[تحریر: لال خان]
چند روز قبل ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کی جانب سے ’’امریکہ کو پیغام‘‘ کے عنوان سے امریکی صحافی جیمز فولی کا سر قلم کرنے کی ویڈیو جاری کی گئی ہے۔ صحافی کو ذبح کرنے والا نقاب پوش شخص برطانوی لہجے کی انگریزی میں گفتگو کر رہا تھا۔ ویڈیو کے آغاز میں باراک اوباما کی جانب سے ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کے خلاف جاری کئے گئے بیانات دکھائے گئے ہیں اور مرنے سے پہلے جیمز فولی کو یہ بیان پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اس کی موت کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ ذبح کرنے والا نقاب پوش شخص انگریز معلوم ہوتا ہے اور امریکی سی آئی اے برطانوی ایجنسیوں کی مدد سے اس کی شناخت جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں 22اگست کو شائع ہونے والے مضمون میں اس شخص کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ’’اسلامک اسٹیٹ کے ’دارالخلافہ‘ رقعا (شام) میں قائم اس قید خانے کا جیلر ہے جس میں غیر ملکی مغویوں کو رکھا جاتا ہے اور قیدیوں میں ’جان جیلر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لندن کے اخبارات میں ’جہادی جان‘ کے نام سے پکارا جانے والا یہ شخص اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب (Wanted) انسان بن چکا ہے۔ جہادی جان ان پانچ سو برطانوی شہریوں میں شامل ہے جو اسلامک اسٹیٹ کے لئے ’جہاد‘ کرنے شام یا عراق آئے ہیں اور مقامی جہادی انہیں Beatles (انیس سو ساٹھ کی دہائی کا مشہور راک بینڈ) کہتے ہیں۔ برطانیہ کے علاوہ فرانس، سویڈن اور پورے یورپ سے سینکڑوں جہادی یہاں پہنچے ہیں۔ امریکہ سے آنے والے درجنوں اس کے علاوہ ہیں۔‘‘
جہادی جان ، جو اپنی درندگی کی وجہ سے مقامی جہادیوں میں بھی مشہور ہے، کسی مغربی صحافی کو زبح یا قتل کرنے والا پہلا یورپی نہیں ہے۔ 2002ء میں وال سٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیل پرل کے قتل کی ویڈیو شائع کرنے والا 28 سالہ عمر شیخ بھی برطانوی شہری اور نارتھ لندن کا رہائشی تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے مسلمان شہری، خاص کر نوجوان مذہبی جنون اور بربریت میں کیوں ملوث ہورہے ہیں؟ صرف معاشی پسماندگی یا غربت کو اس رجحان کے لئے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ان یورپی جہادیوں میں کھاتے پیتے گھرانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل ہیں۔ 2008ء میں برطانوی جریدے ’گارڈین‘ کے ہاتھ لگنے والی MI5 (برطانیہ کی خفیہ ایجنسی) کی رپورٹ میں حیران کن انکشافات کئے گئے ہیں۔ رپورٹ میں درج ہے کہ ایسے تمام نوجوان ’’صرف مذہبی عقائد کی وجہ سے دہشت گرد گروہوں کا حصہ نہیں بنتے۔ ان میں سے سخت گیر عقائد رکھنے والے مسلمان بہت کم ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق زیادہ مذہبی گھرانوں سے ہے۔ جہاد کے لئے جانے والے زیادہ تر نوجوان پکے نمازی تھے نہ ہی ان کا مسجد میں زیادہ آنا جانا تھا بلکہ ان کی اکثریت صرف ’تھرل‘ یا زندگی کے مقصد کی تلاش میں ان سرگرمیوں میں ملوث ہوئی۔ ان جہادیوں اور دوسری غیر مذہبی انتہا پسند جماعتوں کے کارکنان میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ان کے لئے جہاد مہم جوئی کے ایک ذریعے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔‘‘
برطانوی خفیہ ادارے کی اس رپورٹ سے ثابت ہے کہ دہشت گردی کو کسی مذہب سے نتھی کردینا سراسر غلط ہے۔ اس مظہر کی معاشی، سماجی اور ثقافتی بنیادوں کو جانچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی زوال، خصوصاً 2008ء کے معاشی کریش کے بعد سے نہ صرف مغربی سماجوں میں معاشی محرومی اور مشکلات بڑھی ہیں بلکہ سماجی بیگانگی بھی ناگزیر طور پر شدت اختیار کر گئی ہے۔ مغربی حکمران اور سرمایہ دار تیسری دنیا کے تارکین وطن کو ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے ممالک میں نہیں بلاتے بلکہ ان مہاجرین کی سستی لیبر کے ذریعے بلند شرح منافع حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ تارکین وطن کی کم اجرتوں کے ذریعے مغرب کے مقامی محنت کشوں پر بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ کم مراعات اور اجرت پر کام کریں۔ ’’ مقابلہ بازی ‘‘کی اس واردات سے محنت کشوں میں نسل، قوم اور مذہب کی بنیاد پر منافرت پیدا کی جاتی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے دائیں بازو کی نیو فاشسٹ قوتیں اپنی سیاست چمکاتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے غیر ملکی محنت کشوں کو تمام تر بیروزگاری اور معاشی بحران کی وجہ قرار دے دیا جاتا ہے۔
غربت اور بیروزگاری سے تنگ آکر ترقی یافتہ مغربی ممالک کی طرف ہجرت کرنے والے نوجوان پیسہ کمانے کی مشین بن کر رہ جاتے ہیں۔ انتہائی کٹھن حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور غیر ملکی محنت کشوں میں ثقافتی اور سماجی بیگانگی بہت بڑھ جاتی ہے۔ اپنے وطن میں دھتکارے ہوئے یہ انسان پردیس میں بھی نفرت اور تعصب کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس سے تنگ نظری، نفرت اور نفسیاتی پراگندگی کی وہ کیفیت جنم لیتی ہے جو انہیں اقلیتی کمیونٹی کے نوسر باز رہنماؤں اور بنیاد پرست مذہبی پیشواؤں کا اندھا پیروکار بنا دیتی ہے۔ یہ ملا اور پیر فقیر نہ صرف دہشت گردی اور فرقہ وارانہ مقاصد کے لئے ’’چندہ‘‘ بٹورتے ہیں بلکہ اپنے مریدوں کی سوچ اور روح کو بھی غریب کر کے رکھ دیتے ہیں۔ مذہب کے اس کاروبار کو چمکانے کے لئے نفرت اور جنون کی آگ میں مزید تیل انڈیلا جاتا ہے۔
کسی بھی سماج میں نوجوان نسل کو جب بہترمستقبل کی کوئی امید نظر نہیں آتی تو وہ ماضی کے اندھیروں میں پناہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ کسی انقلابی تحریک اور سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں یہ عمل شدت اختیار کر جاتا ہے۔ زندگی کو مقصد دینے والا کوئی تعمیری نظریہ یا ترقی پسند فلسفہ فراہم نہ ہو تو ’’کچھ کر جانے‘‘ کی جستجو بہت کچھ غلط کروا دیتی ہے۔ بیگانے سماج میں درمیانے اور امیر طبقے کے نوجوانوں میں مذہب، نسل، قوم پرستی اور ثقافتی تعصب کے رجحانات زیادہ آسانی سے پزیرائی حاصل کرتے ہیں۔ ’’جہاد‘‘، مذہبی جنون اور دہشت گردی جیسے رجحانات اس لاشعوری نفسیاتی پراگندگی کو شعوری اظہار فراہم کرتے ہیں۔
جہادی ملاؤں اور مذہبی ٹھیکیداروں کے ساتھ ساتھ سامراجی حکمران اور ان کا نظام بھی اس بربریت کے ذمہ دار ہیں۔ منڈیوں اور وسائل پر تسلط کے لئے ایک کے بعد دوسرے ملک کو تاراج کرنے والا سامراج دانستہ طور پر مذہبی اور فرقہ دارانہ منافرت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یونان، فرانس، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں پچھلے عرصے کے دوران نیم فاشسٹ پارٹیوں، گروہوں اور سیاسی رجحانات کا جزوی ابھار ہوا ہے۔ لیکن ہٹلر، مسولینی اور فرانکو کی طرح یورپ یا امریکہ پر فسطائیت کا غلبہ آج ممکن نہیں ہے جس کی بنیادی وجہ سماج میں طبقات کا توازن ہے۔ آج مغرب میں ایک دیوہیکل محنت کش طبقہ موجود ہے، چھوٹے کسان ناپید ہیں، مڈل کلاس کی قلیل سی پرت مزید سکڑتی جارہی ہے جبکہ نوجوانوں کی اکثریت کا رجحان بائیں بازو کی طرف ہے۔ محنت کش عوام کی روایتی سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں اور ٹریڈ یونین کی قیادتیں اگرچہ اصلاح پسندی اور موقع پرستی کی غلاظت میں غرق ہیں لیکن انقلابی تحریکوں کے تھپیڑے ماضی کے ان مزاروں کو نیست و نابود کر ڈالیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مزدور تحریک جب آگے بڑھتی ہے تو رنگ، نسل اور مذہب کے تعصبات کو پاش پاش کر ڈالتی ہے۔ مغرب میں محنت کشوں کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں میں نسل پرستی کے رجحانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اسلامی بنیاد پرستی کی سیاسی اور جنگجو قوتوں کو سامراجیوں نے ہی سرد جنگ کے دوران پیدا کیا اور پروان چڑھایا تھا۔ اس بربریت کو آج بھی شام کی پراکسی جنگ میں استعمال کیا جارہا ہے۔ سامراج اور اسلامی بنیاد پرستوں کے تعلقات جتنے بھی کشیدہ رہے ہوں، کبھی منقطع نہیں ہوئے۔ یہ دونوں رجعتی قوتیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اسلامی بنیاد پرستی دو دھاری تلوار ہے جسے ایک طرف مختلف ممالک میں جارحیت کے جواز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو دوسری طرف ’’بیرونی خطرے‘‘ کے طور پر مغربی محنت کشوں کے شعور پر حاوی کر کے استحصالی نظام اور طبقاتی تضادات کو اوجھل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اسلامک اسٹیٹ امریکہ اور اس کے خلیجی اتحادیوں کی ہی پیداوار ہے جو اب اپنے آقاؤں کے قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ پہلے اسلحے، ٹریننگ اور مالی امداد کے ذریعے شام میں جہادی تیار کئے گئے۔ انہی جہادیوں میں سے اسلامک اسٹیٹ برآمد ہوئی جو عراق میں سرائیت کر کے مختلف علاقوں پر قابض ہوتی چلی گئی اور بھاگنے والی عراق فوج کے چھوڑے ہوئے جدید امریکی اسلحے سے مزید مضبوط ہوئی۔ اب امریکہ اپنے ہی تیار کر دہ جہادیوں کے زیر استعمال اپنا ہی اسلحہ تباہ کرنے کے لئے اربوں ڈالر کا مزید اسلحہ چلانے کی تیاری کر رہا ہے۔ شام میں ایک دوسرے سے متصادم امریکہ اور ایران اب عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ عجیب پاگل پن ہے جس میں لاکھوں بے گناہوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ عراق میں امریکہ کی تازہ عسکری مداخلت سے کوئی بہتری نہیں بلکہ مزید بربادی ہی ہوگی۔ یہ سامراجی اور مذہبی جنونی نسل انسان کو صرف ذلت اور اذیت کی موت ہی دے سکتے ہیں۔ یہ ناسور جس سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں اس کے خلاف بغاوت ہی نجات کا واحد راستہ ہے!
متعلقہ:
ایک سکے کے دو رخ