1968-69ء کے پچاس سال: وہ ادھورا انقلاب مکمل کرنا ہو گا!

تحریر: لال خان

آج سے پچاس سال پہلے کے موسمِ خزاں میں اس سرزمین نے اپنی تاریخ کے سب سے عظیم الشان لمحات کا مشاہدہ کیا تھا۔ جب پاکستان کے نومولود پرولتاریہ اور محکوم طبقات کے بڑھتے قدموں کی جنبش سے زمین و آسمان لرز رہے تھے۔ یہ لاکھوں کروڑوں استحصال زدہ مجبور لوگ اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں لینے کا عزم لیے تاریخ کے میدان عمل میں داخل ہوئے تھے۔ ایسے انقلابی عہد تاریخ کے غیر معمولی اور استثنائی وقت ہوتے ہیں۔ انقلابات روز روز برپا نہیں ہوا کرتے۔ لیکن یہ ایک انقلاب تھا جو 7 نومبر 1968ء کو پھوٹ کر 26 مارچ 1969ء کو ایوب خان کی آہنی آمریت کے دھڑن تختے پر منتج ہوا تھا۔ اس نے مروجہ نظام اور اس کے اداروں کو چیلنج کر دیا تھا۔ محنت کشوں کے غیض و غضب، اُبال اور غیر معمولی واقعات سے بھرپور اِن تقریباً پانچ مہینوں کے دوران سوشلسٹ فتح کے امکانات اُفق پر بالکل واضح تھے۔
6 اور 7 نومبر 1968ء کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی یہ انقلابی کیفیت پاکستان میں وہ تاریخی کردار ادا کر سکتی تھی جو 1917ء کے انقلاب نے روس میں کیا تھا۔ 139 دن تک پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھنے والی وسیع پیمانے کی عوامی بغاوت کو چنگاری راولپنڈی شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گورنمنٹ پولی ٹیکنیک کالج کے سامنے طلبہ کے پولیس کیساتھ تصادم سے ملی تھی۔ ان طلبہ کا تعلق پولی ٹیکنیک اور گورڈن کالج سے تھا جو اپنے بنیادی حقوق پر مبنی مطالبات کے لئے احتجاج کر رہے تھے۔ لیکن اس چنگاری نے جس انقلاب کو بھڑکایا اُس نے اسلام آباد سے لے کر دہلی اور واشنگٹن تک اقتدار کے ایوانوں کو ہلا ڈالا تھا۔
پاکستانی سماج کے غیرہموار اور مشترک نوعیت کے تاخیر زدہ سرمایہ دارانہ طرز ارتقا میں ایوب خان دور کی بلند معاشی شرح نمو کسی دور رس سماجی ترقی اور استحکام کا باعث نہیں بنی تھی۔ اس تیز صنعتکاری، جس کے ثمرات مٹھی بھر سرمایہ دار خاندانوں تک محدود رہے، نے طبقاتی تضادات کو بھڑکا ڈالا تھا۔ یہ تضادات پھر ایک انقلاب کی شکل میں پھٹ پڑے اور جنوری 1969ء تک بالخصوص مغربی پاکستان کے ہر بڑے شہر میں عوامی سرکشی کا سماں تھا۔ محنت کش طبقات کے شعور میں لگنے والی جست کی غمازی بڑی ہڑتالوں، قبضوں اور مختلف نوعیت کی وسیع ایجی ٹیشن سے ہو رہی تھی۔
اُن دنوں اسلام آباد میں واقع سفارتخانوں کی خط و کتاب سامراجیوں کے خوف کا واضح پتا دیتی ہے۔ راولپنڈی میں برطانوی ہائی کمیشن نے لندن کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے لکھا: ’’فوج کے بہت سے نوجوان فوجی افسران بہرصورت بھٹو کے ’نظریات‘ اور شخصیت کی طرف متوجہ ہوں گے۔ نوجوان ترکوں کی طرز کی ایک تحریک کے اپنے سویلین حامیوں کیساتھ مل کر فوج کا کنٹرول سنبھالنے اور بھٹو کو اقتدار میں لانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا… برطانیہ کے معاشی اور تجارتی مفادات کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ مزید برآں ایک انقلابی صورتحال پیدا ہو گی … جو مغربی بنگال میں ہونے والے واقعات سے جڑنے میں ناکام نہیں رہے گی…‘‘
