[تحریر: لال خان]
2014ء میں پہلی جنگ عظیم کو سو سال مکمل ہوجائیں گے۔ سامراجی قوتوں کے مابین اس خونی تصادم میں کم از کم ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ لقمہ اجل بنے تھے۔ حکمران طبقے کے دانشور عام طور پر جنگوں اور تنازعات کو انسان کی جبلی جارحیت کا ناگزیر نتیجہ قرار دے کر سرمایہ دارانہ نظام کی خونریزی کے جواز تراشنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت اس بیہودہ مفروضے سے بالکل مختلف ہے۔ جنگیں، طبقاتی سماج کی کوکھ سے جنم لے کر نازک مراحل پر پہنچ جانے والے ان سیاسی اور معاشی تضادات کا اظہار ہوتی ہیں جنہیں صرف تشدد اور طاقت سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ انیسویں صدی کے مشہور جرمن سپہ سالار کارل وون کلازوٹزانتہائی سادہ اور دوٹوک الفاظ میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جنگ سیاست کے تسلسل کا ہی ایک اور طریقہ کار ہے۔‘‘
آج کے حالات و واقعات کی 1914ء سے گہری مماثلت موجود ہے۔ سو سال پہلے کی طرح عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات دھماکہ خیز طریقے سے پھٹ کر ایک بار پھر واضح ہورہے ہیں۔ کئی دہائیوں کا معاشی ابھار اور بڑھوتری 2008ء میں عالمی سطح پر سرمایہ داری کے کریش پر منتج ہوئی ہے۔ یہ صورتحال پہلی عالمی جنگ کے عہد کی معاشی حرکیات سے بڑی حد تک مماثل ہے۔ مارچ 2009ء میں، لیمن برادرز کے انہدام کے تقریباً چھ ماہ بعد امریکی سرمایہ داری انتہائی تشویشناک حد تک بحران کا شکار ہوچکی تھی۔ دیوہیکل جنرل موٹرزکی انظامیہ سرعام دیوالیہ پن کے خدشات کا اظہار کر رہی تھی، جنرل الیکٹرک کے شیئر کی قیمت اٹھارہ سال کی کم ترین سطح پر تھی اور سٹی گروپ کا شیئر ایک ڈالر سے بھی کم قیمت پر بک رہا تھا۔ بیل آؤٹ کی شکل میں کئی ہزار ارب ڈالر کی ریاستی امداد کے ذریعے سرمایہ داری کو وقتی طور پر سنبھالا دیا گیا لیکن آج بھی عالمی سطح پر معاشی صورتحال چھ سال پہلے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی 200 سالہ تاریخ کے سب سے سنجیدہ معاشی بحران کا شکار ہے اور گرتی ہوئی معیشت کے سیاسی اور سماجی اظہار کی شدت میں ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ مقداری آسانی (بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپ کر معیشت میں پھینکنے کا عمل) سے لے کر صفر شرح سود اور ریاستوں کی جانب سے بینکوں کے خساروں کی خریداری تک، بحران سے نکلنا کا ہر ایک حربہ ناکام ہوچکا ہے۔ سرمایہ داری کے معیشت دان اور ماہرین مایوس اور ناامید ہیں۔ عالمی معیشت جمود کا شکار ہے۔
امریکی معیشت کی بہالی بالکل سطحی اور ناپائیدار ہے۔ زیادہ تر یورپی ممالک کی معیشتیں سکڑ رہی ہیں۔ جنوبی یورپ کی کمزور معیشتیں قرضوں کی گہری کھائی میں گر چکی ہیں اور ماضی میں یورپی معیشت کا انجن سمجھا جانے والا جرمنی خود بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ چینی معیشت کی شرح نمو میں کمی خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ بھارت اور برازیل سمیت دوسری نام نہاد ’’ابھرتی ہوئی معیشتیں‘‘ (BRICS) کریش لینڈ کر چکی ہیں۔ بورژوا معیشت دان اور سیاسی رہنما اپنے چہروں پر سے پریشانی کے آثار چھپانے کی کتنی ہی کوشش کر لیں، یورپی معیشت کا بحران ڈرامائی طور پر عالمی سرمایہ داری کے فالج کو عیاں کررہا ہے۔ یورپی یونین کی معیشت کی متوقع شرح نمو ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ سپین میں 56فیصد جبکہ یونان میں 65 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ یورپ کی بورژوازی کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے: پچھلے پچاس سالوں میں جو رعایات، معاشی مراعات اور گنجائشیں محنت کشوں نے اپنی جدوجہد سے حاصل کی ہیں انہیں واپس چھین لیا جائے۔ لیکن طاقتوں کا توازن حکمرانوں کے حق میں نہیں ہے۔ یورپ کا حکمران طبقہ ویلفیئر ریاست کا خاتمہ چاہتا ہے، اس لئے نہیں یورپ کے سرمایہ دار اچانک لالچی، ظالم، بداخلاق، جاہل اور احمق ہوگئے ہیں۔ یہ تمام تر خصلتیں ان میں پہلے بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئیں تھیں لیکن آج بحیثیت مجموعی نظام کا بحران اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ وہ ’’ویلفیئر سٹیٹ‘‘ کے اخراجات کی شکل میں اپنے منافعوں میں مزید کٹوتی برداشت نہیں کرسکتے۔ چنانچہ یورپی عوام کی فلاح بہبود پر خرچ ہونے والے ریاستی اخراجات میں سے کٹوتیاں کی جارہی ہیں۔ یورپ کی ہر حکومت اسی معاشی پالیسی پر کاربند ہے۔ بائیں بازو کی نعرہ بازی سے اقتدارمیں آنے والے فرانس کے اصلاح پسند صدر فرانکس ہولالندے کی آنکھیں بھی فرانسیسی حکمران طبقے نے جلد ہی کھول دی ہیں اور موصوف اب انہی کی اشاروں پر چل رہے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد، 1945ء سے 2005ء تک عالمی سطح پر برآمدات میں اوسطاً 5 فیصد جبکہ مجموعی پیداوار میں 3.5فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوتا رہا۔ چین میں سرمایہ داری کی بہالی اور سوویت یونین کے انہدام نے مرتی ہوئی سرمایہ داری کو وقتی طور پر آکسیجن فراہم کی۔ 1.2ارب چینی آبادی کے عالمی منڈی کا حصہ بن جانے سے عالمی معیشت میں نئی گنجائش پیدا ہوئی۔ چین میں یورپ اور امریکی کی ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کو انتہائی سستی لیبر میسر آئی جس کے بد ترین استحصال سے ان کی شرح منافع آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ سرمائے اور پیداوای عمل کی چین میں منتقلی سے مغرب میں محنت کشوں پر دباؤ بڑھا اور وہ بھی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوگئے۔ سرمایہ داری کے دانشور خاص طور پر پچھلی دو دہائیوں کے دوران کئی خوش فہمیوں کا شکار تھے تاہم بورژوا معاشی ماہرین کے نقطہ نظر کے برعکس گلوبلائزیشن نے سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کو حل کرنے کی بجائے انہیں عالمی سطح اور بلند تر پیمانے پر ابھار دیاہے۔ عالمگیریت آج اپنا اظہار سرمایہ داری کے عالمگیر بحران کی شکل میں کرہی ہے۔ موجودہ بحران کی وجوہات بھی ماضی سے مختلف نہیں ہیں۔ پیداواری قوتیں انسانی ترقی کے راستے میں دو سب سے بڑی رکاوٹوں سے متصادم ہیں: ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور قومی ریاست۔ 2007ء تک اس متروک نظام کو قرضوں کے ذریعے چلایا جاتا رہا ہے۔ اگر امریکی حکومت کے ذمہ واجب الادا تمام اقتصادی ذمہ داریوں یا Liabilities کو شامل کیا جائے تو امریکہ کا کل قومی قرضہ اس وقت 50 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں سرمایہ دارانہ نظام اپنے حدود سے بہت آگے تک تجاوز کر چکا ہے۔
