| تحریر: لال خان |
اکیسویں صدی کے پہلے ڈیڑھ عشرے میں عالمی طور پر جتنا چین کی ’’ترقی‘‘ اور ’’معجزے‘‘ کے بارے میں شور کیا جا رہا ہے اتنا اس سے قبل شاید ہی کسی اور ملک کے بارے میں کیا گیا ہو۔ چین کی معاشی ترقی، شرحِ نمو، سفارتی طاقت، فوجی عزائم اور قوت اور کسی حد تک سماجی صورتحال ذرائع ابلاغ، اخبارات اور عام بحثوں میں شاید سب سے زیادہ گفتگو کا موضوع ہیں۔ لیکن اگر ہم کچھ گہرائی میں جا کر اس ’’معجزے‘‘ کا مطالعہ کریں تو ہمیں صورتحال کی چمک کافی ماند پڑتی ہوئی محسوس ہوگی۔ گو چین میں ترقی کا معیارہندوستان کی نسبت کہیں زیادہ ٹھوس اور دوررس ہے لیکن جس طرح ’’شائننگ انڈیا‘‘ کے شعلے کی چمک تیزی سے بجھی اسی طرح چین کے اس شعلے کی چمک اور روشنی باہر کچھ زیادہ اور اندر کم ہے اور یہاں کے باسیوں کی اکثریت کے لئے اندھیرے کچھ زیادہ ہی سایہ فگن ہیں۔
عالمی سرمایہ دار انہ ماہرین اور ان کے جرائد کا مطالعہ کیا جائے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ چین میں سرمایہ داری کی دوبارہ استواری ان عالمی سرمایہ دارانہ سیٹھوں کے لیے سوویت یونین میں ’’سوشلزم کے خاتمے‘‘ سے بھی زیادہ باعثِ مسرت ہے۔ اگرچہ زیادہ سخت گیر سامراجی تجزیہ نگار اور ناقدین چین کے حکمرانوں پر ’’جمہوری حقوق‘‘، ’’انسانی حقوق‘‘ اور ’’مزید آزادیوں‘‘ کے ایشوز پر ایک مخصوص تنقید کرتے ہیں لیکن ان کا اصل مقصد چین کے محنت کش عوام کی زندگیوں کو سہل بنانے اور انکے حقوق کے حصول کی کاوش نہیں ہوتا بلکہ ان کا مقصد سامراجی اجارہ داریوں اور سرمایہ دارانہ استحصال کو زیادہ مواقع فراہم کرنے کے لیے منڈی کو مزید آزاد کرنے اور معیشت سے ریاست کے کردار کو مزید کم کرتے جانا ہے تاکہ یہ گدھ زیادہ منافع خوری کر سکیں۔ چینی افسر شاہی جو اس وقت کافی حد تک ایک حکمران سرمایہ دارانہ طبقے میں منتقل ہوچکی ہے اپنی ریاستی گرفت کے ذریعے معیشت پر اپنی ملکیت اور قبضے سے حاصل کردہ دولت اور مراعات کے تحفظ کے لیے ’’پارٹی‘‘ کی آمریت کو قائم رکھتے ہوئے عالمی اجارہ داریوں کی سرمایہ کاری کے تحت چین کی شرح نمو کو جاری رکھنے کی حامی ہے۔ کیونکہ اسی میں اس اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ اور دولت کے اجتماع کا راز پنہاں ہے۔
دوسری جانب چین میں تیزی سے جو صنعتی ترقی ہوئی ہے وہ زیادہ تر مخصوص ’’زونوں‘‘ یا علاقوں تک محدود ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں چین کے دور دراز علاقوں میں جو دیوہیکل پراجیکٹ شروع کیے گئے ہیں ان میں تبت تک دنیا کی سب سے اونچی ریلوے لائن اور بے پناہ غیر ضروری ڈیموں اور ہاؤسنگ کے منصوبوں کی تعمیر شامل ہے۔ اس کامقصد ان علاقوں کو ترقی دینا نہیں بلکہ بحران کی شدت کو کم کرنے کے لیے ریاستی سرمایہ کاری کے ذریعے شرح نمو کی سطح کو قائم رکھنا تھا۔ لیکن سرمایہ دارانہ استواری جو چین کی ’’کمیونسٹ پارٹی‘‘ کے سرمایہ دارانہ رجحانات کے حامل لیڈر ڈینگ ژیاؤپنگ نے ماؤزے تنگ اور چواین لائی کی وفات کے بعد 1978ء میں شروع کی اس کی رفتار، پھیلاؤ اور مستفید ہونے کی تمام کیفیات انتہائی ناہموار اور سماجی طور پر متضاد نوعیت کی رہی ہیں۔
اب یہ کھل کر واضح ہوچکا ہے کہ ’’ کمیونسٹ پارٹی‘‘ نہ تو کمیونسٹ ہے اور نہ ہی کوئی پارٹی بلکہ ایک رجعتی اشرافیہ ہے جس کا مقصد جونکوں کی طرح چین کے محنت کشوں کا خون چوسنا ہے۔ امریکی کانگریس سے زیادہ ارب پتی اس کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں شامل ہیں۔ مارچ کے شروع میں ہونے والی ’’نیشنل پیپلز کانگریس‘‘ (چین کی پارلیمنٹ) میں شریک 203 ممبران، چین کے امیر ترین 1271 افراد میں شامل ہیں۔ ان میں سے کئی دیوہیکل کارپوریٹ کمپنیوں کے مالک ہیں۔ صرف 10 امیر ترین ممبران پارلیمنٹ کی مجموعی دولت 184 ارب ڈالر ہے، اس کے مقابلے میں امریکی کانگریس کے دس امیر ترین ممبران صرف 1.9 ارب ڈالر کے مالک ہیں۔ سی ا ین این پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 203 امیر ترین ممبران پارلیمنٹ کی مجموعی دولت 463 ارب ڈالر ہے جو آسٹریا، کولمبیا یا جنوبی افریقہ کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار ہی واضح کرتے ہیں کہ چین کی یہ سیاسی اشرافیہ کس طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور کس طبقے کے مفادات کی نمائندہ ہے۔