بیسویں صدی کے کئی دوسرے انقلابات کی طرح یہاں بھی انقلاب کے شعلوں کو بھڑکانے میں طلبہ پیش پیش تھے۔ بعد ازاں محنت کش بھی طلبہ اور بیروزگار نوجوانوں کیساتھ احتجاجی تحریکوں میں شامل ہو گئے جس نے مغربی و مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں ایک انقلابی صورتحال پیدا کر دی۔ حکومت کی لیبر پالیسیوں اور ادارہ جاتی ڈھانچوں کی حدود و قیود میں رہنے والے لیبر رہنماؤں کو تحریک نے جلد ہی پچھاڑ دیا۔ مختلف صنعتی علاقوں میں تیزی سے ابھرنے والی ہڑتالی کمیٹیوں میں ریڈیکل نوجوان، جو اب تک زیادہ تر طلبہ سیاست سے وابستہ رہے تھے، ایک مشترکہ مقصد کے تحت محنت کشوں کیساتھ رابطے میں آگئے۔ تحریک کے واضح سیاسی کردار نے اس نوعیت کے یکجا عمل، جس میں سیاسی طور پر پہلے سے سرگرم پڑھے لکھے نوجوان اور محنت کش ایک دوسرے سے جڑ گئے، کو زیادہ بااثر بنا دیا۔ کئی صورتوں میں یہ جڑت‘ محنت کشوں کی نئی تنظیموں کی تشکیل پر منتج ہوئی جو فوری مطالبات سے بہت آگے کے انقلابی نصب العین کی حامل تھیں۔

1968ء: این ایس ایف کا ایک رہنما طلبہ کے جلسے سے خطاب کر رہا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے موقع کو مناسب جانا اور نومبر 1968ء سے ہی تحریک میں مداخلت شروع کر دی۔ کئی سال بعد اُس نے سٹینلے وولپرٹ کو بتایا، ’’جب میں ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل (راولپنڈی) پہنچا تو مال کے پورے علاقے کو آنسو گیس کے دھویں سے اٹا ہوا پایا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد مجھے پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے ٹیلی فون کال موصول ہوئی کہ پولیس نے گولی چلا دی تھی جس میں ایک طالب علم عبدالحمید ہلاک ہو گیا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ طلبہ لاش کو ایوانِ صدر لے جانے پر بضد تھے اور چاہتے تھے کہ میں جلوس کی قیادت کروں۔‘‘
راولپنڈی میں اس پرانتشار استقبال کے بعد بھٹو صاحب بذریعہ ٹرین لاہور کے تاریخی سفر پر روانہ ہوئے جس میں راولپنڈی کے کئی طلبہ رہنما بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ راستے میں آنے والے سٹیشنوں پر ہزاروں لوگوں نے سرخ جھنڈوں والے اس قافلے کا بھرپور استقبال کیا۔ ایوب خان کی حکومت کی جانب سے معزول کیے جانے کے بعد یہ بھٹو کا پہلا دورہ لاہور تھا۔ وولپرٹ لکھتاہے، ’’وہ دو سال کی فصاحت بھری خاموشی کے بعد لاہور آیا تھا اور نم آنکھوں کیساتھ اُن ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ نوجوانوں سے خطاب کر رہا تھا جو اُس کی ایک جھلک دیکھنے کو ریلوے سٹیشن پر جوق در جوق اکٹھے ہوئے تھے۔ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔‘‘
