[تحریر: قمرالزماں خاں]
کشمور سے کموں شہید تک چوڑائی میں دریائے سندھ پھیلا ہوا ہے۔ اسکے سیلابی پانی سے ایک وسیع و عریض علاقہ بیلوں اور جنگلوں کی شکل اختیا رکرچکا ہے جس کو کچے کا علاقہ کہتے ہیں۔ اس جنگل بیلے کی سرحدکے ساتھ ہی جنوب میں قومی شاہراہ سے بالکل متصل ڈھرکی شوگر ملز ہے جس کو دو سال قبل چند مہینوں کے ریکارڈ ٹائم میں مکمل کیا گیا ہے۔ فیکٹری کی تعمیرکے لئے اس جلد بازی کی وجہ کسی گنز بک آف ریکارڈ میں اندراج نہیں تھا بلکہ اس وقت فنگشنل لیگ کے راہنما اور موجودہ پیپلز پارٹی کے گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود انکے برادر نسبتی جہانگیر ترین جو کہ بزنس پارٹنر تھے ‘ چینی بنانے کے شعبے میں داخل ہوکر حیران کن منافع کمانے کے چسکے سے آگاہ ہوچکے تھے۔ تین فیکٹریوں سے اربوں روپے کما کر اب چوتھے کارخانے کی تعمیر کرتے ہوئے نہ تو فیکٹری کے میٹریل کے معیار کا خیال کیا گیا اور نہ ہی اس تنصیباتی کام میں سیفٹی کے معروف اصولوں کی پرواہ کی گئی تھی۔ موسم بہار کے بالکل وسط میں 16 مارچ کی خنک رات نے جب قرب و جوار کی آبادی کونشیلی نیند کی گرفت میں جھکڑا ہوا تھا تو سناٹے کو ڈھرکی شوگر ملز کی دیوھیکل مشینیں کاٹ کر اپنی گن گرج سے یہ پیغام دے رہی تھیں کہ’’ جب سب سو جاتے ہیں تو مزدورتب بھی جا گ رہے ہوتے ہیں اور اپنی محنت سے لوگوں کی ضروریات کی چیزوں کو تخلیق کررہے ہوتے ہیں۔ ‘‘یہ الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ کا کمرہ تھا، جس میں عام طور پر رش لگا رہتا ہے مگر رات کے اس پہر اس وقت صرف چار افراد فیکٹری میں بنائی جانے والی بجلی اور اسکی ترسیل کے نظام کی نگہداشت کررہے تھے۔ اس شوگر ملز کو چلانے کے لئے چھ میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ گنے کے چھلکوں کو جلا کر بوائلر سے 350 سنٹی گریڈ کی حدت والی بھاپ پیدا کی جاتی ہے جس کو2225 کلو گرام پریشرسے پاور ہاؤ س پہنچا کر ٹربائینوں کے پنکھوں سے ٹکرایا جاتا ہے جن کے گھومنے سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ڈھرکی شوگر ملز کے بوائلر سے نکلنے والی بھاپ کا پائپ اس دفتر میں سے بھی گزرتا تھا جہاں 16 مارچ کی رات کے درمیانی پہر الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ کے سجاد انور، ساجد جمیل، محبوب اکرم، اور ابوبکر محسن اپنے کام میں محو تھے کہ سکریپ پائپ ایک دھماکے سے بم کی طرح پھٹا اور پائپ لائن سے گزرتی بھاپ نے ان مزدوروں کو موت بن کر اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا فیکٹری کا شور اس میں دب کر رہ گیا اوراسکی شدت سے قرب و جوار کے تمام ڈیپارٹمنٹس میں لگے ہوئے شیشے ٹوٹ گئے۔
شدید جھلسے ہوئے ان ورکرز کوساٹھ کلو میٹر دور شیخ زائد اسپتال رحیم یارخاں میں لایا گیا مگر’’ برن یونٹ‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے سی ایم ایچ بہاولپور ریفر کردیا گیا جو تین گھنٹے کی مسافت پر اور ڈھرکی سے تقریباََساڑھے تین سو کلو میٹر فاصلے پر ہے۔ دو دن کے علاج معالجے کے دوران ان زخمیوں میں سے صادق آباد اور بہاولپو سے تعلق رکھنے والے سجاد انور اور ساجد جمیل جان بحق ہوگئے جبکہ مورخہ 23 مارچ بروز ہفتہ دوسرے دو مزدور محبوب اکرم اور ابوبکر محسن بھی چل بسے۔ یوں 16 مارچ کے حادثے میں جھلس جانے والے چاروں محنت کش جاں بحق ہو چکے ہیں۔ لالچ اور حرص میں مبتلا سرمایہ داروں کے بنک اکاؤنٹس میں ہرسال دو ارب روپے سے زائد کا منافع جمع کرانے والی اس شوگر ملز کے ورکرز موت کے منہ میں کام کرتے اور پے درپے حادثات کا شکار ہوکر اپنے پیچھے خاندانوں کو غربت اور مایوسی کی کھائی میں دھکیل جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے میڈیا میں ان خونی فیکٹریوں میں مجرمانہ غفلت اور لالچ کی بنا پر ہونے والے ان خونچکاں حادثات کے بعد نام کی بجائے’’ مقامی فیکٹری‘‘ کا مجرمانہ لفظ استعمال کرکے فیکٹری مالکان کے جرم کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیا ’’مقامی فیکٹری‘‘ کا لقب دیتے ہوئے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ حادثے والی فیکٹری کا ابھی نام نہیں رکھا گیاہے ؟ یا کئی جانیں لینے والا حادثہ ہی سرے سے مشکوک ہے اور فیکٹری کا نام لینے سے خواہ مخوہ فیکٹری کی’’ نیک نامی‘‘ متاثر ہوگی؟دراصل ایسا کرتے ہوئے ان ٹیلی وژن چینلزاور اخبارات کے کرتا دھرتوں کے ذہن میں انسانی جان کی تلفی بے معنے ہوکر اشتہارات اور بزنس چھا جاتا ہے۔
