[تحریر: لال خان]
امریکہ میں ایک 18 سالہ نہتے سیاہ فام نوجوان کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد ملک گیر احتجاجی مظاہرے اور فسادات شروع ہو گئے ہیں۔ یہ سب ایک سیاہ فام صدر کے دور حکومت میں ہورہاہے۔ باراک اوباما جب پہلی بار صدر منتخب ہوا تھا تو کارپوریٹ میڈیا پر سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ’معجزات‘ کے خوب گن گائے گئے تھے۔ ایک سیاہ فام شخص کے صدر بن جانے کو ’’امریکی خواب‘‘ کی تعبیر قرار دیا گیاتھا۔ عمران خان کی طرح اوباما نے بھی اپنی انتخابی مہم میں ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ آج چھ سال بعد سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاست کے ڈھانچوں میں رہتے ہوئے برپا ہونے والی یہ ’’تبدیلی‘‘ امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے عذاب بن چکی ہے۔
پولیس گردی امریکی سماج کا معمول بن چکی ہے۔ 2011ء میں پولیس نے 1146 افراد کو گولی کا نشانہ بنایا جن میں سے 607 ہلاک ہو گئے۔ امریکی فوج اور پولیس کے زیر استعمال اسلحے اور طریقہ کار میں فرق روز بروز مٹتا جارہا ہے۔ ریاست کے بڑھتے ہوئے جبر اور نجی زندگیوں کی ’نگرانی‘ کے خلاف عوام میں شدید غصہ اور نفرت پائی جاتی ہے۔ مقتول مائیکل براؤن امریکی ریاست میسوری کے علاقے فرگوسن میں9اگست کو بازار سے اپنی دادی کے گھر جا رہا تھا کہ پولیس نے اس کا گھیراؤ کر لیا اور اس کو ہاتھ اوپر اٹھانے کو کہا۔ پولیس بازار میں ہونے والی کسی چور ی کی اطلاع پر ’’کاروائی‘‘ کر رہی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق جب بے گناہ براؤن اپنے ہاتھ ہوا میں بلند کر رہا تھا تو پولیس نے اس پر فائرنگ کر دی۔ نوجوان پر 9 گولیاں داغی گئیں اور کئی گھنٹے تک اس کی لاش سڑک پر پڑی رہی۔
واقعے کے فوری بعد براؤن کے والد نے ایک پلے کارڈ بنا کر احتجاج شروع کر دیا جس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ فرگوسن کے علاوہ سان فرانسسکو، فیلڈلفیا، شکاگو، انڈیاناپولس، فینکس، میامی اور لاس اینجلس سمیت درجنوں شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین علامتی طور پر دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کر کے احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہروں کے ارد گرد پولیس کی بھاری نفری نے مظاہرین کو مزید مشتعل کیا اور عوام نے سیاسی راہنماؤں کی جانب سے ’’پر امن‘‘ رہنے کی اپیلوں اور پولیس کی من گھڑت تاویلات کو رد کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھا۔ اس دوران ہونے والے (یا کروائے جانے والے) فسادات اور لوٹ مار کے واقعات کو کارپوریٹ میڈیا میں مبالغہ آرائی سے پیش کیا گیا تاکہ احتجاجی تحریک اور سیاہ فاموں کے خلاف ریاست کے نسلی تعصب کو چھپایا جا سکے۔ دو ہفتے گزرنے کے بعد احتجاج تحریک کی شدت میں اگرچہ کمی آئی ہے لیکن ریاست کی جانب سے مظاہرین کے خلاف گرفتاریوں، آنسو گیس اور لاٹھی چارج جیسے اقدامات جاری ہیں۔ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی ٹھیکیداری کرنے والی ریاست صحافیوں کو بھی گرفتار اور ہراساں کر رہی ہے۔ میسوری کے گورنر نے صورتحال کو قابو کرنے کے لیے نیشنل گارڈز کو طلب کر لیا ہے۔
