[تحریر: لال خان]
2008ء میں سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی کریش کے بعد یورپ، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی معیشتیں بحالی کی بجائے مزید اقتصادی و مالیاتی بحرانوں میں ڈوبتی چلی جارہی ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کے ماہرین کا خیال تھا کہ ’’ابھرتی‘‘ ہوئی معیشتیں (جن میں برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں )سرمائے کے ڈوبتے ہوئے سفینے کو سہارا دیں گی اور سرمایہ داری کو اس عالمی بحران سے نکالنے میں کردار ادا کریں گی، لیکن پچھلے پانچ سالوں میں حکمرانوں کی یہ امیدیں اور خواب چکنا چور ہوچکے ہیں۔ چین کی شرح نمو 11 فیصد سے کم ہو کر 7.2 فیصد، ہندوستان کی 10 فیصد سے 5.5 فیصد جبکہ برازیل کی شرح نمو 7فیصد سے گر کر 0.9 فیصد تک آگئی ہے۔ یہ تمام تر ممالک جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل اور استواری مکمل نہیں ہوئی ہے، اس تنزلی سے سماجی انتشار کا شکار ہو چکے ہیں۔
اسی طرح ترکی کے بارے میں بہت شور مچایا جارہا تھا۔ اسلامی بنیاد پرست اور لبرل عناصر، دونوں ہی اسے سرمایہ داری کی کامیابی کا ماڈل بنا کر پیش کر رہے تھے، لیکن اب ترکی بھی معاشی و سماجی بحرانوں میں گھر چکا ہے۔ ترکی میں پچھلے تین ہفتوں سے جاری عوامی بغاوت شدت اختیار کر گئی ہے اوروزیراعظم اردگان کی اسلامی جمہوری حکومت کا آمرانہ اور جابرانہ وحشت پر مبنی اصل کردار بے نقاب ہو گیا ہے۔ پچھلے اتوار مزید 85 لوگوں کو گھروں میں گھس کر گرفتار کیا گیا جس کے بعد اس تحریک کے دوران گرفتار ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ ترکی کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق ریاستی تشدد سے اب تک پانچ افراد مارے گئے ہیں اور 7500 زخمی ہوئے ہیں۔ ترکی کے وزیرِ داخلہ معمر گلر کے مطابق’’مارکسسٹ لینن اسٹ کیمونسٹ پارٹی کے ممبران کے خلاف ایک سخت آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ ان ممبران نے اس تحریک کو ابھارنے میں ہراول کردار ادا کیا ہے۔ ‘‘طیب اردگان نے ریاستی تشدد پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے پولیس کو مزید اختیارات اور طاقت دینے اعلان کیا ہے تاکہ مظاہرین کو کچلا جاسکے۔ الجزیرہ کے مطابق اردگان نے مرچوں کے سپرے اور ریاستی تشدد کے دوسرے وحشیانہ ہتھکنڈوں کو جائز قرار دیا ہے۔ اپنی پارٹی کے پارلیمانی گروپ سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ’’ پولیس کی قوتیں، جمہوریت کا امتحان پاس کر چکی ہیں۔ ‘‘اس کے ساتھ ہی اس نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اگر پولیس اس تحریک کو کچلنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو فوج کو بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ 20 سال میں ترکی میں ابھرنے والی یہ سب سے بڑی احتجاجی تحریک ہے جو درختوں کی کٹائی کے خلاف ایک دھرنے سے شروع ہو کر ملک گیر حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ مظاہرین کے مطالبات سیاسی نوعیت اختیار کرچکے ہیں اور کیمونسٹ پارٹی سمیت بائیں بازو کی پارٹیاں اور ٹریڈ یونینز اس تحریک میں واضح کردار ادا کررہی ہیں۔ عوامی بغاوت کا یہ پہلا ریلا اگرچہ اردگان کی رجعتی، جابر اور عوام کی زندگیوں میں مداخلت پر مصر حکومت کو اکھاڑ نہیں سکا لیکن اسے بے نقاب کرکے اس کی سماجی بنیادوں کو کھوکھلا کردینے میں کامیاب ضرور ہوا ہے۔ بغاوت کی اگلی موج زیادہ طاقتور ہوگی جو اردگان کی نام نہاد ’آزادی و انصاف‘‘ پارٹی کی حکومت کو نیست و نابود کر سے گی۔
ترکی میں ابھی انقلابی تحریک جاری ہی تھی کہ لاطینی امریکہ کے سب سے بڑے ملک اور دنیا کی آٹھویں بڑی معیشت برازیل میں 20 سال بعد ایک بڑی عوامی بغاوت پھٹ پڑی ہے۔ جیسے پاکستان میں ایوب خان آمریت کے خلاف ابھرنے والے 1968-69ء کے انقلاب کو بھڑکانے والی چنگاری چینی کی قیمت میں چار آنے کا اضافہ تھا اسی طرح برازیل میں بھی بسوں کے کرایوں میں 10 سینٹ کے اضافے نے سطح کے نیچے پکنے والے آتش فشاں کو پھاڑ دیا ہے۔ بورژوا معیشت دان برازیل کی معاشی ترقی کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے لیکن لاکھوں افراد کے حکومت مخالف مظاہرے ساؤپولو سے شروع ہو کر برق رفتاری سے ریو ڈی جینرو، برازیلیا اور دوسرے شہروں میں پھیل چکے ہیں۔ اسی طرح انڈونیشیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جکارتہ میں شروع ہونے والی تحریک سماٹرااور بورینا سمیت انڈونیشیا کے بیشتر جزائر میں پھیل کر برسرِ اقتدار دائیں بازو کی حکومت کے لئے چیلنج بن گئی ہے۔
