’’مناسب نہیں ہے کہ عید کے خوشگوار موقع پر نوحے پڑھے جائیں لیکن غموں، دکھوں اور کہراموں کے ماتموں میں مصنوعی طور پر خوشی منانا بھی تو کسی ذی شعور انسان کے لئے ممکن نہیں‘‘
[تحریر: قمرالزماں خاں]
دل کرتا ہے کہ کوئی خوشی نصیب ہو، دل کھول کر ہنسیں، ہم بھی کوئی جشن منائیں، مسکراہٹوں کے تبادلے ہوں اور سب کے چہرے ہشاش بشاش ہوجائیں۔ انسان ہونے کے ناتے ہم پاکستانیوں کا بھی زندگی کی رعنائیوں پر حق ہے۔ اس ملک میں رہنے والی ذی روح مخلوق بھی چاہتی ہے کہ وہ ناچیں گائیں اور زندگی کے شب و روز کو ہر ہر لمحہ انجوائے کریں!یہ خواہش مجھ سمیت ہر پاکستانی کی ہے، تب سے جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے۔ پر کیا کریں؟ ہزاروں سالوں سے بارشیں لانے والی مون سون کبھی کم ہوں یا انکا رخ کسی اور طرف ہوجائے تو خشک سالی ہوجاتی ہے، جس سے ملک کے کسی نہ کسی حصے میں قحط پھیلتا ہے اورانسانوں کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے اور بے چارگی کی تصویریں ہر اخبار میں چھپتی ہیں۔ روہی کے ٹوبے سوکھتے ہیں تو ہزاروں مویشی مرجاتے ہیں جس سے سینکڑوں خاندان ایک لمبے عرصے کیلئے غربت کی کھائی میں جا گرتے ہیں۔ فصلیں کم ہونے سے غذائی قلت اور بڑھ جاتی ہے۔ ٹیل کے دیہات میں رہنے والے چھوٹے کسانوں کی دو تین ایکڑ زمین خوشحالی کی جگہ جب قرض اور بھوک کی فصل اگاتی ہے تو ان کو اپنی ماں کی طرح عزیز زمین اونے پونے بیچنی پڑتی ہے۔ پھرایسے سال بھی آتے ہیں کہ مون سون ہوائیں ہماری بستیوں، شہروں حتیٰ کہ شہروں میں قہر بن کر اترتی ہیں۔ اپنی ایک ہی بارش میں درجنوں افراد کو غربت، لوڈ شیڈنگ اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ اس نظام میں زندگی کے عذاب سے چھٹکارا دلاجاتی ہیں اور ساتھ ہی ملک میں قائم کئے گئے چھیاسٹھ سالوں کے انفرا سٹرکچر کا بھانڈا پھوڑ جاتی ہیں۔ بارش سارا دبا ہوا گند اور آلودگی نکال باہر کرتی ہے۔ ایک ہی بارش سے درجنوں افراد کراچی جیسے جدید شہر میں ہلاک ہوجائیں اور پورا شہر نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے غلیظ پانی کا ’’وینس‘‘ بن جائے تومحسوس کیا جاسکتا ہے کہ نعمت اللہ، مصطفی کمال اور دیگران نے اربوں کھربوں روپے لگا کر کتنا مثالی ’’انفراسٹرکچر‘‘ بچھایا ہے!
