ترکی: اردگان وحشت میں پاگل، کرد علاقوں پر بڑے کریک ڈائون کا آغاز

| تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: حسن جان |

ترک صدر طیب اردگان کرد شہروں پر بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے اور اسی اثنا میں ترکی کے کرد علاقوں پر خونی کریک ڈاؤن بھی جاری ہے۔ بائیں بازو کی جماعت DBP نے ہرجگہ عوامی مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔

turkey kurds clashes with police
دیابکیر میں کرد مظاہرین پولیس سے برسرپیکار ہیں

کل پولیس نے دیابکیر شہر کے قرب و جوار میں جاری اپنے اندھا دھند حملوں میں دو افراد کو قتل کردیا اور سزری اور سلوپی کے قصبوں پر حملوں کی تیاری ہورہی ہے۔ تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے والی بائیں بازو کی نئی جماعت ایچ ڈی پی کی جانب سے بلائے گئے احتجاج پر پابندی کے باوجود ہزاروں کی تعدا د میں لوگ دیاربکیر کے گرد احتجاج کے لیے جمع ہوئے تاکہ ضلع کے محاصرے کو توڑا جاسکے۔ لوگوں نے پولیس ناکوں کو اکھاڑ دیا جس سے ریاستی فورسز نے آنسو گیس، واٹر کینن اور پلاسٹک کی گولیوں سے جوابی حملہ کیا۔ اطلاعات کے مطابق کچھ پولیس اہلکاروں نے شہر کے پوش علاقوں میں آتشیں اسلحہ استعمال کیا۔ پولیس کے وحشیانہ حملوں کے باوجود لوگ گلیوں میں ڈٹے رہے۔
اسی دن بعد میں ہزاروں لوگ پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے دو نوجوانوں کے جنازے میں شریک ہوئے۔ جنازے میں سب سے اہم نعرہ یہ تھا ’’پی کے کے عوام ہیں اور عوام یہاں ہیں‘‘ اور ’’شہید اَمر ہیں‘‘۔ جنازے کے بعد ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور پھر کرد گوریلا مارچ کا مظاہرہ کیا گیا۔ دونوں نوجوانوں کو ’’انتقام‘‘ کے نعروں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
اسی اثنا میں سلوپی اور سزری کے قصبوں کے خلاف ایک بڑے حملے کی تیاری ہورہی ہے۔ پورے ترکی سے ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور بھاری توپ خانے ’’سرکش‘‘ کرد قصبوں کی طرف بھیجے جارہے ہیں۔ مقامی ایئر پورٹ سے جہاز آرہے ہیں جس میں سپاہی، پولیس، سپیشل فورسز اور اسلامی بنیادپرست غنڈوں کو لایا جا رہا ہے۔
تمام ہسپتالوں کو نوٹس دیا گیا ہے کہ وہ زیادہ مریضوں کے آنے کے لیے تیار رہیں۔ حکومت نے تمام اساتذہ کو علاقہ چھوڑنے کو کہا ہے۔ سرناک کے ضلع سلوپی میں کرفیو کے نفاذ کے وقت سے سکولوں کو فوجی ہیڈ کوارٹر میں تبدیل کر دیا گیا۔
پہلے سے ہی سپیشل آپریشن فورسز کے اہلکار گلیوں میں دھندناتے پھر رہے ہیں اور لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسا رہے ہیں۔ یہ غالباً کسی بڑے حملے کی تیاری ہے۔ انہوں نے گرد و نواح کے بجلی کے ٹرانسفارفروں کو بھی نشانہ بنایا ہے جس سے سارا علاقہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ پانی اور دوسری سہولیات بھی منقطع کردی گئی ہیں۔ نشانہ بازوں کو اونچی عمارتوں پر تعینات کردیا گیاہے۔
سکولوں اور طالب علموں کے کوارٹروں کو مزید احکامات تک بند رکھنے کے نوٹس کے ساتھ ہی کچھ اساتذہ اور ان کے اہل و اعیال اپنے گھروں کو تیزی سے چھوڑ رہے تھے۔ تمام بسیں بھری ہوئی تھیں اور ان اساتذہ اور ان کے گھر والوں کو قریبی ہائی وے تک پہنچنے کے لیے تین میل پیدل سفر کرنا پڑا تاکہ وہاں سے کوئی ٹرانسپورٹ مل جائے تاکہ کرد قصبے سے ہجرت کرسکے۔شہر کے گرد حکومتی چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ AKP (طیب اردگان کی بنیاد پرست پارٹی) کی حمایتی ٹیچرز یونین سے تعلق رکھتے ہیں یا ترقی پسند اساتذہ کی تنظیم ایگیتم سن (Egitim-Sen) سے۔
