افغان ثور انقلاب کے چالیس سال اور افغانستان کی راہِ نجات

تحریر: حسن جان

آج سے تقریباً چالیس سال پہلے 17 اَپریل 1978ء کو جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کے ’پرچم‘ دھڑے کے رہنما میر اکبر خیبر کا کابل میں قتل ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ قتل واقعات کے ایک ایسے تسلسل کو جنم دے گا جو اس پورے خطے کی تاریخ کو بدل دے گا۔ میر اکبر خیبر کے قتل کے بعد 19 اَپریل کو کابل میں اس کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور صدر داؤد خان کی حکومت کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ خلق پارٹی کے رہنماؤں نے اس جلسے میں دھواں دار تقریریں کیں جن کی پاداش میں پارٹی کے تمام سرکردہ رہنماؤں کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ فوج میں موجود پارٹی کے انقلابی ساتھیوں اور ہمدردوں نے اس صورت حال میں ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے 27 اَپریل 1978ء کو صدر داؤد کی حکومت کا خاتمہ کردیا اور پارٹی کے ’خلق‘ دھڑے کی قیادت میں ایک انقلابی حکومت قائم ہوئی۔
27 اَپریل 1978ء کو برپا ہونے والا افغان ثور انقلاب وہ واقعہ تھا کہ آج چالیس سال بعد بھی اس کے اثرات پورے خطے کو متاثر کر رہے ہیں کیونکہ اس نے امریکی سامراج اور اس کے علاقائی حواریوں کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ صدیوں میں پہلی بار افغانستان کو پسماندگی، ناخواندگی، غربت، بیماری، لاعلاجی اور بے روزگاری سے نکالنے کے لیے ایک سنجیدہ منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ افغانستان کے نیم قبائلی، نیم جاگیردارانہ اور اپاہج سرمایہ دارانہ نظام میں اس ملک کو ترقی دینے کی قطعاً اہلیت نہیں تھی۔ یورپ کے بورژوا انقلابات میں ایک ایسا (بورژوا) طبقہ موجود تھا جس نے اپنے طبقاتی مفادات اور حکمرانی کی خاطر ایک جدید قومی ریاست تعمیر کی لیکن افغانستان میں ایسا طبقہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ اس لیے افغانستان میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کسی طرح کی پیش رفت کا امکان نہیں تھا۔
اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو افغانستان کے کل رقبے کا محض 12 فیصد ہی قابل کاشت تھا (آج بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے)۔ بعض اندازوں کے مطابق اس قابل کاشت رقبے کا 60 فیصد ہر سال پانی کی شدید قلت کی وجہ سے بغیر کاشت کے رہ جاتا۔ 1978ء میں نئی حکومت کے اندازوں کے مطابق 5 فیصد زمینداروں کے پاس کل قابل کاشت رقبے کا 45 فیصد تھا۔ دوسری طرف صنعتی شعبہ بھی انتہائی نحیف اور ابتدائی مراحل میں تھا اور معیشت کے انتہائی قلیل حصے کو تشکیل دیتا تھا۔ سوویت تاریخ دان اخرامووچ کے مطابق، ’’پورے ملک میں موجود تھوڑی بہت ہلکی صنعتیں ٹیکسٹائل، شوگراور جوتے وغیرہ کی داخلی طلب کے محض 10 سے 15 فیصد کو پورا کرتی ہیں۔‘‘ بیورلے میل کی کتاب ’انقلابی افغانستان‘ کے مطابق 1977-78ء میں صنعت مجموعی قومی پیداوار کے 17 فیصد کو تشکیل دیتی تھی اور اندازاً اس شعبے میں صرف 40 ہزار لوگ کام کرتے تھے۔ اسی کتاب میں مصنفہ نے لکھا ہے، ’’چھ صنعتی علاقوں (جو چھ بڑے شہروں میں تھے) میں سے کابل میں صنعتی مزدوروں کی کل تعداد کا 70 فیصد تھا جبکہ شمال میں دوسرے بڑے صنعتی مرکز قندوز میں 22فیصد تھا۔ باقی چار شہروں قندھار، مزار شریف، ہرات اور جلال آباد میں آٹھ فیصد تھا جبکہ ہرات اور جلال آباد میں مجموعی طور پر افرادی قوت کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ تھا۔ لگ بھگ 39 فیصد مزدور ٹیکسٹائل یا روئی پیل مشینوں پر کام کرتے تھے، 11فیصد معدنی مصنوعات (بشمول سیمنٹ) جبکہ فوڈ پراسیسنگ، کانکنی، تعمیرات اور بجلی کی صنعت میں بالترتیب 7 اور 9 فیصد کام کرتے تھے۔‘‘ یہ صنعتیں بھی زیادہ تر حکومتی سرپرستی میں ہی لگائی گئی تھیں۔ کیونکہ افغانستان کا تاجراور کاروباری طبقہ ملک میں کمزور انفراسٹرکچر اور ٹیکسوں کے نظام کی وجہ سے پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں تھا۔ وہ زیادہ تر بیرونی ممالک سے اجناس کی درآمدات کرتا تھا۔ اسی وجہ سے افغانستان میں بورژوا جمہوری انقلاب کے فرائض ادا کرنے والا طبقہ ہی موجود نہیں تھا۔
اُس وقت کی عالمی صورت حال اور افغانستان کی سماجی و معاشی کیفیت میں سماج ایک بند گلی میں داخل ہوچکا تھا اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ ان تمام تر قبائلی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ رشتوں کو توڑنا تھا۔ افغانستان میں نہ تو کوئی ایسا بورژوا طبقہ تھا جو یورپ کی طرز پر ملک میں سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کرکے ایک جدید قومی ریاست تشکیل دے اور اسی وجہ سے نہ ہی صنعتی پرولتاریہ اتنی تعداد میں موجود تھا کہ ایک فیصلہ کردار ادا کرسکتا۔ عظیم مارکسی استاد ٹیڈگرانٹ کے مطابق ایسے سماجوں میں فوج ایک غیر معمولی کردار کی حامل بن جاتی ہے۔ اُس وقت کی مخصوص عالمی صورت حال میں ایک طرف سوویت یونین اور چین میں منصوبہ بند معیشت سماجوں کو غربت اور پسماندگی سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر رہی تھی تو دوسری طرف نام نہاد ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی وحشتوں سے سماجوں کو ایک عذاب مسلسل میں مبتلا کئے ہوئے تھا۔ ان سماجوں میں سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت کی کامیابیاں فوج کے نچلے درجے کے افسران اور دانشوروں کو متاثر کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ اسی وجہ سے تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں بائیں بازو کے فوجی افسران کی جانب سے فوجی بغاوتوں کا ایک سلسلہ ہمیں نظر آیا جہاں فوج کے ترقی پسند افسران نے بوسیدہ بادشاہتوں اور آمریتوں کو اکھاڑ کر جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے منصوبہ بند معیشت رائج کی۔ مصر، شام، لیبیا، یمن، موزمبیق اور ایتھوپیا وغیرہ میں اسی طرز کی فوجی بغاوتیں ہوئیں۔ اس مظہر کو ٹیڈ گرانٹ نے ’پرولتاری بوناپارٹ ازم‘ کا نام دیا تھا یعنی ایسا سماج جہاں سرمایہ داری کا خاتمہ کرکے منصوبہ بند معیشت تو قائم کر لی گئی ہے لیکن جہاں معیشت محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں نہیں ہے بلکہ بیوروکریسی افسرشاہانہ طریقے سے تمام تر معاملات چلاتی ہے اور اسی وجہ سے ایسے سماجوں میں ایک خاص وقت میں افسرشاہی منصوبہ بند معیشت اور سماج کی مزید ترقی کے سامنے ایک حتمی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ تب جا کر یہاں اس منصوبہ بند معیشت کو بچانے کے لیے ایک سیاسی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے جو بیوروکریسی کے جبر کا خاتمہ کرکے معیشت اور سماج کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لے آئے۔ لیکن اپنی تمام تر خامیوں اور محدودیت کے باوجود بھی ’پرولتاری بونا پارٹ ازم‘ ایک ترقی پسندانہ مظہر تھا کیونکہ اس سے ان پسماندہ سماجوں میں جاگیرداری کی باقیات اور سرمایہ داری کا خاتمہ ہوا اور پیداواری قوتوں کو ترقی ملی۔ یوں مارکسسٹوں کے لئے ایسی بائیں بازو کی فوجی بغاوتوں یا ’انقلابات‘ کی مشروط حمایت اور دفاع لازم بن جاتا ہے۔
