود کئی گروپس دور تک مار کرنے والے راکٹ مقامی طور پر تیار کر رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسرائیل پر داغے جانے والے راکٹ ایران سے درآمد کئے گئے ہیں اور یہ الزام سارے تنازعے کو خونی طرف لے جاتے ہوئے نیتن یاہو کو ایران پر حملے کا جواز فراہم کرے گا۔
ہوسکتا ہے اسی دوران اسرائیل مصر کی نئی حکومت کو بھی پیغام دینا چاہ رہا ہو۔ اخوان المسلمون کی حکومت کے بارے میں اسرائیل کی مخالفت اور حماس کی حمایت کا تاثر پایا جاتا ہے۔ لیکن اس حملے نے مورسی کی حکومت کی کمزوری اور بزدلی کو عیاں کر دیا ہے۔ مصری حکومت غزہ میں ’’انسانی تباہی‘‘کا شور تو مچا رہی ہے لیکن اس نے غزہ کے دفاع کے لئے انگلی تک نہیں ہلائی۔

مذاکرات کا تناظر
حالیہ تنازعے نے ایک بار پھر نام نہاد اقوامِ متحدہ کے خصی پن کا پول کھول دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ وہ غزہ جائے گا، لیکن وہ کچھ بھی کر نہیں پائے گا۔ قاہرہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی کئی قسم کی متضاد افواہیں گشت کر رہی ہیں۔ حماس کے ایک ترجمان نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ اسرائیل اور حماس نئی جنگ بندی کی’’ 90فیصد شرائط پر راضی ہو چکے ہیں‘‘، لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ باقی کی 10 فیصد شرائط کیا ہیں؟اسرائیلی حکام پہلے خبر رساں اداروں کو بتا رہے تھے قاہرہ کے ساتھ اسرائیلی حکومت مذاکرات کر رہی ہے، تاہم اب قاہرہ میں کسی اسرائیلی وفد کی موجودگی کی ہی تردید کی جارہی ہے۔ اس قسم کی کسی ڈیل کی بنیادیں بھی موجود ہیں۔ لیڈر شپ اور انفراسٹرکچر کی تباہی سے صرفِ نظر حماس کو تل ابیب کے خلاف اپنے دور مار راکٹوں کی وجہ سے شہرت اور علامتی فتح ملے گی جبکہ اسرائیل زمینی حملہ کئے بغیر حماس کے دور مار راکٹوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے گا، کیونکہ شہر کی گلیوں میں جنگ اور خود کش بمبار مہنگے پڑ سکتے ہیں۔
حماس اسرائیل کی طرف سے اپنے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ بند کرنے اور مصرکی طرف سے غزہ کا محاصرہ اٹھانے کے بدلے عارضی جنگ بندی کرنا چاہے گا لیکن اسرائیل کی طرف سے ایسے کسی معاہدے کی منظوری مشکوک ہے۔ ایسی کسی ڈیل کی گارنٹی کون دے گا؟ جب تک مصر حماس کے راکٹوں کی بندش کی ذمہ داری نہ لے تب تک اسرائیل ان مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لے گا۔ لیکن اس سے مصر براہِ راست اس تنازعے میں ملوث ہو جائے گا اور مورسی کی حکومت کی بنیادیں کمزور ہو جائیں گی۔
دونوں فریقین ایسی شرائط پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جو دوسرے فریق کی پوزیشن کو کمزور کریں۔ ایک معاہدے تک پہنچنے کے لئے حماس کو اسرائیل کے وجود کا حق تسلیم کرنا پڑے گا جبکہ اسرائیل کو حماس کی زیرِ قیادت فلسطینی ریاست تسلیم کرنی ہو گی جوکہ غزہ میں میں حماس کی حکومت اور بعد میں مغربی کنارے میں حماس کے قبضے کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔
حماس اپنے راکٹ ختم نہیں کرسکتی جبکہ اسرائیل، حماس کی ایسے اسلحے تک رسائی برداشت نہیں کر سکتا جو اس کے مرکزی علاقے کے لئے خطرہ ہوں۔ دور تک مار کرنے والے فجر5راکٹ تل ابیب اور یروشلم تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ راکٹ حماس کی سٹریٹجک پوزیشن کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی کناے میں حماس کی مدمقابل فلسطینی نیشنل اتھارٹی کو بھی زیر کرنے میں مددگار ہیں۔ لہٰذا حماس کسی ایسی ڈیل کی مخالفت کرے گا جو اسے ان راکٹوں سے محروم کرے لیکن اسرائیل فجر 5راکٹوں کی حماس کے پاس موجودگی کو برادشت نہیں کرے گا۔ کسی معاہدے سے پہلے اسرائیل اور حماس حملے جاری رکھ کے مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگرچہ غزہ پر براہِ راست حملہ فی الحال اسرائیل نے ملتوی کر دیا ہے لیکن وہ کسی بھی وقت ایسا حملہ کرنے میں پوزیشن میں ہے۔ اگرچہ اسرائیل اپنے جانی نقصان اور سیاسی ردِ عمل کی وجہ سے زمینی حملہ نہیں کرنا چاہے گا لیکن اس سلسلے میں اس کی تیاری مکمل ہے۔ اور یہ خالی خولی لفاظی بھی نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو اس ہفتے کے آخر تک زمینی حملہ کیا جاسکتا ہے۔

