اداریہ جدوجہد
1968ء کے بعد فرانس میں حالیہ تین ہفتوں سے جاری تحریک سب سے بڑی عوامی بغاوت ہے۔ یہ بے دھڑک بغاوت برق بن کر کوندی ہے اور پوری ریاست کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ اس کی تپش کی شدت کی انتہائیں بتاتی ہیں کہ بظاہر خاموش طبقاتی معاشرے بھی ناانصافیوں، استحصال اور دولت کی مسلسل غیر مساوی تقسیم کو تسلیم ہرگز نہیں کر رہے ہوتے۔ برداشت کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ جتنے مکارانہ ستم اس معاشرے پر ڈھائے گئے ہیں اور جتنے طویل عرصے بعد یہ تحریک پھٹی ہے اسی حساب سے عام لوگوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ اور یہ سب ایک ایسے معاشرے میں ہو رہا ہے جسے پسماندہ ممالک کے لوگ بڑا خوشحال اور ’آئیڈیل‘ سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں میں سرمایہ داری کا جبر و استحصال کچھ کم نہیں ہے۔ بس شکلیں اور طریقہ واردات مختلف ہیں۔
یہ درست ہے کہ مظاہروں میں انتہائی دائیں بازو کے رجحانات (بالخصوص نیشنل فرنٹ) کے حامی بھی موجود ہیں۔ لیکن اول تو وہ بہت چھوٹی اقلیت ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہر خودرو تحریک اپنے آغاز میں نہ صرف نظریات بلکہ ترکیب کے لحاظ سے بھی کئی طر ح کے تذبذب کا شکار ہوتی ہے اور وقت کیساتھ ہی صراحت، نکھار اور بلوغت حاصل کرتی ہے جس میں انقلابیوں کی مداخلت اور درست حکمت عملی کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ لیکن اس تحریک کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ فرانس کی 70 فیصدآبادی اس بغاوت کی حمایت میں اتر آئی ہے۔ لاکھوں نے شدید ٹھنڈ اور بارشوں کی پرواہ کیے بغیر تاریخ کے میدان میں اتر کر مروجہ اقتدار کو چیلنج کرنے اور اس نظامِ سرمایہ کو بدلنے کا سندیسہ دے دیا ہے۔ فرانس کے سرمایہ داری نواز صدر میکرون کی حمایت 18 فیصد سے بھی نیچے گر گئی ہے۔ لیکن جوں جوں ریاستی طاقت اس بغاوت کو کچلنے میں ناکام ہورہی ہیں اس تصادم میں تشدد شدت اختیار کر رہا ہے۔ پولیس اور تحریکیں کچلنے کے دوسرے خصوصی اداروں نے ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ ریاستی اشتعال کا روں کو بھی ان مظاہروں میں بھیجا گیا ہے اور ان کی مداخلت سے بڑی املاک کی تباہی، جلاؤ گھیراؤ اور خون خرابے کی وارداتیں کروائی جا رہی ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا حسب روایت یا تو خاموشی اختیار کر رہا ہے یا پھر تحریک پر تخریب کاری کے الزامات عائد کر رہا ہے۔
اس تحریک کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں مروجہ سیاسی پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں کے روایتی لیڈروں کا کنٹرول اور عمل دخل نہیں ہے۔ ایک دن پہلے مورخہ 3 دسمبر کی اطلاعات کے مطابق بے قابو ہوتے ہوئے حالات کے پیش نظر فرانسیسی حکومت مظاہرین کے ساتھ ’مذاکرات ‘ کا عندیہ دے رہی ہے۔ لیکن یہ ایک طرح کی خودرو تحریک ہے جس نے فی الوقت کوئی واضح تنظیمی شکل اختیار نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میکرون کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ مذاکرات کرے تو کس سے کرے؟ لیکن اگر تحریک جاری رہتی ہے تو آنے والے دنوں میں منظم محنت کشوں کی اس میں باقاعدہ شمولیت کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس صورت میں یہ یقیناً نئی تنظیم اور فارمیشن اختیار کرے گی۔ اسی طرح تادمِ تحریر ملنے والی اطلاعات کے مطابق طلبہ کی کچھ پرتیں بھی تحریک میں شامل ہو رہی ہیں اور ملک بھر میں طلبہ نے 100 کے قریب سکولوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ یہ ایک طرح کی شہری مورچہ بندی کا آغاز ہے جو یورپ بالخصوص فرانس میں ایسی تحریکوں کی خاصیت رہی ہے۔ 1968ء کی تحریک میں پورے پیرس کو طلبہ نے ایسی مورچہ بندیوں سے جام کر دیا تھا۔
ایک طویل عرصے سے فرانس کے محنت کشوں اور طلبہ نے مسلسل کٹوتیاں (آسٹیریٹی) اور دوسرے معاشی حملے برداشت کیے ہیں۔ ان کی روایتی قیادتوں نے انہیں مسلسل مایوس اور بدگمان ہی کیا ہے۔ ’’سوشلسٹ پارٹی‘‘ کی پچھلی حکومت نے اولاندے کی قیادت میں جارحانہ سرمایہ داری کی انتہا کر دی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی آف فرانس، جو کبھی یورپ کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی ہوا کرتی تھی، اب ایک کھنڈر بن چکی ہے۔ ایسے میں ایک خلا اور سکوت تھا جس میں میکرون حکومت نے آتے ہی زیادہ شدید کٹوتیاں شروع کر دی تھیں۔ امیروں پر ٹیکس مسلسل ختم کیے جا رہے تھے اور سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالا جا رہا تھا۔ ایسے میں پہلے ریلوے یونینوں نے بندشوں اور ہڑتالوں کا بتدریج سلسلہ شروع کیا۔ لیکن میڈیا نے ’’عوام‘‘ کے خلاف مزدوروں کی سازش قرار دے کر اس تحریک کی حمایت کو جلد ہی کند کر دیا۔ روایتی یونین لیڈر پسپا ہو کر بیٹھ گئے۔ میکرون نے جشن منایا اور فرانس کے فولادی مزدوروں پر غلبہ حاصل کر لینے کا دعویٰ کر دیا۔ پھر اور زیادہ شدت سے کٹوتیاں شروع کردی گئیں۔ طلبہ کی تحریکیں ابھریں۔ بکھر گئیں۔ حکمرانوں کے ماہرین کی میکانکی سوچ کے مطابق طبقاتی کشمکش ہی دم توڑ چکی تھی۔ لیکن اب یہ بغاوت، جس کی فوری وجہ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ بنا، جس برق رفتاری سے بھڑکی ہے اس میں وہ سارے غم و غصے پھر سے ہرے ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ فرانس میں گاڑیوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ایندھن ڈیزل ہے جس کی قیمتوں میں گزشتہ 12 ماہ میں 23 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور یہ اس وقت سب سے بلند سطح پر ہیں۔ اس تحریک کو ’پیلی جیکٹوں والوں کی تحریک‘ بھی کہا جا رہا ہے کیونکہ فیول کی قیمتوں میں مسلسل اضافوں سے تنگ آ کر اس کا آغاز ڈرائیوروں نے کیا ہے جنہیں فرانسیسی قانون کے مطابق گاڑی میں پیلے رنگ کی شوخ جیکٹ رکھنی پڑتی ہے تاکہ خرابی کی صورت میں اسے پہن کر گاڑی کی مرمت کر سکیں۔ لیکن فوری وجوہات سے ہٹ کر یہ رنگ اب احتجاج کی علامت میں تبدیل ہو گیا ہے۔ جرات مندانہ تحریکیں اپنے رنگ بھی خود تخلیق کر لیا کرتی ہیں جو پوری دنیا میں ان کی علامت بن جاتے ہیں۔
عین ممکن ہے یہ تحریک بھی تنظیم یا قیادت کے فقدان کا شکار ہو کر فی الوقت بکھر جائے۔ احتجاج طوالت یا تھکاوٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ میکرون حکومت اگرچہ ابھی تک اپنے ’’طاقتور‘‘ ہونے کا کھوکھلا تاثر دے رہی ہے لیکن انتہائی حالات میں رعایات دینے کی طرف جا سکتی ہے۔ جیسا کہ ابتدائی دنوں کی ڈھٹائی کے بعد سے اب جبکہ تحریک ختم ہونے کی بجائے مزید زور پکڑ گئی ہے تو مذاکرات کا ناٹک شروع کر دیا ہے جسے تحریک کو زائل کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح غیرمعمولی صورتحال میں ساری حکومت کی معزولی کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بہرصورت جن طبقاتی تضادات کا اظہار یہ تحریک کر رہی ہے وہ آنے والے دنوں میں اپنا سماجی و سیاسی اظہار جاری رکھیں گے۔ ریاست کی اشتعال انگیزی اور تخریب کاری سے اس تصادم میں پیرس کی تاریخی عمارات اور عجائبات کے چہروں پر جو زخم لگے ہیں وہ مٹنے میں بہت وقت لگے گا۔ لیکن ان پتھروں پر لگے گھاؤ‘ عام انسانوں کے جسموں اور روحوں پر لگی ضربوں سے زیادہ اذیت ناک نہیں ہوسکتے۔
فرانس کی یہ تحریک ایک مرتبہ پھر ثابت کرتی ہے کہ پارٹیاں اور قیادتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ لیکن جب تحریکیں بھڑک جائیں اور انقلابی راستوں پر چل نکلیں تو اپنے راستے اور قیادتیں بھی تراش سکتی ہیں۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ عیاں ہوا ہے کہ طبقاتی کشمکش ناقابل مصالحت ہے۔ وہ پسپا تو ہو سکتی ہے، کبھی ماند تو پڑ سکتی ہے، مر نہیں سکتی۔
فرانس میں شاید جدید دنیا کی تاریخ کے سب سے زیادہ اور سب سے سبق آموز انقلابات ہوئے ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے انقلابی جدوجہد کی پرکھ کی بنیاد پر فرانس کو انقلابات کی ماں کہا تھا۔ جدید فرانس ایک بورژوا انقلاب کی پیداوار ہے۔ اس کے بعد پیرس کمیون سمیت کئی سوشلسٹ انقلابات بھی اُٹھے جو منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے۔ ان میں 1968ء کا انقلاب بالخصوص قابل ذکر ہے۔ لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ فرانس میں سوشلسٹ انقلاب کبھی فتحیاب نہیں ہوگا۔
آج سرمایہ داری نہ صرف فرانس بلکہ عالمی سطح پر جن حالات میں داخل ہوچکی ہے ان میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں اور روایتی قیادتوں کی زوال پذیری کے باوجود سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت اشد ہے۔ اس تحریک نے یہ ضرورت اور امکان زیادہ واضح کر دیا ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں نوجوانوں اور محنت کشوں میں نئے انقلابی ارمان بیدار ہو رہے ہیں۔ یورپ میں ان کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ اٹلی کے مزدوروں نے فرانس میں بغاوت کا ساتھ دیتے ہوئے سرحد پر دونوں ملکوں کے درمیان ٹریفک سرنگ بند کر دی ہے۔ یورپ کے سامراجی ایوان لرز رہے ہیں۔ ’’فرانس تمام انقلابات کی ماں ہے۔‘‘ آج مارکسی استادوں کے قول کی سچائی افق پر نمایاں ہو رہی ہے۔