ایگیتم سن نے اپنے طلبہ کو چھوڑنے کی مہم کی مزاحمت کی۔ سرناک میں یونین کے کو چیئرمین، سرحت یوگر نے اپنے علاقے میں ترک ریاست کے حملے سے پہلے ہی فوجی تیاریوں کی تصدیق کی۔ اس نے بتایا، ’’میں نے 1990ء کی دہائی کی نسل کے بارے میں سنا ہے (جب ترک ریاست نے پورے کردستان کا محاصرہ کر لیا تھا اور چالیس ہزار کردوں کا قتل عام کیا تھا) ، تاہم آج ہم اس سے بھی بد تر کیفیت میں ہیں۔ ہم پر 1990ء کی دہائی سے بھی زیادہ ظلم ڈھایا جا رہاہے۔ لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود میں اب بھی سکول جا رہا ہوں۔ لیکن یہ کس طرح کی نفرت ہے، یہ کس چیز کی تیاری ہورہی ہے، مجھے سمجھ نہیں آرہی۔ کل یہ ان لوگوں سے کیا کہیں گے؟ وہ با ر بار یہی بات دہرا رہے ہیں کہ ان حملوں کا مقصد ملک کا دفاع ہے اور ’’باقی سب جزویات ہیں‘‘۔ ہم اس علاقے میں بے نظیر فوجی تیاریاں دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں کوئی جنگ ہورہی ہے۔ جیسے یہ لوگ ہمارے پورے علاقے کو تباہ کرکے اسے مٹی میں ملانا چاہتے ہیں۔ کیا اس کا کوئی جواز ہے؟ اگر یہ فلسطین میں ہوتا تو ہر کوئی احتجاج کر رہا ہوتا۔ ہم خبریں دیکھتے ہیں لیکن یہاں ہونے والے واقعات کا ذکر تک نہیں ہے۔ ہمیں مکمل تباہی کا سامنا ہے۔ حکومت ہمیں یہاں دس سے پندرہ دنوں تک مقید رکھنا چاہتی ہے۔ میں پچھلے دس سال سے استا د ہوں۔ ایسا میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ علاقے کو خالی کرنے کا حکم بالکل داعش کی دھمکیوں جیسا ہے جو وہ کسی علاقے پر قبضے کرنے سے پہلے دیتے ہیں جہاں وہ لوگوں کی گردنیں کاٹتے ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ اسداللہ کا ٹولہ (ترک پولیس کے اندر ایک غیرقانونی، اسلامی اور نسل پرست تنظیم) ہم پر حملہ نہ کردے۔ ہمارے وکلا نے وزارت تعلیم سے بات کی لیکن ادارے کے مقامی سربراہ نے علاقہ خالی کرنے کے کسی طرح کے حکم سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ہم مخمسے کا شکار ہیں کیونکہ حکومت علاقہ خالی کرنے کا کہتی ہے اور خود اپنے احکامات پر قائم نہیں ۔ کیا وہ کاروائی کے بعد تحریری حکم بھیجیں گے، ہمیں نہیں پتا۔ بہت سے اساتذہ نے علاقہ چھوڑ دیا ہے لیکن کچھ باقی بچ گئے ہیں۔ میں نہیں جاؤں گا۔ ہمارے کچھ استاد دوست کہتے ہیں، ’’میں صرف طلبہ کے سکول کی وردی پہننے تک استاد نہیں ہوں۔ میں نہیں جاؤں اور اپنے طلبہ کو نہیں چھوڑونگا۔‘‘ ہمارے ساتھ اساتذہ پورے ملک سے ہیں جنہوں نے اپنے طلبہ کو تنہا چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ لوگ سوچ رہے ہیں کہ اگر اساتذہ کو ہمارے قصبے سے نکال لیا گیا تو کیا ہوگا۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سرجیکل سٹرائک ہوگی یا قتل عام۔ ہمارے ساتھ سینکڑوں ایسے اساتذہ ہیں جنہوں نے علاقہ خالی کرنے کے حکم کو نہیں مانا ہے۔ ہم صرف اپنے طلبہ کی وردی کی حد تک استاد نہیں ہیں۔ اگر ہم اساتذہ میں سے کوئی علاقے کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہا ہے تو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ ہم ایسے اساتذہ ہیں جو زندگی جینا اور زندگی میں مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنے کا درس دیتے ہیں۔ ہم صرف طلبہ کی حد تک نہیں بلکہ پوری آبادی کے لیے استاد ہیں۔ ہمارا کام صرف تاریخ اور جغرافیہ پڑھانا نہیں ہے۔ ہمارے طلبہ ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال پوچھتے ہیں۔ اگر آج ہم چلے جائیں تو واپسی پر ہم کس طرح ان کا سامنا کریں گے؟ ایک نام نہاد پالیسی ہے کہ بچوں کو جنگ سے دور رکھا جائے؛ لیکن یہ لوگ تو بچوں پر جنگ مسلط کر رہے ہیں۔‘‘