افغانستان میں فوج کے اعلیٰ افسران کو ٹریننگ کے لیے سوویت یونین بھیجا جاتا تھا جہاں سے واپسی پر ان میں سے بیشتر منصوبہ بند معیشت اور ’سوشلسٹ‘ نظام کے حامی بن جاتے تھے۔ایسے میں فوج میں خلق پارٹی نے مداخلت کرتے ہوئے فوج کے وسیع حصے کو پارٹی میں جیت لیا تھا۔ لیکن بائیں بازو کی دوسری فوجی بغاوتوں کے برعکس جہاں فوج خود ہی طاقت اپنے ہاتھ میں لے لیتی تھی افغانستان میں 27 اَپریل 1978ء کے ثور انقلاب میں فوج نے داؤد خان کی حکومت کو ختم کرنے کے فوراً بعد اقتدار خلق پارٹی کے حوالے کر دیا تھی۔ اس انقلاب نے پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنا شروع کیے۔ افغانستان کی تاریخ کی سب سے وسیع زرعی اصلاحات، عورت پر جبر اور جنسی عدم مساوات کا خاتمہ، مفت تعلیم و علاج کا اجرا ، تمام قومیتوں کی برابری ، غریب کسانوں کے قرضوں کا خاتمہ اور صنعتکاری کا آغاز وغیرہ وہ اقدامات تھے جس نے افغانستان کو ایک بنیادی سماجی تبدیلی کے راستے پر ڈال دیا اور اس کے اثرات افغانستان کی سرحدوں سے باہر بالخصوص پاکستان کے پشتون اور بلوچ علاقوں میں زیادہ محسوس کیے جانے لگے۔ اس چیز نے امریکی سامراج اور اس کے حواری پاکستانی حکمرانوں پر لرزہ طاری کردیا تھا کیونکہ یہ انقلاب پاکستان میں بھی ایک ہلچل کا پیش خیمہ بن سکتا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے اس انقلاب کو کچلنے کے لیے بدنام زمانہ ’آپریشن سائیکلون‘ المعروف ڈالر جہاد کا آغاز کیا تھا۔ اس انقلاب کو کچلنے کے لیے ہیروئن اور چرس کے پیسوں سے یہاں اسلامی بنیادپرستی کو فروغ دیا گیا۔ اپنے نظام کو بچانے کے لیے امریکی سامراج اور اس کے پاکستانی اور سعودی حواریوں نے افغانستان کو ان ’مجاہدین‘ کے ذریعے تباہ و برباد کر دیا۔ سوویت یونین کی فوجوں کے انخلا اور ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست کے پروردہ مختلف مجاہدین گروہ کئی سال تک آپس میں لڑتے رہے اور افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ یہی مجاہدین بعد میں سی آئی اے اور پاکستانی ایجنسیوں کی سرپرستی میں طالبان بن گئے جنہوں نے 2001ء تک تقریباً پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔
لیکن جن رجعتی مجاہدین کو سامراجیوں نے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے تخلیق کیا تھا وہ ایک خاص وقت میں ان کے اپنے کنٹرول میں بھی نہیں رہے کیونکہ ان جیسے گروہوں کی معاشی بنیاد بھتہ خوری، قتل و غارت اور منشیات وغیرہ پر ہوتی ہیں اور بعد میں یہ گروہ متبادل ذرائع آمدن حاصل ہونے کی صورت میں اپنے ہی آقاؤں سے بغاوت کر لیتے ہیں۔ 2001ء میں امریکی سامراج اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے اس برباد ملک پر براہ راست جارحیت کرکے اپنے سابقہ اتحادیوں (طالبان) کی حکومت کا خاتمہ کرکے یہاں ’جمہوریت‘ لانے کا وعدہ کیا۔ لیکن تب سے لے کر اب تک ان سترہ سالوں میں افغانستان میں صورت حال مزید خراب ہی ہوئی ہے۔ سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کرنے اور چار ہزار امریکی فوجی گنوانے کے بعد بھی نہ تو امن قائم ہوسکا ہے اور نہ ’جمہوریت‘ ٹک پا رہی ہے بلکہ حالات مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ اب یہاں پاکستان کے علاوہ روس، چین، ایران اور بھارت کی مداخلتیں بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں جو دن بدن افغانستان میں خونریزی کو مزید بڑھاوا دے رہی ہیں۔
