میڈیا، عدلیہ اور سرمائے کا بیہودہ رشتہ بے نقاب

تحریر: لال خان:-
(ترجمہ: فرہاد کیانی)
بیمار سرمایہ دارانہ نظام کے تباہ کن بحران کے ہاتھوں تاراج اس سماج کے شرمناک حکمران طبقے کا ایک کا بعد دوسرا سکینڈل منظر عام پر آنا ایک معمول بن گیا ہے۔نہ صرف اشرافیہ کا کرپٹ اور مجرمانہ کردار بے نقاب ہو رہا ہے بلکہ ریاست اور سماج کی شکست و ریخت اور گلنے سڑنے کا عمل عوام کے سمجھنے کے لیے مزید عیاں ہو رہا ہے۔نو دولتی ارب پتی ملک ریاض اور چیف جسٹس کے درمیان حالیہ تنازعے نے سرمایہ داروں، جرنیلوں، نودولتی سیاست دانوں، جاگیر داروں، بڑے بیوروکریٹوں، مال دار وکیلوں، میڈیا مالکان اور عدلیہ کے پیشواؤں کے باہمی گٹھ جوڑ کو ننگا کر دیا جو مالیاتی سرمائے کے ساتھ لاینحل طورپر جڑے ہوئے ہیں۔ ان واقعات سے اقتدار کے ایوانوں کی بھول بھلیوں میں دہشت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مقدس اداروں کے بدصورت چہرے بے نقاب اوران قوانین کی حرمت ایک تماشا بن گئی ہے جنہیں ریاست اوراس کے حمایتی دانشور سماج پر مسلط کرتے ہیں۔
قدیم یونان کے سات داناؤں میں سے ایک ایتھنز کے سولون کی تعریف کے مطابق عدالتی قانون ’’مکڑی کا جال ہوتا ہے جس میں چھوٹی چیزیں پھنس جاتی ہیں اور بڑی چیزیں اسے پھاڑ نکلتی ہیں‘‘۔ لیکن پاکستان میں تو یہ جال بذاتِ خود ہی پھٹ اور لرز رہا ہے۔دولت کی بے پناہ ہوس تیزی سے اسی نظام کو کھوکھلا کر رہی جس پر یہ کھڑی ہے اور پھلتی پھولتی ہے۔ٹیلی وژن ٹاک شوز پر عدلیہ کی آزادی اور آئین و قانون کی بالا دستی کو لاحق خطرات کی ہیجان انگیز چیخ و پکار جاری ہے۔ جبکہ در حقیقت اس تنازعے نے قانون، آئین، جمہوریت، نظریے، حب الوطنی اور پرہیز گاری کا بھرم کھول کر رکھ دیا ہے جن کی ہماری تقدیر کے مالکان انتہائی بے شرمی سے تشہیر کرتے ہیں۔عدلیہ کا تقدس بنانے کے طریقوں میں سے ایک عوام کی بڑی اکثریت کو اس ادارے سے بیگانہ اور انہیں اس تک رسائی سے محروم رکھنا ہے۔آبادی کا ایک فیصد بھی عدل کے اس معبد ، سپریم کورٹ میں انصاف کی قیمت ادا کرنے کی مالی اسطاعت نہیں رکھتا۔ انصاف کے لیے قوت خرید نہ ہونا انصاف سے محرومی ہے۔عدلیہ کو شعوری طور پر ایک پراسرار ادارہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حکمران طبقہ اس پراسراریت کو اپنے کنٹرول سے باہر نکلتے ہوئے مسائل کوزائل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اکثر اوقات نان ایشوز کو اتنا بھڑکایا جاتا ہے کہ وہ اپنی نفی میں بدل جاتے ہیں، اور بے پناہ تجسس اور سخت تناؤ پیدا ہو جاتا ہے جیسے کوئی آتش فشاں پھٹنے کو ہو۔لیکن انتہا پر پہنچ کر عدلیہ نہایت عیاری سے اگلی تاریخ دے دیتی ہے اور متعلقہ ایشو پر بھڑکے ہوئے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔لیکن سماجی اور معاشی بحران کے گہرے ہونے کے ساتھ زندگی کے حقیقی مسائل اور بھی زیادہ کرب ناک ہوتے جا رہے ہیں اور عوامی بغاوتوں کا بھوت منڈلا رہا ہے۔اس صورتحال کا احساس کرتے ہوئے میڈیا ایک اور نان ایشو کو اچھال رہا ہے اور عدلیہ ایک مرتبہ پھر عوام کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔عام ادوار میں حکمران طبقات ریاستی جبر کے اس اہم آلے کے اتنے بے دریغ استعمال سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی بے نقابی اورگراوٹ طبقاتی حکمرانی کے لیے خطر ناک ہوتی ہے۔ لیکن جب صورتحال ابتر اور بحران شدید ہو رہا ہوتو حکمران طبقات کو بار بار اس مقدس ادارے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔کوئی حادثہ نہیں کہ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں شائد ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب عدلیہ خبروں کی شہ سرخیوں میں نہ ہو۔اس نام نہاد آزاد عدلیہ کی بحالی کا واحد حقیقی نتیجہ عام لوگوں کے لیے انصاف کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہے۔تقریباً تمام لیبر کیسوں کے فیصلے مالکان کے حق میں ہو ئے ہیں۔