غزہ اور عرب انقلاب
یورپی طاقتیں اسرائیل پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ غزہ پر زمینی حملہ نہ کرے۔ یورپی سرمایہ دارخوفزدہ ہیں کہ خطے میں کسی قسم کا سنجیدہ مسئلہ کنٹرول سے باہر ہو سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ ’’انسانیت‘‘ کی بات کرتے ہیں لیکن ان کی حقیقی مقاصد کچھ اور ہیں۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کمزور معاشی بحالی اور تیل کی قیمتوں پر اس تنازعے کے اثرات سے خوفزدہ ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ عرب کی سڑکوں پر کسی نئے انقلاب کے پھٹ پڑنے سے خوفزدہ ہیں۔ امن کی اپیلوں کے پیچھے یہی وجوہات کارفرما ہیں۔ لیکن یورپی حکومتیں، یورپی یونین کو ٹوٹنے سے بچانے میں اتنی مصروف ہیں کہ غزہ کا معاملہ ان کے لئے ثانوی نوعیت کا ہے۔
امریکہ میں بالائی سطح تک خدشات موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہیلری کلنٹن قاہرہ پہنچ رہی ہے لیکن عراق میں اپنی انگلیاں جلانے کے بعد واشنگٹن میں بیٹھے معززین مشرقِ وسطیٰ کے کسی اور تنازعے میں الجھنا نہیں چاہتے۔ امریکی حکومت اسرائیل کی مخالفت نہیں کر سکتی ہے کیونکہ عرب انقلاب کے بعد خطے میں ان کا یہی ایک قابلِ بھروسہ حلیف بچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکارانہ لفاظی کے باوجود اوباما نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔
بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو اسرائیل اس سے پہلے اتنا تنہا کبھی نہیں ہواہے۔ حسنی مبارک کے جانے کے بعد مصر میں بننے والی حکومت پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 2008ء میں ترکی امریکہ اور اسرائیل کا قریبی حلیف تھا لیکن مئی 2010ء میں غزہ کی طرف امداد لے جانے والے بحری جہاز پر اسرائیلی حملے، جس میں کئی ترک شہری ہلاک ہوئے تھے، کے بعدترک اسرائیلی تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ ترک وزیرِ اعظم طیب اردگان نے حال ہی میں اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیا ہے۔ بشارالاسد کی زیرِ قیادت شام ایک رکاوٹ تھا لیکن اس کا رویہ قابلِ پیش گوئی تھا۔ لیکن اب شام میں جاری انتشار لبنان تک پھیلنے کے باعث دمشق حکومت حزب اللہ کو قابو کرنے کے سلسلے میں قابلِ اعتماد نہیں رہی۔ غزہ کا بحران مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اردن میں مقیم فلسطینیوں کو مشتعل کرسکتا اوراردن کی بادشاہت ایک کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ہے۔
لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک مصر ہے۔ مصری حکومت قاہرہ کی سڑکوں پر نئی جنگ کے خوف سے جنگ بندی کروانے میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ مصر جنگ بندی کے مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے جس میں حماس اور اسلامی جہاد کے سرکردہ رہنماشامل ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اسرائیلی حکام بھی قاہرہ میں موجود ہیں۔ مصری حکومت کے مفادات اسرائیل کو زمینی حملے سے روکنے سے وابستہ ہیں۔ اخوان المسلمین کے بارے میں حماس کا حمایتی ہونے کا تاثر پایا جاتا ہے، لیکن یہ حمایت منافقانہ تقریروں سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ مورسی کو اسرائیل سے یہ وعدہ کرنا پڑے گا کہ وہ غزہ میں ہتھیاروں کی سپلائی روکنے کے لئے سب کچھ کرے گا۔ اس کی اصلیت لوگوں کے سامنے کھل کر سامنے آجائے گی۔
حماس کے رہنما حزب اللہ کی طرز پر نام نہاد فتح کا ڈرامہ رچانا چاہتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ موجودہ بحران انہیں اسرائیل پر علامتی فتح جیتنے کے قابل بنائے گا۔ لیکن یہ محض ایک خواب ہے جس کا نتیجہ غزہ کی مکمل تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