حال ہی میں 28 فروری کو کابل میں عالمی کانفرنس کے آغاز پر افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کو غیرمشروط مذاکرات کی دعوت دی اور ساتھ ہی انہیں ایک قانونی سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کرنے اور جیلوں میں قید طالبان جنگجوؤں کو رہا کرنے کی بھی پیشکش کی۔ افغانستان میں طالبان کو مذاکرات اور حکومت میں شامل کرنے کی یہ پیشکش اس سے پہلے بھی متعدد بار دی جاچکی ہے۔ اشرف غنی کا پیش رو حامد کرزئی بھی طالبان کو اپنے ’ناراض بھائیوں‘ کا خطاب دے چکا ہے۔ لیکن افغانستان میں مختلف علاقائی ریاستوں کی آپس میں برسرپیکار پراکسیوں، بشمول طالبان، کی موجودگی اور ان کے مفادات کے ٹکراؤ کی کیفیت میں مذاکرات کی یہ پیش کش محض ایک مذاق ہے کیونکہ ’طالبان‘ کوئی اکائی نہیں ہیں بلکہ خطے کے مختلف سامراجی ممالک کے مفادات کی نمائندگی کرنے والے مسلح کرائے کے قاتلوں کے مختلف ٹولوں کانام ہے جو مختلف مواقع پر آپس میں بھی دست و گریباں رہتے ہیں۔ مذاکرات کی یہ دعوت دراصل امریکی سامراج اور نیٹو کی افغانستان میں شکست سے پیدا ہونے والی بوکھلاہٹ اور ان کی نافذ کردہ نام نہاد جمہوریت کی ناکامی کی غمازی کرتی ہے۔
پچھلے سال اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان کے لیے نئی ’جارحانہ‘ امریکی پالیسی کے اعلان کے بعد افغانستان میں جس طرح امریکی بمباری کی رفتار تیز ہوئی ہے اسی طرح طالبان اور داعش کی کاروائیوں میں بھی مزید تیزی آئی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اس سے طالبان اور امریکی افواج کے درمیان پیدا شدہ ’تعطل‘ (Stalemate) کو توڑ کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے گا۔ اس دوران افغانستان کے بڑے شہروں بشمول کابل میں بدترین دہشت گردی کے واقعات ہوئے جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک اور اس سے کئی زیادہ زخمی ہوئے۔ چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں نیٹو کی بمباری اور طالبان کے مختلف گروہوں کی کاروائیوں میں ہونے والی ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں جو اکثر میڈیا میں آتی بھی نہیں۔ یہ ’نئی پالیسی‘ بھی امریکی تاریخ کی سب سے لمبی بیرونی جنگ میں کسی کامیابی سے پہلے ہی اپنی ناکامی کا اعلان کر رہی ہے۔
افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوج کی موجودگی اور وہاں کسی طرح کی کامیابی کے حوالے سے اب امریکی سامراج کے سنجیدہ ماہرین بھی مکمل قنوطیت کا شکار ہیں۔ پچھلے سترہ سالوں میں امریکہ نے افغانستان کی اس جنگ میں تقریباً ایک ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں لیکن اس کے باوجود صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے امریکی حکمرانوں کے پالیسی سازوں میں بھی ایک پراگندگی پھیلی ہوئی ہے۔ باراک اوباما نے 2008ء میں منتخب ہونے کے بعد افغانستان میں تعینات امریکی فوجوں کی تعداد بڑھا کر2011ء تک ایک لاکھ کردی تھی۔ لیکن 2012ء کے بعد تعداد کم کرتے ہوئے 2016ء میں اپنی صدارتی معیاد کے ختم ہونے تک وہاں امریکی فوجوں کی تعداد 8400 تک گھٹا دی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے سے پہلے افغانستان کی جنگ کو پیسے کا زیاں قرار دیا تھا اور فوج کو واپس لانے کی بات کی تھی ۔ تاہم صدر منتخب ہونے کے بعد اس نے اپنے پیش رو کی طرح افغانستان میں ایک دفعہ پھر مزید فوج بھیجنے کا اعلان کیا البتہ تھوڑی تعداد میں ، لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح طور پر کہا کہ ہمارا کام افغانستان کی تعمیر نو نہیں بلکہ صرف ’دہشت گرد‘ مارنا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی سامراج کی افغانستان میں ’جمہوریت‘ تعمیر کرنے کی باتیں محض زبانی جمع خرچ کے لیے ہیں اور اصل مقاصدخطے میں اس کے اسٹریٹجک مفادات ہیں۔
