تحریر: لال خان
تاریخ گواہ ہے کہ حکمران اپنی طاقت کے نشے، اپنی حاکمیت کے گھمنڈ اور وحشت میں ایسے کام کروا بیٹھتے ہیں کہ انکے یہ معمول کے مظالم بھی بعض اوقات غیر معمولی واقعات بن جاتے ہیں اور انکی حاکمیت کو ہی خطرے میں ڈال دیتے تھے۔ ان کی خونی وارداتوں سے عام لوگوں میں جو غم وغصہ بھڑکتا رہتا ہے اسے کبھی نہ کبھی پھٹنا ہوتا ہے اور پھر ایسی تحریکوں سے ان کی جابر حکمرانی لرزنے لگتی ہیں اور اس کے اکھاڑ پھینکے جانے کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔
نقیب اللہ محسود جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا گیا کوئی پہلا معصوم نہیں تھا، نہ ہی اس استحصالی اور وحشی نظام میں آخری ہوگا۔ لیکن نقیب اللہ کا وحشیانہ قتل‘ ریاست اور سیاست کے آقاؤں کو بھاری پڑ گیا ہے۔ اس کے قاتل راؤ انوار کو نہ صرف ایف آئی اے نے اسلام آباد ائیر پورٹ پر باہر جانے سے ’’روک‘‘ کر پھر اندر کہیں غائب ہو جانے دیا بلکہ اتنے دن گزر جانے کے باوجود وہ میڈیا سے رابطے بھی کر رہا ہے، اپنے بیانات بھی دے رہا ہے لیکن اس ملک کے تمام صوبوں کی پولیس اور ریاست کی بڑی مہارت اور شہرت رکھنے والی ایجنسیاں اس کو گرفتار کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ ریاست ایک ایسے قاتل کو گرفتار نہیں کرپا رہی ہے جس کی گرفتاری کے لئے خود حکمران بھی شور مچانے کا ناٹک کرنے مجبور ہو چکے ہیں اور میڈیا کا واویلا بھی ہے۔ عدالتیں بھی یہاں بے بسی کا تماشا بن گئی ہیں۔ سپریم کورٹ گرفتاری کے اہداف کے دن بڑھانے اور پولیس کو احکامات دینے کے علاوہ کربھی کیا سکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا سے لیکر سیاستدانوں تک ان شخصیات کو بے نقاب کرنے سے گریزاں ہیں جو راؤ انوار سے یہ وارداتیں کرواتی رہی ہیں۔ جائیدادوں کے یہ دولت مند بیوپاری اتنے طاقتور ہیں کہ اس معاشرے میں کسی کا بھی منہ بند کروا سکتے ہیں۔ اگر وہ خاموش نہ ہو تو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔
راؤ انوار والا یہ تمام تر قصہ کسی مافیا فلم سے کم ہولناک نہیں ہے۔ وہ اسی لئے ابھی تک ہاتھ نہیں آیا ہے کہ اس کے پاس بڑے بڑوں کے مکروہ جرائم کے ایسے ثبوت ہیں جو اگر کھلے تو بات بڑی دور تک جائے گی۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ راؤ انوار گرفتاری پیش کردیتا اور پھر جیسا کہ اس ملک میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ کورٹ کچہریوں کی تاریخوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں اس کے جرائم گم ہو جاتے اور معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی وہ کسی دور دراز جزیرے پر باقی عمر عیاشی کرتا۔ لیکن اِس حاکمیت میں پھوٹ اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ شاید ایک دھڑا دوسرے کو نہیں بخشے گا۔ یہ بھی امکان ہے کہ خود راؤ انوار کو ہی ٹھکانے لگا کر راستے سے ہٹا دیا جائے۔ لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اُس نے تمام تر بیانات اور ثبوت کہیں محفوظ کر دئیے ہوں جو اس کے مرنے کی صورت میں منظر عام پر آ جائیں اور اسے مروانے والے اور بڑی مصیبت میں پھنس جائیں، کئی موروثی سیاستیں فنا ہو جائیں اور کئی پارٹیاں بکھر کر ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائیں۔ شاید اِسی لئے ابھی تک یہ اقدام نہیں کیا گیا ہے۔
