بورژوا جمہوریت سے سوشلزم تک

ولادیمیر لینن کے ہمراہ بالشویک انقلاب کے قائد اور 21سامراجی افواج کو شکست فاش دینے والی انقلابی سرخ فوج کے بانی کامریڈ لیون ٹراٹسکی کی 74ویں برسی کے موقع پر ان کی شہرہ آفاق تصنیف ’’انقلاب روس کی تاریخ‘‘ سے ایک اقتباس شائع کیا جارہا ہے۔ اس تحریر میں ٹراٹسکی نے ’’غیر ہموار اور مشترک ترقی‘‘ کی تھیوری کو زار شاہانہ روس کے ٹھوس مادی حالات پر منطبق کر کے انقلاب روس کا ارتقاء بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

روسی محنت کش طبقہ اپنے آغازسے ہی اپنی مختصر تاریخ کوہمیشہ سے دہراتاچلا آرہا تھا۔ اس دوران جب دھات کی صنعت میں، خاص طورپر پیٹروگراڈمیں، موروثی پرولتاریہ کی ایک پرت کام میں اتنی مگن تھی کہ وہ پورے ملک سے کٹی ہوئی تھی جبکہ یورالز میں کام کرنے والوں کی غالب اکثریت آ دھی کسان آدھی مزدور تھی۔ دیہاتوں سے تازہ دم مزدوروں کے سالانہ بہاؤ نے تمام صنعتی مراکز میں پرولتاریہ کے بندھنوں کو اس کے سماجی مخزن سمیت ترو تازہ کئے رکھا۔ بورژوازی کی سیاسی عمل میں نااہلی کی فوری وجہ اس کی پرولتاریہ اورکسانوں سے تعلقات کی کیفیت تھی۔ مزدوروں کی روزمرہ زندگی میں ان پرظلم وتشددکے باعث یہ ان کی رہنمائی سے قاصر تھی۔ اسی ظلم وتشدد سے مزدوروں کو عمومی مسائل کا فوری ادراک ہوا۔ کسانوں کے معاملے میں بھی یہی کیفیت تھی کیونکہ بورژوازی کے مفادات، جاگیرداروں کے مفادات سے جڑے ہوئے تھے اور یہ ملکیتی رشتوں کے کسی بھی صورت میں تہہ وبالا ہونے سے خوفزدہ تھی۔ روسی انقلاب میں تاخیر، محض تقویم کاہی معاملہ نہیں تھا بلکہ قوم کی سماجی ساخت بھی اس کی بڑی وجہ تھی۔ برطانیہ نے اپناپروٹسٹنٹ انقلاب اس وقت کیا تھا جب اس کی آبادی محض ساڑھے پانچ کروڑتھی۔ لندن کی آبادی صرف پانچ لاکھ تھی۔ فرانس میں انقلاب کے وقت پیرس کی آبادی بھی اتنی ہی تھی، جبکہ ملک کی کل آبادی ڈھائی کروڑتھی۔ روس کی آبادی بیسویں صدی کے آغاز پرپندرہ کروڑتھی، ان میں تیس لاکھ ماسکو اور پیٹروگراڈمیںآبادتھے۔ ان تجزیاتی اعداد و شمار سے وسیع سماجی تفاوت کا اظہار ہوتا ہے۔ نہ صرف سترہویں صدی کا برطانیہ، بلکہ اٹھارویں صدی کا فرانس بھی جدید معنوں میں پرولتاریہ سے محروم تھا۔ تاہم روس میں 1905 ء میں، محنت کے تمام شعبوں میں، شہروں دیہاتوں میں، محنت کشوں کی تعدادایک کرو ڑسے کم نہیں تھی۔ ان کے خاندان شامل کئے جائیں تو یہ تعدادڈھائی کروڑہوجاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، عظیم انقلاب کے وقت کی فرانسیسی آبادی سے بھی زیادہ۔ کرامویل کی فو ج کے قوی الجثہ ہنرمندوں، آزادکسانوں سے لے کر پیرس کے انقلابیوں اور سینٹ پیٹرزبرگ کے صنعتی مزدوروں تک کے سفر میں، انقلاب نے اپنے سماجی شعوری عمل، اپنے طریق کار، یہاں تک کہ اپنے مقاصدمیں گہری تبدیلیاں کر لی تھیں۔
1905ء کے واقعات فروری اور اکتوبر 1917ء میں ہونے والے کے دو انقلابات کی تمہید تھے۔ 1905ء میں کھیل کے تمام عناصر موجود تھے لیکن یہ انقلاب اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ روس جاپان جنگ نے زارشاہی کو ڈگمگادیا تھا۔ ایک عوامی تحریک کے پس منظر میں، لبرل بورژوازی بادشاہت کی مخالفت سے خوفزدہ ہو گئی تھی۔ مزدوروں نے بورژوازی کے بغیربورژوازی کیخلاف خود کوایک تنظیم میں منظم کر لیاتھا، جوبعد میں سوویت قرار پائی۔ کسان تحریکوں نے پورے ملک میں زمینوں پر قبضے کر لئے تھے۔ نہ صرف کسان، بلکہ فوج کے کئی انقلابی حصے بھی سوویتوں کا دست وبازو بن گئے۔ یہ سوویتیں تناؤ کے شدیدترین لمحات میں، بادشاہت کی قوت سے ٹکرا گئیں۔ لیکن چونکہ تمام انقلابی قوتیں پہلی بار عمل میں جارہی تھیں، اس لئے ان میں تجربے اور اعتماد کی کمی تھی۔ لبرلز، کھلم کھلاعین اس وقت انقلاب سے پیچھے ہٹ گئے، جب یہ واضح ہو گیاتھاکہ صرف زار شاہی کو جھٹکا دینا کافی نہیں، بلکہ اسے اکھاڑپھینکناضروری ہے۔ عوام کے ساتھ بورژوازی کی، جمہوریت پسنداہل دانش کی تائید و آشیرباد کے ساتھ اچانک بے وفائی نے بادشاہت کے لئے فوج میں امتیاز اور تفریق کرنے کا رستہ ہموار کر دیا۔ وفادار دستے الگ کر لئے گئے تاکہ مزدوروں اور کسانوں کو ان کی سرکشی کاخونریز مزہ چکھایا جائے۔ چند معمولی زخموں کے ساتھ، زار شاہی 1905ء کے تجربے سے نہ صرف، زندہ سلامت بچنے میں کا میاب رہ گئی بلکہ اس نے مزید طاقت حاصل کر لی۔
1905ء اور1917ء کے درمیانی سالوں کے دوران کے تاریخی ارتقا نے قوتوں کے باہمی تعلق میں کیا تبدیلیاں پیدا کیں؟زارشاہی کو تاریخی ارتقا کے تقاضوں کے سا تھ سخت تصادم سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ بورژوازی معاشی طور پر پہلے سے زیادہ مضبو ط ہوگئی۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ اس کی طاقت، صنعت کے بہت بڑے ارتکازاور ایک مسلسل بڑھتے ہوئے غیرملکی سر مائے کے تسلط پرمبنی تھی۔ 1905ء کے تجربے نے بورژوازی کو مزیدقدامت پسنداور محتاط بنا دیاتھا۔ پیٹی بو رژوازی کی قدر وقیمت جو پہلے ہی کم تھی مزید کمتر ہو گئی۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اہل دانش، عوام سے کٹے ہوئے اور ٹھوس سماجی حمایت سے محروم تھے۔ یہ کسی حد تک سیاسی طور پر اثرانداز ہو سکتے تھے لیکن کوئی آزادانہ کردار ادا نہیں کر سکتے تھے۔ بورژوالبرل ازم پر ان کا انحصاربہت حد تک بڑھ چکا تھا۔ ان حالات میں نوجوان اورتازہ د م پرو لتاریہ ہی، کسانوں کو ایک پروگرام، ایک پلیٹ فارم اور ایک قیادت فراہم کر سکتا تھی۔ ان عظیم اہداف اور مقاصدنے پرولتاریہ میں ایک خاص انقلابی تنظیم کی فوری ضرورت کااحساس پیداکیاجو عوام کا ساتھ دے سکے اور ان کو محنت کشوں کی زیر قیادت، انقلابی اقدامات کیلئے تیار کر سکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ 1905ء کی سوویتیں، 1917ء میں بڑی تیزی سے اور بہت بڑے پیمانے پر پھیلیں۔ یہاں ہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ یہ سوویتیں، روس کی تاریخی پسماندگی نے جنم نہیں دی تھیں بلکہ یہ اس کی مشترکہ ترقی کی پیداوار تھیں اور اس کا اظہار اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ دنیا کے بہت بڑے صنعتی ملک جرمنی کا پرولتاریہ 1918-1919ء کے انتہائی انقلابی لمحات میں کوئی تنظیمی صورت تلاش نہیں کر سکا تھا۔
تاحال 1917ء کے انقلاب نے افسرشاہانہ مطلق العنانی کے خاتمے کافوری ہدف پورا کرناتھا۔ لیکن قدیم بورژوا انقلابات کی بہ نسبت اب فیصلہ کن قوت ایک نیا طبقہ تھاجس کی تعمیرو تشکیل ایک مرتکزصنعت کی بنیادوں پرہوئی تھی او ر جو نئی تنظیموں اور جدوجہد کے نئے طریقوں سے مسلح تھا۔ یہاں مشترکہ ترقی کا قانو ن اپنا انتہائی اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ قرون وسطیٰ کے انحطاط پذیرڈ ھانچے کو اکھاڑ پھینکنے سے آغاز کرتے ہوئے انقلاب نے اقتدارچند ہی ماہ میں پرولتاریہ اور کمیونسٹ پارٹی کی جھولی میں ڈال دیا۔