ٹرمپ کی ’نئی پالیسی‘ اور فوجیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی افغانستان میں بالخصوص کابل اور بڑے شہروں میں طالبان کے حملوں اور تشدد میں مزید شدت آئی ہے۔ حملوں کی اس نئی لہر کو امریکی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کی فوجی امداد بند کرنے اور طالبان کی سرپرستی کرنے پر سفارتی دباؤ بڑھانے کا رد عمل کہا جارہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے لیکن افغانستان میں علاقائی طاقتوں کی مداخلت اور پراکسی جنگیں اتنی شدت اختیار کر چکی ہیں کہ دن بدن صورت حال مزید پیچیدہ اور خونریز ہوتی جا رہی ہے۔ اب صرف پاکستان ہی اس اکھاڑے میں نہیں ہے بلکہ بہت سی طاقتیں حسب توفیق افغانستان کی بربادی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ ’دی ڈپلومیٹ‘ کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق، ’’اس کے علاوہ علاقائی ریاستوں کے بیچ معاشی اور سکیورٹی رقابت کی وجہ سے افغان طالبان کی سٹریٹجک اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ داعش سے بڑھتی ہوئی رقابت کی وجہ سے افغان طالبان نے اپنی علاقائی کمک کے ذرائع میں مزید تنوع لایا ہے۔ پچھلے کئی سالوں میں اس گروہ نے پاکستان، چین، روس اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات گہرے کر لیے ہیں۔‘‘اسی مضمون میں آگے جا کر لکھا گیا ہے، ’’امریکہ اور دوسری علاقائی ریاستوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح افغانستان میں برسرپیکار مفادات میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ علاقائی ریاستوں کے مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے صرف دہشت اور خون خرابہ ہی بڑھا ہے۔ آنے والے دنوں میں افغانستان میں دہشت گرد حملے مزید بڑھیں گے کیونکہ علاقائی طاقتوں کو اپنے مفادات کے علاوہ کوئی دوسری چیز نظر نہیں آتی۔‘‘
دوسری طرف امریکی سامراج کی پروردہ ’جمہوری ‘کابل حکومت مشکل سے ہی کابل میں بھی ٹک پا رہی ہے۔ کابل سے باہر اس حکومت کی عملداری کی بات ہی کیا کرنا۔ تمام تر عسکری برتری اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہونے اور ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی افغانستان پر امریکی فوج اور اس کی گماشتہ حکومت کا کنٹرول انتہائی نحیف ہے اور اشرف غنی نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ افغانستان کی فوج امریکی امداد کے بغیر چھ مہینے کے اندر منہدم ہوجائے گی۔ بی بی سی کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق آج طالبان ملک کے 14 اضلاع پر مکمل طور پر قابض ہیں جبکہ 263 اضلاع (ملک کا 66 فیصد)میں کھلے عام سرگرمی سے وجود رکھتے ہیں۔ 122 اضلاع (ملک کا 30 فیصد) میں طالبان سرگرم اور کھلے عام وجود نہیں رکھتے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں تشدد اور دہشت گردی کی کاروائیاں نہیں ہوتیں۔ اس رپورٹ سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ کابل حکومت کا کنٹرول مشکل سے ہی ملک کے 30 فیصد علاقوں پر ہے۔ اسی بوکھلاہٹ میں پینٹاگان نے امریکی کانگریس کے تشکیل کردہ ’اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن‘ (SIGAR)کی پچھلی سہ ماہی کی رپورٹ کے اُس حصے کو عام کرنے سے روک دیا تھا جس میں افغانستان کے مختلف علاقوں پر طالبان اور حکومت کے کنٹرول کے بارے میں اعداد و شمار موجود تھے۔ ’سیگار‘ کی اکتوبر 2017ء کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے 56 فیصد علاقوں پر حکومت کا کنٹرول ہے لیکن اس کے بعد ہونے والے واقعات سے یہ واضح تھا کہ حکومت نے مزید علاقے مختلف مسلح گروہوں کے ہاتھوں گنوا دیئے ہیں اسی وجہ سے اس خفت اور امریکی ٹیکس دہندگان کے غیض و غضب سے بچنے کے لیے اس رپورٹ کو دبا دیا گیا کیونکہ امریکی محنت کشوں میں حکومت کے خلاف غم و غصہ مزید بڑھ سکتا تھا۔
