یورپ کا سیاسی انتشار

[تحریر: لال خان]
2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد سے یورپ کی سیاست اور سماج مسلسل عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہیں۔ مشرق میں یوکرائن کی خانہ جنگی اور کریمیا کا روس سے الحاق، جبکہ مغربی یورپ کے مختلف ممالک میں انتہائی دائیں بازو کے تشدد پسند گروہوں کا ابھار اس خلفشار کی علامات ہیں جو یورپ کا معمول بن چکا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کے حالیہ انتخابات عوام میں پائی جانے والی بے چینی، اضطراب اور بددلی کے غماز ہیں جن میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور ان کے اتحادی کامیاب ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں UKIP پہلے نمبر پر، لیبر پارٹی دوسرے جبکہ برسر اقتدار کنزرویٹو پارٹی تیسری نمبر پر آئی ہے۔ لبرل ڈیموکریٹس کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پارلیمان میں ان کا صرف ایک نمائندہ بچا ہے۔ فرانس میں برسر اقتدار سوشلسٹ پارٹی کو بھی ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور کل ووٹوں میں اس کا حصہ  14 فیصد تک سکڑ گیا ہے۔ یہاں سے میرین لی پن کی قوم پرست دائیں بازو کی جماعت ’’فرنٹ نیشنل‘‘ نے کامیابی حاصل کی ہے۔
بی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بغاوت لمبے عرصے سے پک کر تیار ہورہی تھی۔ بے چینی کی آوازیں، کٹوتیوں کے خلاف مظاہرے اور یورو مخالف پارٹیوں کا ابھار۔ فرانس میں سخت گیر یورپی یونین مخالف پارٹی کے فتح کے بعد اس تصادم کو اب مزید چھپایا نہیں جاسکتا ہے۔‘‘ فرانس کے وزیراعظم مینول والز کے مطابق ’’یہ ایک تنبیہ سے بڑھ کر ہے۔ ۔ ۔ یہ ایک جھٹکا، ایک زلزلہ ہے۔‘‘ جرمنی کے وزیر خارجہ فرانک والٹر سٹین مئیر نے کہا ہے کہ فرنٹ نیشنل کی کامیابی نے ’’ایک سخت اور واضح پیغام بھیجا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کئی پاپولسٹ، یورو مخالف اور قوم پرست پارٹیوں کا ابھار ہورہا ہے۔‘‘ دراصل فرنٹ نیشنل کی سربراہ میرین لی پن نے بڑی عیاری سے نوکریوں اور روزگار کے عدم تحفظ اور گلوبلائزیشن کے نتیجے میں پھیلنے والی عوام کی مایوسی کو کیش کروایا ہے۔ یورپ میں دو کروڑ ساٹھ لاکھ بے روزگار افراد کے پیش نظر وہ تارکین وطن سے متعلق پائے جانے والے خوف سے بخوبی آگاہ ہے۔ علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر کاسٹ نہ ہونے والے ووٹوں کی وجہ سے بھی فرنٹ نیشنل کی کامیابی زیادہ واضح ہوئی ہے۔
ڈنمارک میں انتہائی دائیں بازو کی ’’ڈینش پیپلز پارٹی‘‘ نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ جرمنی میں نیو فاشسٹ NPD کے ساتھ ساتھ حال میں ابھرنے والی Alternative fur Deutschland نامی یورو مخالف جماعت نے نشستیں حاصل کی ہیں۔ اٹلی میں نیم بائیں بازو کے نومنتخب وزیر اعظم میٹیو رینزی کا ’’ہنی مون‘‘ فی الحال جاری ہے اور دائیں بازو کو بڑی کامیابی نہیں مل پائی ہے۔ تاہم آنے والے دنوں میں اس حکومت کی جانب سے محنت کش طبقے پر ممکنہ معاشی حملوں کے پیش نظر یہ رجحان بھی بدل سکتا ہے۔