مصر میں 2011ء میں ابھرنے والی تحریک، جس نے حسنی مبارک کی مطلق العنان آمریت کو اکھاڑ پھینکا تھا، ایک انقلابی پارٹی اور قیادت کی عدم موجودگی میں بکھر گئی۔ امریکی سامراج نے مصری فوج پر دباؤ ڈال کر اپنے پرانے حلیف اخوان المسلمون کو انتخابی دھاندلی کے ذریعے اقتدار دلوایا۔ انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم رہا اور نتائج کے مطابق اخوان المسلمون کو 25 فیصد سے بھی کم عوام کی حمایت حاصل تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد رجعتی اور بنیاد پرست حکومت کو بڑے پیمانے کے عوامی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے ایک سالہ اقتدار کے دوران اس اسلامی جمہوری حکومت نے سرمایہ دارانہ نظام کے جبر و تسلط اور امریکہ سامراج کی اطاعت کی پالیسیوں کو جاری رکھاہے۔ عوام پر بے پناہ معاشی و اقتصادی حملے کئے گئے ہیں، غربت اوربیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ صدر مورسی کے خلاف عوامی نفرت اور حقارت بڑھی ہے۔ 30 جون کواخوان المسلمون کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر اپوزیشن نے بڑے پیمانے پر حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے اور صدر مورسی سے فوراً سبکدوش ہونے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اخوان المسلمون کی حکومت کے خلاف ایک پیٹیشن پر ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد دستخط کر چکے ہیں۔ مصر کے ایک اپوزیشن لیڈرکے مطابق ’’انقلاب ابھی ختم نہیں ہواہے۔ ۔ ۔ ‘‘ 30 جون کو ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لئے مورسی بھی ریاستی تشدد کے استعمال کی بھرپور تیاری کر رہا ہے۔
آج کوئی ملک یا خطہ ایسا نہیں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کا بحران عدم استحکام، مفلسی، محرومی، بیروزگاری اور بیگانگی میں اضافہ نہ کررہا ہو۔ لوگ اس استحصال زدہ زندگی اور حالات سے آ چکے ہیں۔ ہر طرف جمود ٹوٹ رہا ہے۔ عوامی بغاوتیں ابھر رہی ہیں۔ یہ عمل آنے والے دنوں میں تیز اور وسیع ہوگا۔ وہ لوگ جو انقلاب کو رد کرچکے تھے اب کسی ابھرتی ہوئی تحریک میں انقلابی کیفیات کو یکسر مسترد کررہے ہیں۔ یہ زندگی اورانسانی نجات کے عمل سے ان ہارے ہوئے لوگوں کی شکست اور پسپائی کی غمازی کرتا ہے۔ پچھلے عہد میں ان نام نہاد دانشوروں نے بڑا سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھ کر انقلاب کے تناظرسے بے بہرہ ہو گئے تھے۔ لیکن دیوار برلن کے گرنے کے 24سال بعد ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے، جس نے اس نظام کی ذلتوں کونہ صرف برداشت کیا ہے بلکہ ان کی روح اور احساس، دل اور دماغ میں اس نظام سے نفرت اور بغاوت کی آگ سلگ رہی ہے۔ اس نسل کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ایک عہد، ایک معروض، ایک وقت بدل رہا ہے۔ عالمی منظر نامے پر نئے انقلابی طوفان امڈ رہے ہیں۔ لیکن انقلاب ایک واقعہ نہیں بلکہ سماجی تبدیلی کے عمل کا تسلسل ہوتا ہے جو کئی سال بھی چل سکتا ہے اورجس میں ایک کے بعد ایک، عوامی بغاوت کے کئی ریلے آتے ہیں۔ ہر ابھار میں نوجوان اور محنت کش کئی اسباق سیکھتے ہیں۔ آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ رائج الوقت نظام میں رہتے ہوئے کوئی بہتری یا نجات ممکن نہیں ہے۔ انسانی تاریخ کے دھارے کو موڑ دینے والے تمام انقلابات کی تاریخ اس عمل کی گواہ ہے۔ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور زوال کے رد عمل میں اضطراب بڑھ رہاہے۔ استحصال زدہ عوام کی تحریکیں ابھر رہی ہیں، لیکن حوس اور منافع پر مبنی اس نظام سے انسانیت کی نجات کا راستہ تب ہی ہموار ہو گا جب کسی اہم ملک میں ابھرنے والا انقلاب، سوشلسٹ فتح سے ہمکنار ہو۔ یہ انقلابی فتح پوری دنیاکے مظلوموں اور محنت کشوں کے لئے اس مقصد اور منزل کے حصول کا پیغام بنے گی جس کی تلاش انسانیت کو شدت سے ہے!