[تحریر: لال خان]
2013ء کی انتخابی مہم میں عمران خان کا وقتی ابھار شدید سماجی بحران، سیاسی جمود اورعمومی سوچ اور نفسیات کے گہرے ابہام کا نتیجہ تھا۔ یہ کیفیت ہمیں عالمی سطح پر کئی ممالک میں نظر آتی ہے۔ خاص کر 2008ء کے بعد سے اٹلی سے لے کر فلپائن تک ایسے لیڈر اور رجحانات ابھرکر غائب ہو رہے ہیں۔ ان میں فلمی اداکار، کھلاڑی، ٹیلی ویژن اینکر، کا میڈین، پادری اور ’’غیرسیاسی‘‘ شعبوں سے تعلق رکھنے والی مشہورومعروف شخصیات شامل ہیں۔ یہ افراد اپنی مقبولیت کے ذریعے سیاسی خلا کو پر کرتے ہیں، پھر اسی نظام کے رکھوالے بن کر اسکے استحصال کی تقویت بخشتے ہیں اور مسترد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان کا مقصد و منشا ایک بحران زدہ سماج میں نچلے معیار کی سوچ کے تحت مسائل اور حالات کا سطحی تجزیہ کرنا اور ان سماجی اذیتوں کی لفاظی کے گرد سیاست کرنا ہوتا ہے۔ لیکن نظام کے داخلی تضادات سے پھوٹنے والے مصائب اور خلفشار سے نجات کا کوئی لائحہ عمل، پروگرام اور طریقہ کار واضح نہیں ہوتا۔ کھوکھلے پاپولزم کی یہ غیر نظریاتی سیاست دراصل نظریاتی سیاست کے فقدان، سماج کی سیاسی قدروں کے گر جانے، عمومی سوچ کی تنزلی اور ظاہری حالات کے سطحی تجزئیے پر مبنی ہوتی ہے۔ رائج الوقت معاشی نظام کی حدود و قیود کو ازلی، ابدی اور مقدس مانتے ہوئے اسی نظام کے سماجی مضمرات اور سیاسی نتائج پر بے لاگ تنقید اور نعرہ بازی اس مخصوص رجحان کا خاصہ ہوتے ہیں۔
نسبتاً لاغر، مفلوج اور پست اقتصادی صورتحال میں سیاسی کمزوری اور معاشی ذلت سے دوچار عوام آسودگی اور معیار زندگی میں بہتری کے لئے پہلے مراحل میں’’آسان‘‘ راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس رجحان( جس کو نظریہ کہنا غلط ہوگا)کا زیادہ تر مرکز و محور درمیانہ طبقہ ہوتا ہے جو ایک طر ف تو اس نظام کے معاشی بحران سے اکتایا ہواہوتا ہے تو دوسری طرف اس کو اپنے مفادات اور مراعات اسی نظام سے جڑے نظر آتے ہیں۔ مڈل کلاس سے ہٹ کر وسیع تر عوام اپنے اندر اتنی سکت محسوس نہیں کررہے ہوتے کہ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ سوچ کی اس وقتی اور درمیانی سطح پر کسی حد تک کاسمیٹک انتظامی تبدیلیوں کے مطالبات کی جانب ایک نیم دلچسپی کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ ایسے لاغر سیاسی ابھاروں میں میڈیا بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جس معاشرے میں حکمران طبقے کی سیاست اور ریاست پر سے عوام کا عتماد اٹھ جائے وہا ں صحافت کو سماجی شعور پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بے معنی تجزیوں، مضحکہ خیز تبصروں، کھوکھلی دانش اور کھیل تماشوں میں عوام کو الجھا کر ان کی بے بسی، مفلسی اور ذلت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
ایسے عہد میں عوام معاشی صورتحال اور سماجی بحران کی شدت کو محسوس تو کررہے ہوتے ہیں لیکن ان کی شعوری کیفیت حقیقی صورتحال سے مطابقت نہیں رکھ پارہی ہوتی۔ وہ خود کاری کی بجائے پیروکاری کا شکار بن جاتے ہیں۔ ثقافتی پسماندگی اور نفسیاتی گراوٹ کی وجہ سے نجات دہندوں کی تلاش اور ان سے امیدیں وابستہ کرنے کی روش زیادہ حاوی ہوتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں سیاسی سوچ اور نظریاتی گراوٹ کا اظہار شخصیت پرستی اور ’’ہیرو‘‘ تراشنے کے رجحان سے ہوتا ہے۔ اسی شخصی تسلط کی چھاپ نظریات سے عاری سیاست پر بھی واضح نظر آتی ہے۔ اس قسم کے سیاسی رجحانات کو وقتی طور پر نسبتاً بڑے جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کی بھیڑ تو مل سکتی ہے لیکن نظریات سے بے بہرہ مڈل کلاس کے یہ پاپولسٹ سیاسی لیڈر حریت پسند اور زور دار تحریکیں نہیں ابھار سکتے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے اس کے اداروں کو ’’ درست‘‘ کرنے کے اصلاح پسندانہ رجحانات دائیں اور بائیں بازو، دونوں میں سے ابھر سکتے ہیں۔ لیکن آج سرمایہ دارانہ نظام کے شدید زوال کے عہد میں بائیں بازو کی اصلاح پسندی بھی آخر کار دائیں بازو کی معاشی پالیسیوں میں غرق ہو کر حکمران طبقے کی باندی بن جاتی ہے۔ یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کا حال سب کے سامنے ہے جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بن کر فلاحی ریاست کے خاتمے اور کٹوتیوں (Austerity) کے بے رحمانہ نفاذ میں پیش پیش ہے اور ایک کے بعد دوسرے ملک میں ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔ فراز کا یہ شعر سوشل ڈیموکریسی اور اصلاح پسندی کو خوب بیان کرتا ہے کہ
اتنے محدود کرم سے تو تغافل بہتر
