میڈیکل کے طلبہ؛ منافع کی ہوس کے نئے شکار

[تحریر:حارث قدیر]
صحت کی سہولیات بنیادی انسانی حقوق میں سے ہی ایک بنیادی حق ہے جس کی ہر شہری کو مفت فراہمی کسی بھی ریاست کا بنیادی فریضہ ہواتی ہے، لیکن پاکستانی ریاست جہاں اپنے شہریوں کا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے وہاں صحت کی سہولتوں کی مخدوش حالت نے 80 فیصد پاکستانی عوام کو غیر سائنسی علاج پر مجبور کر رکھا ہے اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً 80 سے 85 فیصد پاکستانی سماج میں بسنے والے انسان مختلف نوعیت کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ غیر سرکاری اداروں کے سروے کے مطابق اٹھارہ سو انسانوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے جس کی اہلیت کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے جبکہ وزارت اطلاعات کی ویب سائیٹ پر جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں 916 ہسپتال ہیں جن میں شہری علاقوں کے ہسپتال ایک سو سے پانچ سو بستروں پر مشتمل ہیں، دیہی علاقوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل ہے، 4600 ڈسپنسریاں، 5301 بنیادی مراکز صحت، 552 دیہی مراکز صحت ہیں جبکہ ٹی بی مراکز کی تعداد 289 ہے۔ تمام پاکستانی ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج معالجے کیلئے لگائے گئے بستروں کی تعداد 99908 ہے۔ اسی ویب سائیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی ریاست کی جانب سے عوام کو صحت کی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے متعین کردہ ڈاکٹروں کی تعداد 113206 ہے۔ ماہر امراض دندان 6127، نرسیں 48446، دیگر ملازمین صحت 23559 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز 6741 ہیں۔ درج بالا اعداد و شمار یہ واضح کرتے ہیں کہ 19 کروڑ کی آبادی کو ریاست کی جانب سے دستیاب صحت کی سہولیات کی صورتحال کس قدر گھمبیر ہے۔ حکومت کی جانب سے صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی گئی جس کی وجہ سے صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کا عمل ایک منافع بخش صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ ہر ایک سرکاری ہسپتال کے اردگرد سینکڑوں نجی ہسپتال قائم ہیں جن کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے رجسٹرڈ نجی ہسپتالوں کا تناسب کل ہسپتالوں کا تقریباًپانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ حکیموں، عطائیوں، پیروں، عاملوں جو تعویز گھنڈے سے علاج کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ دیہی علاقوں میں تو ان عناصر کا غلبہ ہے اور وہاں اکثر ہسپتال ڈاکٹر اور دوا سے محروم آثار قدیمہ کے مناظر پیش کر رہے ہیں۔
ایسے سماج میں جہاں 60 فیصد سے زائدلوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں (گو کہ سرکاری اعداد و شمار پینتالیس فیصد بتاتے ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہے) انکے لئے صحت کی سہولتیں خریدنا ناممکن ہو جاتا ہے اور وہ سستے اور غیر سائنسی طریقہ علاج پر ہی اکتفا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ حکمران طبقات کی منافع کی ہوس ادویات کی قیمتوں میں اضافے اورنجی ہسپتالوں کی مسلسل تعمیر کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ گزشتہ پانچ سال سے میڈیکل کالجوں کی بیش بہاتعمیرات اور قیام کا باعث بن رہی ہے، جہاں صحت کی سہولتوں سے جڑا ہر شعبہ ایک منافع بخش صنعت کا درجہ اختیار کرتا جا رہا ہے وہاں اب میڈیکل کالجوں کا قیام سیاسی مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔ پاکستان کے ایک معروف خبر رساں ادارے کی جانب سے حال ہی میں شائع کی جانیوالی رپورٹ کے مطابق 2007ء سے قبل کے ساٹھ سالوں میں پاکستان بھر میں بیس میڈیکل کالجز کام کر رہے تھے جبکہ گزشتہ پانچ سالوں میں اس تعداد میں 108 کالجز کے حیرت انگیز اضافے کے بعد اب یہ تعداد 128 ہو گئی ہے جن میں سے 89 سرکاری میڈیکل کالجز، 51نجی، 10سرکاری ڈینٹل کالجز اور 29 نجی ڈینٹل کالجز شامل ہیں۔ صوبوں میں کالجز کی تقسیم کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی ) کی ویب سائیٹ پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں اٹھارہ سرکاری، اٹھائیس نجی میڈیکل کالجز ہیں، سندھ میں نو سرکاری جبکہ بارہ نجی، پختونخواہ میں آٹھ سرکاری اور انیس نجی، بلوچستان بھر میں ایک سرکاری اور ایک نجی کالج موجود ہے جبکہ آزادکشمیر میں دو سرکاری اور ایک نجی میڈیکل کالج موجود ہے، اسی طرح پنجاب میں تین سرکاری اور بارہ نجی ڈینٹل کالجز موجود ہیں، سندھ میں چار سرکاری اور بارہ نجی، خیبر پختونخواہ میں دو سرکاری اور پانچ نجی، بلوچستان میں ایک سرکاری ڈینٹل کالج موجود ہے، آزادکشمیر میں کوئی ڈینٹل کالج موجود نہیں۔ واضح رہے کہ یہ ان تمام کالجز کے اعداد و شمار ہیں جو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے رجسٹرڈ ہیں اور ایسے بے شمار سرکاری اور نجی میڈیکل کالجز پاکستان بھر میں موجود ہیں جو ابھی تک پی ایم ڈی سی سے رجسٹرڈ نہیں ہو سکے جن میں آزادکشمیر کے ضلع پونچھ میں قائم کیا جانیوالا ’’غازی ملت پونچھ میڈیکل کالج‘‘ بھی شامل ہے۔ پی ایم ڈی سی نے تمام طالب علموں پر واضح کر رکھا ہے کہ وہ صرف اور صرف ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کریں جو پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ ہیں بصورت دیگر ان طلبہ کی ڈگریاں مستند تصور نہیں کی جائیں گی، ایسے میڈیکل کالجز سے ڈگریاں حاصل کرنے والے طلبہ روزگار کی تلاش سے قبل ڈگریوں کو تسلیم کروانے کے مسائل سے دو چار ہوں گے۔ جریدے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پی ایم ڈی سی نے کئی جعلی ڈاکٹر اورعطائیوں کو بھی رجسٹرڈ کیا ہے جو ایسے میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم رہے ہیں جن کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں ایمرجنسی کا شعبہ ہی موجود نہیں ہے اور جو ڈاکٹر تعلیمی سیشن میں ایمرجنسی کیسز کا معائنہ کرنے کے تجربات سے نہیں گزرتا ماہرین کی نظر میں وہ ڈاکٹر تسلیم کئے جانے کے قابل نہیں ہوتا۔ 2007ء کے بعد حکومتی سرپرستی میں پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ ہونیوالے 108 میڈیکل کالجز میں سیاسی مقاصد، بھاری رشوت اور کرپشن کے ساتھ ساتھ ایک منافع بخش کاروبار کا عنصر بھی شامل ہے۔ 2009ء میں نجی کالجز میں ایک طالب علم کی فیس اڑھائی سے تین لاکھ روپے لی جا رہی تھی جسے پی ایم ڈی سی نے بڑھا کر چھ لاکھ روپے اور بیرون ملک کے طلبہ کیلئے اٹھارہ ہزار ڈالر کر دیا جس وجہ سے تمام کاروباری حضرات میڈیکل کالج قائم کرنے اور انہیں رجسٹرڈ کروانے کی دوڑ میں لگ گئے اور اکثر کالجز نے اپنے بجٹ کا ایک مخصوص حصہ پی ایم ڈی سی کے لئے بطور رشوت بھی مختص کر دیا۔ ایک میڈیکل کالج کو پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ کرنے کیلئے مخصوص احاطے میں پھیلی عمارت کے علاوہ ایک ٹیچنگ ہسپتال جس میں تمام بڑے شعبہ جات، ایمرجنسی کا شعبہ، تصریح کردہ لیبارٹریز سمیت دیگر لوازمات مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ پچاس طلبہ کے کالج کیلئے اڑھائی سو جبکہ ایک سو طلبہ کے کالج کیلئے پانچ سو بستروں پر مشتمل ہسپتال ضروری ہے اور اسکے علاوہ اس ہسپتال میں پچاس فیصد مریضوں کا مفت علاج کیا جانا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے جس شرط کو ایک یا دو فری میڈیکل کیمپ لگانے تک نرم کرنے کے علاوہ باقی لوازمات کے پورا کرنے کی شرائط کو بھی نرم کیا گیا اور لاتعداد کالجز کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ایک معروف انگریزی اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں پی ایم ڈی سی کی جانب سے کی جانیوالی رجسٹریشن کے دوران کرپشن کو تفصیل کو عیاں کیا ہے۔ رپورٹ میں پی ایم ڈی سی کونسل کے ارکان اور صدر کا موقف بھی لیا گیا جنہوں نے دبے الفاظ میں کرپشن کر تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس سے لاتعلق ظاہر کیا ہے۔ یہ وضاحت ان ارکان کو کرپشن سے پاک تو شاید ثابت کر سکے لیکن منافع خوروں کیلئے کروڑوں روپے منافع کمانے کا سامان انسانی زندگیوں سے کھیل کر اور طالب علموں کا مستقبل تاریک کرنے سے منسلک ہو چکا ہے۔ دوسری جانب حکمران بھی میڈیکل کالجز کے قیام کو اپنی سیاسی کارکردگی کے طور پر پیش کرتے رہیں گے۔
