[تحریر: لال خان]
لاطینی امریکہ کی مشہور کہاوت ہے کہ برازیل میں دو بڑے مذاہب ہیں، ایک کیتھولک عیسائیت اور دوسرا فٹ بال۔ یہ کھیل برازیل کی ثقافت اور روایات میں رچا بسا ہوا ہے۔ کیتھولک مذہب کی بنیادیں اس لیے موجود ہیں کہ جب غربت اور محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے عوام کو اس زندگی میں راحت کی کوئی امید نظر نہیں آتی تو وہ گرجوں میں آسودگی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فٹ بال ورلڈ کپ کا آغاز 12 جون کو ہوا۔ 12 جون کو عالمی سطح پر ’’بچوں کی جبری مشقت کے خلاف دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پچھلی مرتبہ چائلڈ لیبر کو بنیاد بنا کر ورلڈ کپ میں پاکستانی مزدور بچوں کے بنائے فٹ بال مسترد کر دئیے گئے تھے۔ پچھلے چار سال میں فیفا نے چائلڈ لیبر کی تعریف شاید تبدیل کر دی ہے لہٰذا اس بار ورلڈ کپ پاکستان میں بنے فٹ بالوں سے کھیلا جارہا ہے۔ ڈونرز کی سرپرستی نہ ملنے کے باعث یہاں کی ’’سول سوسائٹی‘‘ ٹھنڈی پڑ گئی ہے!
معاشی محرومی اور عدم استحکام، ٹوٹتے ہوئے انسانی رشتوں اور سماجی بیگانگی میں ایسی نفسیات جنم لیتی ہے جس میں کھیل جنون بن جاتا ہے۔ حکمران طبقہ اس نفسیات کو قومی پرستی اور شاونزم کو ابھارنے جبکہ میڈیا پیسہ بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ لیکن اس سال میڈیا کی پر زور کوششوں کے باوجود فٹ بال کا جنون کچھ پھیکا پڑا ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یورپ میں ریاستی کٹوتیوں اور تعلیم کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف نوجوانوں کا سیاسی تحرک اور برازیل میں پچھلے ایک سال سے جاری محنت کش عوام کے حکومت مخالف مظاہرے ہیں۔ جون 2013ء میں بسوں کے کرایوں میں 9 سینٹ اضافے نے برازیل میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک خود رو تحریک کوجنم دیا تھا۔ 1985ء کے بعد برازیل میں چلنے والی یہ سب سے بڑی تحریک ہے جو اتار چڑھاؤ کی کیفیتوں میں ابھی تک چل رہی ہے۔
برازیل میں اس وقت دلما روزیف کی قیادت میں عوام کی روایتی جماعت ’ورکرز پارٹی‘ کی حکومت ہے۔ اس پارٹی کا سیاسی و معاشی کردار بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے مختلف نہیں ہے۔ ورلڈ کپ کے لئے کھیل کے میدانوں کی تعمیر اور دوسرے منصوبوں پر برازیل کی حکومت نے 14 ارب ڈالر اڑا دئیے ہیں جبکہ ایک عام شہری کے پاس سٹیڈیم میں بیٹھ کر میچ دیکھنے کی سکت ہی نہیں ہے۔ اسٹیڈیم میں ایک بہتر سیٹ کی ٹکٹ 300 سے 600 ڈالر ہے جبکہ برازیل کے شہریوں کی اکثریت 215ڈالر کی ماہانہ اجرت کے عوض محنت بیچنے پر مجبور ہے۔ عوام اس بات پر غم وغصے میں مبتلا ہیں کہ حکومت کے پاس ورلڈ کپ پر ’دیوہیکل فضول خرچی‘ کرنے کے لیے تو سرمایہ موجود ہے لیکن عوام بنیادی ضروریات زندگی کا تقاضا کریں تو جواب ملتا ہے کہ ’’پیسے نہیں ہیں۔‘‘ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ عوام کو پہلے سے دی گئی رعائتیں اور سہولیات بھی چھینی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے اسٹیڈیم اور شاہراہیں بنانے کے لیے میلوں تک پھیلی ہوئی بستیاں بلڈوزروں سے مسمار کردی گئیں جن سے لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔
برازیل کے سب سے مشہور سٹیڈیم ’’ماراکانہ‘‘ کو پچھلے 15 سال میں تیسری بار ’’جدید‘‘ بنا یا گیا ہے۔ اس مرتبہ سٹیڈیم پر530 ملین ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔ عوام کے پیسوں سے بنائے گئے یہ سٹیڈیم ٹھیکیداروں کو دے دئیے گئے ہیں جو بھاری منافع بنانے میں مصروف ہیں۔ ورلڈ کپ کے لئے بنائے گئے کئی سٹیڈیم اس مقابلے کے بعد بالکل بیکار ہوجائیں گے۔ ’’ماراکانہ‘‘ اسٹیڈیم کو ’’چلانے‘‘ کے لیے دو نجی کمپنیوں (برازیل کی IMX اورامریکہ کی AEG) کو ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے۔ ان کمپنیوں کو ٹھیکوں سے103 ملین ڈالر کا منافع حاصل ہو گا۔ حکومت نے دونوں کمپنیوں کو دوسال کی ٹیکس چھوٹ بھی دی ہے۔ اس ورلڈکپ کے ’’حقوق‘‘ عالمی فٹ بال فیڈریشن (FIFA) کے پاس ہونگے لہٰذا دنیا بھر کے ٹیلی ویژن چینلوں اور دوسرے تمام ذرائع سے3.5 ارب ڈالر کا منافع بھی اسی تنظیم کے پاس جائے گا۔ بڑے شہروں میں سرمایہ داری کی چمک دمک اور ’رنگ روغن‘ کے باوجود دنیا بھر کی طرح برازیل کے عوام کی وسیع اکثریت علاج، رہائش، روزگار، ٹرانسپورٹ اور صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے۔ غربت کے باعث جسم فروشی عام ہے اور سماجی انفراسٹرکچر خستہ حالی اور حکمرانوں کی عدمِ توجہ کا شکار ہے۔ ان حالات میں فٹ بال ورلڈ کپ پربڑے پیمانے کے حکومتی اخراجات اور نجی کمپنیوں کے دیوہیکل منافعوں نے عوام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ سب کچھ ان حالات میں ہورہا ہے جب عالمی مالیاتی بحران نے برازیل کی معیشت کو زوال پذیری کا شکار کردیاہے۔ معیشت کی شرح نمو جو 2010ء میں 7.5 فیصد تھی، 2013ء کے آخر میں گر کر 1.8 فیصد رہ گئی ہے اور عوام کی معاشی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
اس وقت برازیل میں 60 صنعتی ہڑتالیں اور تحریکیں چل رہی ہیں۔ 14 ریاستوں میں میٹروٹرین کے مزدور، بس ڈرائیور، ڈاکٹر، نرسیں، اساتذہ، ہوائی جہازوں کے پائلٹ، اسٹیل ورکرز اور دوسر ے بہت سے صنعتی اور سروسز کے شعبوں کے مزدور ہڑتال پر ہیں۔ محنت کشوں کے اس ابھار سے حکمران اتنے خوفزدہ ہیں کہ روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دلما روزیف نے ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں تقریر سے معذرت کرلی۔ اس سے قبل امریکہ کی مشہورڈانسر، اداکارہ اور گائیکا جینفر لوپیز نے بھی تقریب میں پرفارم کرنے سے انکار کردیا گیا تھاجسے مزید کئی ملین ڈالر دے کر راضی کیا گیا۔ عوام کے خوف سے ورلڈ کپ کی سکیورٹی پر 860 ملین ڈالر صرف کیے گئے ہیں۔ ایک لاکھ پولیس اہلکار، 60000 فوجی اور 20000 نجی گارڈز کو ’’حفاظت‘‘ پر تعینات کیا گیا ہے۔ برازیل کی بائیں بازو کی تنظیموں، خصوصاً مارکسسٹوں کو حکومت کی طرف سے مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکار ان کے دفاتر کے مسلسل چکر لگا کر ہراسا ں بھی کررہے ہیں۔
