’’یہ واقعہ ایک زخم بن کر محنت کشوں کے اجتماعی شعور پر نقش ہو چکا ہے، جس کا حساب وہ جلد یا بدیر چکتا ضرور کریں گے‘‘
[تحریر: لال خان]
آج سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو ایک سال اور ایک دن بیت چکا ہے۔ اس نظام کی بے حسی اور سفاکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی تک اس سانحہ میں شہید ہونے والے محنت کشوں کی حتمی تعداد کا تعین بھی نہیں ہوسکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار میں ہمیشہ کی طرح بچوں اور خواتین سمیت زندہ جل کر ہلاک ہونے والے محنت کشوں کی تعداد کو حقیقت سے انتہائی کم ظاہر کیا جارہا ہے۔ مزدور تنظیموں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ریاستی اداروں کی یہ بے حسی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی کے لئے محنت کشوں کی زندگی کتنی بے معنی اور سستی ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں گارمنٹس کی صنعت میں سرمایہ کاری کی وجہ مقامی سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو کم ترین اجرت پر میسر آنے والے مزدور ہیں جن کی قوت محنت کا استحصال کر کے ہوشربا منافعے کمائے جاتے ہیں۔ چین کی نسبت پاکستان میں گارمنٹس فیکٹریوں کے مزدوروں کی اجرت صرف 15 فیصد ہے۔ کم از کم اجرت کے سرکاری قوانین کچھ بھی ہوں، بیروزگاری اور غربت سے بدحال محنت کش انتہائی قلیل اجرت کے عوض اپنی محنت فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ علی انٹرپرائزز کی جس فیکٹری میں آتش زدگی کا یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا وہاں خواتین تین ہزار روپے ماہوار اجرت پر کام کرہی تھیں۔ اتنا بڑا سانحہ ہونے کے باوجود اس فیکٹری کے آس پاس واقع ایک سو سے زائد فیکٹریاں بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے بدستور کام کررہی ہیں۔
آتش زدگی کے دن بڑی تعداد میں محنت کش فیکٹری کے تہہ خانے میں کام کر رہے تھے۔ اس تہہ خانے سے باہر نکلنے کا صرف ایک راستہ تھا جسے ایک بھاری تالے کے ذریعے بند کیا گیا تھا۔ کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخیں اور جالیاں لگی تھیں تا کہ اس فیکٹری میں تیار ہونے والی گارمنٹس کا کوئی ٹکرا باہر نہ لے جایا جا سکے۔ پندرہ سال سے کم عمر کے بہت سے بچے بھی اس فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے۔ فیکٹری میں بڑی تعداد میں محنت کش ڈیلی ویجز اور ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرتے تھے جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہ تھا۔ صرف چند دن پہلے ہی عالمی انسپیکشن کے حکمران اداروں نے فیکٹری کو سیفٹی کے حوالے سے سند جاری کی تھی جس میں درج تھا کہ فیکٹری میں آگ بجھانے کا مناسب انتظام موجود ہے۔ منافع کی ہوس میں دُھت سرمایہ داروں نے ان تمام سنگین جرائم کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں آگ بھڑکنے کے بعد انتہائی سفاک اور بہیمانہ رویہ اپنایا۔ آگ لگنے کے بعد محنت کشوں کی حفاظت اور بچاؤ کے لیے تدبیر کرنے کی بجائے انہوں نے تیار مال کو بچانے کی تگ و دو شروع کر دی اور محنت کشوں کے لیے باہر نکلنے کے تمام راستے بند کرتے ہوئے مین دروازے سے یورپی منڈی کے لیے تیار گارمنٹس کو فیکٹری سے باہر نکالنا شروع کر دیا۔
اس دوران آگ کے شعلے تیزی سے بھڑکنے لگے اور محنت کشوں کے جسموں کوجھلساتے ہوئے انہیں راکھ کا ڈھیر بنانا شروع کر دیا۔ جس وقت فیکٹری مالکان ایک بے رحم بے حسی اختیار کئے ہوئے تھے، ہر طرف سے آگ کے شعلوں میں لپٹے محنت کشوں نے انسانیت، جرات، بہادری اور یکجہتی کی ان مٹ داستان رقم کی۔ تین بچے کسی طرح کھڑکیوں کی جالیاں کاٹ کر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آنے سے بچ گئے، لیکن یہ بچے ان ظالم سرمایہ داروں کی طرح بے رحم نہیں تھے بلکہ ان کی انسانیت زندہ تھی۔ اپنے طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے قربانی، ایثار اور ہمت کی ایک نئی داستان رقم کی۔ زندہ بچ کر بھاگنے کی بجائے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو باہر نکالنے کی کوشش شروع کر دی اور مزید اوزار اکٹھے کیے تا کہ دہکتی فیکٹری کی کھڑکیوں کو توڑکر باقی محنت کشوں کو باہرنکالاجائے۔ اسی کوشش کے دوران آگ کے شعلے زیادہ شدت سے بھڑکنے لگے اور دیگر محنت کشوں کو بھسم کرتے ہوئے ان معصوموں کے جسموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ بچے بھی اپنے دیگر محنت کش ساتھیوں کے ساتھ اسی جگہ جل کر خاکستر ہو گئے لیکن پرولتاری جرات کی داستان رقم کر گئے۔
