جب معیشت ہی ناکام ہو؟

تحریر: لال خان

وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفے کے بعد میڈیا اور سیاست میں جو واویلا کیا جا رہا ہے وہ معاشی بحران کی اصل وجوہات کو بے نقاب کرنے سے گریزاں ہے۔ ’نئے پاکستان‘ میں نظام پرانا ہی چل رہا ہے۔ اسد عمر کو ساری تباہی کا ذمہ دار قرار دے کر قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے جو اِس نظام کے رکھوالوں کا پرانا وتیرہ ہے۔ لیکن اس معیشت میں کوئی بھی وزیر خزانہ کیوں نہ ہوتا اس نے یہی کرنا تھا۔ نام نہاد اپوزیشن کی مخالفت بھی انتہائی سطحی اور بھونڈی ہے کیونکہ وہ بھی اسی حکمران طبقے کا حصہ ہے اور اس کی تنقید کے زاویے بھی طبقاتی جبر و استحصال کے اِس نظام کے تحفظ کے نقطہ نظر سے ہی استوار ہوتے ہیں۔
فرق صرف اتنا ہی ہے کہ نواز لیگ، جو اس ملک کے پرانے سرمایہ دار طبقات کی نمائندگی کرتی ہے، طویل عرصے تک حکومتوں اور مروجہ سیاسی و ریاستی سیٹ اَپ میں رہ کر اِس نظام کو چلانے کا زیادہ تجربہ رکھتی ہے۔ ان کے پاس ایسے گھاگ پالیسی ساز ہیں جو ہیرا پھیری اور مصنوعی ہتھکنڈوں سے سرمایہ دارانہ معیشت کے اعدادوشمار کو کسی حد تک قابو میں رکھنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے اس طرز کی ’معاشی ترقی‘ اور ’استحکام‘ کو اقتدار میں حصہ داری اور اختیارات بڑھانے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی تو لگ پتہ گیا!
پاکستان جیسی روزِ اول سے بحران زدہ اور کھوکھلی معیشتوں کی بنیاد پر حاصل کردہ بہتر اعشارئیے بھی معاشرے میں ہموار ترقی دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کی اکثریت کو ایسی سہولت نہیں دے سکتے جس سے وہ ایک مطمئن اور سہل زندگی گزار سکیں۔ ایسے میں نسبتاً بہتر حالات میں بھی لوگوں کی جو حمایت ملتی ہے وہ بے دلانہ ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ووٹ دینے تک ہی محدود رہتی ہے۔ اِسی لئے جب نواز لیگ کے ایک حصے نے طاقت کے روایتی سرچشموں کے سامنے کھڑا ہونے کی کوشش کی تو پھر وہی ہوا جو اس ملک کی لولی لنگڑی’’جمہوریت‘‘ کیساتھ ہوتا آیا ہے۔ یہاں کے مقتدر حلقوں نے بھی سرکاری معاملات میں اپنے کردار کو مسلسل بڑھاتے ہوئے وقت کے ساتھ نئے فنون اور طریقہ ہائے واردات ایجاد کیے ہیں۔ اس کشمکش کا نتیجہ عمران خان کی تحریک انصاف کو برسراقتدار لائے جانے کی صورت میں نکلا ہے جو شاید اِس ملک کی تاریخ کی سب سے مطیع حکومت ہے۔ لیکن نواز لیگ کے برعکس تحریک انصاف درمیانے طبقے میں سے اٹھنے والے نودولتیوں کی پارٹی ہے جو زیادہ تر معیشت کے ’اِنفارمل‘ سیکٹر سے مال بنا کے تیزی سے امیر ہوئے ہیں۔ یہ کالی یا ’گرے‘ معیشت پچھلی کچھ دہائیوں میں سرکاری معیشت سے کئی گنا بڑا ہجم اختیار کر گئی ہے اور یہاں کی سیاست، ریاست اور صحافت میں گہری مداخلت رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کی سماجی حمایت بھی زیادہ تر نوکری پیشہ مڈل کلاس خصوصاً نوجوانوں پر مبنی ہے۔ انقلابی تحریکوں کی عدم موجودگی کے ایسے بحرانی حالات میں درمیانے طبقات کی جلد بازی اور بے چینی ایسے سیاسی رجحانات اور کرداروں کو ہی جنم دیتی ہے جو اندر سے انتہائی کھوکھلے، تنگ نظر اور عارضی ہوتے ہیں۔ یہ طبقہ ایک انتہا سے دوسری انتہا تک جانے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔ مفاد پرستی اس کا خاصہ ہوتی ہے۔ درمیانے طبقے کے کچھ افراد بعض اوقات مختلف قسم کی وارداتوں سے مختصر عرصے میں روایتی سرمایہ داروں سے بھی زیادہ دولت جمع کر تو لیتے ہیں لیکن انکی پیٹی بورژوا نفسیات نہیں بدلتی۔ ان کی مخصوص اَپ سٹارٹ نفسیات اور شوبازی ان کے مصنوعی امیرانہ طرزِ زندگی، جمالیات سے عاری بڑی بڑی کوٹھیوں اور بنگلوں، بیہودہ قسم کی دیوہیکل گاڑیوں اور منافقانہ عادات و اطوار میں واضح جھلکتی ہے۔ موجودہ حکومت پر زیادہ تر ایسے ہی افراد کا غلبہ ہے۔