کابل کی قومی اتحاد کی حکومت (NUG) میں اتحاد برائے نام اور تضادات اپنے عروج پر ہیں۔ سابقہ مجاہدین اور جنگی سرداروں پر مشتمل یہ حکومت آپس میں ہی دست و گریباں ہے۔ پچھلے سال دسمبر میں اشرف غنی نے صوبہ بلخ کے گورنر عطا محمد نور کو عہدے سے ہٹا کر اس کی جگہ محمد داؤد کو گورنر تعینات کردیا تھا لیکن جمعیت اسلامی کے عطا محمد نور نے صدر کے ان احکامات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے عہدے سے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ اس ساری صورتحال نے نسلی اور لسانی تضادات کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس ’قومی حکومت‘ میں شامل دوسری قومیتوں سے تعلق رکھنے والے حصہ دار صدر اشرف غنی پر پشتون بالادستی قائم کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وار لارڈز کی آپس میں حصہ داری اور لوٹ مار کی جنگ نے نسلی تضادات کی شکل اختیار کر لی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے ان نسلی اور لسانی تضادات نے ایک اور رخ اختیار کیا ہے۔اشرف غنی نے افغانستان میں آنے والے صدارتی الیکشن کے لیے نئے الیکٹرانک شناختی کارڈ (جسے افغانستان میں ’تذکرہ‘ کہا جاتا ہے) کے اجرا کا اعلان کیا ہے۔ اس شناختی کارڈ میں مذکورہ شخص کی دیگر تفصیلات کے علاوہ نسلی پس منظر (Ethnicity) اور قومیت (Nationality) کا خانہ بھی رکھا گیا ہے۔ قومیت کے خانے میں لفظ ’’افغان‘‘ لکھا گیا ہے۔ غیر پشتون آبادی بالخصوص تاجک، ازبک اور ہزارہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی گروہوں کے رہنماؤں نے قومیت کے خانے میں لفظ ’افغان‘ لکھنے کی شدید مخالفت کی ہے کیونکہ اُن کے مطابق افغان کا مطلب پشتون ہے اور اس کے ذریعے اُن کی اپنی شناخت کو مٹایا جا رہا ہے۔ بلخ کے برطرف گورنر عطا محمد نور، جو ایک تاجک ہے، نے اس حوالے سے کہا، ’’اس سے ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگا اور خانہ جنگی اور ٹوٹ پھوٹ جنم لے گی۔‘‘ اسی طرح حزب وحدت کے رہنما محمد محقق، جو ایک ہزارہ ہے، نے بھی مخالفت کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت کو کسی ایک گروہ کی شناخت کو دوسروں پر مسلط نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ملک بحران میں گھر جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف اس کی حمایت میں بات کرتے ہوئے قندھار کے پولیس چیف جنرل رازق (پشتون) نے کہا، ’’جو لوگ اپنے آپ کو افغان نہیں سمجھتے انہیں اس ملک کو چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی اس موضوع کے گرد افغانستان میں آباد مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آپس میں تند وتیز جملوں کا تبادلہ کر رہے ہیں اور نسلی تعصبات کو پوری شدت سے ہوا دی جارہی ہے۔
دراصل جب لگ بھگ ایک صدی پہلے جدید افغانستان کی بطور ایک قومی ریاست کے داغ بیل ڈالی گئی تو افغان کا مطلب اس جدید قومی ریاست کا باشندہ تھا لیکن تیسری دنیا اور تمام تر دیگر سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی طرح افغانستان میں یورپ کی مانند کوئی جدید اور یکجا قومی ریاست قائم نہیں ہو سکی۔ نہ یہاں صنعتی انقلاب برپا ہوا اور نہ وہ انفراسٹرکچر تعمیر ہو سکا جو سماج میں اتنی مادی ترقی لائے جو مختلف نسلوں، مذہبوں اور زبانوں کو قریب لاکر ایک وسیع تر قوم اور قومی سوچ کو جنم دے۔ جس کی وجہ سے نسلی اور لسانی تعصبات آج تک ایک رجعتی انداز میں سماج کو تقسیم کر رہے ہیں۔