2008ء کے بعد تاریخ ایک نئے عہد میں داخل ہوچکی ہے۔ پچھلی تین دہائیوں کے جعلی معاشی ابھار کی تمام تر وجوہات اب اپنے الٹ میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ واپسی کے تکلیف دہ اور پر خطر دور کا آغاز ہوچکا ہے جس کے دوران عین ممکن ہے کہ محنت کش عوام اس نظام کا ہی خاتمہ کر دیں۔ سرمایہ دار ریاستی قوانین اور جکڑ بندیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ریاست کو جبر کے ایک آلے کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک اور تضاد ہے۔ دوسری طرف ریاستیں سرمایہ داروں کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں کیونکہ امیروں پر ٹیکس لگانے کا نتیجہ ملک سے سرمائے کی پرواز کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے۔ فی الوقت یورپ اور امریکہ کا حکمران طبقہ بحران کو اپنی مرضی کی شرائط اور ’’اصلاحات‘‘ نافذ کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ معاشی بدحالی کو استعمال کرتے ہوئے محنت کش طبقے پر سیاسی اور اقتصادی حملے کئے جارہے ہیں۔ پینشن کم یا ختم کی جارہی ہے، تنخواہوں میں کٹوتیاں ہورہی ہیں اور بالواسطہ ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ یونان، پرتگال اور سپین میں علاج معالجے کی سہولیات پر ریاستی اخراجات میں 40 فیصد تک کمی کی جاچکی ہے جبکہ پرتگال میں نجی شعبے کے 16 لاکھ محنت کشوں سے ملازمت کے وقت طے شدہ مراعات اور سہولیات چھین لی گئی ہیں۔ مختصراً بحران کی قیمت محنت کش طبقے سے وصول کی جارہی ہے۔ تاہم معیار زندگی میں کمی کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ یورپ کا شاید ہی کوئی ملک ہڑتالوں، پر تشدد مظاہر وں، پولیس سے ٹکراؤ، سیاسی تناؤ اور سماجی خلفشار سے محفوظ ہے۔ ایک مخصوص وقت پر برداشت ختم ہوجاتی ہے اور محسوس ہورہا ہے کہ یورپ میں وہ وقت بہت قریب آگیا ہے۔
حالیہ عرصے میں ترکی، برازیل، مصر، تیونس، سپین، یونان، بلغاریہ اور رومانیہ سمیت دوسرے کئی ممالک میں بڑے عوامی مظاہرے اور انقلابی تحریکیں اس بات کی علامت ہیں کہ ہم عالمی سطح پر بالکل نئی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال کا مشاہدہ کرہے ہیں۔ ہر ملک میں سطح کے نیچے ایک لاوا پک رہا ہے۔ خاص طور پر سپین، اٹلی، یونان اور فرانس انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ انقلابی حالات میں عوام کا شعور چھلانگیں لگاتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ انقلابات سرحدوں کا لحاظ بھی نہیں کرتے۔ یورپ کے کسی ایک ملک میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی کامیاب بغاوت ناگزیر طور پر پورے خطے میں سرائیت کرجائے گی۔ محنت کش طبقے کے ہراول دستوں اور باشعور پرتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آنے والے دنوں کے غیر معمولی واقعات کے لئے خود کو تیار کریں۔
متعلقہ:
انقلاب کی طرف بڑھتا یونان
پرانے یورپ میں نیا معمول
یونان: سرمایہ داری کی تاریکی میں امید کی کرن
امریکی ریاست کی تالہ بندی
اگر امریکہ کمیونسٹ ہو جائے؟