روایتی پارٹیوں کو نظر انداز کر کے ڈالا جانے والا یہ ووٹ دراصل احتجاج کی ہی ایک شکل ہے۔ معاشی بحران سے نام نہاد بہالی انتہائی نحیف اور متزلزل ہے اور بیروزگاری کی شرح میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ سنجیدہ بورژوا معیشت دانوں کے مطابق کوئی معاشی بحالی ہوئی ہی نہیں ہے اور موجودہ صورتحال 2018ء کے بعد بھی جاری رہنے کے امکانات موجود ہیں۔ جس ’’فلاحی ریاست‘‘ کی مثالیں ایک زمانے میں سرمایہ داری کے معذرت خواہاں دیتے نہیں تھکتے تھے آج سرمائے کی دیوی کے سامنے اسی ’’ویلفیئر سٹیٹ‘‘ کی بَلی چڑھائی جارہی ہے۔ سماجی ویلفیئر کے پروگراموں کے خاتمے کا رد عمل عام ہڑتالوں اور بڑے مظاہروں کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ لیکن ان بکھری ہوئی بغاوتوں کو ایک یکجا سیاسی وانقلابی قوت بن کر ابھرنے میں ابھی وقت لگے گا۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر شور مچایا جارہا ہے کہ انتہائی دایاں بازو اور نیو فاشسٹ عناصر ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھر چکے ہیں۔ یہ سراسر مبالغہ آرائی ہے۔

سیریزا کے حامی جیت کی خبر سن کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں

جن ممالک میں عوام کے سامنے بائیں بازو اور محنت کشوں کی بڑی سیاسی جماعتیں موجود تھیں وہاں دائیں بازو کو ووٹ نہیں ملے ہیں۔ مثلاً ہالینڈ میں بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹی کامیاب ہوئی ہے جبکہ انتہائی دائیں بازو کی ’’پارٹی فار فریڈم‘‘ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم اپنے پروگرام میں اصلاح پسندی اور مصالحت کی آمیزش کے پیش نظر سوشلسٹ پارٹی دائیں بازو پر وہ ضرب نہیں لگا سکی جس کی امید کی جارہی تھی۔ پرتگال اور سپین میں بھی یہی ہوا ہے۔ پرتگال میں اپوزیشن کی سوشلسٹ پارٹی 31.5 فیصد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہی جبکہ عوام میں غیر مقبول معاشی پالیسیوں نے برسراقتدار سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کو دوسرے نمبر پر لاکھڑا کیا۔ سپین کی دوبڑی سیاسی جماعتوں (پیپلزپارٹی اور سوشلسٹ پارٹی) کے ووٹوں میں 2009ء کی نسبت پچاس لاکھ کی کمی واقع ہوئی، جبکہ ایک بائیں بازو کی احتجاجی جماعت Podemos (’’ہاں! ہم کرسکتے ہیں‘‘) نے آٹھ فیصد ووٹ اور پانچ نشستیں حاصل کیں۔ یہ جماعت صرف چار مہینے پہلے قائم ہوئی تھی۔ Podemos کے رہنما پیبلو اگلیاسس نے اپنے ٹویٹر پیغا م میں کہا کہ ’’یہ عوام کا وقت ہے۔ ابھی تو صرف آغاز ہوا ہے۔ واضح ہے کہ ہم کرسکتے ہیں۔‘‘
یونان میں بائیں بازو کی ریڈیکل سیاسی جماعت’’ سیریزا‘‘ 28 فیصد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہی۔ پارٹی نے اپنی انتخابی مہم میں عوامی اخراجات میں کٹوتیوں اور سرمایہ داروں کو ملنے والے بیل آؤٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سماجی تباہی کی وجہ قرار دیا تھا۔ سیریزا کے رہنما الیکسز سپراس نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’یورپ کی قیادت نے اس بحران میں ہمیں قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ ‘‘پچھلے پانچ سالوں کے دوران یونان کی معیشت 26 فیصد سکڑ چکی ہے۔ سیریزا کی کامیابی نے برسر اقتدار مخلوط حکومت کے لئے کئی خطرات پیدا کر دئیے ہیں۔ یونان میں ہی نیو فاشسٹ جماعت ’’گولڈن ڈان‘‘ 9 فیصد ووٹ حاصل کر کے پہلی بار یورپی پارلیمنٹ میں داخل ہوئی ہے۔ سیریزا کی قیادت اگر ’’موقف کی نرمی‘‘ کے چکر میں قرضوں کی مکمل منسوخی اور بینکوں کو قومی تحویل میں لینے کے جرات مندانہ مطالبات سے نہ پھرتی تو فاشسٹوں کے ووٹ مزید کم کرنے کے ساتھ ساتھ سیریزا کو زیادہ بڑے پیمانے پر کامیابی مل سکتی تھی۔  
حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں روزگاری کی فراہمی اور معاشی نمو کی بحالی کے لئے بے صبری اور اضطراب بڑھ رہا ہے۔ پورا سماج دائیں اور بائیں بازو کے درمیان جھول رہا ہے۔ عوام مسخ شدہ مخلوط حکومتوں اور پرانی سیاسی جماعتوں کے معاشی حملوں، کٹوتیوں اور غداریوں سے تنگ آکر جارحیت اور مایوسی کے ملے جلے رویوں کے تحت نئے لوگوں اور پارٹیوں کو آزما رہے ہیں، یا خاموشی سے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے سیاسی میدان میں اترنے کے لئے موافق وقت اور قیادت کا انتظار کررہے ہیں۔ بیشتر ممالک میں انتہائی کم ٹرن آؤٹ اور نسبتاً غیر معروف پارٹیوں کے ابھار کے پیچھے یہی سماجی نفسیات کارفرما ہے۔ محنت کشوں کی روایتی سوشل ڈیموکریٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادتیں نظریاتی انحطاط کا شکار ہو کر سرمایہ داری سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو چکی ہیں۔ روایتی بایاں بازو اس حد تک دیوالیہ اور زوال پزیر ہوچکا ہے کہ اس کی معاشی و سماجی پالیسیوں کو دائیں بازو سے جدا کرنا مشکل ہے۔ عوام میں پائی جانے والی بددلی اور وقتی سرد مہری کی یہ بنیادی وجہ ہے۔
حالیہ یورپی انتخابات سے کئی نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ یورپی عوام نے گزشتہ کئی دہائیوں سے قائم سیاسی و معاشی اسٹیبلشمنٹ کو بائیں بازو کی اصلاح پسند پارٹیوں سمیت ردکیا ہے، جیسا کہ پرتگال، یونان، سپین، فرانس اور برطانیہ وغیرہ میں بالکل واضح ہے۔ ’’پرانا یورپ‘‘ اب ایک نیا معمول اختیار کررہا ہے۔ عوام مجموعی طور پر پورے معاشی نظام اور اس پر قائم بالائی سیاسی ڈھانچے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ یونان اور دوسرے ممالک میں ایک کے بعد دوسری عام ہڑتال ہورہی ہے۔ طبقاتی جدوجہد کا ریلا ابھرتا ہے اور ٹھوس نتائج حاصل نہ ہونے پر مستقبل میں دوبارہ اٹھنے کے لئے پسپا ہوجاتا ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی یہ صورتحال برقرار رہے گی اور ایک حقیقی بالشویک لینن اسٹ پارٹی کی عدم موجودگی میں یورپ میں انقلاب کا عمل طوالت اختیار کرے گا۔ انقلاب اور رد انقلاب کے عہد یکے بعد دیگرے آئیں گے۔ یورپ کے محنت کش اور نوجوان حالات اور واقعات سے بہت کچھ سیکھیں گے۔ سرمایہ داری جس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے وہاں 1960ء اور 70ء کی دہائیوں کے معیار زندگی کا خواب دیکھنا بیوقوفی ہے۔ معاشی بحران سے نکلنے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام تاریخی طور پر متروک ہو چکا ہے اور سماج کو آگے بڑھانے سے قاصر ہے۔ یورپی سماج میں دائیں اور بائیں بازو کی ’پولرائزیشن‘تاریخ میں ایک نئے عہد کے آغاز کی علامت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمہ کے علاوہ یورپی عوام کے سامنے سرمایہ داری کی ذلتوں سے نجات کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

متعلقہ:
یورپ: برداشت، بغاوت اور انقلاب