فٹ بال پیسے کے لحاظ سے بھی دنیا کا سب سے بڑا کھیل ہے۔ اس پر فیفا کی مکمل اجارہ داری ہے اور یہ ادارہ کرپشن کے معاملے میں دوسرے کھیلوں کوچلانے والے تمام اداروں سے آگے ہے۔ اکانومسٹ لکھتا ہے کہ ’’یہ بہت ہی افسوسناک ہے کہ یہ فٹ بال ماراکانہ سٹیڈیم سے بھی بڑے کرپشن کے بادل کے سائے میں شروع ہو رہا ہے۔ فیفا کی تفتیش کرنے والے ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ اسکی گورننس باڈی نے ورلڈکپ سے قبل بیشتر’’نمائشی‘‘ میچوں میں دھاندلی کی ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس رشوت ستانی اور بدعنوانی پر کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ دنیا کے سب سے بڑے کھیل کا باس سیپ بلیٹر 1998ء سے مسلسل اس ادارے پر کیوں براجمان ہے؟ سب کھیلوں میں اتنی کرپشن کیوں بڑھ گئی ہے؟ فارمولا ون (کاروں کی ریس) کے باس برنی ایکسٹوں پر جرمنی میں رشوت حاصل کرنے کا مقدمہ چل رہا ہے۔ امریکہ میں باسکٹ بال چلانے کے ادارے کی کونسل کو بدعنوانی پربرطرف کردیا گیا۔ کر کٹ، جو دنیا کا دوسرا بڑا ’گلوبل‘ کھیل ہے، فکسنگ کے سیکنڈلوں کی زد میں ہے۔ امریکہ میں رگبی کے میچوں میں زخمی ہونے والے کھلاڑیوں کے معاملات پر انشورنس اور دوسرے مالیاتی فراڈ کتنے زیادہ ہوگئے ہیں۔ ۔ ۔ اور پھر مختلف حکومتیں کس لیے فٹ بال او ر دوسرے کھیلوں کے بڑے ٹورنامنٹ کروانے کے لیے سرکاری خزانوں کونچوڑتی ہیں؟ اس ورلڈکپ میں ہر میچ پر کم از کم ایک ارب ڈالر کا جوا لگے گا۔ ‘‘اس جوئے سے کتنے گھر برباد ہوں گے، کتنی زندگیاں اجڑیں گی؟ دائیں بازو کے ایک برطانوی اخبار’’ سنڈے ٹائمز‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ ’’فیفا کے بڑے بیوروکریٹوں کو بے پناہ خفیہ دولت سے نوازا گیا ہے جس کی وجہ سے 2022ء کے ورلڈ کپ کی میزبانی کے’’حقوق‘‘ قطر کو ملے ہیں۔‘‘ یہ دونوں اخبارات اس نظام کے سرخیل نمائندے، کٹر حمایتی اور سنجیدہ تجریہ نگار ہیں۔ اگر یہ اعتراف کررہے ہیں کہ پیسے اور کرپشن نے کس طرح ہر کھیل پر اجارہ داری حاصل کرلی ہے تو حقیقت کس قدر بھیانک ہوگی؟ آج فٹ بال سے لے کر کٹ تک، ہر بڑے کھیل کا ہر کھلاڑی منڈی میں نیلام ہورہا ہے۔ مصر کے بازار میں یوسف کی طرح نہیں بلکہ سرمائے کے چکلے میں طوائفوں کی طرح۔
حکمران مذہبی عقیدوں کی طرح کھیلوں کے جنون کو بھی محنت کش عوام کی تحریکوں کو زائل اور شعور کو کو مجروح کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن برازیل کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے جس طرح میڈیا اور کارپوریٹ سرمائے کی یلغار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ حکمرانوں کے’کھیلوں کے کھلواڑ‘ اب زیادہ چلنے والے نہیں ہیں۔ یہ بغاوت کی پہلی چنگاریاں ہیں۔ باقی دنیا کے حالات برازیل سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ایک نئے عہد کاآغاز ہورہا ہے!
متعلقہ:
کرکٹ کی افیون