| تحریر: عمیر |
انسان دوست سماج ہونے کی اولین شرط خوراک، رہائش، تعلیم اور علاج جیسی بنیادی انسانی ضروریات کی معاشرے کے ہر فرد کو فراہمی ہوتی ہے۔ اگر ایسا کسی ملک میں نہ ہو تو یہ کسی حاکم کی بھول نہیں بلکہ یہ اس نظام کی متروکیت ہے جس پر حکمران براجمان ہیں۔ ملکی سطح پر تعلیمی اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان 134 ممالک کی فہرست میں سے 131 ویں نمبر پر آتا ہے۔ ۔ وفاقی یا صوبائی بجٹ میں تعلیمی شعبے کیلئے جو قلیل سی رقم مختص کی جاتی ہے اس کا بھی انتہائی قلیل سا حصہ حقیقت میں خرچ ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی اورآخری با ر ذوالفقار علی بھٹو کے دورحکومت میں تعلیم و صحت کیلئے 43.3 فیصد بجٹ مختص کیا گیا تھا۔ اب اگر موجودہ پاکستان میں تعلیم کے بجٹ پر نظر دوڑائی جائے تو صرف 2فیصد ہے۔ پاکستان شرح خواندگی 46 فیصد ہے جس میں سے 26 فیصد لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں۔ ملک میں تقریباً 60 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو کہ ہزاروں روپے فیسیں نہ ہونے پر بچوں کو ’’بہتر‘‘ تعلیم دلانے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں 1 لاکھ 63 ہزار پرائمری سکول موجود ہیں جن میں بیشتر کلاس رومز، فرنیچر، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق ڈھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں اور 5 کروڑ 20 لاکھ لوگ پڑھ لکھ نہیں سکتے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم کا موازنہ کیا جائے توپرائیویٹ سکولزاچھی تعلیم اچھے خاصے پیسوں سے ہی دیتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے نیاسکو ل ریفارمزروڈ میپ کے نئے مرحلے ’’پڑھو پنجاب، بڑھوپنجاب‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2018ء تک ہر بچہ سکول جائے گا۔ وزیر اعلیٰ ایک کھرب پتی انسان ہیں انہوں نے نہ تو کبھی بھوک دیکھی اور نہ ہی بیروزگاری۔ لیکن جو لوگ آج کے ہوشربا مہنگائی کے دور میں دن رات محنت کرنے کے باوجود اپنا پیٹ نہیں بھر سکتے وہ نا صرف صبح سے رات گئے تک مزدوری کرتے ہیں بلکہ اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے کیلئے بچوں کواینٹوں کے بھٹوں، گاڑیوں کی ورکشاپس، ہوٹلوں میں لوگوں کے جھوٹے برتن صاف کرنے کیلئے بھی چند سو روپے کمانے کے عوض ملازمت کروانے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں اس وقت 203 اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود ہیں جہاں تک محض 2 فیصد طلبہ ہی پہنچ پاتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد صرف 2فیصد ہونیکی سب سے بڑی وجہ فیسوں کا زیادہ ہونا ہے۔ اگر ایک طالبعلم کسی شعبہ میں داخلہ لینے کا خواہش مند ہے تو ہزاروں روپے سمسٹر فیس ہونے کی وجہ سے وہ داخلہ لینے سے قاصر ہوتا ہے۔ آگے پڑھائی کو مزید جاری رکھنے کے لئے بیشتر طلبہ کسی محکمے میں نوکری کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالبعلم کا دماغ بٹ جاتا ہے جو کہ ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ کی حالت زار یہ ہے کہ ڈگریاں مکمل کرنے کے بعدبیروزگاری ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح ملک کے بیشتر پڑھے لکھے افراد روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بیرون ممالک کا رخ کرتے ہیں اور کم تنخواہوں پر بھی کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب تعلیم سے دوری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی سیاسی گروپ بندیاں ہیں۔ جو کہ محض اداروں میں طلبہ کے حقوق کی بات کرتی ہیں لیکن دراصل لڑائی جھگڑے ہی دیکھنے میں آتے ہیں تعلیمی اداروں میں طلبہ کی سینڈیکیٹ ممبر شپ ختم کیے جانے سے یہ نقصان ہوا کہ طلبہ کے حقوق کی بات اہم اجلاسوں میں دب کر رہ جاتی ہے۔ معیار تعلیم کی طرف دیکھا جائے تو موجودہ نصاب کی کتب میں ہمیں پرانی تحقیقات ہی ملیں گی۔ عموماً طالبعلم نئی تحقیقات سے ایک عرصہ درازتک ناواقف رہتے ہیں جبکہ نصاب کا تقابل ترقی یافتہ ممالک کے نصاب سے کیا جائے تو معاملہ الٹ ہی ہو گا۔ امریکہ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں طلبہ جدید تحقیقات سے بخوبی آشنا ہوتے ہیں۔ نصاب میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی سے ہی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم نہیں دی جاتی محض تعلیم پر خرچ کی جانے والی رقم کا حساب رسیدوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ تعلیم یافتہ قوموں کی حالتِ زار بھی آج کل پتلی ہے۔ مثلاً اسپین میں بے روزگاری 50 فیصد تک پہنچ چکی ہے، یونان میں پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 50 فیصد سے زائد ہے۔ اس معاملے میں ہمارا ملک بھی پیچھے نہیں، لیکن حکومتی اعدادو شمار اس بے تکلفی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ جھوٹ بھی شرما جائے۔ مثلاً پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد بتائی جاتی ہے، نہ جانے کہاں ہے ایسا پاکستان۔