دوسری طرف مالکان اور انتظامیہ قیمتی جانوں کے نقصان کو محض ایک حادثہ قرار دیکر تسلیم کروالیتے ہیں کیوں یہی فیکٹریوں کے مالکان مختلف سیاسی پارٹیوں کے کلیدی عہدوں اور ریاستی مناصب پر فائز رہتے ہیں۔ مزدوروں کی ناحق موت کے ذمہ دار مالکان اس ملک کے حکمران بھی ہیں اور قانون ساز بھی، اسلئے ان کے خلاف نہ کوئی سو موٹو ہوتا ہے اور نہ نام نہاد قانون حرکت میں آتا ہے۔ فیکٹریوں کے ’’سکریپ کردہ میٹریل‘‘ سے تیار ہونے کی وبا ء پاکستان میں عام ہے۔ اس علت کی وجہ سے ملک بھر میں ایسی فیکٹریوں میں پے درپے حادثات ہوتے اور قیمتی جانوں کا نقصان کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری طرف مینٹی ننس درست طریقے سے نہ ہونے کی وجہ بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت اور لالچ ہے، پیسے کو انسان کی زندگی پر ترجیح دینے کی نفسیات سے کئی خاندان اجڑتے اور برباد ہوتے ہیں۔ بالخصوص بلدیہ ٹاؤن کے دلخراش واقعے پر مزدوروں اور کسانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے بیان اور مالکان کے خلاف درج مقدمے کی واپسی کے احکامات نے مالکان کو من مانی کرنے اور مزدوروں کی جانیں خطرے میں ڈالنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں کے ریکارڈ کے مطابق جہانگیر ترین اور احمد محمود کی صادق آباد میں موجود شوگر ملز‘ اسی علاقے میں موجود فاطمہ فرٹیلائزر کمپنی، یونائٹیڈ ایتھانول اور دیگر کئی چھوٹے کارخانوں میں خونی حادثات تواتر سے ہورہے ہیں۔ قانون اورمقامی انتظامی‘ مالکان اور سرمایہ داروں کی حمائت میں سرگرم رہتے ہیں کیونکہ یہ ملک اور اسکی حکمرانی انہی لوگوں کے قبضے میں رہتی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے اعلی افسران‘ ان فیکٹریوں کی پرتعیش اقامت گاہوں اور کلبوں میں اپنی تھکن اتارتے ہیں اسلئے وہ مزدور کی بجائے مالکان کی خیر خواہی کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر فیکٹریاں ہی غیر قانونی طور پر بنی ہوئی ہیں اور ان کے متعدد شعبے، حدود اربعے، عمارات، فائیر فائٹنگ سسٹم، سیفٹی ڈیپارٹمنٹ قانون اور قاعدے کی بجائے مالکان کے پیسے بچانے کے نقطہ نگاہ سے یا تو موجود نہیں ہیں یا پھر بس نام کے ہیں۔ اسی نفسیات کے تناظر میں ملک بھر کی طرح اس علاقے میں بھی حادثات کے شکار مزدوروں کو طبی امداد دینے کے لئے درکار اسپتال تعمیرنہیں کئے جارہے ہیں۔ نتیجہ مزدور حادثات کا شکار ہوتا ہے تو کبھی ایمبولینس نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو پھر مزدور کا تڑپتا ہوا جسم فوری طبی امداد کے لئے مخصوص وقت میں ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال میں ریفر ہوتا رہتا اور راستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔ گھوٹکی اور رحیم یارخاں کے اضلاع جو کسی حد تک صنعتی زون بن چکے ہیں‘ میں مزدوروں کے لئے خصوصی اسپتال نہیں ہیں حالانکہ اس مد میں مزدوروں کی اجرت سے ہر ماہ باقاعدہ کٹوتی کی جاتی ہے اور جمع شدہ اربوں روپے سندھ اور پنجاب ورکرز ویلفیئر بورڈز کے اکاؤنٹس میں پڑے ہیں۔
حیدر آباد اور ملتان کے درمیان فعال برن یونٹ بہاولپور میں ہے حالانکہ اس کی ضرورت ایسے علاقوں میں بہت شدت سے ہے جہاں جلنے اور بھڑکنے والی گیسیں نکالی اور صاف کی جارہی ہے، بجلی بنانے کی غرض سے بوائلر اور بائیو گیس پلانٹ کام کرتے ہیں۔ متذکرہ بالا وسیع و عریض صنعتی علاقے میں حادثات سے نمٹنے اور انسانی جانیں بچانے کے پیش نظر کسی قسم کا بندوبست نہیں ہے۔ اس ظالمانہ صورتحال سے ریاست اور اس پر براجماں حکمرانوں کی سفاکیت عیاں ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی راہنما جہانگیر ترین کی شوگر ملزمیں مجرمانہ غفلت کی وجہ سے اموات کا شکار ہونے والے ان مزدوروں کے لواحقین کو کون ’’انصاف‘‘ فراہم کرے گا؟ بلدیہ ٹاؤن اور ہر روز ہونے والے درجنوں واقعات اور ان پر حکمرانوں کے ردعمل ثابت کرتے ہیں کہ اس گلے سڑے نظام میں مزدور کی حیثیت بس ایک اجرتی غلام کی ہے جس کی زندگی کا مقصد سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ کرتے کرتے مرجانا ہے۔ اس ظالمانہ نظام کا خاتمہ کرکے ہی اس سفاکانہ ذہنیت کو شکست دی جاسکتی ہے۔