بھٹو نے محسوس کر لیا تھا کہ عوام کا مزاج ہر رکاوٹ کو پاش پاش کر کے تحریک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا ہے۔ اُس نے بالکل درست وقت پر ضرب لگائی۔ 13 اور 14 نومبر کو بھٹو سمیت بائیں بازو کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس اقدام نے بپھرے ہوئے لوگوں کو اور بھی مشتعل کر دیا۔ 15 نومبر کو وکلا کے وسیع احتجاجوں نے عدالتی نظام کو بند کر دیا۔
نومبر 1968ء کے آخر میں ایک عام ہڑتال نے راولپنڈی کو جام کر دیا۔ طلبہ اور مزدوروں سے پولیس کے تصادم تمام روز جاری رہے۔ بیرکوں سے فوج پورے دھیان سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ تقریباً ایک ہفتے بعد ایک اور عام ہڑتال نے 7 دسمبر کو ڈھاکہ کے نظامِ زندگی کو مفلوج کر دیا۔ اب کی بار پولیس کی فائرنگ سے کئی نوجوان ہلاک اور زخمی ہوئے۔ بائیں بازو کے مقبول رہنما مولانا بھاشانی، جن کی ’نیشنل عوامی پارٹی‘ نظریاتی طور پر ماؤسٹ ماڈل سے قریب تھی، نے سارے مشرقی پاکستان میں مکمل ہڑتال کی کال جاری کر دی۔ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے بھی بھاشانی کی کال کی پیروی کی اور مشرقی بنگال میں کاروبارِ زندگی رُک گیا۔
ایوب خان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اُس کے اقتدار کے دن گنے جا چکے ہیں۔ وہ عام لوگوں میں جانے سے یکسر قاصر ہو چکا تھا بصورتِ دیگر مار دیا جاتا یا کسی پرتشدد مظاہرے کو بھڑکانے کا موجب بنتا۔ اس کے باوجود اس کا خیال تھا کہ فوج اگرچہ بھارت کو ہرانے کے قابل تو نہیں تھی، لیکن کم از کم اِس انتشار اور سیاسی مخالفت کو کچل سکتی تھی۔ تاہم وہ حقیقت سے کوسوں دور تھا۔ فوج شاید ہندوستان سے تو لڑ سکتی تھی لیکن انقلاب کو کچلنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ اُلٹا اُس وقت مسلح افواج کو اگر عوامی بغاوت کو کچلنے کے لئے استعمال کیا جاتا تو وہ خود ٹوٹ جاتیں۔
28 نومبر کو پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی نے مشترکہ مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد کیا۔ 8 دسمبر کو ایوب خان نے ڈھاکہ کا دورہ کیا جہاں طلبہ نے اُس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ پولیس کی فائرنگ سے دو طلبہ جاں بحق ہوئے۔ 1968ء کو ’پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ کی کال پر صحافیوں نے ملک گیر ہڑتال کی۔
20 جنوری کو ایک کمیونسٹ طلبہ رہنما اسد کو پولیس نے قتل کر دیا۔ اُس کی موت نے ملک میں طلبہ کی لڑاکا کاروائیوں کو شدید تر کر دیا۔ 21 جنوری کو ڈاکٹروں کا پہلا احتجاجی مظاہرہ لاہور میں ہوا جس میں ریڈیکل مطالبات پیش کیے گئے۔ 24 جنوری کو عام ہڑتال نے لاہور کو بند کر دیا۔ شہر میں 24 گھنٹے کا کرفیو نافذ کر دیا گیا اور فوج کو تعینات کر دیا گیا۔ تاہم ہزاروں عام لوگوں بالخصوص طلبہ نے سڑکوں پر آ کے کرفیو کی خلاف ورزی جاری رکھی۔

ذوالفقار علی بھٹو این ایس ایف اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔

25 جنوری کو کراچی میں بڑا مظاہرہ ہوا۔ دنگا فساد بھی ہوا جس میں کئی بسوں کو آگ لگا دی گئی۔ یہاں بھی پورے شہر پر کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفتر پر حملہ ہوا اور اسے آگ لگا دی گئی۔ کراچی کیساتھ ساتھ گوجرانوالہ، لاہور، ڈھاکہ اور کئی دوسرے شہروں میں کرفیو کے اوقات بڑھا دئیے گئے۔ 26 جنوری کو ڈھاکہ اور نارائن گنج میں کرفیو توڑنے والے تین لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ پوری تحریک کے دوران مشرقی اور مغربی پاکستان میں کُل 239 لوگ ہلاک ہوئے۔
21 فروری 1969ء کو ایوب خان نے اعلان کیا کہ وہ 1970ء کے صدارتی انتخابات میں امیدوار نہیں ہو گا۔ لیکن اس سے تحریک ٹھنڈی پڑنے کی بجائے اور بھی پراعتماد ہو گئی، مزید بھڑک اٹھی اور ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ نچلے درجے کے سرکاری ملازمین بھی اب احتجاج کرنے لگے۔ لاہور میں مغربی پاکستان سیکریٹر یٹ کے کلرکوں کی ہڑتال جلد ہی کلاس سوئم اور چہارم کے ملازمین تک پھیل گئی۔ کچھ ہی دنوں میں اس میں سرکاری ہسپتالوں، پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ، ڈاک، روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن، نیشنل بینک اور واپڈا سمیت کئی حکومتی اداروں کے نچلے درجے کے ملازمین شامل ہو گئے۔ اس عرصے میں مزدور تنظیموں میں منظم محنت کش کہیں زیادہ متحرک اور لڑاکا ہو چکے تھے۔ مغربی پاکستان میں بڑی یونینوں اور فیڈریشنوں کے رہنماؤں نے ’جوائنٹ لیبر کونسل‘ (JLC) قائم کی۔ جس نے مارچ کے پہلے ہفتے کو ’محنت کشوں کے مطالبات کا ہفتہ‘ قرار دے دیا اور 17 مارچ 1969ء کو ملک گیر ہڑتال کی کال دی۔ یہ ہڑتال انتہائی کامیاب رہی۔ واپڈا کے محنت کشوں نے ایوانِ صدر، اسلام آباد سول سیکریٹریٹ، حکومتی دفاتر اور جی ایچ کیو کی بجلی دو گھنٹے تک منقطع رکھی۔ ’ویسٹ پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز‘ (WPFTU) کے صدر بشیر بختیار کے مطابق، ’’یہ ایوب خان کے نام ہمارا پیغام تھا: اگر تم نہیں جاتے تو بجلی مستقل بند رہے گی۔‘‘یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ محنت کشوں کا شعور نئی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔
مارچ کا سارا مہینہ پورے ملک میں محنت کشوں کی بغاوتوں سے لبریز تھا جن میں جلاؤ، گھیراؤ اور فیکٹریوں پر قبضوں کے واقعات شامل تھے۔ سرکاری ملازمین کی ہڑتالوں کے ساتھ مل کر ان حالات نے نہ صرف نظامِ حکومت بلکہ تمام معیشت کا پہیہ بھی جام کر دیا۔ انقلابی عمل میں محنت کش طبقے کی فعال شمولیت، بہتر اجرتوں کے لئے سیاسی طریقہ کار کی کارگری کا ادراک حاصل کرنے اور ہڑتال کرنے کے حق، صنعت کی نیشنلائزیشن و سرمایہ داری کے خاتمے جیسے وسیع تر مطالبات سے نظریاتی طور پر تحریک کے سب سے اعلیٰ مرحلے کا آغاز ہو گیا۔ اس کا ناگزیر مطلب ملک میں بڑھتی ہوئی نظریاتی پولرائزیشن تھا۔ تحریک، جس کی شخصی نمائندگی اب بھٹو اور بھاشانی کی شکل میں زیادہ سے زیادہ ہونے لگی تھی، بدستور ایوب خان کے فوری استعفے کا مطالبہ کر رہی تھی لیکن اس سے آگے کی انقلابی امنگوں کا اظہار بھی کرنے لگی تھی۔