گھر والوں کا مشکل سے کمایا ہوا پیسہ جب پڑھنے والے بچے پر خرچ کیا جا رہا ہو تو اس کے پیچھے بھی مقصد بہتر نوکری کی تلاش ہوتی ہے۔ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے پڑھے لکھے بے روزگار گھر والوں اور باہر والوں کے طعنوں کی زد میں آ جاتے ہیں، جس سے اُنہیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ نقص کہیں آپ کے اندر ہے یا انہیں قسمت کے اناڑی سمجھنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
ان تمام باتوں سے ہٹ کر اگر آج علم دوست شاگرد یا اُستاد مل جائے، جو ڈھونڈے سے نہیں ملتا، تو اُس دن سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ علم کے قدر دان یہاں بھی موجود ہیں۔ پڑھے لکھے بے روزگار وں میں اکثر مزدوری نہیں کر سکتے، جس کی وجہ سے جسمانی مشقت کرنے والے دیہاڑی دار مزدور بھی ان سے بہتر زندگی بسر کرتے ہیں۔ حکومت تو پڑھے لکھوں کو روزگار کے نام پر ٹیکسی ڈرائیور بنانے پر تلی ہوئی ہے، یعنی تعلیم کا مقصد ہی وفات پانے لگا ہے۔ تعلیمی مقاصد تو نئی ایجادات، تحقیق اور موجود مسائل کا حل پیش کرنے کا نام تھا، جسے کی تعریف آج کل ڈگریاں، تعلیمی اخراجات کی رسیدیں، حاصل کرکے نوکری تلاش کرنا ہی رہ گیا ہے۔ ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود نوجوانوں کو ان کی اہلیت کے مطابق روزگار میسر نہیں آتا۔ جب سعودی عرب، قطر اور یو اے ای میں ملازمتوں کے مواقع کا اعلان کیا جاتا ہے تو ملکی حالات سے دلبرداشتہ پڑھے لکھے افرادبھی وہاں جا کرانتہائی کٹھن حالات میں جسمانی مشقت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے تعلیمی نظام سے ہم غاروں کے دور میں تو جا سکتے ہیں مگر عالمی سطح پر کوئی خاطر خواہ ایجادات نہیں کر سکتے۔ ان تمام باتوں کو مدِ نظر رکھا جائے تو ہمیں تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر انقلاب کی ضرورت ہے۔ آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ حکومت عوام کو بنیادی ضروریات مفت فراہم کرے، مگر یہ سب تو آئین میں لکھا ہے جس کو اکثر پاکستان میں کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ردی کی نظر کرنے کا کہا یا کیا جاتا ہے۔ اس ردی کے ٹکڑے کی یاد صرف وہیں آتی ہے جب کوئی غیر عوامی مسائل کا سامنا ہو، مثلاً استعفوں کے سبب عمران خان اسمبلی میں آنے کے لائق ہیں یا نہیں۔ اس پارلیمنٹ کا حال بھی ماضی کی اسمبلیوں جیسا ہی ہے۔ اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی شبِ ہجراں کی شام جیسا ہے۔
تعلیمی معیار کی بہتری کے حوالے سے حکومتی سطح پر بحثیں، سیمینار اور بیان بازیاں تو نظر آتی ہیں مگر عملی اقدامات ندارد۔ اگر محض پنجاب حکومت کا اشتہار بازی کا بجٹ تعلیمی شعبے میں لگا دیا جائے تو اس سے بھی اس شعبے میں کافی بہتری کی جا سکتی ہے۔ مگر اس وقت حکومت کی تمام تر کارکردگی محض میڈیا تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور زمینی حقائق اس سے بہت مختلف ہیں۔ تعلیم کا شعبہ سماج میں انسانوں کے عمومی معیار زندگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک بچہ تبھی پڑھ سکتا ہے جب اس کے پیٹ میں روٹی ہو، بیمار ہونے کی صورت میں اس کو درست اور بر وقت علاج میسر ہو، پہننے کو کپڑے ہوں، رہنے کو مناسب رہائش ہو۔ اور یہ سب موجودہ حکمران دینے سے قاصر ہیں تو ان کے دعوے اور بیانات بھی جھوٹے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے ہم یہ امید لگا سکیں کہ 2018ء تک پاکستان یا پنجاب کا ہر بچہ سکول جائے گا۔ سو اگر پاکستان میں شرح خواندگی حقیقی معنوں میں بڑھانے کا سوچا بھی جائے تو اس کے لئے بھی اس نظام اور اس کے اداروں کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔
متعلقہ: