یکم نومبر کو گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ہونے والے اندوہناک حادثے نے یہاں کام کرنے والے ہزاروں محنت کشوں کی صحت اور زندگی کو لاحق سنگین خطرات کو ایک بار پھر عیاں کیا ہے۔ یہ محنت کش بدترین حالات میں شرمناک حد تک کم اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور انتہائی بنیادی قانونی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ گڈانی میں کام کے غیر انسانی حالات اور ماحولیاتی تباہ کاری سے اپنے قارئین کو آگاہ کرنے کے لئے ہم کچھ عرصہ قبل حب سے شائع ہونے والے روزنامہ ’قومی آواز‘ کی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کر رہے ہیں۔
ساحل پر تاحد نگاہ پھیلی آسمان کی وسعتیں ایک طرف دعوت نظارہ دے رہی ہیں تو دوسری جانب بے کراں سمندر ساحل پر کھڑے لوگوں کو انجانی خواہشات سے گرما رہا ہے۔ انہی ساحلوں پر ہر روز ڈوبتا سورج بے شمار افراد کے راز اپنے سینے میں دفن کرلیتا ہے تو ساتھ ساتھ نئی صبح کے انتظار کا پیغام بھی دے جاتا ہے کہ آنے والی صبح نئی خوشیاں ساتھ لائے گی۔ دنیا بھر میں ذہنی سکون اور سیر وتفریح کے لیے ساحل سمندر کو بہترین جگہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے معدنی وسائل سے مالامال پس ماندہ صوبے بلوچستان کے ساحلی شہر گڈانی کے ساحل کا شمار بھی ایک خوب صورت ساحلی تفریح گاہ میں کیا جاتا ہے لیکن اگر گڈانی پکنک پوائنٹ جانے کے بجائے گاڑی کا رخ بائیں ہاتھ پر واقع گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کی طرف کردیں تو یقیناًآپ کو مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نظر آجائے گا۔ ساحل بھی وہی ہے، ساحل سے اٹکھیلیاں کرتی لہریں بھی وہی ہیں، پوری آب و تاب سے چمکتا سورج بھی وہی ہے، لیکن اگر کچھ فرق ہے تو صرف انسان کا۔ یہاں کے مزدوری کرنے والے انسان اور پکنک پوائنٹ پر تفریح میں مصروف انسان میں بہت سے نمایاں فرق ہیں، بلکہ ان کے درمیان ایک وسیع خلیج دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف پکنک کو تفریحی اور یادگار بنانے میں مصروف متوالے ہیں تو دوسری طرف اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حصول رزق کے لیے کوشاں محنتی مزدور ہیں جن میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ جسے عرف عام میں جہازوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے، آہستہ آہستہ سمندری حیات اور وہاں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے موت کا سامان بنتا جا رہا ہے۔ دنیا کے اِس تیسرے بڑے شپ بریکنگ یارڈ میں داخل ہوتے ہی دیو ہیکل کرینیں دکھائی دیتی ہیں، ہوا کے ساتھ اڑتے گلاس وول (مقامی زبان میں کھجلی) کے ذرات ہیں، کیمیکلز کی مخصوص بو ہے جو ناک میں چبھتی ہے، یہ سب ناگوار چیزیں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ یہاں پر کام کرنے والے مزدور انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اور خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ مزدور یونینز کی بدولت ان کی اجرت میں برائے نام اضافہ تو ہوا ہے، لیکن دیگر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کا واضح ثبوت اسی علاقے میں لکڑی کے کیبنوں میں بنی پرانے جوتوں اور کپڑوں کی دکانیں ہیں، کیوں کہ کام کرنے کے لیے حفاظتی جوتے اور کپڑے بھی انہیں اپنی جیب سے خریدنے پڑتے ہیں۔ ان مزدوروں کو نہ تو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی سر چھپانے کے لیے مناسب جگہ، کچھ مزدوروں نے اپنی مدد آپ کے تحت جہازوں سے نکلنے والے ناقابل فروخت سامان کی مدد سے اپنی جھگیاں بنالی ہیں جن میں وہ موسم کی شدت سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔
کارکردگی کے لحاظ سے دنیا کے پہلے بڑے شپ یارڈ میں کام کرنے والے مزدوروں کی فلاح بہبود اور جان و مال کے تحفظ کے لیے کسی قسم کے موثر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے کم عمر اور بوڑھے، دونوں طرح کے مزدور حفاظتی جوتوں، دستانوں، فیس ماسک، یونیفارم اور حفاظتی آلات کے بغیر رزِق حلال کے لیے کوشاں ہیں۔ ناکارہ جہازوں میں موجود کینسر اور سانس کی مہلک بیماریوں کا سبب بننے والا آلودہ تیل ان کے لیے خطرناک ہے۔ ان کے ساتھ کئی کیمیکلز (ایسبیسٹوس، گلاس وول، پولی کلورینیٹڈ بائی فنائل، بلج اور ڈسٹ واٹر)ان مزدوروں کو دمے اور کینسر سمیت کئی مہلک بیماریوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حادثے سے بچیں، کیوں کہ ایسے میں مناسب طبی امداد میں تاخیر انہیں موت سے ہم کنار کردیتی ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ زخمی اسپتال پہنچنے سے قبل ہی زیادہ خون بہنے کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلا گیا۔ ہاتھ پیر میں فریکچر کی وجہ سے بھی مزدور کام سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس پورے علاقے میں حکومتِ بلوچستان کی جانب سے صرف ایک ایمبولینس فراہم کی گئی ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری ڈسپنری کے بارے میں مزدوروں کا کہنا ہے کہ یہاں صرف نزلہ، کھانسی وغیرہ کا علاج ہوتا ہے یا پھر معمولی زخموں کی مرہم پٹی کی جاتی ہے۔ اس ڈسپنسری کی بوسیدہ عمارت کے خستہ حال دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔ کھڑکیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں، جن کی وجہ سے اندر موجود تھوڑے بہت طبی آلات بھی سمندری ہوا اور گردوغبار کی وجہ سے غیرمحفوظ ہوچکے تھے۔ برابر والے کمرے میں بحری جہاز کے انجن کے کچھ پارٹس رکھے تھے۔ ایک بوسیدہ اور زنگ آلود ایکس رے مشین دروازے کے باہر رکھی تھی۔
وہ خطرناک کیمیکل جن پر دنیا کے بیش تر ممالک میں پابندی عائد ہوچکی ہے، ریت پر جا بجا ان کے ڈھیر لگے تھے۔ پرانے جہازوں سے نکلنے والا مضر میٹیریل ایسبسٹوس (Asbestos) ایک ریشے دار مادہ ہے، جسے زیادہ درجہ حرارت بر داشت کرنے کی وجہ سے بریک لائننگ، انسو لیٹنگ اور آگ سے تحفظ فراہم کرنے والے کپڑوں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سفید، بھورے اور نیلے رنگ کا یہ مادہ پھیپھڑوں، حلق، معدے اور آنتوں کے کینسر سمیت نظام تنفس اور دل کی متعدد بیماریوں کا باعث ہے۔ انہی نقصان دہ اثرات کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کے استعمال پر پابندی ہے۔ ۔ گلاس وول (جسے مزدور اپنی زبان میں کھجلی کا نام دیتے ہیں) کے ڈھیر کچرے کی صورت میں جا بجا پھیلے تھے، چوں کہ یہ ہوا کے رخ پر تھے، اس لیے ان کے ذرات سے فضا آلودہ تھی۔ مزدور گلاس وول، ایسبیسٹوس اور دیگر ہلاکت خیزکیمیائی مادوں کی ہلاکت خیزی سے بے خبر ان کے درمیان اپنے شب و روز بسر کر رہے ہیں اور انجانے میں کھانسی، دمے اور جلد کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ یہ مادے کارسینوجینک ہیں، یعنی ان کی وجہ سے کینسر لاحق ہوسکتا ہے، لیکن اس کا علم ان مزدوروں کو نہیں ہے۔ کیونکہ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر مزدوروں کو جبری رخصت پر بھیج دیا جاتا ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج معالجے کی سکت نہ ہونے کے سبب وہ پھیپھڑوں کی بیماری یا کینسر میں مبتلا ہوکر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
محمد اشرف یہاں دس گیارہ سال سے ویلڈنگ کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’ویلڈنگ کے لیے صرف چشمہ اوردستانے ٹھیکے دار فراہم کرتا ہے، مگر اس کے دھوئیں سے بچنے کے لیے رومال بھی ہم خود خریدتے ہیں اور جوتے بھی۔ شروع میں یہاں کام کرنے میں بہت مشکل پیش آتی تھی، لیکن اب اس ماحول اور بو کا عادی ہو چکا ہوں۔ یہاں کام کے دوران ہی مجھے سانس کی موذی بیماری ہوگئی لیکن بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کوئی نہ کوئی کام تو کرنا ہی ہے‘‘۔ گذشتہ تین سال سے شپ یارڈز میں کام کرنے والے سوات کے سترہ سالہ نوجوان گل باچا کا کہنا ہے:’’گھر والوں کی بہت یاد آتی ہے، لیکن وہاں روزگار نہیں ہے۔ مگر یہاں آنے کے بعد ہاتھ پیروں میں خارش اور کھانسی رہنے لگی ہے‘‘۔
کچھ یارڈز میں انسانی جانوں کے لیے غفلت کا بدترین مظاہرہ بھی وہاں دکھائی دیا۔ ویلڈنگ میں استعمال کیے جانے والے آکسیجن کے بڑے سلنڈرز کے قریب ویلڈنگ کا کام زورشور سے جاری تھا، جس سے نکلنے والی چنگاریاں اور دھواں کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا بن سکتا تھا، مگر اس کا کسی کو خیال نہیں تھا اور نہ ہے۔ جب یارڈ کے ٹھیکے دار حاجی گل سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے ہمارے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ واضح رہے کہ ہر یارڈ (جہاز توڑنے کی جگہ)کا کرتا دھرتا وہاں کا جمعدار (ٹھیکے دار)ہے جو مزدوروں کی تنخواہوں سے لے کر جہاز سے نکلنے والے تمام سامان کی فروخت کا ذمے دار بھی ہے اور کسی حادثے کی صورت میں بھی اسی کے بیان کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری کے دوران چار سو سے بارہ سو روپے یومیہ پر کام کرنے والے ہیلپر سے لے کر فورمین تک کھانسی، خارش اور جوڑوں کے درد میں مبتلا نظر آئے۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں، جہاں مزدوروں کی زندگی کو خطرات ہیں، وہیں آبی حیات بھی اسی خطرے سے دوچار ہے۔ یارڈز میں لائے جانے والے جہازوں کی اکثریت تیل بردار اور کارگو جہازوں پر مشتمل ہوتی ہے جن سے نکلنے والا آلودہ تیل آگے فروخت کردیا جاتا ہے۔ اورکیچڑ جیسے خراب آئل کو بوریوں میں بند کر کے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے جو آبی حیات کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جہاز کے پیندے میں سوراخ کرکے مزدور بلاسٹ واٹر/بلج واٹر بھی سمندر میں بہا دیتے ہیں جب کہ جہاز رانی کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق بلج واٹر یا بلاسٹ واٹر کو ٹریٹمنٹ (صفائی) کے بعد تلف کیا جاتا ہے۔ تین سال قبل تک گلاس وول، سلج اور دیگر زہریلے کیمیکلز کو سمندر اور ساحل پر پھینکنے پر پابندی تھی، مگر اب اس پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ اس کی وجوہ بیان کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر گڈانی فواد احمد سومرو نے بتایا: ’’2010ء تک اسسٹنٹ کمشنر کے پاس فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات تھے جن کے مطابق ہم نے تمام شپ بریکنگ یارڈز کو پابند کیا تھا کہ وہ جہازوں سے نکلنے والے خطرناک مواد کو سمندر یا ساحل پر پھینکنے کے بجائے زمین میں دفن کریں۔ اس وقت ہم نے انوائر مینٹل پروٹیکشن ایکٹ کے تحت خلاف ورزی کرنے والے کئی شپ یارڈز پر جرمانہ بھی کیا اور چار پانچ شپ یارڈز کو بند بھی کیا تھا۔ یہ قانون اور پابندی اب بھی موجود ہے لیکن اب ہمارے پاس اس پر عمل کروانے کے اختیارات نہیں ہیں، اب اس پر عمل درآمد کروانا انوائر مینٹل پروٹیکشن ایجنسی اور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی ذمے داری ہے‘‘۔ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی گڈانی کے ڈائریکٹر جنرل نصیر کاشانی کا کہنا ہے: ’’ہم وقتاً فوقتاً شپ بریکنگ یارڈز کی وجہ سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کی مانیٹرنگ کرتے رہتے ہیں۔ یارڈ پر آنے والے ہر جہاز کو ڈس مینٹل (اسکریپ) کرنے سے پہلے این او سی (نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ)کا حصول لازمی ہے اور ہم اس جگہ کا پورا معائنہ کرنے کے بعد ہی این او سی جاری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اجازت نامہ صرف ایک جہاز کو ڈس مینٹل کرنے کے لیے ہوتا ہے اور یارڈ پر آنے والے ہر جہاز کے لیے اِس کا حصول لازمی ہے۔ این او سی کے بغیر کام کرنے والے شپ یارڈز پر جرمانہ اور بعض اوقات انہیں بند بھی کردیا جاتا ہے۔ ساحل پر ہونے والی آلودگی کو مانیٹر کرنے کی ذمے داری کوسٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس بھی ہے، جب کہ حال ہی میں ہم نے خلاف قانون کام کرنے والے شپ یارڈز پر جرمانہ بھی عائد کیا تھا، لیکن ہر وقت اس علاقے کی نگرانی کرنا ممکن نہیں۔ تاہم کوئی شکایت ملنے پر ہم فوراً کارروائی کرتے ہیں‘‘۔ تاہم یارڈز اور ان کے گرد و نواح کے حالات ان دعووں کے برعکس ہی کہانی سنا رہے تھے۔
آبی آلودگی کی وجہ سے مچھلیوں کی نسل تو تقریباً ناپید ہوچکی ہے۔ اگر آپ پورا دن بھی یہاں کانٹا ڈال کر بیٹھے رہیں تب بھی ایک مچھلی بھی نہیں آئے گی، کیوں کہ سمندر میں پھینکے جانے والے کیمیکلز نے انہیں ساحل کے اس حصے سے دور کردیا ہے۔ شپ بریکنگ یارڈ سے نکلنے والے کیمیائی مواد اور آلودہ تیل کی وجہ سے آبی حیات پر مرتب ہونے والے مضراثرات کے بارے میں ڈبلیو ڈبلیو ایف میرین فشریز کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان کا کہنا ہے:’’ہمارا ادارہ پوری دنیا میں جنگلی اور آبی حیات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے، ہم گڈانی کے ساحل خصوصاً شپ بریکنگ یارڈ کے زیراثر سمندری علاقے میں آبی حیات کے تحفظ کے لیے شعور اجاگر کرنے والے پروگرام بھی کرتے رہتے ہیں۔ یقیناًجہازوں سے نکلنے والے بلاسٹ واٹر، کیمیکل اور تیل کی وجہ سے سمندری حیات کو خطرات لاحق ہیں‘‘۔
گڈانی کے مزدوروں کی حالت اور دیگر مسائل کے بارے میں شپ بریکنگ مزدور یونین کے صدر بشیراحمد محمودانی کا کہنا ہے:’’130 یارڈز میں سے تقریباً 20 پر شپ بریکنگ کا کام ہورہا ہے، لیکن ان پر مزدوروں کو ذاتی حفاظتی آلات فراہم نہیں کیے جاتے، جب کہ جہازوں سے نکلنے والے خطرناک کیمیکلز کی وجہ سے مزدور دمے اور جلدی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔ گلاس وول فوم کی طرح کا ریشے دار کیمیکل ہے۔ یہ اگر جسم کے کسی حصے پر لگ جائے تو شدید خارش ہوتی ہے۔ سانس کے ساتھ یہ پھیپھڑوں میں جا کر کھانسی اور دمے میں مبتلاکر دیتا ہے۔ ہمارا شروع سے مطالبہ رہا ہے کہ مزدوروں کو کام کرنے کے لیے ذاتی حفاظتی آلات اور کسی حادثے کی صورت میں فوری طبی امداد فراہم کی جائے، لیکن یہاں تو مزدوروں کو کام کرنے کے لیے جوتے اور کپڑے بھی خود خریدنے پڑتے ہیں۔ اتنے بڑے علاقے میں مریضوں کی سہولت کے لیے صرف ایک ایمبولینس ہے۔ بلندی پر کام کرنے میں خطرات بھی زیادہ ہوتے ہیں، جن کے لیے خصوصی حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے، مگر یہاں مزدوروں کے ہاتھ پیروں میں فریکچر ہونا یا جلنا کٹنا معمول کی بات ہے۔ یہاں سے قریب ترین اسپتال بھی تقریباً 50 کلومیٹر دور کراچی میں ہے۔ اگر کسی مزدور کے ہاتھ یا پیر میں فریکچر ہوجائے تو اسے دوبارہ کام پر رکھنے کے بجائے گاؤں بھجوادیا جاتا ہے۔ مزدوروں کے لیے رہنے کے لیے نہ مناسب جگہ ہے اور نہ ہی پینے کے لیے میٹھا پانی، مجبوراً انہیں بورنگ کا کھارا پانی پینا پڑتا ہے، جس سے انہیں پیٹ کی بیماریاں بھی لاحق ہوجاتی ہیں۔ مزدوروں کی خراب صورت حال کی ذمے داری ٹھیکے داروں پر عائد ہوتی ہے، کیوں کہ انہوں نے گروپ بندی کی ہوئی ہے۔ اگر کوئی مزدور کام کے دوران مر جائے تو ٹھیکے دار اور علاقہ پولیس کی چاندی ہو جاتی ہے، کیوں کہ انہیں اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے‘‘۔
مزدوروں کو ادھار پر سامان فروخت کرنے والے دکان دار محمد اقبال کا کہنا ہے:’’میں بنارس اور لائٹ ہاؤس سے پرانے کپڑے اور جوتے نقد خرید کر لاتا ہوں اور یہاں ادھار پر فروخت کرتا ہوں، کیوں کہ ان مزدوروں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہوتے اور یہ پرانے کپڑے اور جوتے خریدنا ان کی مجبوری ہے، انہیں یہ چیزیں یارڈ سے فراہم نہیں کی جاتیں۔ سردیوں میں گرم بستر تک مزدوروں کو اپنی جیب سے خریدنے پڑتے ہیں‘‘۔
شپ بریکنگ مزدور یونین کے جنرل سیکرٹری محمد طاہر یوسف زئی کا کہنا ہے: ’’مالکان اور حکومت کو ریونیو کی مد میں اربوں روپے فراہم کرنے والی اس صنعت میں مزدور جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کر رہے ہیں، اور آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہر جہاز پر انتہائی اونچائی پر کام کرنے والے مزدور آپ کو حفاظتی جنگلے اور سیفٹی ہارنیس(حفاظتی رسی) کے بغیر نظر آئیں گے۔ ناکارہ جہازوں میں تیل اور گیس کے پائپوں کو کھولنا اور کاٹنا ماہر گیس فٹر کا کام ہے کیوں کہ اگر انہیں بد احتیاطی سے کھولا یا کاٹا جائے تو دھماکے کے ساتھ آگ لگ جاتی ہے۔ ایسے واقعات یہاں آئے دن ہوتے رہتے ہیں اور صرف اس وجہ سے اب تک درجنوں مزدور اپاہج اور کئی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس صورت حال میں بلندی پر کام کرنے والے مزدور زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے نیچے اترنے کے لیے کوئی ہنگامی راستہ موجود نہیں ہوتا۔ ایسے ایک واقعے میں مزدور جان بچانے کے لیے سمندر میں کود گئے تھے اور ایک مزدور ہلاک اور 7 اپاہج ہوگئے تھے۔ پورے ملک کو سوئی گیس فراہم کرنے والے صوبے کے اس علاقے میں مزدور کیکر کی لکڑیوں پر کھانا پکا نے پر مجبور ہیں۔ اس لکڑی کے جلنے سے نکلنے والا دھواں انہیں سانس اور آنکھوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں آتش گیر کیمیکل، آکسیجن کے بڑے بڑے ٹینک موجود ہوں، وہاں لکڑی جلانا اپنی موت کو خود دعوت دینا ہے، لیکن ہم مزدوروں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے، کیوں کہ یہاں روٹی 12 روپے کی اور سبزیاں مارکیٹ سے 30 سے40 روپے مہنگی ہیں۔ خطرات اور ہلاکت سے بھری اس فضا میں زندگی کرتے مزدور دراصل لمحہ لمحہ موت اور بیماریاں کشید کر رہے ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے لی جانے والی ہر سانس ان کے جسموں میں زہر اتار رہی ہے، لیکن کوئی متعلقہ ادارہ اس صورت حال پر توجہ دینے کو تیار نہیں‘‘۔
جہاز میں قدرتی تیل، سینتھیٹک آئل، ہائیڈرولک آئل، کروڈ آئل، ڈیزل، مٹی کے تیل سمیت مختلف پیٹرولیم مصنوعات بھی موجود ہوتی ہیں۔ کارگو اور آئل کی ترسیل کرنیوالے جہازوں میں تیل اور ایندھن کی شرح مسافر بردار جہاز کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ جہاز توڑنے کے دوران مشینری، کارگو ٹینکس اور دیگر حصوں میں موجود تیل کا متواتر ایکسپوژر جگر، گردے، دل اور مرکزی اعصابی نظام کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سمندر میں بہائے جانے کی صورت میں آبی حیات اور ماحول پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وول گلاس فائبر نامی ریشے سے بنائے گئے اس میٹیریل کو جہاز میں کیویٹی وال انسولیشن، سیلنگ ٹائلز، کرٹن والز اور ڈکٹنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ میٹیریل جلد، آنکھوں، گلے اور نظام تنفس میں سوزش اور کھانسی پیدا کرتا ہے۔ گیلا ہونے کی صورت میں فوم نما میٹیریل میں جراثیم کی تعداد تیزی بڑھتی ہے اور سمندر میں پھینکے جانے کی صورت میں گلاس وول سمندری حیات کوخطرے سے دوچار کردیتا ہے۔
ناکارہ بحری جہازوں کو توڑنے والے 130 سے زیادہ پلاٹس پر مشتمل یہ شپ بریکنگ یارڈ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا اور کارکردگی کے حساب سے دنیا کا پہلا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ ہے۔ 1980 ء کی دہائی میں اس کا شمار تیس ہزار ملازمین کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے شپ یارڈز میں کیا جاتا تھا۔ تاہم حکومت کی عدم توجہی اور ایشیائی خطے میں بنگلادیش اور بھارت کی جانب سے شپ بریکنگ یارڈز کے قیام کی وجہ سے پاکستان کو خطیر زرِمبادلہ فراہم کرنے والی یہ صنعت زبوں حالی کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ آج یہ صنعت 80ء کے عشرے میں پیدا ہونے والے اسکریپ کے مقابلے میں محض ایک چوتھائی اسکریپ پیدا کر رہی ہے اور اس میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد بھی دس ہزار سے کم ہوچکی ہے۔ جہاز توڑنے کی اس صنعت سے ہر سال دس لاکھ ٹن سے زائد اسٹیل حاصل ہوتا ہے جسے مقامی خریدار ہی خرید لیتے ہیں، جب کہ پلاسٹک، لکڑی اور دیگر سامان بھی پاکستان میں ہی فروخت ہوجاتا ہے۔ گڈانی شپ یارڈ میں اس وقت سالانہ ہر جسامت کے (بشمول سپر ٹینکرز) 125 جہازوں کو سالانہ اسکریپ میں بدلنے کی گنجائش ہے۔ پاکستان کے پس ماندہ صوبے بلوچستان میں قائم یہ صنعت کار کردگی کے لحاظ سے دنیا بھر کے شپ بریکنگ یارڈز میں پہلے نمبر پر ہے جس کا سہرا اس صنعت کی اپنے خون پسینے سے آب یاری کرنے والے غریب مزدوروں کے سر جاتا ہے جو حفاظتی اقدامات اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باوجود یہاں آنے والے ہزاروں ٹن وزنی جہاز کو دو سے ڈھائی ماہ کے عرصے میں اسکریپ بنا دیتے ہیں۔