اس ساری صورتحال کے علاوہ ایک اور عنصر جو سب سے زیادہ اذیت ناک ہے وہ ان تمام میڈیکل کالجز میں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا تاریک مستقبل ہے۔ پورے پاکستان میں گزشتہ پینسٹھ سال میں قائم ہونے والے ہسپتالوں اور مراکز صحت کے سرکاری اعداد و شمار اور ریاست کی جانب سے صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے مختص کئے جانے والے جی ڈی پی کے 2.2 فیصدی حصے سے واضح ہے کہ ریاست صحت کی سہولیات پر کسی قسم کے اخراجات کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی اور اس ساری صورتحال میں سال ہا سال میڈیکل کالجز سے ایم بی بی ایس کر کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو روزگار کیسے فراہم کیا جا سکے گا، جو نجی ہسپتال دھڑا دھڑ قائم کئے جا رہے ہیں ان میں بھی وہی ڈاکٹر حضرات خدمات سر انجام دے رہے ہیں جو مختلف سرکاری ہسپتالوں میں سالوں سے تعینات اور ایک مافیا کی صورت اختیار کر چکے ہیں، حال ہی میں راولپنڈی میں موجود کچھ ایسے ڈاکٹرز سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جو مختلف ہسپتالوں میں ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد روزگارکی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ انکی بتائی ہوئی تفصیلات کے مطابق صرف راولپنڈی اسلام آباد میں سات سو کے لگ بھگ ایسے ڈاکٹرز موجود ہیں جو روزگار کی تلاش میں مصروف ہیں۔ ایک حیرت انگیز انکشاف یہ بھی ہوا کہ 2ایم بی بی ایس ڈاکٹرز ایسے بھی ہیں جن کے والدین نے اپنی زندگی کی تمام محنت انکی پڑھائی کی نذر کر دی اور ان دو ڈاکٹرز میں سے ایک گولڈ میڈلسٹ اور دوسراسلور میڈلسٹ بھی ہیں لیکن وہ میڈل بھی انکے والدین کی ساری زندگی کی محنت کا صلہ دینے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ غریب والدین کی تمام جمع پونجی صرف کرنے کے بعد بننے والے یہ دونوں ڈاکٹرز مری روڈ پر واقعہ ایک نجی جنرل سٹور میں بطور سیلز مین محنت بیچنے پر مجبور ہیں اور بمشکل آٹھ ہزار روپے تنخواہ انہیں دی جا رہی ہے اور وہ اپنے بوڑھے والدین کو اس آٹھ ہزار میں سے کچھ رقم بھیج کر بہلانے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے میڈیکل کے طلبہ میں سے بیس فیصد طلباء بیرون ملک روزگار کی تلاش کیلئے چلے جاتے ہیں جبکہ طالبات کی پچاس فیصد تعداد یا تو گھریلو زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہے یا پھر بیرون ملک روزگار کی تلاش کیلئے چلی جاتی ہے، لیکن ترقی یافتہ ملکوں میں پاکستان سے ایم بی بی ایس کرنے والے طلبہ کی ڈگریوں کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا اور کل تعداد میں سے دس سے پندرہ فیصد طلبہ وہاں کورس کرنے کے بعد امتحانات میں پاس ہو پاتے ہیں جبکہ باقی ٹیکسی چلانے سمیت دیگر چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی ریاست کی جانب سے مہیا کئے جانے والے روزگار کی صورتحال گزشتہ لمبے عرصے سے جاری ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں اور احتجاج سے صاف عیاں ہے جسکے بعد حکومت نے انہیں سہولیات فراہم کرنے کی بجائے مزید آسامیوں کے اجرا پر ہی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ایسی تباہ کن صورتحال میں کہ جب طب کے شعبہ میں کسی قسم کی بہتری لانے کی سکت اس ریاست کے اندر موجود نہیں ہے، منافع کی ہوس اور سیاسی مقاصد پر قائم کردہ میڈیکل کالجز میں زیر تعلیم طلبہ کے مستقبل کی ذمہ داری پھر اسی ریاست پر ہے جس کے جرائم نوجوانوں اور محنت کشوں کی زندگیوں کو اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔ ہر ایک شعبے پر کاروبار، منافع خوری کا یہ سلسلہ اس معاشی اور اقتصادی ڈھانچے کی متروکیت کو عیاں کر رہا ہے۔ لیکن تمام دانشور، سیاستدان اور معیشت دان جمہوریت کی رٹ لگائے آسمانی مخلوق کے ذریعے بہتری تلاشنے اور نوجوانوں، طالب علموں اور محنت کشوں کو ایک اور امیدوں کا سہارا دیئے جا رہے ہیں۔ یہ امیدیں، یہ سہارے اور سہانے خواب ایک مخصوص وقت تک انہیں مطمئن کر سکتے ہیں، لیکن ان مسائل کا حل اب عالمی طور پر ہی ناممکن ہوچکاہے۔ منافع کی ہوس اور دولت کمانے کیلئے حکمرانوں کے مختلف ہتھکنڈے وہ اوزار بھی مسلسل تعمیر کئے جا رہے ہیں جو اس اذیت ناک زندگی سے چھٹکارے کیلئے نوجوانوں، طالب علموں اور مزدوروں کی بغاوت کا باعث بننے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

متعلقہ:
تعلیم کی مارکیٹ ویلیو

بکاؤ تعلیم

طبقاتی نظام تعلیم