موت کے کارخانے

| تحریر: قمرالزمان خان |

عام طور پر انسانی زندگی کے بیش قیمت ہونے کی بات کی جاتی ہے مگر یہ بات محنت کش طبقے کے بارے میں بالخصوص غلط ہے۔ انسانی زندگی کے تحفظ کے عزم سے مراد طبقہ امراء یا حکمران طبقہ کی زندگیاں ہوتی ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مادر وطن یا ریاست کے تحفظ کے مکارانہ نعروں سے عام آدمی کی زندگی اور’ اسباب زندگی‘کا تحفظ مطلوب نہیں ہوتا۔ پاکستان میں’ خونِ مزدور‘ کتنا ارزاں ہے اور ہر روز کیسے ناحق گرتا رہتا ہے اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ امورسلطنت اور قانون ساز اسمبلیوں میں شوربپا ہوتا ہے مگر اس شور میں ایک لفظ اکثریتی محنت کش طبقے کی زندگیوں کی کٹھنایاں، سسک سسک کے جینے اور تڑپ تڑپ کر مرنے سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ شائد یہ شور ہی اس لئے برپا کیا جاتا ہے کہ غریبوں، مزدوروں، ہاریوں اور کچلے ہوئے طبقے کی آہیں اس شور میں دب کر کہیں گم ہوجائیں۔ لاہور شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ’’راجپوت پولسٹر پولی تھین بیگ فیکٹری‘‘ کے سیمنٹ اور سریے سے گندھی چھت کے ملبے تلے 131 گھنٹے تک دبے ہوئے مزدوروں اور ملبے کے باہر انکے اہل خانہ کی چیخوں، آہوں اور سسکیوں کا اثر حکمرانوں کے کسی دھڑے پر نہیں ہوا، کوئی ٹس سے مس نہ ہوا اور نہ ہی کسی کی آنکھیں بھیگیں۔ کئی گھنٹے تک صرف قریب کی فیکٹریوں کے مزدوراپنی مدد آپ کے تحت مزدوروں کو ملبے سے نکالنے کی ناکام کوششیں کرتے رہے کیونکہ انکے پاس کنکریٹ توڑنے یا ہٹانے کے لئے مشینری موجود نہ تھی، پھر کچھ ’’امدادی کارکنان اور ہاوسنگ سوسائیٹیوں کے مددگار‘‘ کیمروں کے ساتھ آئے، ان کو ملبہ ہٹانے سے زیادہ فلمیں بنانے اور ہاوسنگ سوسائیٹی کی طرف سے چند مشینوں کو بھیجنے کی تشہیر میں زیادہ دلچسپی تھی۔ فوج آئی تو رائفلوں کے ہمراہ جن سے لوگوں کو ڈرایا جاسکتا تھا ‘ ملبہ ہٹانے کا کام کافی تاخیر سے شروع کیا گیا مگر کسی قسم کی احتیاط بروئے کار نہ لائی گئی۔ ایک جواں سال مزدورشہزاد کے دونوں پاؤں کاٹ کر اسکی ’’زندگی ‘‘ گئی، اس کو پاؤں کاٹے بغیر کچھ اور تاخیر سے زندہ سلامت نکالا جاسکتا تھا، مگر مزدوروں کے ہاتھ پاؤں یا جسموں کی کون پرواہ کرتا ہے۔ سرکاری اعلان کے مطابق پچاس کے قریب مزدوروں کی نعشیں برآمد کی گئیں 103 شدید زخمی مزدوروں کو ملبے سے نکال کرباقی نامعلوم تعداد کو ملبے کا حصہ قراردے کرہمیشہ کے لئے فراموش کردیا گیا۔
تین سال قبل کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کی علی انٹرپرائیزفیکٹری‘ جس کے مالکان سے مبینہ طور پر متحدہ قومی موومنٹ کے ’ذمہ داران‘نے کروڑوں روپے بھتہ طلب کیا تھا‘ کی عدم ادائیگی پر 289 مزدور عورتوں، مردوں اور بچوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ یہ قتل عام سنگینی، سفاکیت اورالمناکی میں کسی طور’ آرمی پبلک سکول ‘ کے اندوہناک سانحے سے کم نہ تھا مگر چونکہ جلا کرماردئے جانے والے مزدورتھے اس لئے اس سانحے پر حکومتی سطح پر ’آرمی پبلک سکول ‘ کے دلخراش واقعے کی نسبت پانچ فی صد بھی ردعمل ہوا اورنہ کو ئی’ ضرب عضب ‘یا آپریشن شروع ہوا۔ نیم دلی سے اس سانحے پر تحقیقات چلتی چلتی تین سال گزر گئے مگر 289 انسانوں کو جلانے والے کسی ذمہ دار کو تھپڑ تک نہ مارا گیا، البتہ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نے اس قتل عام کو ایک حادثہ قراردیا اور گرفتار مالکان کی رہائی کے حکم نامے کے ساتھ فرمایا کہ ’’حادثات کے بعد مالکان کو گرفتار کرنا یا انکے خلاف مقدمات چلانے سے سرمایہ کاری کا عمل متاثر ہوگا‘‘۔ گوجرانوالہ کے نواحی علاقہ گکھڑ منڈی جی ٹی روڈ پر واقع چکن فیڈ اور کوکنگ آئل بنانے والی فیکٹری بدر 313 میں مورخہ 5 ستمبر کو کام کے دوران ناقص اور زائد المیعاد بوائلر پھٹنے سے فیکٹری کی چھت کے ملبے میں کام کرنے والے مزدور دب گئے۔ دبے ہوئے مزدور جھلسے ہوئے تھے، آس پاس کے فیکٹریوں سے مزدور ساتھیوں نے ملبہ ہٹایا مگر خوفناک بات یہ تھی کہ جھلسے ہوئے مزدوروں پر چونا ڈال دیا گیا جس سے ان کے جھلسے ہوئے جسموں کو کئی ہزار گنا اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس اندوہناک واقعہ میں اٹھارہ مزدور چل بسے اور کئی درجن مزدور زندگی بھر کے لئے معذور ہوگئے۔ اس فیکٹری کے مالکان کو پہلے پہل گرفتار کیا گیا مگر ان کی گرفتاری شاہانہ تھی۔ وہ تھانے میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کرتے رہے اور بعدازاں ان کو چھوڑ دیا گیا۔ اس کے باوجود کہ فیکٹری کا بوائیلر کچھ روز پہلے بھی دھماکے کرچکا تھااور مزدور بارہا اسکی فرسودگی اور خطرناک ہونے پر مالکان کی توجہ دلاچکے تھے مگر لالچی مالکان نے چند لاکھ روپے خرچ کرکے بوائلر نہیں بدلا جب کہ اٹھارہ مزدور قتل کردئے اور ساٹھ کے قریب معذور ہوگئے۔ اسکی وجہ واضح تھی کہ فیکٹری مالکان کو علم تھا کہ کسی حادثے کی صورت میں ان کے خلا ف کسی قسم کی کاروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔ اسی ماہ لاہور میں گجومتہ کے علاقے میں روہی نالہ کے قریب فیکٹری کی چھت گرنے سے ملبے تلے دب کر 4 محنت کش ہلاک اور 16 زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں سے 2 کی حالت تشویشناک تھی جنکے بارے میں علم نہیں کہ جانبر ہوسکے یا جان کی بازی ہارگئے اس ہولناک واقعے کے بعد محنت کشوں اور عوام نے روڈ بلاک کر کے مالک کی گرفتاری اور پولیس کے مالک کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنے پر شدید احتجاج کیا، جس کے بعد دباؤ میں آ کر پولیس حرکت میں آئی مگر تب تک مالک فرار ہو گیا، پولیس نے مینیجر سمیت مزید پانچ افراد کو حراست میں لے لیا۔ ذرائع کے مطابق یہ گارمنٹس فیکٹری جینز تیار کرتی تھی اور منافع کی ہوس میں مالک نے کبھی بھی فیکٹری کی مرمت نہیں کروائی، جس کی وجہ سے تیسری منزل کی چھت انتہائی بری حالت میں تھی، اس سے قبل کئی مرتبہ مزدور مالک کو اس کی طرف توجہ دلا چکے تھے مگر مالک کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ عینی شاہدین کے مطابق چھت بہت پرانی تھی اور بارشوں میں ٹپکتی تھی، فیکٹری مالک بارش کے پانی کو روکنے کے لئے اس کے اوپر مٹی ڈال دیتا تھا، بار بار مٹی ڈالنے سے چھت کے اوپر وزن زیادہ ہو گیا اور وہ نیچے گر گئی۔ سانحہ سندر کے اگلے روز ایک اور حادثے میں پانچ مزدور جل کر ہلاک ہوگئے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ خیبر پختون خواہ میں بھی پیش آیا جس میں پانچ مزدوروں کی موت واقع ہوئی۔ گزشتہ ماہ مظفر گڑھ میں میونسپلٹی مزدورخطرناک گٹروں کی صفائی کے لئے بغیر گیس ماسک اور حفاظتی اقدامات اتارے گئے، گٹر میں زہریلی گیس کی وجہ سے پانچ سیور مین موقع پر ہی ہلاک ہوگئے یہ ایک تسلسل ہے خونی حادثات کا۔ فرٹیلائیزرفیکٹریوں، شوگرملز، جننگ فیکٹریوں، گارمنٹس کے شعبے اور دیگر فیکٹریوں میں جان لیوا یا پھر زندگی بھر کے لئے معذور کردینے والے واقعات معمول زندگی بن چکا ہے۔
جان لیوا حادثات میں مزدور گھرانے اپنے کمانے والوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یا تو کھو دیتے ہیں یا پھر حادثات کی نذرہونے والے محنت کش اپنے غربت کی لکیر سے نیچے سسکتے گھرانوں میں اپاہج اور غیر فعال بوجھ بن کر انکی غربت، بے بسی اور مشکلات میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں۔ سیفٹی قوانین ‘کا ذکر گاہے بگاہے سننے میں آتا ہے مگر نہ ختم ہونے والے خونی حادثات بتاتے ہیں کہ عملی طور پر ’حفاظتی اقدامات‘کا وجود شائد ہی کسی فیکٹری یا ادارے میں ہو۔ وہ ادارے جن کے ’ایڈمن آفس‘ کے درودیوار ’’دس لاکھ محفوظ گھنٹے‘‘کے سرٹیفیکیٹس سے بھرے اور سجے ہیں، وہاں بھی حادثات کا ہوتے رہنا معمولات میں شامل ہے۔ پے درپے جان لیوا حادثات میں مزدوروں کی اموات ہورہی ہیں اور جو زخمی ہوگئے ہیں وہ نہ جیتوں میں ہیں نہ مروں میں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ سیفٹی سے متعلق وہ مزدور قوانین جن پر سرے سے عمل درآمد ہی نہیں ہوتا‘ ا ن قوانین پر عدم عمل درآمد کی سزا پانچ سو یا ہزار روپے ہے۔ یہ مزدوروں کی جانوں کی قیمت کا ریاستی تعین ہے۔ اس سے ریاست اور اسکے سرمایہ دارانہ نظریات کی وضاحت ہوتی ہے۔ حکومت کسی فیکٹری میں کس طریقے سے سیفٹی قوانین کا اطلاق کروائے؟ اس کی کہیں کوئی وضاحت ہے نہ ایسا کوئی ادارہ اور طریقہ کار ہے۔ ملک کے اندر کتنے مزدور صنعتی اداروں میں کام کررہے ہیں؟ کتنی فیکٹریاں ہیں؟ کتنے نابالغ بچے فیکٹریوں میں چائلڈ لیبر کررہے ہیں؟ کسی کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ حادثے کا شکار سندر میں واقع فیکٹری سمیت ملک بھر میں نوے فی صد سے زائد ادارے سرکاری انداراج میں ہی نہیں ہیں اور نہ ہی اسکی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ فیکٹریوں میں کیا مظالم ڈھائے جاتے ہیں ؟اوقات کار پر عمل درآمد، اوور ٹائم، چھٹیاں اور دیگرنام نہاد قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لئے قائم نام نہاد ’’لیبر ڈیپارٹمنٹ‘‘ عرصہ دراز سے اپنی افادیت کھو کر مالکان کے مفادات کا آلہ کار بن چکا ہے۔ کہنے کو خواتین ورکرز سے رات کو کام نہیں کرایا جاسکتا مگر ملک کی بڑی نجی ٹرانسپورٹ کمپنی میں کھلے عام ’’خواتین میزبان‘‘ بغیر اضافی الاؤنس کے کام کررہی ہیں۔