حالیہ احتجاجی مظاہرے 2011ء کی آکو پائی وال سٹریٹ تحریک کی طرح امریکہ کے گہرے معاشی بحران اور سماجی خلفشار کا اظہار ہیں۔ شدید زوال کا شکار امریکی معیشت کو چلانے کے لیے ہر ماہ 80 ارب ڈالر کے نوٹ چھاپے جا رہے ہیں اور ریاستی قرضہ 21 ہزار ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد بیروزگاری کی شرح تیزی سے بڑھی ہے جس کے باعث سماجی گھٹن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بیروزگاری کی حقیقی شرح مجموعی طور پر 14 فیصد، سیاہ فام آبادی میں 20 فیصد جبکہ سیاہ فام نوجوانوں میں 40 فیصد سے زائد ہے۔ علاج مہنگا ہوتا جارہا ہے اور ایک نجی ہسپتال کی ایمر جنسی میں مریض کو گلوکوز کی ایک ڈرپ کے بدلے پانچ سو ڈالر تک کا ’’ٹیکہ‘‘ لگوانا پڑ سکتا ہے۔ پانچ کروڑ امریکی خوراک کے لئے ریاستی خیرات پر منحصر ہیں، 20 فیصد خاندانوں میں کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ اوسطاً چھ لاکھ بے گھر افراد رات سڑک پر گزارتے ہیں جبکہ اٹھارہ لاکھ گھر خالی پڑے ہیں جنہیں خریدنے والا کوئی نہیں۔ 36 لاکھ امریکی 7.25 ڈالر فی گھنٹہ کی کم سے کم اجرت سے بھی کم پر کام کررہے ہیں۔ بلوم برگ کے مطابق شکاگو کے میکڈونلڈ میں 8.25 ڈالر فی گھنٹہ پر کام کرنے والے محنت کش کو اپنے مالک کی سالانہ آمدن ( 87.5 لاکھ ڈالر) کمانے کے لیے سو سال تک دن رات مسلسل کام کرنا پڑے گا۔ جرائم بڑھتے جارہے ہیں اور کل آبادی میں سزا یافتہ قیدیوں کی شرح (Incarnation Rate) کے لحاظ سے امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، ہر 100 میں سے ایک امریکی جیل میں ہے اور جیلوں میں مزید قیدیوں کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔
امریکہ میں سیاہ فاموں کی جدوجہد کے انقلابی رہنما اور شہیدمیلکم ایکس نے کہا تھا کہ ’’نسلی تعصب کے بغیرسرمایہ داری کا وجود ہی ممکن نہیں ہے۔‘‘ سیاہ فام شخص کے صدر بننے سے سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات ختم ہوئے ہیں نہ ہی امریکہ میں رہنے والے عام سیاہ فاموں کی معاشی اور سماجی مشکلات کم ہوئی ہیں۔ نسلی تعصب سمیت تمام مسائل نہ صرف بدستور موجود ہیں بلکہ گھمبیر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ مسئلہ چند افراد یا ان کے رنگ و نسل نہیں بلکہ اس سماج کے خمیر میں موجود طبقاتی تضاد ہے۔ ریاستی حکمرانوں کارنگ بھلا ریاست کے کردار اور استحصالی معیشت کی حرکیا ت کو کیسے بدل سکتا ہے؟ امریکہ ہو یا پاکستان، حکمران طبقہ مذہب، رنگ، نسل اور قومیت کی تمیز کئے بغیر محنت کش عوام کا استحصال کرتا ہے اور پھر انہی تعصبات کو ہوا دے کر انہیں تقسیم کر کے ایک دوسرے سے دست و گریبان بھی کرواتا ہے۔
امریکہ میں اگرچہ 1960ء کی دہائی کی انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں نسلی تعصب پر مبنی فرسودہ قوانین کا خاتمہ کردیا گیا تھا لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں رنگ اور نسل کی منافرتوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اپنی متروکیت اور زوال کے اس عہد میں سرمایہ داری نسلی تفریق اور تعصب کو زیادہ شدت سے بھڑکا رہی ہے۔ آج بھی امریکہ میں غریب سیاہ فاموں کودوسرے درجے کا شہری گردانا جاتا ہے اور انہیں کم تر روزگار اور تعلیم تک محدود کر دیا جاتاہے۔ دنیا کے ہر قومیت اور نسل کی طرح سیاہ فاموں میں بھی طبقاتی تقسیم موجو د ہے۔ اوباما، کونڈالیزا رائس اوراپرا ونفرے جیسے سیاہ فام اس حکمران طبقے کا حصہ ہیں جو نہ صرف امریکی محنت کشوں کا خون چوس رہا ہے بلکہ پوری دنیا میں سامراجی جبر اورحشت مسلط کئے ہوئے ہیں۔ کیا یہ لوگ روزگار، بنیادی ضروریات زندگی اور حقوق کی تگ و دو میں پوری عمر گزار دینے والے سیاہ فام عوام کے نمائندے ہوسکتے ہیں؟