لیکن غور کیا جائے تو مروجہ سیاست میں اپوزیشن سے لے حکومت تک اس معیشت کو چلانے کے طریقہ کار پر بھی کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ حکمران طبقے کے یہ پارٹیاں سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ، نجکاری کی رفتار، منافع خور ی کے امکانات اور بیرونی سرمایہ کاری جیسے عوامل کو ہی معیشت کی بہتری یا ابتری کے معیارات گردانتی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ معیشت کے معیارات ہیں۔ لیکن میکر و اکنامک اعدادوشمار سے عوام کے حقیقی معیار زندگی کا درست اندازہ نہیں ہو سکتا ہے۔ بالخصوص آج کی سرمایہ داری میں تو معمول بن چکا ہے کی میکرو اکنامک اعشارئیے آسمان سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور مائیکرو اکانومی کی بیڑا غرق ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب میکرو اکانومی گراوٹ کا شکار ہوتی ہے تو اس کا بوجھ بھی عام لوگوں پہ ہی ڈالا جاتا ہے۔ تازہ سرکاری اعداد و شمار خود بتا رہے ہیں کہ حکومتی آمدن کا 70 فیصد عالمی مالیاتی اداروں کے سود اور دفاعی اخراجات کی نذر ہو رہا ہے۔ باقی حکمرانی کے اپنے اتنے خرچے ہیں کہ انہیں پورا کرنے سے پہلے ہی بجٹ ختم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے بھی ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص رقوم کا بھاری حصہ غیر ترقیاتی شعبوں پر خرچ ہوتا تھا لیکن ’تبدیلی‘ کے بعد تو ترقیاتی بجٹ ویسے ہی کم و بیش ختم کر دیا گیا ہے۔ یہی حال تعلیم اور علاج کا کیا جا رہا ہے جہاں پہلے سے شرمناک حد تک قلیل بجٹ کو بھی مزید کم کیا جا رہا ہے۔ بڑے سرمایہ داروں کی ٹیکس چھوٹ ختم نہیں ہوتی ہے اور کالے دھن والے ویسے ہی ٹیکس دینے کے روادار نہیں۔ ایمنسٹی سکیمیں کبھی اپنے اہداف کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کر سکیں کیونکہ اِس کالے دھن کو کالا رکھنے میں زیادہ فائدہ ہے۔ صنعت مسلسل روبہ زوال ہے کیونکہ یہاں کی سرمایہ داری وہ تکنیکی ترقی اور انفراسٹرکچر دے ہی نہیں سکی جس پر ایک جدید صنعتی معاشرہ قائم ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ برآمدات کی مسلسل گراوٹ اور درآمدات کی یلغار نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو انتہاؤں تک پہنچا دیا ہے۔ ایسے میں کسی حکومت کے پاس مزید قرضے لینے کے علاوہ حاکمیت کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ یہاں پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کا کردار آتا ہے۔ جن کی چوکھٹ پہ ہر حکومت کو ماتھا ٹیکنا پڑتا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ اور نئی چیف اکانومسٹ گیتا گوپی ناتھ بہت نخرے کر رہی ہیں۔ لیکن یہاں کی سرمایہ داری کو اگر قرضے لینے کی ضرورت ہے تو آئی ایم ایف میں بیٹھے سود خوروں کی تنخواہیں، مراعات اور بدقماشیاں بھی قرضے دینے سے وابستہ ہیں۔ جو دینے کے بعد وہ ملکی معیشت کو عملاً اپنے کنٹرول میں لے لیتے ہیں اور خزانے کے وزیروں مشیروں کا کام صرف بجٹ پڑھ کے سنانا رہ جاتا ہے۔ عبدالحفیظ شیخ صاحب تو ویسے بھی انہی کے بندے گردانے جاتے ہیں۔ جنہیں عوام پر معاشی یلغار کرنے کا کافی تجربہ حاصل ہے۔ لیکن یہ داخلی اور خارجی قرضے منشیات کی مانند ہوتے ہیں جو وقتی ریلیف تو دے دیتے ہیں لیکن جسم کو کھوکھلا کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لئے ان سے مسئلہ ٹالا تو جا سکتا ہے‘ حل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح یہاں ’احتساب‘ کا جو کھلواڑ چل رہا ہے اس سے کرپشن کو جتنا فروغ ملا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ بس تھوڑا بے غیرت ہونے کی ضرورت ہوتی ہے‘ ہر گناہ دھل جاتا ہے۔
اِس نظام میں رہتے ہوئے آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کی جکڑ بندیوں سے نجات حاصل کرنا ناممکن ہے۔ ترکی جیسے ممالک، جہاں آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بڑے دعوے تھے، آج دوبارہ اسی چوکھٹ پہ بھیک مانگ رہے ہیں۔ سرمائے کے پروردہ ادارے کبھی سرمائے کے جبر اور دھونس کا خاتمہ نہیں کرسکتے۔ انقلاب سے کم کام نہیں چلے گا۔