میڈیا تو اِس ایشو کو کئی دوسرے ایشوز کی طرح اچھال کر پھر غائب کرنے کے چکر میں تھا۔ لیکن حکمرانوں کے لئے جو اصل مصیبت کھڑی ہوگئی وہ وزیر ستان کے قبائل اور دوسرے علاقوں کے پشتون اور غیر پشتون مظلوموں کا اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنا ہے۔ پہلے پہل اِس کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا لیکن پھر مجبوراً کوریج دینا پڑی۔ شاید ا س دھرنے کو منظم اور متحرک کرنے والے ایسے کارکنان ہیں جو اِن مقتدر قوتوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور نیچے سے عام لوگوں کا غم و غصہ اتنا شدید ہے کہ ماضی کے طرح دھرنے بٹھا کر اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔ اس دھرنے نے مختلف قبائل کو یکجا کر دیا ہے۔ ایسے قبائل جن میں نسلوں سے دشمنیاں بھی چل رہی تھیں ایک دوسرے کی قتل وغارت کی تاریخ پائی جاتی ہیں ان کی نئی نسل کو نقیب اللہ کے اس بہیمانہ قتل نے ایک یکجہتی میں پرو دیا ہے۔ مطالبات نقیب اللہ کے معاملے آگے بڑھ کر عمومی ریاستی جبر کو چیلنج کر رہے ہیں اور مقتدر حلقوں کے لئے مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ وہ کچھ کریں یا پھر نہ کریں، دونوں صورتوں میں مصیبت میں پھنستے ہیں۔ مذاکرات کا فریب بھی اب نامراد سا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس تحریک کو منظم اور متحرک کرکے قبائلی عوام کی آواز بننے والوں میں ایک اہم فرد علی وزیر بھی ہے۔
علی وزیر وانا جنوبی وزیرستان کا باسی ہے اور علاقے کی ایک مقبول سیاسی و سماجی شخصیت ہے جس کے نظریات انقلابی ہیں۔ پچھلے عام انتخابات میں علی وزیر نے 8750 ووٹ لئے تھے اور اسکے مدمقابل غالب خان، جس کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا، نے چند سو ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس وقت یہی نواز لیگ مقتدر قوتوں کی بڑی چہیتی تھی۔ جنوبی وزیرستان کے عام لوگوں کا خیال ہے کہ علی وزیر کو اس کے سوشلسٹ نظریات اور عوام دوست سیاست کی وجہ سے ہروایا گیا تھا۔ لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل ٹھیلے والے غریبوں سے لیکر کچی آبادیوں کے باسیوں تک کی تحریکوں کو منظم بھی کیا اور ان کی قیادت بھی کی۔ وہ ہمیشہ غریب قبائلی عوام اور نوجوانوں کی آواز بنا ہے۔ اس کو رجعتی قوتوں کی دھمکیاں بھی جھیلنی پڑیں اور سامراجی گماشتوں کے جبر کا بھی شکار رہا لیکن محنت کش طبقات کی قوت پر یقین اور اپنے ساتھیوں پر اعتماد سے اس کی جدوجہد جاری رہی۔ سوموار 5 فروری کو اسلام آباد میں دھرنے کے منتظم جرگے نے علی کو واپس اپنے علاقے میں اس دھرنے کی سہولت کے لئے نئے کارواں تیار کرنے کا فریضہ سونپ کر بھیجا۔ اسی دوران رجعتی دہشت گرد قوتوں نے ایک نوجوان ادریس وزیر، جو دھرنے کے لئے اسلام آباد جا رہا تھا، کو قتل کر دیا۔ اس کے خلاف مقامی آبادی کا غصہ پھٹ پڑا اور ریاستی پشت پناہی رکھنے والے اِن قاتلوں کے ٹھکانے کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ ان مظاہروں کی پاداش میں علی وزیر کو گرفتار کرکے بکتر بند گاڑی میں کسی خفیہ مقام پر لے جایا گیا۔ اسلام آباد کے دھرنے میں منگل کی شام کو علی وزیر کی گرفتاری کے خلاف بار بار مذمتی اعلانات ہوئے اور قرار دادیں پیش کی جارہی تھیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی عوام کا دباؤ کم ہونے کی بجائے بڑھ گیا۔ رات گئے اس کو چھوڑ تو دیا گیا ہے لیکن اس کی زندگی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن اس تحریک میں لانگ مارچ سے اسلام آباد دھرنے تک کی جدوجہد نے عام لوگوں کو بیدار کر دیا ہے۔ نقیب اللہ کے بہیمانہ قتل کے خلاف نہ صرف پشتونوں بلکہ پورے ملک کے نوجوانوں اور محنت کشوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اس دھرنے پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈر آکر اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن شرکا ان کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ ان کے ادراک کا یہ عالم ہے کہ پیپلز پارٹی کی غاصب قیادت، جس کا نام راؤ انوار کے ساتھ جڑ ا ہوا ہے، کا ایک کارندہ اس دھرنے میں تقریر کرنے آیا تو اس کو جوتوں کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام بے شعور اور بیوقوت نہیں ہوتے۔ انہیں اپنے قاتلوں کی اصلیت کا مکمل ادراک ہے۔ ان کے سینوں میں جابروں کے خلاف بھڑکنے والی نفرت کی آگ اب کی بار سڑکوں پر آ گئی ہے، جو پھیل کر اِس حاکمیت کو بھسم بھی کر سکتی ہے۔