18 اگست کو حالیہ واقعہ پر تنبیہہ کرتے ہوئے باراک اوباما نے بیان دیا ہے کہ ’’ہمیں اپنی خارجی فوجی پالیسیوں اور داخلی قانون کو لاگو کرنے میں تمیز کرنا ہوگا۔‘‘ یعنی ’’امن‘‘ کا نوبل انعام حاصل کرنے والے امریکی سامراج کے اس نمائندے نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ دنیا میں وہی کر رہا ہے جو فرگوسن میں امریکی پولیس نے کیا اور امریکی ریاست کی داخلی اور خارجی دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سی آئی اے اور امریکی سامراج کی عسکری مشینری کی خونریزی سیاہ فام صدر کے ماتحت بھی ویسی ہی ہے جیسی سفید فام بش کے دوریا اس سے پہلے تھی۔ افغانستان تاراج ہے، عراق اور شام امریکی سامراج کی براہ راست جارحیت یا پراکسی جنگ میں برباد ہو چکے ہیں، فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کو اوباما کی مکمل سیاسی، سفارتی اور عسکری حمایت حاصل ہے، ملٹی نیشنل اجارہ داریاں انسانیت کو نوچ رہی ہے، دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی اور ڈرون حملے ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ نیلسن منڈیلا کی طرح اوباما کے برسر اقتدار آنے پر بھی مارکسسٹوں نے واضح کیا تھا کہ ’’رنگ بدلا ہے، نظام نہیں۔‘‘
پاکستان میں جس پولیس کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں اس کا بہیمانہ کردار امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور ’’مہذب‘‘ ملک میں واضح ہے۔ تیسری دنیا ہو یا ترقی یافتہ مغرب، سرمایہ دارانہ ریاست اپنے تمام تر اداروں سمیت ہمیشہ سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اورا س مقصد کے لئے بدترین ریاستی جبر سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ فرق صرف یہ ہے کہ پسماندہ ممالک میں یہ جبر زیادہ ننگے طریقے سے کیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس پر’’ تہذیب‘‘ کا لبادہ ڈال دیا جاتا ہے۔ غیر معمولی ادوار اور انقلابی تحریکوں کے دوران یہ لبادہ بھی چاک ہوجاتا ہے اور ریاست کا طبقاتی کردار بے نقاب ہوتا ہے۔ 2011ء کی آکوپائی وال سٹریٹ تحریک کے دوران پوری دنیا نے دیکھا کہ دن رات جمہوریت کا راگ الاپنے والی امریکی ریاست نے کس طرح مرچوں کے سپرے اور آنسو گیس سے لے کر لاٹھی اور گولی تک، عوام کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔
جب تک ذرائع پیداوار اور دولت پر اقلیتی طبقہ قابض ہے، ریاست اس طبقے کے ہاتھ میں جبر کا آلہ بن کے اکثریت کو سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر کچلتی رہے گی۔ چہروں یا حکومتوں کے بدل جانے سے کوئی ’’تبدیلی‘‘ نہیں آئے گی۔ لینن نے کہا تھا کہ ’’عوام کی آپسی لڑائیاں ان کی غلامی کو تقویت بخشتی ہیں۔‘‘ امریکی محنت کشوں کو سیاہ و سفید کی تفریق کو مسترد کرتے ہوئے، دنیا بھر کے محنت کش عوام کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہوکر اس سامراجی ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہو گا جو نہ صرف انہیں برباد کر رہی ہے بلکہ پورے کرہ ارض کا ناسور بن چکی ہے۔ رنگ اور نسل کے تعصب سے اس وقت تک نجات ممکن نہیں جب تک اس نظام کو پاش پاش نہ کیا جائے جو ان تعصبات کو بھڑکاتا اور استعمال کرتا ہے!
متعلقہ:
جنوبی افریقہ: صرف رنگ بدلا تھا، نظام نہیں۔۔۔
منڈیلا کا ادھورا سفر
امریکہ: معاشی بحران میں ڈوبے صدارتی انتخابات
امریکی ریاست کی تالہ بندی
اوباما بمقابلہ رومنی! کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