منڈی کی معیشت کے سماج میں ہر چیز بکاؤ ہوتی ہے۔ان ڈرامائی واقعات نے نام نہاد حکومت اور اپوزیشن کی بیہودگی کو ننگا کر دیا ہے۔حکمران طبقے کے تمام حصو ں کو چلانے والی واحد قوت محرکہ دولت کی کبھی نہ ختم ہونیوالی بھوک ہوتی ہے۔اور اقتدار اس کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے،یہی وجہ ہے کہ وفاداریاں، اخلاقیات، اصول، آگہی اور دیانتداری منافع بخش اجناس بن چکی ہیں۔ ہماری تقدیر کے فیصلے کرنے والے ان پارسا فرشتوں میں سے کتنے ملک ریاض سے تنخواہ لیتے ہیں؟اور پھر سامراجی، منشیات فروش، اسلحہ کے بیوپاری، بھتہ خور اور دیگر کئی دولت مند جانور ہیں جو اس حکمران اشرافیہ کو خرید کر سماج کے وسائل اور دولت کو چوس کر اپنی تجوریاں بھر تے ہیں۔کرپشن، منافقت، دھوکہ دہی، جرم اورسفاکی آج کے اشرافیہ کا وطیرہ بن چکی ہیں۔ ملک ریاض بھی ان نودولتی بیوپاریوں میں سے ایک ہے جنہوں نے ریاست کے تمام ستونوں کی ملی بھگت کے ساتھ بہت کم دورانیے میں بے پناہ دولت اکٹھی کر لی ہے۔
مختلف انواع اور اقسام کے بیوپاریوں نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بیہودہ حد تک زیادہ پیسہ جمع کر لیا ہے۔ایک نئے ملک کے قیام کے ذریعے آزاد منڈی کے حصول کی کوشش کرنے والی کلاسیکی بورژوازی ایک جدید صنعتی قومی ریاست کی تشکیل میں بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔بورژوازی کو سہارا دینے کے لیے ریاست کی جانب سے معیشت میں بڑے پیمانے کی مداخلت بے سود ثابت ہوئی ہے۔انہیں حل کرنے کی بجائے اس سے پاکستانی سرمایہ داری کی نا ہموار اور مشترکہ ترقی میں نئے اور شدید تر تضادات پیدا ہوئے ہیں۔یہی 1960ء کی دہائی میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی انقلابی تحریکوں کا باعث بنے۔1970ء کی دہائی میں ریاستی سرمایہ داری کے تحت کی گئی اصلاحات قلت کی معیشت میں غربت کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہیں۔فوجی آمریتوں نے صرف اس متروک نظام کے بحران کو مزید گہرا کیا۔ان کی ناکامی نے بورژواجمہوری حکومتوں کی راہ ہموار کی جن کا مقصد اس سڑتے ہوئے نظام کو طول دینا تھا۔ پیسے کی جمہوریت کا یہ تجربہ عوام کے لیے بہت اذیت ناک رہا ہے۔ گزشتہ پینسٹھ برس کے اسباق سے یہ واضح ہے کہ پاکستان میں سرمایہ داری صرف ما فیا اور جرائم پیشہ کردار کی ہو سکتی ہے۔کرپشن، اقربا پروری اور لوٹ ماراس کے وجود کے لیے ناگزیر ہیں۔یہ نظام نہ تو ذرائع پیداوار کو ترقی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی عوام کے حالات زندگی بہتر بنانے کی اہلیت۔اس نے صرف اذیت اور غربت میں اضافہ کیا ہے۔جب تک یہ نظام قائم ہے یہ سماج کو مزید برباد کرتا چلا جائے گا۔ لینن نے انقلابی کیفیت کی سب سے ابتدائی علامت حکمران طبقے کے درمیان تنازعات میں گہرائی اور شدت بتا ئی تھی۔دھڑوں کے مابین اس آپسی جھگڑے کی شدت میں اضافہ شائد بہت سے لوگوں کے لیے پریشانی اور مایوسی کا باعث ہو، لیکن ایک لینن اسٹ نقطہ نظر سے حکمرانی کے اس وحشیانہ کردار کا اس غیر معمولی انداز سے بے نقاب ہونا محنت کش طبقات اور نوجوانوں کے شعور میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ فطرت میں جمود کے عمومی رجحان کی وجہ سے ایک غیر مستحکم توازن کو کو لمبے عرصے تک چلایا جا سکتا ہے۔ تاہم تاریخ کے غیر معمولی لمحات میں یہ توازن ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اور سماجی بغاوتیں طوفانوں کی طرح برپا ہوتی ہیں۔ ایسا ہونے میں اب وقت کم ہی رہ گیا ہے۔