ایک طرف ملکی قوانین، لیبر قوانین اور عالمی لیبر قوانین مزدوروں کے مصائب، مشکلات، روزمرہ کے کام کے مسائل، کام کے حالات، اوقات کار، سیفٹی، کم ازکم تنخواہ، بھرتی اور برخواستگی، پنشن، علاج معالجہ، رہائش، ٹرانسپورٹ، بچوں کی تعلیم جیسے معاملات سے مطابقت اختیار کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں تو دوسری طرف مزدوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ٹریڈ یونین یا تو قائم نہیں کی جاسکتی اور اگر موجود ہے تو پھر وہ ’مزدور‘ کے حقوق کے لئے ’آزادانہ‘ کام نہیں کرسکتیں۔ یا تو ان تنظیموں کو ’انتظامیہ‘ کی مرضی اور آسانی کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے یا پھر برطرفیوں، مقدمات، انتقامی کاروائیوں اور مالی جبر کا سامنا کرکے فیکٹری یا ادارے سے باہر نکل جانا پڑتا ہے۔ معروف اور ماضی کے طریقہ ہائے کار کے تحت موجودہ نظام میں مزدوروں کو کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ حق بھی لے کر نہیں دیا جاسکتا۔ ٹھیکے داری نظام اور نئے مزدورایکٹ کے تحت ’’باہمی گفتگو‘‘ کو مس کنڈکٹ قراردے کر مزدورکے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے جس کا عام طور پر اختتام مزدورکی برخواستگی کی صورت میں ہوتا ہے۔ سیفٹی قوانین ناقص ہیں اور سرمایہ دار منافعوں کی حرص میں اندھے ہیں، انہیں کسی جان لیوا حادثہ‘ خواہ اس میں سینکڑوں اموات ہوجائیں‘ میں کسی قسم کی تادیبی کاروائی کا ڈر ہے نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام سیاست اور معیشت میں مزدور کو کہیں سے ریلیف ملنے کا امکان ہے۔ کام نہ ملنے کی شکل میں بھوک اور کام ملنے کے بعدہولناک حالات کاراور حادثات ‘ دونوں مزدور کو موت کی طرف لے جاتے ہیں، مگر زندگی کون سی راحتوں سے بھری ہوئی ہے۔ زندہ رہے تو ایک ایک سانس اور ایک ایک ساعت کا خراج دینا پڑتا ہے۔ یہ نظام مزدوروں اور محنت کشوں کو صرف اجرتی غلامی کی زندگی دیتا ہے۔ ان غلامی کی زنجیروں کو توڑے بغیر سسک سسک کر جینے اور بلک بلک کر مرنے کا یہ عمل جاری رہے گا، کبھی اس فیکٹری میں کبھی کسی اور فیکٹری میں چھتیں گرتی رہیں گی، بوائلر پھٹتے رہیں گے، مشینیں زندگیوں کی سانسیں چھینتی رہیں گی، مزدوروں کو زندہ جلا کر راکھ کیا جاتارہے گااور سرمائے کے ارتکاز کے شیطانی کھیل میں سرمایہ دار اورزیادہ سفاک، درندہ اور وحشی بنتے چلے جائیں گے۔ درندگی پر مبنی موت کے اس کھیل کو روکنے کے تمام مروجہ طریقہ ہائے کار فرسودہ اور زائد المیعاد ہوچکے ہیں۔ اب ٹریڈ یونین ازم سکت کھوچکا ہے۔ پرانی وضع کو خیر باد کہہ کر ٹریڈ یونین کو انقلابی نظریات اور انقلابی طریقہ کارکے مطابق وضع کرنا وقت کا اہم اور ناگزیر تقاضا بن چکا ہے۔ محنت کشوں کا فیکٹریوں، اداروں، کھیتوں کھلیانوں اور پیداواری ذرائع پر جمہوری کنٹرول ہی اس ماحول کو جنم دے سکتا ہے جس میں مزدور کی زندگی کو سماج کی سب سے اہم زندگی قراردے کر اسکی بقا اور سلامتی کو ناگزیر بناسکے۔