سامراج کا میڈیا اور ماہریس چین میں سرمایہ داری کی استواری سے ’’لاکھوں کے غربت کی گہرائی سے نکالے جانے‘‘ کا بہت شور کرتے ہیں لیکن ان کروڑوں کا میڈیا میں ذکر کم ہی ہوتا ہے جو اس استواری سے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستے چلے گئے ہیں۔ یہ ٹھوس اورہولناک حقیقت کم ہی سننے یا پڑھنے کو ملتی ہے کہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کی بحالی کے بعد جنوبی افریقہ کے بعد دنیا میں امارت اور غربت کی سب سے بڑ ی خلیج چین میں پیدا ہوچکی ہے جو بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
2008ء میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے حالیہ تاریخ میں بدترین کریش اور زوال کے بعد بیشتر سامراجی معیشت دانوں کی علمیت، مہارت، تناظر اور تجزیے بھی چکناچور اوربڑے بڑے نوبل انعام یافتہ معیشت دانوں کے سرمایہ داری نظام کے عروج وزوال کے سائیکل کے خاتمے اور بحرانوں کے اختتام کے دعوے سرِعام ذلیل و رسوا ہوئے۔ امریکہ اور یورپی یونین کے سرمایہ داروں نے ماضی میں سستی لیکن ہنر مند لیبر کے تعاقب میں چین میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تھی۔ مغربی ملٹی نیشنل اجارہ داریوں نے اپنی مینوفیکچرنگ چین میں منتقل کی جبکہ تیارہ شدہ مال کو مغربی منڈی میں بیچ کر بلند شرح منافع حاصل کی گئی۔ لیکن یہ عمل لا متناہی طور پر جاری رکھنا ناممکن تھا کیونکہ صنعت کی چین میں منتقلی سے یورپ اور امریکہ میں بیروزگاری نے جنم لیااور اس بیروزگاری کے دباؤ کے تحت وہاں کے محنت کشوں کی اجرتیں کم یا منجمد کر دی گئیں جس سے قوت خرید سکڑنے لگی اور وہ منڈی ہی ختم ہونے لگی جہاں مال فروخت کرنے کے لئے چین میں سرمایہ کاری کی جارہی تھی۔ 2008ء کے بعد گراوٹ کا یہ عمل اور بھی تیز ہوگیا اور چین کی برآمدات تیزی سے گرنے لگیں جس سے شرح نمو میں کمی آنے لگی۔
اس وقت چین کی معیشت انتہائی عدم استحکام سے دوچار ہے اور 2015ء میں معاشی شرح نمو کا تخمینہ 6.5 سے 7 فیصد لگایا گیا ہے جو کہ پچھلے 25 سالوں میں کم ترین ہے۔ چینی حکمران خود تسلیم کر رہے ہیں کہ بلند شرح نمو اب قصہ ماضی ہو گئی ہے اور معیشت کی یہ گراوٹ اب ’’نیا معمول‘‘ ہے جسے سب کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ماضی کے وہ تمام عناصر جن کی بنیاد پر چینی معیشت تیزی سے پھیلی تھی، اب اپنے الٹ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یورپی یونین خود شدید معاشی بحران کا شکار ہے، جی ڈی پی منجمد ہے، عوام کا معیار زندگی گر رہا ہے اور منڈی سکڑ رہی ہے۔
یورپ میں منڈی کے سکڑاؤ کی تلافی امریکہ میں برآمدات بڑھا کرکرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس وقت امریکہ کے ساتھ چین کا ٹریڈ سرپلس، چین کے مجموعی ٹریڈ سرپلس کے 176 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اس صورتحال کو امریکی جریدے فاربز نے اپنے مضمون میں ’’چین امریکہ پر 176 فیصد منحصر ‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ خود امریکہ کا جائزہ لیا جائے تو ریاستی قرضہ گزشتہ دنوں 18 ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور ڈالر چھاپ چھاپ کر معیشت کو زندہ رکھا جارہا ہے۔ ان حالات میں چین کی صنعت میں ’’زائد پیداواری صلاحت‘‘ بڑھتی جارہی ہے کیونکہ فیکٹریاں جتنا مال تیار کر سکتی ہیں وہی فروخت نہیں ہو رہا لہٰذا نئی سرمایہ کاری کرنے کی کوئی منطق نہیں بنتی۔ چین کے جی ڈی پی کی شرح نمو میں صرف ایک فیصد گراوٹ کا مطلب لاکھوں نوکریوں میں کمی اور ہزاروں صنعتی یونٹس کی بندش ہے جس سے کروڑوں لوگ براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ اس معاشی بحران کے سیاسی اور سماجی مضمرات کا انداز بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ہڑتالوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، ہر سال ہزاروں چھوٹی بڑی ہڑتالیں اور مظاہرے ہورہے ہیں اور محنت کش عوام کی بے چینی اور کرپٹ حکمران طبقے سے نفرت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں چین کا سماج دھماکہ خیز واقعات کے پک کر تیار ہورہا ہے۔ چین میں موجود دنیا کا سب سے بڑا محنت کش طبقہ جب سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کرے گا تو پورے عالم کو ہلا کے رکھ دے گا۔