گر ترسنا ہی مجھے تھا تو ترستا جاتا
عمران خان اور اس طرح کے دوسرے لیڈر اس معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل کو بڑھ چڑھ کر اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ دائیں بازو کے پاپولسٹ طاقت، شہرت اور مقبولیت کے لیے لفاظی میں بعض اوقات بائیں بازو کی پاپولسٹ سیاست سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ نہ صرف اس نظام کی ظاہری ذلتوں کو ابھارتے ہیں بلکہ ریاست اور اس کے ان مقد س اداروں کو بھی نشانہ بناتے ہیں جن پر تنقید عمومی طور پر ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن نظام کی خرابیوں کو چیلنج کرنا اوربحیثیت مجموعی پورے نظام کو چیلنج کرنا، دو الگ باتیں ہیں۔ ایک ایسا نظام جس کے خمیر میں استحصال پوشیدہ ہو، اسے ’’ٹھیک‘‘ کرنے کی یہ نعرہ بازی اس نظام کے تحفظ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس قسم کی شعبدہ بازیوں کا مقصد عوام میں استحصالی نظام کے خلاف پنپنے والے غصے اور نفرت کو ’’سیف ایگزٹ‘‘ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ نہ خرابیاں دور ہوتی ہیں اور نہ نظام کو کوئی دھچکا پہنچتا ہے۔ دائیں بازو کے پاپولزم کا یہی سب سے بڑا فریب اور عیاری ہے۔
الیکٹرنک میڈیا میں ریٹنگ کی نہ بجھنے والی پیاس، سرمائے کی اندھی ہوس کا ہی ایک پہلو ہے۔ ریٹنگ کے چکر یا میڈیا گروپس کی آپسی گرما گرمی میں کچھ اینکر حضرات بعض اوقات اپنی ’’حد‘‘ سے تجاوز کر کے وہ باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جس سے سٹیٹس کو، کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ یہ مظہر خود اس نظام کے بحران اور انتشار کی غمازی کرتاہے جس میں حکمران طبقے اور ریاست کے مختلف دھڑے آپس میں دست و گریبان ہیں۔ جمود کے ادوار میں ٹاک شوز کی گالم گلوچ اور سیاسی لیڈروں کی کھوکھلی نعرہ بازی کو لوگ اپنے دل کی آواز سمجھنے لگتے ہیں۔ اس شور شرابے میں ان کو بدعنوانی، مہنگائی اور بے روزگاری جیسی روز مرہ کی اذیتوں اور عذابوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ دائیں بازو کے پاپولسٹ لیڈر بہت عیاری سے ان مسائل کو اجاگر کر کے ادھوراچھوڑ دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام پر ضرب لگائے بغیر ان مسائل کا فوری یا دیرپا حل چونکہ ممکن ہی نہیں ہے لہٰذا سلگتے ہوئے سماجی اور معاشی ایشوز کو مذہبی جنون، قومی شاونزم اور اس قسم کے دوسرے رجعتی رجحانات سے جوڑ کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا نے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ٹھوس مادی مسائل کو تصوف اور مابعدالطبیعیاتی توہمات میں الجھا کر تصوراتی حل پیش کئے جاتے ہیں۔
ایک صوبے میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ’’تبدیلی‘‘ لانے میں مکمل ناکامی، ہر موقف پر یوٹرن، داخلی ٹوٹ پھوٹ اور وسیع اقتدار کی ہوس میں دئیے گئے دھرنے کی ’’منصوبہ بندی‘‘ کے برخلاف طوالت اور پھر تنزلی سے تحریک انصاف شدید مشکلات سے دو چار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ سمیت ہر ادارہ، جسے عمران خان نے عوام کے سامنے متبادل کے طور پر پیش کیا، جلد ہی بے نقاب ہوگیاہے۔ عین ممکن ہے کہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے بنایا گیا درمیانے طبقے کا یہ سیاسی بلبلہ توقعات سے بہت پہلے پھٹ جائے۔ لیکن ریاست کا ایک حصہ عمران خان اور اس کی جماعت کو بوقت ضرورت مکمل اقتدار دے کر استعمال کرنے کے لئے ایک آپشن کے طور پر برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔
درمیانہ طبقہ اپنے سماجی اور معاشی کردار کی وجہ سے جتنا بے صبرا ہوتا ہے، اتنا ہی ناقابلِ اعتماد اور متذبذب بھی ہوتاہے۔ اس کھوکھلے پن کی وجہ سے وہ لمبے عرصے تک تحریک انصاف جیسے سیاسی رجحانات کو سماجی قوت اور بنیاد فراہم نہیں کرسکتا۔ آنے والے دنوں میں اس رجحان کا انہدام ناگزیر ہے۔ متضاد رجحانات اور عقیدوں پر مبنی ایسے آدھے تیتر آدھے بٹیر قسم کے سیاسی رجحانات اورسیاستدان کبھی بھی طویل عرصے تک مقبول نہیں رہ سکتے۔ ایسے میں پھر ایک خلا جنم لے گا جس کو کسی اور قسم کے پاپولزم سے پر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ بلاول زرداری کی سیلاب میں حالیہ چھلانگ کوئی اتفاق نہیں ہے۔ یہ گھن چکر اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک محنت کش عوام ایک سیاسی قوت بن کر میدان عمل میں نہیں کودتے۔
متعلقہ:
سلگتی ضرورت کا شعور
لانگ مارچ: افلاس سے بے مہر ٹکراؤ!
لانگ مارچ اور ’’تبدیلی‘‘ کی حقیقت