بارشیں دنیا بھر میں ہوتی ہیں اور غیر معمولی بارشوں سے نقصانات بھی ہوتے ہیں مگر اس صورتحال کا تدارک کیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں زندگی سے زیادہ موت کی بریکنگ نیوز اہم ہوچکی ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں خوشیاں کسی کوراس نہیں آتیں، اسی وجہ سے یہاں قومی سطح پر خوشی کے تہواروں کی بھی قلت ہے۔ سوائے عیدین کے تہواروں کے خوشی کی رسم کو زیادہ پذیرائی نہیں بخشی جاتی۔ مگر یہ عید اپنے جلو میں کیا کچھ تباہی نہیں لے کر آئی؟ بارشوں سے ہلاکتیں، سیلاب کی تباہی، حادثات اور اموات کا نہ تھمنے والا سلسلہ اور پھر مسجد میں نماز عید پڑھنے والے نمازیوں کے ساتھ ساتھ ان مزدوروں کا قتل عام جو کئی مہینوں کی مزدوری کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ عید منانے کو چلے تھے کہ بسوں سے نکال کر شناختی کارڈ چیک کر کے مار دیے گئے۔ اس صورتحال میں جب ہمارے گھروں کے ساتھ ان سہاگنوں کا بین اور یتیموں کا ماتم ہورہا ہو جن کو اس تاراج ہوتے ہوئے معاشرے میں اب لاوارثی کا سامنا ہوگا تو پھر عید کی خوشیاں کوئی کیسے منائے؟ منگل کولیاری میں فٹ بال کے گراؤنڈ میں بم دھماکے سے گیارہ نوخیز زندگیوں کے چراغ گل کردئے گئے۔ دو روز قبل چلاس میں تین سرکاری اہلکاروں سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ یہ سلسلہ ہے کہ کسی بھی تاریخ یا مہینے پر رکتا نہیں ہے اور نہ ہی بظاہر مستقبل میں اس کے تھمنے کے کوئی امکانات نظر آتے ہیں۔ دکھو ں کا دریا ہے اور کوئی کنارہ نہیں ہے۔ اب دہشت گردی کی ہلاکتوں اور قتل و غارت گری کا مقابلہ ایک بار پھر سیلاب کی تباہ کاریوں کے ساتھ شروع ہوچکا ہے۔ سالہاسال سے رحیم یارخاں شہر کو ایک محفوظ و مامون اور پرامن شہر سمجھا جاتا تھا اور بڑی حد تک یہ تھا بھی۔ لیکن چند روز پہلے یوم القدس کے موقع پر اپنے گھر سے نکلنے والے شیخ منظور عرف مجواور اسکے نوعمر بیٹے حیدر کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ یہ ایک اندوہناک واقعہ تھا۔ اس قتل سے کئی دن تک رحیم یارخاں میں مار کٹائی، زبردستی کی ہڑتالیں کرانے اور اسکے ردعمل میں مذہبی عبادگاہوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کشیدگی کی وجہ سے لوگوں کے لئے عید کی شاپنگ کرنا اور بازار جانا مشکل ہوگیا کہ ناجانے کس وقت ’’نامعلوم‘‘ افراد بازار بند کرلو کے نعرے مارتے نکلیں اور دو چار راہ گیروں کو ’’ماحول گرم کرنے کے لئے‘‘ بھون دیں۔ وقتی طور پر تو پولیس کے سربراہ نے کریش پروگرام کے تحت حالات پر قابو پالیا ہے مگر رحیم یارخاں میں موجودایسے فرقہ ورانہ متشدد عناصر، جن کو مبینہ طور پر پنجاب حکومت کی مالی، سیاسی اور اخلاقی حمایت حاصل ہے، کا نیٹ ورک خاصہ فعال اور طاقتور ہوچکا ہے۔
عید کی خوشیوں کا براہ راست تعلق کچھ لوازمات سے جن میں کپڑوں، جوتوں، چوڑیوں، کھلونوں، روایتی پکوانوں غیرہ سے ہے، مگر اسٹیل ملز کے چودہ ہزار گھرانے جن کو پچھلے ڈھائی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے تنخواہ سے محروم ملازمین کی طرح کئی اداروں کے ملازمین اور انکے بچوں کی عید جس فاقہ مستی میں کٹے گی اس کا احساس شاید ان اراکین اسمبلی اور حکمرانوں کو ہو ہی نہیں سکتا جن کی کارکردگی زیرو ہے مگر تنخواہیں اور بونس لاکھوں کروڑوں میں۔ یہ کوئی مناسب نہیں ہے کہ عید کے خوشگوار موقع پر نوحے پڑھے جائیں لیکن غموں، دکھوں اور کہراموں کے ماتموں میں مصنوعی طور پر خوشی منانا بھی تو کسی ذی شعور انسان کے لئے ممکن نہیں۔