افغانستان کی جدید تاریخ میں صرف ایک ہی حکومت ایسی تھی جس نے ملک میں بسنے والے تمام نسلی گروہوں کو رسمی طور پر نہ صرف تسلیم کیا بلکہ سب کو برابر کے شہری کی حیثیت سے قبول کیا۔ وہ حکومت 27 اپریل 1978ء کے ثور انقلاب کے نتیجے میں بنی تھی جس نے ملک سے سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خاتمے کا آغاز کیا تھا۔ انقلاب کے بعد تمام قومیتوں کو ان کی مادری زبانوں میں تعلیم دینے کا آغاز کیاگیا اور تمام نسلی اور لسانی امتیازات اور تعصبات کا خاتمہ کیا گیا۔ لیکن 1992ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد مختلف مجاہدین گروہ آپس میں نسلی اور لسانی بنیادوں پر لڑ پڑے اور بدترین خونریزی کی گئی۔
امریکی سامراج کی افغانستان میں غیر اعلانیہ شکست اور ان کی قائم کردہ ’جمہوریت‘ کی ناکامی کے بعد امریکی حکمرانوں کے بعض حلقوں میں افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے اس تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے اور ملک کو وارلارڈز اور ان کی ملیشیاؤں کے حوالے کر دیا جائے۔ مرکزی حکومت برائے نام ہو جو ان وارلارڈز کے درمیان مصالحت کرائے۔ دی نیویارک ٹائمز کے ایک حالیہ مضمون (In Afghanistan’s unwinnable war…) میں اس طرح کی مختلف تجاویز پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ ایک تجویز یہ دی گئی ہے کہ افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج چلی جائیں اور ان کی قائم کی گئی ریاست منہدم ہوجائے۔ اس کے بعد مختلف نسلی اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے جنگی سردار آپس میں ریاست پر کنٹرول کے لیے لڑیں گے جس سے افغانستان نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوکر کھنڈرات میں بدل جائے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جنگی سردار ایک دوسرے کے قریب آکر آہستہ آہستہ ’ایڈجسٹ‘ ہوجائیں گے اور ان کھنڈرات سے ہی ایک دفعہ پھر نئی افغان ریاست قائم ہوگی کیونکہ اس مضمون کے مطابق یورپ کی جدید قومی ریاستیں بھی تو اسی طرح کی لڑائیوں اور بربادیوں کے بعد وجود میں آئی تھیں!
موجودہ نسلی و لسانی تعصبات کی جس لہر کو ہوا دی جا رہی ہے اسے دیکھ کر امریکی ماہرین کی مندرجہ بالا تجاویز اور بھی زیادہ ہولناک دکھائی دیتی ہیں کیونکہ جہاں امریکی سامراج کے کچھ حلقے افغانستان کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں وہیں خطے کے مختلف ممالک بھی ان تعصبات کو ہوا دے کر اپنا اپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں۔
افغانستان کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار امریکی سامراج اور اس کی علاقائی حواری ریاستیں ہیں جنہوں نے ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے ڈالر جہاد کا آغاز کیا تھا۔ ان نام نہاد مجاہدین نے امریکی سامراج کے ایما پر افغانستان کو خون میں ڈبو دیا۔ آج وہی مجاہدین طالبان اور داعش بن کر افغانستان کو تاراج کر رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں اس جنگ اور تشدد کی وجہ سے ہر روز 60 لوگ مرتے ہیں۔ نہ امریکی اور نیٹوافواج کی بمباری اور نہ ہی طالبان اور دیگر گروہوں کے ساتھ مذاکرات سے افغانستان میں امن اور خوشحالی آئے گی۔ ہر امریکی بمباری اور مذاکرات کے بعد تشدد مزید بڑھے گا۔ اس لیے افغانستان میں امن، ترقی اور خوشحالی سامراجی اور علاقائی طاقتوں کی مداخلت کے خاتمے سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ مداخلتیں اسی صورت میں ختم ہوں گی جب ان مداخلت کرنے والی سرمایہ دارانہ ریاستوں کا ایک انقلاب کے ذریعے خاتمہ ہوگا۔ علاقائی ریاستوں بالخصوص پاکستان اور ایران میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں جہاں ان ریاستوں کا کردار تبدیل ہوگا اور رجعتی مداخلت بند ہوگی وہیں ایسے حالات پیدا ہوں گے جو ایک مرتبہ پھر افغانستان میں ثور انقلاب کی روایات کو ایک بلند پیمانے پر زندہ کریں گے۔ یہی افغانستان کی راہ نجات ہوگی۔