غزہ کے لوگوں پر گہری مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جو واقعات ان کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں وہ ان کے بس سے باہر ہیں۔ وہ اسرائیلی
ظالموں کے ساتھ ساتھ مولویوں سے بھی نفرت کرتے ہیں جنہوں نے انہیں موت اور تکالیف کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ حماس اور نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کے پاس کوئی حل موجودنہیں۔ صرف ایک حقیقی انقلابی قوت فلسطینیوں کو اس بحران سے باہر نکال سکتی ہے۔
اپنے تئیں اسرائیل یہ سب کچھ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے کر رہا ہے، لیکن ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ اسرائیل غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔ خطے میں اور بین الاقوامی طور پر یہ تیزی سے تنہا ہوتا جارہا ہے۔
ان ظالمانہ حملوں نے فلسطین کے پیچیدہ سوال کو مزید بل دے دئیے ہیں۔ موت اور تباہی کا ننگاناچ فلسطینیوں کی نئی نسل کو انتقام کی آگ سے بھر دے گا۔ ان حملوں سے آنے والی اسرائیلی نسلیں کس طرح محفوظ ہو ں گی یہ ایک معمہ ہے۔ فضائی حملے میں مرنے والا ہر بچہ انتقام کی پیاس کو مزید بڑھاتا ہے۔ اس راستے پر اس بد قسمت خطے کے لوگوں کے لئے تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس جدوجہد میں عالمی مارکسی رجحان (IMT) واضح طور پر مظلوم کے ساتھ اور ظالم کے خلاف صف آراء ہے۔ یہ سوال کہ پہل کس نے کی اور اس طرح کے دوسرے سفارتی آداب پر مبنی سوالات ہمارے لئے معنی نہیں رکھتے۔ ہم غزہ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ کندھے سے کندھا ملائے اسرائیلی جارحیت پسندوں کے خلاف کھڑے ہیں۔ ہم کسی بھی جنگ مخالف مظاہرے یا تحریک میں پیش پیش ہونگے۔ ہم مغربی حکومتوں کی منافقت اور ان کی ’’انسانیت‘‘ پر مبنی لفاظی کو سب کے سامنے ننگا کریں گے۔
ہمیں غزہ میں موجود نوجوانوں کی سب سے انقلابی پرتوں کے ساتھ رابطے بنانے ہونگے جو اسرائیلی ریاست کے ساتھ ساتھ حماس کی رجعتی قیادت اور فلسطینی قیادت کے مصالحانہ اور بورژوا دھڑے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہمیں وسیع تناظر تخلیق کرنا ہو گا۔ موجودہ تنازعہ مشرقِ وسطیٰ کی بڑی تصویر کا صرف ایک حصہ ہے اور اسے سیاق و سباق سے باہر نہیں سمجھا جا سکتا۔
غزہ کا بحران، آنے والے بڑے بحران کاآغاز ہے۔ اس کی کڑی نیتن یاہو کے ایران پر فضائی حملے کے منصوبے سے ملتی ہے جو پورے مشرقِ وسطیٰ کو بھڑکا کے رکھ دے گا۔ اس کے معاشی و اقتصادی نتائج کا ابھی اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے عرب دنیا اور اس سے باہر بھی عوامی ابھاروں کی نئی لہر کا آغاز ہوگا۔ حکومتیں گریں گی، لوگ سڑکوں پر آئیں گے، تیل کی قیمتیں قابو سے باہر ہو جائیں گی اور عالمی معیشت گہری کھائی میں جا گرے گی جیسا کہ 1973ء میں اسی قسم کی صورتحال کی وجہ سے ہوا تھا۔
غزہ کا بحرا ن جلتاہوا تیل ثابت ہوسکتا ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں جمع شدہ تمام بارودکو اڑا کے رکھ دے۔ یہ عرب انقلاب میں ایک نئے مرحلے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ایک ایسا مرحلہ جس میں عالمی سطح پر ڈرامائی واقعات ہوں گے۔
20نومبر 2012ء

جیسا کہ تین دن پہلے لکھے گئے اس آرٹیکل میں تناظر پیش کیا گیا تھا، حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ مصر نے اس سلسلے میں سب سے سرگرم کردار ادا کیا ہے ۔ لیکن پر گزرتے دن کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی و معاشی تضادات شدید ہوتے جارہے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر ڈرامائی واقعات کو جنم دے سکتے ہیں۔سرمایہ دارانہ بنیادوں پر عارضی جنگ بندیاں اور نام نہاد امن لمبے عرصے تک پائیدار ثابت نہیں ہو سکتا۔