اپنے ابتدائی فریضے کے طورپر روسی انقلاب ایک جمہوری انقلاب تھا۔ لیکن اسے سیاسی جمہوریت کے مسئلے کا نئی شکل میں سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران جب مزدور پورے ملک میں سوویتیں قائم کر رہے تھے، کسانوں اور فوجیوں کو ان میں شامل کر رہے تھے، بورژوازی یہ بھاؤ تاؤ کرنے میں لگی ہوئی تھی کہ کیا ہم آئین سازاسمبلی کا اجلاس طلب کر سکیں گے یا نہیں؟آگے چل کر یہ سوال اپنی پوری شدت سے ہمارے سامنے آ ئے گا۔ یہاں ہم چاہیں گے کہ انقلابی نظریات اور کیفیات کی تاریخی جا نشینی کے حوالے سے سوویتوں کے مقام کی نشاندہی کریں۔
سترہویں صدی کے درمیان میں برطانیہ کا بورژوازی انقلاب، ایک مذہبی اصلاح پسندی کے بہروپ میں سامنے آیاتھا۔ اپنی اپنی مرضی سے عبادت کرنے کے حق کے لئے کی جانے والی جدوجہد کوبادشاہ، اشرافیہ، چرچ کے شہزادوں اور ویٹی کن، روم، کے خلاف جدوجہد سمجھ لیا گیاتھا۔ کلیسا اور پروٹسٹنٹ یہ سمجھتے تھے کہ وہ اس زمین پر’’مشیت ایزدی‘‘ کے ناقابل تسخیرتحفظ کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ مقاصد جن کے لئے نئے طبقے جدوجہد کر رہے تھے، شعوری طور پربائبل کی تعلیمات اور چرچ کے پندونصائح سے خلط ملط ہو چکے تھے۔ تارکین وطن خو ن میں لتھڑی اس روایت کو سمندر پار لے کے واپس گئے۔ اس طرح سے قدیم انگریز اپنی غیر معمولی مردانگی کی صورت میں عیسائیت کی تشریح کیا کرتے تھے۔ آ ج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح عظیم بر طانیہ کے’’سوشلسٹ‘‘وزیر اپنی بزدلی کو چھپانے کے لئے ا یسے جادوئی الفاظ کا آسرا لیتے ہیں، جن کے ذریعے سترہویں صدی کے لوگ اپنی بہادری کاجواز فراہم کرتے تھے۔
فرانس، جو اصلاحات کے عمل سے گذراتھا، انقلاب تک کیتھولک چرچ کوریاستی ادارے کی حیثیت حاصل تھی جس نے اپنا اظہاربورژواسماج کے اہداف کی شکل میں کیا، وہ بھی بائبل کی تعلیمات کی نہیں بلکہ جمہوریت کی تجریدیت کی روشنی میں۔ آج فرانس کے حکمران Jacobinism سے جتنی بھی نفرت کا اظہار کریں، حقیقت یہ ہے کہ یہ انقلابی لیڈر Robespierre کی جانگداز محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ ابھی تک اس قابل ہیں کہ اپنی قدامت پسندحکمرانی کے لئے ان طریقوں کو اپنا سکیں جنہوں نے پرانے نظام کو بھک سے اڑا دیا تھا۔
تمام عظیم انقلابات، بورژواسماج کیلئے نئے مرحلوں کا باعث بنے ہیں اور اس سماج میں موجود طبقات کیلئے شعور کی نئی شکلیں بھی فراہم کی ہیں۔ فرانس ا صلاحات سے اور روس رسمی جمہوریت سے آ گے نکل گیا۔ روسی انقلابی پارٹی، جس نے پورے عہد پر اپنے اثرات مرتب کرنے تھے، نے انقلاب کے فریضے کی ادائیگی کیلئے نہ تو بائبل سے رجوع کیا اور نہ ہی سیکولرزدہ عیسائیت سے، جسے’’خالص‘‘ جمہوریت کہا جاتاہے۔ بلکہ اس نے سماج میں موجود طبقات کے مادی تعلقات میں سے انقلاب کو تخلیق اور تعمیر کیا۔ سوویت نظام نے ان تعلقات کو سادہ ترین، خوبصورت ترین اور صاف ترین اظہار فراہم کیا۔ پہلی بار سخت محنت کرنے والوں کے کردارکو سوویت نظام میں تسلیم کیاگیا۔ ابتدائی نشیب وفرازسے قطع نظر، انقلاب روس ناقابل تسخیر طور پر عوام کے شعور میں پیوست ہو چکا ہے!