ایوب خان دور کی تیز صنعتکاری کے باوجود پاکستان 1968-69ء میں ابھی تک ایک زرعی سماج تھا۔ آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی تھی۔ لیکن شہروں سے اٹھنے والے انقلابی نعروں اور مطالبات کی گونج دیہاتوں میں بھی زیادہ سے زیادہ سنی جانے لگی تھی۔ جس کے کسان عوام کی سوچ، نفسیات اور شعور پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ جلد ہی ایک دیوہیکل کسان بغاوت بھی بیدار ہو گئی اور شہروں میں جاری انقلاب سے مل گئی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں دہقان، ہاری اور چھوٹے کسان بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کی دھونس اور غلبے کو چیلنج کرنے لگے۔ کسان تحریک کا مقبول نعرہ ’’جیڑا واوے، اوہی کھاوے‘‘ تھا یعنی پیداوار پر حق صرف محنت کرنے والوں کا ہے۔

1968ء: کراچی میں طلبہ کی ریلی جس میں امریکی سامراج کے خلاف اور سوشلزم کے حق میں نعرے بلند کیے گئے۔

اِس خطے میں کسان بغاوتوں کی طویل تاریخ ہے۔ ان سے برآمد ہونے والے کسان جلسوں اور اکٹھ کی روایت نے دیہی تحریک کو کچھ تنظیمی بنیاد میسر کی۔ پہلی کسان کانفرنس کا انعقاد مارچ 1948ء میں ضلع لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کی ٹوبہ ٹیک سنگھ تحصیل میں ہوا تھا۔ اس کانفرنس میں پنجاب کسان کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے دیہی اور شہری علاقوں کے کسانوں کو متوجہ کیا تھا۔ 1968-69ء کے انقلاب نے ایک بلند تر پیمانے پر اسی روایت کا احیا کیا اور پنجاب کے مختلف حصوں میں کسان کانفرنسیں منعقد ہونے لگیں جن میں 23 اور 23 مارچ 1970ء کی ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کانفرنس کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ اس جلسے میں پورے ملک سے پانچ لاکھ کسانوں نے شرکت کی۔ نمایاں مقررین میں مولانا بھاشانی، فیض احمد فیص، احمد راہی اور معراج محمد خان شامل تھے۔ لوگ اس محور کے گرد کسی گردباد کی طرح گھومنے لگے۔ پنجاب اور سندھ کے جاگیردار تھر تھر کانپ رہے تھے۔ امریکی اور یورپی سرمائے کے تابعدار سرمایہ داروں کا خون خشک ہو رہا تھا۔ ملاں اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے تھے کہ مظلوم خلق اُس نظام کو تبدیل کرنے چلی ہے جسے آج تک وہ خدا کی رضا قرار دیتے آئے ہیں۔
یہاں کی ریاستی افسر شاہی صدا سے ماضی کی پرستش کرتی آئی ہے اور اس کے خیالات اور رویوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد ہی شاید ہی کچھ تبدیل ہوا ہے۔ لاہور میں طلبہ نے حکومت نواز اخباروں کے دفاتر نذرِ آتش کر دئیے۔ پچاس ہزار سے زیادہ طلبہ اور مزدوروں نے سڑکوں پر مارچ کیا۔ پولیس سے جھڑپیں اور سرکاری دفاتر پر قبضے ہوئے۔ لاہور میں 26 جنوری کی شام ڈھل رہی تھی اور سپریم کورٹ کی عمارت کے گرد و نواح میں آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ یہ آگ اُس عدلیہ سے نفرت کا اظہار تھی جس نے ایوب راج کے دس سالوں کے دوران بھرپور گماشتگی کا کردار ادا کیا تھا۔ عوام کے غیض و غضب نے ریاست کے سب سے عیار اور فریب کار ادارے کی عمارت کو جلا کے راکھ کر ڈالا تھا۔
