ڈیرہ غازی خان میں سیلاب کی تباہ کاریاں

[تحریر: رؤف لُنڈ]
حالیہ بارشوں کے بعد ڈیرہ غازی خان ایک دفعہ پھر سیلاب میں ڈوب گیا ہے۔ ابھی 2010ء کے سیلاب کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ ایک اورآفت نے ضلع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے عوام کے حوصلے کا امتحان لیا ہے۔پاکستان ریاست اور حکمران طبقہ پہلے سے زیادہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ یہ حکمران طبقہ ایک لمبے عرصے سے اس خطے کے عوام کا خون پی رہا ہے۔
سابق ضلع ڈیرہ غازی خان (جو چاروں صوبوں کے سنگم پر واقع ہے۔ اور شمالاً ڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہو کر جنوباً کشمور تک چلا جاتا ہے) پر برصغیر کی تقسیم سے پہلے برطانوی عہد میں 9بلوچ تمن داروں کی حکمرانی رہی جن میں لغاری، مزاری، کھوسے اور دریشک نمایاں تھے۔ ایک طرف ان تمن داروں کی چیرہ دستی، لوٹ مار اور استحصال کی انتہا تھی تو دوسری طرف ان بلوچ قبائل کے عام لوگوں کی حالت زار بھی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ ان دو متضاد کیفیتوں کو سرائیکی کے معتبر شاعر جناب سرور کربلائی نے اپنی شاعری میں بیان کرتے ہوئے ڈیرہ غازی خان کو ’’نو خداؤں کی منحوس دھرتی ‘‘سے تعبیر کیا تھا۔ 1947ء کی نام نہاد آزادی سے لے کر اب تک ممبری ہو یا لیڈری، وزیری ہو یا گورنری، وزارتِ عظمیٰ ہو یا ملکی صدارت، ایسا کوئی عہدہ یا منصب نہیں رہا جو یہاں کے تمن داروں کے حصہ میں نہ آیا ہو۔ اس کے باوجود آج بھی عام لوگوں کی حالت زار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔ خباثتوں، ذلتوں اور رسوائیوں کے منحوس سائے آج بھی اسی طرح چھائے ہوئے ہیں۔
بارش، زلزلہ، آندھی اور طوفان جیسی آفتوں کو صدیوں تک قدرت کی ناراضگی تصور کیا جاتا رہا۔ علم اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان آفتوں کا مداوا اذانوں اور دعاؤں میں تلاش کیا جاتارہا۔ آج جبکہ سائنسی علوم نے فطرت کے ان اصولوں کو نسلِ انسانی پر آشکار کر دیا ہے کہ بارشیں، طوفان، آندھیاں اور زلزلے کب، کہاں اور کس نوعیت کے آسکتے ہیں؟اور صرف یہی نہیں بلکہ جدیدتیکنیک سے آج کا انسان اس قابل بھی ہو گیا ہے کہ وہ ناصرف ان آفتوں کا رُخ موڑ دے بلکہ ان کو اپنا مطیع بنا کر تباہی و بربادی کا سامان بننے کی بجائے انہیں نسلِ انسانی کی فلاح و بہبود کے کام میں لاسکے۔ لیکن جب تک یہ طبقاتی سماج موجود ہے، زر کی حکمرانی موجود ہے اور لوٹ مار کرنے والوں کی ہوس موجود ہے قدرت اور فطرت کے یہ مظاہر اسی طرح تباہی پھیلاتے رہیں گے۔
2010ء کے ظالم سیلاب نے جب پورے ملک میں تباہی مچا دی تھی تو ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کا چپہ چپہ بھی اس کی زد میں آگیا تھا اُس سیلاب سے بچاؤ کے لئے بھاگ دوڑ کرنے والوں کی پکار بے گھر ہوتے لوگوں کی چیخیں، سیلاب میں بہہ جانے والوں کی میتوں پر ہونے والے بین کی آوازیں ابھی تک کانوں میں آنے والی صداؤں کا حصہ بنی ہوئی تھیں۔ امدادی سامان کے حصول کے لئے قطاریں، کچھ پانے کے لئے محتاجوں کی بھگدڑ، امدادی کیمپوں میں مددگاروں کے ہاتھوں حوازادیوں کی لٹتی عصمتوں، نعشوں سے پھیلنے والے تعفن، فری میڈیکل ایڈ کے بینر تلے بیٹھے دوائیوں کے بغیر مسیحاؤں کے سامنے دم توڑتے انسانوں، وبائی امراض کے پھوٹ پڑنے سے موذی بیماریوں کے شکار لاچار لوگوں کی اذیتوں، راتوں رات سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اُگ آنے والی این جی اوز کی لوٹ مار اور حکمرانوں کے بے ہودہ دعوؤں کے مناظر ابھی نظروں سے محو نہیں ہوئے تھے کہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو بارشوں کے نتیجہ میں آنے والے پہاڑی ندی نالوں کے سیلابی ریلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ڈیرہ غازی خان اور راجن پور سلسلہ ہائے کوہ سلیمان کے دامن میں واقع ہیں، اس پہاڑی سلسلے میں مختلف چھوٹے بڑے درے ہیں جو پہاڑوں سے زمینی علاقوں اور زمینی علاقوں سے پہاڑوں کو آمدورفت کے راستے ہیں تو دوسری طرف جب پہاڑوں پر بارشیں ہوتی ہیں تو رودکوہیاں انہی دروں سے زمینی علاقوں کا رُخ کرتی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان سلسلہ کوہ سلیمان کے مشرق میں ایک طویل زمینی پٹی ہے جو لاکھوں ایکڑ بارانی رقبہ پر مشتمل ہے۔ ان پہاڑی دروں اور رود کوہیوں میں سنگھڑ، سوری لنڈ، وڈور، کالا کھوسڑہ، بگاکھوسڑہ، گٹھی، کاہااور چھاچھڑزیادہ مشہور ہیں۔ اس بارانی علاقے کی شرقی پٹی پر دریائے سندھ سے نکلنے والی نہریں ہیں جو روجھان تک کی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں جوار، باجرہ، چنا، گندم، کپاس اور تمباکو کی فصلوں سمیت ہر قسم کی سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایوبی دورِ حکومت میں جب پاکستان میں صنعتی ترقی کا ابھار تھا تو ان علاقوں کی سیرابی کے لئے تونسہ بیراج بنایا گیا (اگرچہ اس بیراج کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ صحیح مقام پر نہیں ہے کیونکہ اس وقت کے وزیر آبپاشی فاروق لغاری کے والد نواب محمد خان لغاری کا خیال تھا کہ تونسہ بیراج کی اصل مقام پر تعمیر سے اس کے مخالف بلخ شیر مزاری اور اس کے اتحادی بلوچ قبیلوں کی بے شمار اراضی آباد ہو گی جس سے ان کی معیشت مضبوط ہو گی اور محمد خان لغاری کا راج ختم ہو جائے گا۔یہ اور بات کہ لوگوں کی کثیر آبادی کا نقصان کرنے کے باوجود وہ اپنا راج قائم نہ رکھ سکے ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ہونے والے انتخابات میں ایسی شرمناک شکست سے دوچار ہوئے کہ اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھے اور پھر اسی کرب میں مبتلا ہو کر گھر میں گوشہ نشیں ہو کر فوت ہوئے اور اپنی وصیت کے مطابق اپنے ہی گھر کے صحن میں دفن ہوئے۔ اسی ایوبی دور میں پہاڑوں سے آنے والی ندی نالوں کی گزرگاہیں بنائی گئیں۔ نہروں کے دونوں کناروں پر قطار درقطار درخت اگائے گئے، جہاں جہاں سے ان رودکوہیوں کا خطرہ تھا وہاں وہاں سے نہروں کے کناروں پر پختہ پشتے بنائے گئے، نہروں اور نہر کناروں کے اکھاڑ پچھاڑ سے بچانے کے لئے محکمہ انہار کے X.EN سے لے کر بیلداروں کا ایک مربوط نظام بنایا گیا۔