عبدالقادر سلوی، جو حکومت نواز اخبار ینی سفک میں کالم نگار ہے، نے وزیر اعظم داؤد اوغلو کے حالیہ بیان سے اندازہ لگا یا کہ پی کے کے (کردوں کی بائیں بازو کی مسلح تنظیم) مخالف آپریشن کی تیاری ہورہی ہے۔ ’’اس دفعہ آپریشن میں زیادہ زور سپاہیوں پر دیں گے۔ وزیر اعظم نے فیصلہ کن انداز میں کہا ہے کہ تمام علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا جائے گا۔ اگر ضرورت ہوئی تو گلی گلی اور گھر گھر سے۔‘‘
شامی خانہ جنگی اردگان کی مشرق وسطیٰ پر جدید عثمانی سلطان کے طور پر حکمرانی کرنے کے منصوبے کا اہم ستون ہے۔اس مقصد کے لیے اس نے جہادی ٹولوں جیسے داعش اور القاعدہ کی شامی برانچ جبھتہ النصرہ کو مکمل حمایت دی ہے۔ اس نے ان قوتوں کو ترکی کے اندر بھی کرد اور بائیں بازو کے کارکنان، جیسا کہ ایچ ڈی پی، کے خلاف استعمال کیا ہے۔ ایچ ڈی پی جو بائیں بازو کی ایک کرد پارٹی ہے، پچھلے جون میں ملک میں بڑھتی ہوئی ریڈیکلائزیشن کی بنیاد پر 13.5 فیصد ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئی۔ اس سے اردگان کا آئین کو تبدیل کرکے تمام طاقت اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرنے کا منصوبہ چوپٹ ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ اردگان نے کر د مخالف جذبات کو ہوا دے کر محنت کشوں اور نوجوانوں کو قومی بنیادوں پر تقسیم کیا اور خود قوم پرست تحریک کے دائیں بازو کی حمایت لینے میں کامیاب ہوگیا۔
ان سب کا نتیجہ ترکی کے اندر ’’شام سازی‘‘(Syrianization) کی صورت میں نکلا ہے۔ نہ صر ف شام بلکہ ترکی میں بھی، پی کے کے (PKK) کی ذیلی تنظیم پی وائی ڈی کی قیادت میں چلنے والی کرد تحریک اردگان کی پراکسیوں کے خلاف لڑنے والی سب سے ؤثر قوت ہے اور انہوں نے بہت بڑے علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔ شام کے اندر کردوں کی کامیابی نے ترکی میں ایچ ڈی پی اور کرد تحریک کی کامیابیوں پر اہم اثرات ڈالے ہیں۔ دونوں ملکوں میں کرد تحریک اور اس کی ریڈیکل کشش اردگان کے بڑے منصوبوں کے سامنے رکاوٹ ہے۔ اسی وجہ سے وہ اس تحریک کو مکمل طور پر کچلنے پر تلا ہوا ہے۔ اس طریقے سے وہ ترک محنت کشوں کو بھی کچلنا چاہتا ہے۔
لیکن یہ کہنا کہ وہ بغیر مزاحمت کے کامیاب ہوجائے گا، یہ ایک خام خیالی ہے۔ پہلے ہی سے لوگ اپنی دفاع کے لیے وسیع تنظیم میں منظم ہیں۔ ڈی بی پی کے جنرل کو پریزیڈنسی، جو ایچ ڈی پی کے بعدسب سے اہم پارٹی ہے، نے اردگان کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے خلاف متواتر عوامی مظاہروں کی کال دی ہے۔
’’حکومت نے کرد علاقوں سر، نسابین، کربوران، سزری، سلوپی اور ادیل کا محاصرہ کرکے ملک کو تاریکی میں ڈبو دیا ہے۔ اے کے پی حکومت کی جانب سے مکمل بربادی اور منظم قتل عام کے خلاف ہمارے تمام عہدیداروں اور تنظیموں کو نظم و ضبط اور منظم جمہوری منصوبے کے تحت جنگ کے اس نظریے کے خلاف لڑنا چاہیے۔ہماری صوبائی، ضلعی اور شہری تنظیموں کو فوری طور پر اس قتل عام کے خلاف متواتر جمہوری اقدام کرنا چاہیے اور اس کے خلاف اٹھنا چاہیے۔‘‘

