| تحریر: اویس قرنی |
بیروزگاری ایک ایسی وبا اور ایسا زہر ہے جو کسی فرد کو ہی نہیں بلکہ پورے سماج کو متاثر کرتا ہے اور تواتر کے ساتھ بڑھتی ہوئی بیروزگاری سماجی انتشار اور فسطائیت کو جنم دے رہی ہے۔ اپنی ابتدا سے ہی نسل انسان نے پیداواری کام کے ذریعے فطرت پر قابو پایا اوریہی محنت انسان کو باقی ماندہ جاندار وں سے عظیم اور منفرد کرتی ہے۔ بیکاری کسی بھی سماج میں ہتک آمیز تصور کی جاتی ہے۔ انسان کی جبلت میں ہے کہ وہ کسی نہ کسی شعبے کے اندر اپنی خدمات سر انجام دے۔ اور آج تک کی تمام تر تاریخ انسانوں کی مجموعی محنت کی تاریخ ہے، پھر چاہے وہ محنت سائنس میں ہو، فن میں، ادب میں، فلسفہ میں یا پھر جسمانی۔
ماضی کے تمام تر سماجوں میں محکوم طبقے سے جبری محنت کراکے حاکم طبقے نے اپنی طاقت میں اضافہ کیا مگر سرمایہ داری واحد ایسا نظام ہے جس میں لوگوں کو جبری طور پر کام سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ جہاں ذرائع پیداوار کی بے پناہ ترقی ہے وہیں ان ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت بیشتر لوگوں کو بیکار رکھنے کی اہم وجہ ہے۔ پچھلے سماجوں میں آلات پیداوار میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ آبادی کے بڑے حصہ کو کام سے بے دخل رکھ کر سماجی ضرورتوں کی تکمیل کی جاسکتی جس کی بنا پران سماجوں میں نہ کام کرنے والوں کی تعداد بہت محدود تھی اور جو لوگ ہاتھ سے کام نہیں کیا کرتے تھے وہ یا تو حکمران طبقے سے تعلق رکھتے تھے یا پھر سماج کو آگے بڑھانے کے علوم کے اندر اپنی خدمات سر انجام دیتے تھے۔ سرمایہ داری واحد ایسا نظام ہے جس نے ذرائع پیداوار اور آلاتِ پیداوار کو وسیع پیمانے پر اتنی ترقی دی کہ آج انتہائی کم انسانی محنت کے ساتھ سماج کی تمام تر ضرورتوں کو آسانی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس منڈی کی معیشت کے تسلط کے اندر یہ ذرائع پیدوارقطعاً سماجی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے استعمال نہیں ہوتے بلکہ ان کا مقصد منافع بٹورنا ہوتا ہے۔ اور پھر ان سے ہونے والی پیداوار بھی صرف انہی کے لیے ہوتی ہے جو اس کو خریدنے کی سکت رکھتے ہوں۔ آج سرمایہ داری کو جس بحران کا سامنا ہے وہ ماضی کے بحرانوں سے زیادہ گہرا ہے اور سرمایہ داری کے خمیر میں موجود تضادات کی غمازی کرتا ہے۔
آج منڈی میں سب سے زیادہ رحجان کمپنیوں کے آپسی مرجر یا ایکیوی زیشن (ادغام) کا ہے۔ جس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ بڑی کمپنیوں کے ہوتے ہوئے کبھی بھی چھوٹی کمپنیاں اپنے محدود وسائل کی وجہ سے مقابلہ نہیں کر پاتیں اور نتیجتاً چھوٹی کمپنیاں بڑی کمپنیوں کے ہاتھوں بک جاتی ہیں اور ضم ہو جاتی ہیں۔ اس تمام تر کاروائی کے دوران ایک چیز حتمی ہوتی ہے کہ اکانومیز آف سکیل، جس کا مطلب ہے کہ بڑے پیمانے پر پیداوار کی وجہ سے ایک یونٹ کی پیداواری لاگت کم ہوجاتی ہے، کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ورکرز کو بے دخل کر دیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ شرح منافع کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس تمام تر عمل کے دوران نئے بیروزگار پیدا ہوتے ہیں جو کہ پہلے منڈی سے اشیا کی خریدوفروخت کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں اور اب قوتِ خرید نہ ہونے کی وجہ سے منڈی سے کٹ جاتے ہیں جس کے دوبارہ منڈی پر ناگزیر اثرات نمودار ہوتے ہیں اور اشیا کی رسد پہلے جتنی رہتی ہے جبکہ اس کی طلب میں کمی واقع ہوجاتی ہے، رسد اور طلب کو متوازن رکھنے کے لیے رسد میں کمی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے پھر نئے مزدوروں کو بے دخل کر دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ نجکاری اس عمل کی بھیانک ترین شکل ہے۔ سرکار، جس کے اپنے ’مقدس آئین‘ کی رو سے روزگار فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہے، سرکاری اداروں کو سرمایہ داروں کو بیچ رہی ہے جن کا مقصد ان کے منافعوں میں بڑھوتری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر برطرفیاں کی جا رہی ہیں۔ صرف PTCL میں نجکاری سے پہلے تقریباً 70,000 مزدور تھے جو کہ اب ریگولر اور کنٹریکٹ ملازمین کو ملا کر 17000 سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اسی طرح سے پنجاب میں ہونے والی تعلیمی اداروں کی نجکاری میں ہزاروں اساتذہ کو برطرف کیا جائے گا۔ یہی سرمایہ داری کا وہ نامیاتی تضاد ہے جس سے آج پورا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ نظام کبھی بھی اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکتا۔ ماضی کی نسبت آج یہ مسئلہ کافی زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔
1930ء کی دہائی کے معاشی بحران میں بیروزگار ہونے والوں کو جنگ اور اس کے بعد کی بحالی ذریعے استعمال میں لایا گیا مگر آج کی سرمایہ داری میں کبھی بھی پہلے جیسی بحالی ممکن نہیں ہے اور نہ ان معاشی حالات میں سامراج کسی بڑی جنگی مہم کا آغاز کر سکتا ہے۔ منافع کی معیشت کبھی بھی بے روزگاری کامکمل خاتمہ نہیں کر سکتی، امریکی معیشت میں اپنے عروج کی انتہاؤں کے دوران مئی 1953ء میں بھی 2 .5 فیصد بے روزگاری پائی جاتی تھی۔ سویت یونین واحد ایسا خطہ تھا جہاں تمام تر کمزوریوں کے باوجود منصوبہ بند معیشت کے تحت بے روزگاری کا مکمل طور پر خاتمہ کیا گیا تھا۔ 1934ء تک بے روزگاروں کو باقاعدہ رجسٹر کر کے روزگار دینے کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچا اور پانچ سالہ منصوبوں نے بیروزگاری کا خاتمہ کر دیا۔ یہ اس منصوبہ بند معیشت کا کمال تھا کہ جس نے بیکاری کو جرم بنا دیا تھا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی پیمانے پر15 سال سے زائد عمر کے افراد میں 1991ء میں 62 فیصد لوگوں کو روزگار مہیا تھا لیکن 2014ء میں 59.7 فیصد لوگوں کے پاس روزگار تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ ان 23 سالوں میں جہاں بڑے پیمانے پر ترقی ہوئی (خاص طور پر کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں) وہیں پر لوگوں کو روزگار ملنے کی بجائے ان کا روزگار چھینا گیا ہے۔
روزگار کے معاملے میں جہاں قومی و لسانی بنیادوں پر تفریق موجود ہے وہاں سب سے بڑااستحصا ل پھر ہمیں جنسی تقسیم کے ذریعے نظر آتا۔ پاکستان جیسے سماج میں پہلے ہی خواتین کو عزت کے نام پر گھر کی چار دیواری میں قید کر دیا جاتا ہے لیکن جو خواتین اپنی تعلیم مکمل کر کے نوکری کی تلاش میں منڈی میں آتی ہیں تو انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں نہ تو خواتین شکایت کر سکتی ہیں اور نہ ہی نوکری چھوڑ سکتی ہیں۔ اول تو نوکری چھوڑ کرکسی اور جگہ جائیں گی تو وہاں بھی ایسے ہی رویے پائے جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ استعفیٰ دینے کے بعد ’’ریفرنس لیٹر یا ایکسپیرئنس لیٹر‘‘ کے حصول میں پھر رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ اس بدحال نظام میں جہاں بیروزگاری ایک عذاب ہے وہیں روزگار بھی بدترین استحصال، مشقت اور کم تر اجرتوں پر مبنی ہے جس میں مردو خواتین گھٹ گھٹ کر بس اپنے دن گزار رہے ہیں۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، افراطِ زر اور معاشی انتشار کے پیش نظر دو بچوں کے ایک کنبے کو چلانے کے لیے بھی مجبوراً ماں اور باپ دونوں کو کام کرنا پڑتا ہے۔ کام کرنے والی خواتین کی زندگی صرف آفس یا فیکٹری کے اندرہی نہیں بلکہ با ہر بھی زیرِعتاب ہوتی ہے۔ اسی وحشت کا مظاہرہ ہم راولپنڈی اور ساہیوال کے واقعات میں دیکھ چکے ہیں۔ صرف راولپنڈی میں 17 محنت کش خواتین کو خنجرکے وار کے ذریعے زخمی کیا گیا، جن میں سے ایک نرس زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس عمل کے پیچھے وہی بنیاد پرستانہ اور بیمار سوچ کارفرما ہے جو پورے سماج کے اندر ناسور کی طرح سرائیت کر چکی ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کی آبادی کا زیادہ تر حصہ 18 سے28 سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر بیروزگاری کا شکار بھی یہی نوجوان ہیں جو مہنگی مہنگی ڈگریاں ہاتھوں میں لیے دفتروں کی خاک چھان رہے ہیں۔ پاکستان کے صرف 5 بڑے بزنس سکولو ں سے ہر سال 2000 کے قریب طلبا و طالبات اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور تعلیم کے بھیانک حد تک منافع بخش کاروبار کی وجہ سے تمام بڑے شہروں کے کونے کھدروں میں ڈربوں سے مشابہ سینکڑوں یونیورسٹیاں کھلی ہوئی ہیں۔ ہر سال تقریباً 15 لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ نوجوان حصولِ روزگار کے لیے محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں لیکن نہ سرکار کے پاس اور نہ ہی پرائیویٹ اداروں میں اتنی سکت موجود ہے کہ انکو کھپایا جا سکے۔ پاکستان کی رسمی معیشت کے اندرحقیقت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ ان تمام نوجوانوں کو نوکریاں دی جا سکیں اور یہی وجہ ہے کے انٹری ٹیسٹ کے ذریعے خاص طور پر میڈیکل اور انجینئرنگ کا میرٹ متواتر بڑھایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف NTS جیسے امتحانات کی جعل سازی ہے جس کا مطلب ہے کہ جو پہلے سے ہی بیروزگار ہیں انہی سے ہی پیسے لیکر نوکریاں دینے کے لیے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔ معمولی نوکریوں کے لیے لاکھوں درخواستیں موصول ہوتی ہیں جن سے کروڑوں روپے چھاپے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری اعدادوشمار انتہائی مضحکہ خیز ہیں جن کے مطابق بیروزگاروں کا تناسب 6فیصد سے بھی کم ہے جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق یہ تناسب 8.6 فیصد ہے۔ ریاستیں ایسے لوگوں کو بھی روزگار کے دائرے میں شمار کرتی ہیں جو برائے نام کام کر رہے ہیں، دہاڑی دار محنت کش ہیں، اپنی اہلیت سے کم کام کرتے ہیںیا ٹھیلا وغیرہ لگاتے ہیں۔ جو ماسٹرز ڈگریاں لے کر انتہائی غیر انسانی اوقاتِ کار میں کال سینٹرز میں کام کرر ہے ہیں، جو ڈگریاں لے کے ییلوکیب ٹیکسیاں چلا رہے ہیں یا بھر مجبوراً دیہاتوں میں جا کر چھوٹے کاروبار کرر ہے ہیں ان سب کو ’باروزگار‘ تصور کیا جاتاہے۔
یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ صرف پاکستان میں ہی کروڑوں نوجوان اپنے اندر توانائی کے شرارے لیے کوئی نوکری یامثبت کام نہیں کررہے تو پھر کیا کر رہیہیں؟یہ بے روزگار نوجوان آخر کار اس کالی معیشت کا حصہ بن جاتے ہیں جو منشیات، جرائم، دہشت گردی اور سمگلنگ وغیرہ پر مبنی ہے۔ بے روزگاری اس کالی معیشت کے لیے آکسیجن ہے جو رسمی معیشت سے بڑی ہے۔ بیکاری سے جنم لینے والی بیگانگی پورے سما ج کو سرطا ن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ خود کشیوں کی سب سے بڑی وجہ بھی بیروزگاری ہی ہے۔ آج نوجوانوں سے آگے بڑھنے کا، اپنی صلاحیتوں کو تعمیری انداز میں بروئے کار لانے کا ہر راستہ چھین لیا گیا ہے۔ مثبت سرگرمیاں معدوم ہو چکی ہیں، تعلیمی اداروں کے اندر جیل خانوں جیسا ماحول ہے، طلبہ سیاست پر پابندی ہے، پارک اور گراؤنڈ قبضہ مافیا کے نشانے پر ہیں۔ ان کی جگہ ظلم، بے حسی، ڈاکہ زنی، عصمت فروشی اور جرائم لے چکے ہیں۔ اس سرطان کا کوئی وقتی علاج نہیں ہے، ایک مکمل سرجری درکار ہے۔ بیروزگاروں کے اس بارود کو ایک چنگاری درکار ہے جو تمام تر نا انصافیوں کو راکھ کر دے۔ ان حالات میں اُن نوجوانوں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے جو اس نظام کی حرکیات کو سمجھتے ہیں اور انقلابی نظریات کی بنیاد پر ایک متبادل نظام کی جدوجہد میں سر گرم ہیں۔ یہ ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ ان تضادات کو سماج کی باشعور پرتوں پر بے نقاب کریں اور زندگی کا نیا اور بلند تر مقصد پیش کریں یعنی اس نظام کے خلاف جدوجہد کا مقصد۔ ایک ایسا مقصد جو خود زندگی سے عظیم تر ہو، ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھے جس میں انسان جبری مشقت سے آزاد ہو، جس میں کام بوجھل کی بجائے لطیف ہو۔ ایسا سماج صرف مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ممکن ہے جس کے لئے سوشلسٹ انقلاب درکار ہے۔
متعلقہ:
مشرق وسطیٰ: اور نکلیں گے عشاق کے قافلے!