لاہور، کراچی اور راولپنڈی میں طلبہ سرکاری افسران کی پرتعیش گاڑیوں کو روکتے تھے، انہیں باہر نکالتے تھے اور ایوب مخالف نعرے لگانے پر مجبور کرتے تھے۔ کسی ایک افسر نے بھی انکار نہیں کیا! دیکھنے والے اِس تماشے سے خوب لطف اندوز ہوتے تھے… لاہور میں پولیس کے سب سے سینئر افسر کی وردی اتار کے اُسے طلبہ کے مظاہرے کے آگے آگے چلایا گیا تھا۔ صحافی، اساتذہ، ڈاکٹر، نرسز، انجینئر، آرکیٹیکٹ اور دوسرے نسبتاً مراعت یافتہ پیشوں کے لوگ بغاوت کا حصہ بنتے جا رہے تھے۔ 13 فروری کو ریلوے کے 30 ہزار مزدوروں نے اپنے ماؤسٹ خیالات رکھنے والے رہنماؤں کو مظاہرہ منعقد کرنے پر مجبور کیا اور لاہور کی بڑی شاہراہوں پر مارچ کیا۔ انہوں نے سرخ جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور ’’سرمایہ داری مردہ باد‘‘ اور ’’مذہب کو سیاست سے جدا رکھو‘‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ اسی دن دوسرے شعبوں کے محنت کشوں نے پانچ احتجاجی مظاہرے کیے اور ٹریفک بالکل رُک گئی۔
لاہور میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے شہر پر مزدور راج قائم ہو چکا ہو۔ ’دی ٹائمز‘(لندن) کے نمائندے نے 14 فروری 1969ء کو رپورٹ دی: ’’بغاوت، جو اب تک طلبہ اور سیاسی کارکنان تک محدود تھی، میں محنت کش طبقے کی شمولیت کے بعد دیکھنے والے سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ کیا حکومت یا اپوزیشن ان قوتوں کو قابو کر سکتی ہے جو پاکستان میں بے قابو ہو چکی ہیں… ‘‘ اسی دن طلبہ نے لاہور ریلوے سٹیشن کے قریب سگنل خراب کر کے ٹرینوں کی آمد و رفت معطل کر دی۔
انقلاب نے درمیانے طبقات کے پس و پیش، تذبذب اور ہچکچاہٹ کی گنجائش بھی ختم کر دی تھی۔ فن، دانش اور اعلیٰ تعلیم سے وابستہ ایسے پیشے اور شعبے جنہیں ’معمول‘ کے حالات میں حکمران طبقات اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے استعمال کرتے ہیں، محنت کش طبقے کی پیروی کرنے لگے تھے۔ ان میں سب سے اہم اور منظم جدوجہد صحافیوں کی تھی۔
25 مارچ 1969ء کو ایوب خان کے استعفے کے بعد مسلح افواج میں موجود بے چینی اور طبقاتی تقسیم ایک اہم عنصر تھی۔ جنرل یحییٰ خان کی مصلحت اور اصلاح پسندی پر مبنی پالیسیاں فوج کے اندر موجود تضادات اور دباؤ کا اظہار کر رہی تھیں۔ بالخصوص مغربی پاکستان، جہاں سے زیادہ تر فوج بھرتی ہوتی تھی، میں پاکستانی قوم پرستی کو ہوا دینے اور ہندوستان کیساتھ جنگ چھیڑنے کے پیچھے فوج میں موجود مخالفت اور تضادات کو دبانے کی نیت بھی شامل تھی۔

بائیں بازو کے طلبہ رہنما معراج محمد خان کراچی میں سرخ پرچم اٹھائے لاکھوں محنت کشوں اور طلبہ کے جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔

فوج آخری تجزئیے میں اسی سماج کا عکس ہوتی ہے جس میں سے یہ بھرتی ہوتی ہے۔ صورتحال اس قدر دھماکہ خیز تھی کہ حکمران طبقات کے پالیسی سازوں نے سرمائے کی حکمرانی کو بچانے کے لئے حقیقتاً جنگ چھیڑنے اور آدھا ملک گنوانے کی قیمت بھی ادا کرنا گوارا کی۔ فوج کے چھوٹے افسران اور سپاہی کس کی طرف تھے، اس کی غمازی فوجی کنٹونمٹ کے علاقوں سے 1970ء کے انتخابات کے کچھ نتائج سے ہی ہو جاتی ہے۔ اُس وقت تک پیپلز پارٹی سے وابستہ ہو چکی انقلابی سوشلزم کی لہر نے باوردی محنت کشوں کے شعور کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ 60 فیصد سے زیادہ سپاہیوں اور چھوٹے افسران نے سوشلزم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ بالائی افسران زیادہ تر منقسم تھے اور انہوں نے کسی ایک سیاسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ جی ایچ کیو کو فوج کا ووٹ منظر عام پر آنے کے سیاسی مضمرات کی فکر بھی لاحق تھی۔ کراچی کے ایک علاقے میں ایک ہزار سے زائد طلبہ نے ایوب خان کی مسلم لیگ کے ایک نمایاں رکن کے گھر کی طرف مارچ کیا۔ ہجوم کو دیکھ کر اُس نے گولی چلا دی جس سے ایک طالب علم شدید زخمی ہو گیا۔ اگلے دن تقریباً دس ہزار طلبہ نے اُس کی کوٹھی کی طرف پیش قدمی کی۔ فوج کا ایک یونٹ وہاں تعینات تھا جس کی کمان ایک نوجوان افسر کے پاس تھی۔ اُس نے طلبہ سے پوچھا کہ کیا کرنے آئے ہو؟ جواب بڑا سیدھا تھا: ’’طلبہ کوٹھی کو آگ لگانے آئے تھے۔‘‘ وجہ جان کر فوجی افسر نے اپنے یونٹ کو دوسری جگہ منتقل ہونے کا حکم دیا۔ طلبہ نے کوٹھی کو آگ لگا دی۔ ایسے بے شمار واقعات بھی ہیں جن میں فوجی افسران نے محنت کشوں اور طلبہ کے ہجوم پہ گولی چلانے سے صاف انکار کر دیا۔ اسی طرح کئی جگہوں پر مظاہروں کو کچلنے کے لئے تعینات کیے جانے والے پولیس اور فوج کے سپاہی مظاہرین کے ساتھ مل گئے۔ انقلابیوں کی حمایت کے الزام میں درمیانے درجے کے کئی فوجی افسران کے کورٹ مارشل بھی ہوئے۔
طلبہ کی تحریک نے پورے سماج کو جھنجوڑ دیا تھا۔ محنت کش فیکٹریوں پر قبضے کر رہے تھے ۔ معیشت مفلوج ہو چکی تھی۔ زرعی محنت کشوں اور دہقانوں نے جاگیرداروں کی زمینوں پر قبضے کر لیے تھے اور اُن کے پرتعیش محلات کو آگ لگا رہے تھے۔ فوج کے سپاہیوں اور چھوٹے افسران کی متحرک شمولیت سے جبر و استحصال کے سارے نظام کو ہی اکھاڑا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسی سرکشی کو منظم کرنے کے لئے ایک انقلابی پارٹی درکار تھی۔ جو اگر موجود ہوتی تو انقلابی سوشلزم کی فتح یقینی ہو جاتی۔
26 مارچ کو ایوب خان نے اقتدار فوج کے سپرد کر دیا اور اپنے اختیارات جنرل یحییٰ خان کو تفویض کر دئیے۔ اعلیٰ فوج قیادت انقلابی سرکشی کی کیفیت کو فوج، ریاست اور پورے نظام کے لئے سنجیدہ خطرہ گردان رہی تھی۔ لیکن جدید تاریخ کے عظیم اور طاقتور ترین انقلابات میں سے ایک اپنی منزل کا نشانِ راہ کھو چکا تھا۔ اس کی قیادت کے پاس ایک فیصلہ کن سرکشی کا کوئی تناظر، تیاری اور لائحہ عمل نہ تھا۔ یحییٰ خان نے مارشل لا کا اعلان کر دیا جس کی حمایت بورژوا سیاستدانوں، بائیں بازو کے رہنماؤں اور اصلاح پسندوں نے بیک زبان کی۔ ایوب خان سوات میں اپنے داماد کی جاگیر کی طرف بھاگ گیا۔ لیکن یحییٰ خان سے ملتا رہا۔ کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کی کئی مہینوں کی سخت اور بے باک جدوجہد زائل ہو گئی۔ اقتدار پر ایک نیا فوجی شب خون مارا جا چکا تھا۔ مارکس نے ’لوئی بونا پارٹ کی اٹھارہویں برومیئر‘ میں لکھا تھا: ’’بجائے اس کے کہ سماج اپنے لیے کوئی نیا جوہر تلاش کرتا، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریاست اپنی سب سے پرانی صورت کی طرف لوٹ چکی ہے… ‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ پچھلے اور موجودہ عہد کے زیادہ تر انقلابات میں عوامی عمل کی شدت اور حرکیات ہی قیادت کی پالیسی کا تعین کرتی ہیں۔ لیکن اس عمومی کیفیت سے ایک استثنا موجود ہے: 1917ء کا بالشویک انقلاب۔ جب لینن، ٹراٹسکی اور دوسری بالشویک قیادت نے انقلاب کی روش اور مقدر کے تعین کا تناظر اور طریقہ کار پہلے سے تشکیل دیا تھا۔ زیادہ تر دوسری انقلابی تحریکوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک کی شدت اور رفتار‘ قیادت کو بھی حیران کر دیتی ہے اور اسے بے خبری میں آن لیتی ہے۔ پارٹی پالیسیوں میں تبدیلیاں عوام کے مزاج میں آنے والے اتار چڑھاؤ کی غمازی کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکن ایک انقلابی قیادت، جو صرف مارکسی نظریات اور وسیع کیڈر سازی کی اجتماعی بنیادوں پر ہی تعمیر ہو سکتی ہے، کے بغیر بائیں بازو کا پاپولزم اور حادثاتی قیادتیں اکثر و بیشتر انقلابات کو بدترین تباہیوں سے ہی دوچار کرتی ہیں۔ اسی عمل کو ٹراٹسکی نے اپنے شاندار قول میں سمیٹا تھا: ’’ انسانیت کا تاریخی بحران آج انقلابی قیادت کے بحران میں سمٹ چکا ہے۔‘‘

’’(استعفے کے سوا) کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔‘‘ ایوب خان

عام حالات میں سماج کی سیاسی، ثقافتی اور نفسیاتی کیفیات کا تعین حکمران طبقات کی رجعتی اقدار اور روایات کرتی ہیں۔ سوچ، دانش، واقعات، اختلافات، صحافت اور سیاست وغیرہ کے ہر دھارے کو حکمران طبقات کے مفادات کے تابع اور سرمائے کی بالادستی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم انقلابات اس سارے سماجی ’نظم و ضبط‘ کو بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں اور نہ صرف سماج کی روش بلکہ ساری تاریخ کا دھارا ہی موڑ ڈالتے ہیں۔ اس ملک اور خطے کے محنت کش عوام نے جبر و استحصال کے طویل عرصے دیکھے ہیں۔ کسی آتش فشاں کے اچانک پھٹ پڑنے کی طرح کئی بغاوتیں بھی کی ہیں۔ جن کی معراج ہمیں 1968-69ء کے انقلاب میں ملتی ہے۔ پاکستانی سماج کی سرکاری تاریخ حکمران طبقات کی تاریخ ہے۔ 1968-69ء کے ادھورے انقلاب کی تاریخ یہاں کے محنت کشوں کی تاریخ ہے۔ لیکن انہیں یہ ادھورا انقلاب ابھی مکمل کرنا ہے۔ انقلاب کو سوشلسٹ فتح سے ہمکنار کرنے کا فریضہ ادا کرنا ابھی باقی ہے۔ وگرنہ ساری تہذیب کے وجود پر بربریت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب کے تاریخی نصب العین کی جدوجہد میں اَن گنت گمنام سپاہیوں کا خون شامل ہے۔ محنت کشوں کی بے شمار نسلوں نے اپنی زندگیاں سرمایہ دارانہ غلامی اور استحصال کی اذیتوں میں گزاری ہیں۔ انہیں یہ طوق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اتار پھینکنے کو ایک بار پھر اٹھنا ہے۔ یہی تاریخ کا لکھا ہے۔