گزشتہ دنوں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں تباہی پھیلانے والے سیلابی ریلے کوئی بن بلائے مہمانوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ محکمہ موسمیات نے مہینوں پہلے یہ بتا دیا تھا کہ یہ علاقے بالخصوص ضلع ڈیرہ غازی خان ایک بہت بڑی تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔ محکمہ موسمیات کی یہ پیش گوئی ڈیرہ غازی خان کی بیوروکریسی پنجاب حکومت میں شامل کھوسہ سرداروں کے لئے ایک خوشخبری ثابت ہوئی۔ روزانہ میٹنگز ہونے لگیں، اعدادوشمار کے بے ہودہ حساب کتاب کے کھیل کھیلے گئے، میٹنگز اور متوقع متاثر ہونے والے علاقوں کے دوروں پر اٹھنے والے اخراجات کے گوشوارے بننے لگے اور پھر سب کچھ ڈکارنے کے بعد سیلاب سے بچاؤ کے انتظامات مکمل کرنے کی پریس کانفرنسیں اور بیانات اخباروں کی زینت بننے لگے۔ میڈیا کو شعور کا ذریعہ سمجھ کر ان بے ہودہ بکواسوں پر یقین کر بیٹھنے والے سادہ لوح انسانوں کو کیا خبر کہ کتنا جلد تباہی ان کے دروں پر دستک دینے والی ہے ؟ڈیرہ غازی خان شہر میں تباہی پھیلانے والے سیلابی ریلے شہر کی غربی جانب موجود نہر کو ان مختلف جگہوں میں شگاف ڈال کر داخل ہوئے کہ جن جگہوں کی نشاندہی وہاں کے لوگ محکمہ انہار، ضلعی اور ڈویژنل افسران اور اپنے سیاسی نمائندوں کے سامنے بارہا کر چکے تھے۔ ان سیلابی ریلوں سے فورٹ منرو کی سڑک سینکڑوں فٹ بہہ جانے سے بلوچستان کے راستے آمدورفت منقطع ہو گئی۔ اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کو جانے والی مرکزی شاہراہ کئی جگہوں سے ٹوٹ پھوٹ ہونے کی وجہ سے پختونخواہ کے زمینی رابطے منقطع ہو گئے۔ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ عام سبزیوں کے ریٹ دوسو روپے فی کلو تک پہنچ گئے۔ سیب، انگور جیسے پھل مارکیٹ سے ناپید ہو گئے۔ اس وقت ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے سینکڑوں گاؤں، دیہی آبادیاں اور لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں برباد ہو چکی ہیں۔ ہر جگہ وہی قیامت خیز منظر ہے اور پھر وہی بے حسی اور بے غیرتی ہے حکمران ٹولے کی، ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی، مقامی بیوروکریسی، سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں، سرداروں کے گماشتہ اور دلال لوگوں کی جو مسلسل اور شرمناک جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ ایک طرف وہی تعفن ہے، ڈوب کر جان بحق ہونے والوں کی میتیں ہیں، ان کے جنازوں پر ہمدردیوں کا کھلواڑ ہے تو دوسری طرف امدادی کاروایوں کے ایسے دعوے ہیں کہ گویا یہاں بارشوں کاپانی نہیں آیا بلکہ رحمتوں اور برکتوں کا سیلاب آگیا ہے۔ تمام سرکاری عمارتوں میں آنے والا پانی ان حکومتی اہلکاروں کے لئے نجات کا ذریعہ بن کر آیا ہے جو اپنے کرتوتوں اور حرام خوریوں کو فائلوں کے ریکارڈ میں دبا کے رکھتے ہیں۔آج یہی حرام خور ایسے ریکارڈ کے بہہ جانے یا ضائع ہو جانے کی خبروں کی اشاعت پر سارا زور صرف کر رہے ہیں۔ ہر طرف ایک پریشانی اور ہُو کا عالم ہے تو کیا ہوا؟ ڈیرہ غازی خان کی ضلعی اور ڈویژنل انتظامیہ نے گرلز ہائی سکولوں کی کلاسیں کھلے عام سڑکوں پر لگانے کا حکم دے رکھا ہے تاکہ’’ پژمردہ دل سیاسی چھچھوندر‘‘ ہمدردی کے نام پر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر سکیں۔ اس پر اگر خواتین اساتذہ احتجاج کرتی ہیں تو انتظامیہ کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ احتجاج کرنے والی وہ خواتین ان بے غیرتوں کو اور بھلی لگتی ہیں کیونکہ اس سے ان کی آوازیں اور جسمانی اعضاء اور زیادہ واضح نظر آتے ہیں۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں پانی کا سیلاب نہیں آیا بلکہ حکمران طبقے، مقتدر نمائندوں اور ان کے گماشتہ عہدیداروں کے جھوٹ، مکروفریب، بے حسی اور بے غیرتی کا سیلاب آگیا ہے۔ متاثرینِ سیلاب کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے۔ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے محروموں اور مجبوروں کی ذلتوں کے فضائی تماشے دیکھے جا رہے ہیں۔ کیمروں کے فلشوں کی چکاچوندمیں امدادی سامان کے ڈھیر دکھائے جا رہے ہیں اور یہ بے حیائی بھی موجود ہے کہ امدادی سامان وصول کرنے والوں کی قطاروں میں ان سیاسی لوگوں کے اپنے گماشتے موجود ہوتے ہیں جو وصول کردہ سامان فروخت کر کے اپنا حصہ حاصل کرنے کے بعد باقی مال کا حساب تقسیم کرنے والے آقاؤں کو دے آتے ہیں۔ اس حمام میں پی پی پی ہو، ق لیگ یا ن لیگ سب ایک جیسے ننگے نظر آتے ہیں ان سیاسی جماعتوں پر مسلط بھکاری عہدیدار ہر طرف خوشی کی نوید سنا رہے ہیں ہر متاثرہ شخص تک پہنچ کر ان کے دکھ درددور کرنے کے دعوے کررہے ہیں اور اس برباد خطے کو جنت نظیر بنا دینے کے افسانے سنا رہے ہیں لیکن دوسری طرف اخبارات میں چھپنے والے متاثرین کے مظاہرے، برباد ہو جانے والوں کے بیانات، ان سب لٹیروں کے کالک زدہ چہروں کو بے نقاب کررہے ہیں۔
ظلم،جبر، لوٹ مار اور استحصال کرنے والے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا سب کچھ چلتا رہے گا، زمین یوں ہی جامد رہے گی، سورج چاند ستاروں کی گردش ان کے اشاروں کی محتاج رہے گی لیکن ان کو تاہ اندیشوں کو کیا معلوم کہ اس سماج اور اس سماج میں رونما ہونے والے مظاہر کے اپنے اصول ہوتے ہیں، جو کبھی معمولی تو کبھی غیر معمولی اظہار کرتے رہتے ہیں۔ آج کل سیلاب زدہ علاقوں میں ایسے ہلکے اور معمولی اظہار ہو رہے ہیں کہیں سابق وزیر اعلیٰ دوست محمد کھوسہ جیسے طاقت ور عوامی نرغے میں آجاتے ہیں تو کبھی لوگ سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں پر نفرت سے تھوک رہے ہیں، کہیں بیوروکریسی کے گماشتے عوامی خوف سے بھاگنے پر مجبور ہو رہے ہیں تو کبھی لوگوں کا ہجوم امدادی سامان پر جھپٹ پڑتا ہے اور جو جس کے ہاتھ لگتا ہے لے جاتا ہے۔ تاہم اس سماج میں عوامی غیض و غضب کا غیر معمولی اظہار ہونے کو ابھی باقی ہے جب لوگ سڑکوں پرنکلیں گے، کھیتوں، کھلیانوں اور فیکٹریوں میں میدان لگائیں گے۔ اپنے دکھوں، اذیتوں اور ذلتوں کا حساب لیں گے۔ کہیں تخت اچھالیں گے تو کہیں تاج کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھیں گے۔ بالآخر وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب محنت کش، دکھی، محروم اور مظلوم لوگ اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لیں گے اور یہ سماج بدل کر رکھ دیں گے پھر یہاں ایک سُرخ سویرا اُبھرے گا۔ یہ دھرتی جو صدیوں سے منحوس کہلاتی چلی آرہی ہے یہیں سے سوشلسٹ انقلاب کی کرنیں پھوٹیں گی جو پورے پاکستان،پورے برصغیر اور پوری دنیا سے محرومیوں، مجبوریوں، ذلتوں، محتاجیوں اورقدرتی آفتوں کی تباہ کاریوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے انسانیت کو سرخرو کریں گی۔