f-turkeypkk-a-20151218-870x580
ریاستی جبر اور قومی استحصال کے خلاف کردوں کی مسلح اور سیاسی جدوجہد کی طویل تاریخ ہے

اگر اردگان یہ سوچتا ہے کہ وہ کر د تحریک کو آسانی سے کچل دے گا تو وہ غلطی پر ہے۔پچھلے عرصے میں بڑھتی ہوئی صنعت کاری اور شہروں کی طرف نکل مکانی اور ایچ ڈی پی کا تنگ نظر کر د پارٹی کی بجائے ایک قومی سطح کی پارٹی کے طور پر ابھار سے تحریک بہت مضبوط ہوئی ہے۔اسی اثنا میں شام کی جنگ نے تحریک کو ایک عوامی مزاحمت کو منظم کرنے کا تجربہ بھی دیا ہے۔ اس سے تحریک ایک نئی معیاری سطح پر آگئی ہے۔ اس کے باوجود تحریک کو صرف مسلح جد وجہد کے ذریعے نہیں جیتا جاسکتا ۔ جنگ اور اردگان کے خلاف صرف علاقائی سطحوں پر عوامی بغاوت اور قومی سطح کی عام ہڑتال، جس میں ترکی کے تمام محنت کش شامل ہوں، کے ذریعے ہی ترک حکمران طبقے کو شکست دی جاسکتی ہے۔
عالمی مارکسی رجحان اردگان کی جارحیت کے خلاف کرد محنت کشوں اور نوجوانوں کی مزاحمت کی حمایت کر تا ہے۔ ہم ان کوششوں کی بھی مخالفت کرتے ہیں جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کردوں نے ترک ریاست کے خلاف جنگ شروع کی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس کردوں نے دنیا کی طاقتور ترین فوج شمار ہونے والی ترک فوج کے حملوں کے خلاف بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم اپنے قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے سکولوں، ٹریڈ یونینز اور پارٹی تنظیموں میں کردوں کے خلاف یک طرفہ جنگ کے خلاف آواز بلند کریں اور ان کی جد وجہد کے حق میں قراردادیں پاس کریں۔

کردوں کے خلاف جنگ بند کرو!
قاتلوں اور چوروں کی حکومت مردہ باد!
اردگان کی حکومت کو اکھاڑنے کے لیے قومی سطح کی مزدور تحریک کا آغاز کرو!

متعلقہ:

ترکی میں خانہ جنگی کے آثار

ترکی: جبر کی بوکھلاہٹ