اس نظام کی بازاری دانش انسان کو فطرتاً لالچی اور خود غرض قرار دیتی ہے، لیکن یہ واقعہ اس فلسفے کو مسترد کرتا ہے۔ منافع کی ہوس سرمایہ داروں کوانسان سے درندہ بنا دیتی ہے جبکہ محنت کرنے والے ’’ان پڑھ‘‘ اور ’’گنوار‘‘ انسانیت اور قربانی کی عظیم مثالیں قائم کرجاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ نظام اور اس کے رکھوالے ان درندوں کے پاسبان ہیں۔ ایک سال گزرنے کے باوجود وہ درندہ صفت مالکان آزاد گھوم رہے ہیں اور انہیں کوئی سزا نہیں ملی۔ اس وقت کے ’’مقبول‘‘ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے چیمبر آف کامرس کراچی کے کہنے پر مالکان پر قائم تمام مقدمات ختم کردئیے تھے۔ انصاف کے ایوانوں میں بھی شرمناک خاموشی چھائی رہی۔
پاکستان میں مزدور تحریک کی عارضی پسپائی کی وجہ سے اجتماعی طور پر محنت کش طبقے کا کوئی بڑا رد عمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن یہ واقعہ ایک زخم بن کر محنت کشوں کے اجتماعی شعور پر نقش ہو چکا ہے، جس کا حساب وہ جلد یا بدیر چکتا ضرور کریں گے۔ بے حسی اور خود غرضی کے اس سماج میں ہمیں جواد احمد جیسے انقلابی فنکار بھی نظر آتے ہیں جس نے اس المیے پر ایک دلسوز گیت تخلیق کر کے دنیا بھر کے محنت کشوں کے سامنے اس ظلم اور درندگی کو بے نقاب کیا۔
اپنے منافعوں میں اضافے کے لئے، مالیاتی طور پر کمزور اور تاریخی طور پر متروکیت کا شکار پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ مزدوروں کے کام کرنے کے حالات کو تلخ اور خطرناک کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ سرکاری کاغذوں میں درج حفاظتی انتظامات کو نافذ کرنے کے لئے سرمایہ خرچ کرنا پڑتاہے۔ ایسے میں اپنے منافعوں میں اضافے کے لئے بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کرنے والے سرمایہ داروں سے کیا مزدوروں کی بھلائی کی توقع کی جاسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں حکمران طبقات کی فطرت رجعتی اور انسان دشمن ہوچکی ہے۔ کم سے کم سرمایہ کاری کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس اس نظام کی قوت محرکہ ہے۔ جب تک یہ نظام موجود ہے ایسے سانحے ہوتے رہیں گے۔ ان سیٹھوں سے توقع کرنا کہ یہ مزدوروں کی صحت اور زندگیوں کا خیال کرتے ہوئے حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں گے، سراسر خود فریبی اور دھوکہ دہی ہے۔ جدید صنعتی انفراسٹرکچر اور صحت مند سرمایہ داری نہ کبھی اس معاشرے میں پنپ سکے ہیں اور نہ مستقبل میں اس کا کوئی امکان ہے۔ اس نظام کے بڑھتے ہوئے بحران کے ساتھ صحت، تعلیم، علاج اور دوسری بنیادی ضروریات زندگی بھی مزدوروں سے چھینی جارہی ہیں۔
جب نظام میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہوجائے تو یہ ناسور بن کر پورے سماج کو زہر آلود کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کارل مارکس نے آج سے ڈیڑھ صدی پہلے دنیا بھر کے محنت کشوں کو ایک ہوجانے کا پیغام دیا تھا اور مزدوروں کی عالمی تنظیم (پہلی انٹرنیشنل) قائم کر کے عالمی مزدور تحریک کو ’’ایک کا زخم، سب کا زخم‘‘ کے جذبے سے سرشار کیا تھا۔ مارکس کا یہ پیغام آج بھی زندہ ہے اور سرمائے کے اس ناسور کو ایک انقلابی جراحی کے ذریعے انسانی سماج پر سے کاٹ پھینکنے کا واحد راستہ ہے!
متعلقہ:
کراچی بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں زندہ جل کر ہلاک ہونے والے مزدوروں کی قیمت؛ 1930یورو؟
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے خلاف دادو میں ریلی
حیدر آباد میں احتجاجی مظاہرہ:سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ذمہ داروں کی پھانسی کا مطالبہ
بلدیہ ٹاؤن کراچی: یہ ’’قومی‘‘ سانحہ نہیں بلکہ طبقاتی استحصال کی پیداوار ہے