| تحریر: حارث قدیر |
’’آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی‘‘ کے انتخابات ایک ایسے عہد اور وقت میں منعقد ہو رہے ہیں جب عالمی سطح پر تیز تر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پوری دنیا ایک تذبذب، انتشار، بے چینی اور گہرے سماجی اور معاشی بحران میں دھنستی چلی جا رہی ہے، موجودہ عالمی عہد کا ایک دوسرا رخ بغاوتوں، تحریکوں اور احتجاج کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا ہے جو اتار چڑھاؤ کا شکار مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا اور ایک حقیقی انقلابی قیادت کا متلاشی ہے۔ جہاں دنیا بھر میں برباد ہوتی سرمایہ داری اپنا تعفن اور غلاظت پھیلارہی ہے وہاں محنت کشوں اور نوجوانوں میں اس سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف نفرت مزید تیز ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کے کئی خطے ایسے بھی ہیں جہاں گہرا سیاسی، سماجی جمود طاری ہے، انسانیت اس وحشت اور بربریت سے سکتے کے عالم میں ہے، کہیں گہرے سکوت میں بغاوت کی چنگاریاں ضرور موجود ہیں لیکن انہیں شعلہ بننے میں شاید بہت تھوڑا یا زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ عالمی معاشی بحران کے گہرے اثرات نے جہاں تحریکوں کو جنم دیا ہے وہاں قومی، نسلی، مذہبی، لسانی تعصبات بھی مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں، غربت اور امارت میں تفاوت بڑھتی ہی جا رہی ہے، انسانیت کی ایک بڑی اکثریت غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف دولت کے انبار ہیں جن میں مسلسل اضافہ کرنے کی ہوس کرہ ارض اور نسل انسانی کو تاراج کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ دنیا کی ایک فیصد آبادی دنیا کی ساٹھ فیصد دولت پر قابض ہے جبکہ دوسری طرف ننانوے فیصد آبادی غربت اور ذلت کا شکار جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے۔
’’آزاد کشمیر‘‘ کے نام سے قائم اس خطے میں آزادی کی کوئی علامت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کے سامراجی اور مقامی حکمران طبقات کی ہوس کا براہ راست شکار یہ خطہ نوآبادی سے بھی بدتر حیثیت کا حامل ہے۔ اس خطے کی محرومی، افلاس، غربت، بنیادی ڈھانچے، صحت کی سہولیات، تعلیم کی فراہمی سمیت کسی ایک مسئلے کو بھی حل کرنے کیلئے کوئی سنجیدگی مقامی و بیرونی حکمرانوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ مقامی حکمران بیرونی حکمرانوں کی آشیرباد حاصل کرنے اور اپنی وفاداری ظاہر کرنے کیلئے جہاں انسانیت سے بھی گری ہوئی حرکات کرتے نظر آتے ہیں وہاں اپنا کمیشن اور تنخواہ بڑھانے کیلئے وفاقی حکومت کیخلاف رونا دھونا بھی جاری ہے۔ وزارت امور کشمیر اور پاکستان سے متعین کئے جانیوالے افسران کے ذریعے کنٹرول کئے جانیوالے اس خطے کی ایک اسمبلی بھی قائم کی گئی ہے، انچاس ممبران پر مشتمل اس ’’قانون ساز اسمبلی‘‘ کے اکتالیس ممبران براہ راست عوامی ووٹ سے منتخب کئے جاتے ہیں، جن میں سے انتیس ممبران اسمبلی آزادکشمیر کے حلقہ جات سے منتخب کئے جاتے ہیں جبکہ بارہ ممبران اسمبلی مہاجرین جموں و کشمیر جو پاکستان میں مقیم ہیں کیلئے مختص ہیں، وہاں بھی الیکشن کے نام کا ایک ڈرامہ رچایا جاتا ہے، یہی بارہ ممبران وفاق میں قائم حکومت کی نمائندہ جماعت کی حکومت قائم کرنے میں اہم کردارا دا کرتے ہیں۔ جہاں موجودہ عہد کے الیکشن عوامی توجہ حاصل کرنے میں پہلے کی طرح سے کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں وہاں ماضی کی طرح وفاق میں قائم حکومت کیلئے واضح اکثریت کیساتھ آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کا منصوبہ بھی کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے، پاکستان میں منقسم وفاقی اقتدار نے ’’آزاد کشمیر‘‘ کے الیکشن کا مستقبل بھی مشکل اور پر انتشار بنا دیا ہے۔
گزشتہ انتخابات کے دوران وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہونیکی وجہ سے آزاد کشمیر میں بھی پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرتے ہوئے حکومت قائم کی تھی جو اقتدار کے آخری ایام میں اقلیت میں تبدیل ہو گئی ہے، بڑی تعداد میں ممبران اسمبلی استعفے دیتے ہوئے مستقبل کے اقتدار کیلئے پر تولنے والی جماعتوں کا رخ کر چکے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں محنت کشوں اور نوجوانوں نے کسی حد تک دکھوں اور محرومیوں سے نجات کیلئے ووٹ کا استعمال کیا تھا لیکن محنت کشوں اور نوجوانوں کی اپنی سیاسی روایت کی قیادت نے اگلے قدموں پر محنت کشوں اور نوجوانوں پر حملے کئے۔ مال کمانے کیلئے تعلیم، صحت، روزگار سب کی بولی لگائی گئی، محنت کشوں کی انجمنوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ وفاق کی طرف سے نافذ کئے جانیوالے تمام ٹیکسز کا بوجھ غریب عوام پر لادا گیا۔ اس کے علاوہ دنیا میں واحد ’’آزاد ‘‘ نام سے قائم اس ریاست کی اسمبلی نے ایک ایسا بل بھی پاس کیا جس کی رو سے پاکستان کی وفاقی اسمبلی میں منظور ہونیوالا ہر قانون اس خطے کے عوام پر بھی نافذ العمل ہوگا۔ یہ صرف اس لئے کیا گیا کہ پہلے وفاق میں منظور ہونیوالے قوانین کیلئے یہاں صدارتی آرڈیننس جاری کرنا اور پھر تین ماہ کے اندر اسمبلی سے اسے پاس کروانے کا تردد کیا جاتا تھا۔ عبوری آئین (ایکٹ 1974ء) کے تحت چلنے والی اس ریاستی اسمبلی نے اپنا آئین منظور کرتے ہوئے یہ قانون بنایا کہ وفاقی وزارت امور کشمیر کی منظوری کے بغیر اس آئین میں کوئی بھی ترمیم کرنے کا اختیار اس ’’قانون ساز اسمبلی‘‘ کے پاس نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس عبوری آئین میں ترمیم کیلئے اس خطے کی حکمران اشرافیہ وفاقی وزارت امور کشمیر کے ملازموں کی جی حضوری میں مصروف ہیں اور اس سب کا مقصد غریب اور محنت کش عوام کی فلاح و بہبود قطعاً نہیں ہے، یہ صرف حکمران اشرافیہ کی لوٹ مار اور کمیشن خوری کیلئے مزید آسانیاں پیدا کرنے کا ہی نام ہے۔
21 جولائی 2016ء کو منعقد ہونیوالے اس ’’آزاد اسمبلی‘‘ کے انتخابات میں کل بیالیس رجسٹرڈ جماعتوں کے امیدواران سمیت آزاد امیدواروں کی کل تعداد 423 ہے جو اقتدار کے حصول کی اس ریس میں شامل ہیں۔ بنیاد پرست، قوم پرست اور الحاق نواز جماعتوں میں سے ہر ایک امیدوار اقتدار کے حصول کیلئے بلند و بانگ دعوے کر رہا ہے لیکن کوئی ایک پارٹی بھی ابھی تک کوئی واضح اور ٹھوس پروگرام اور منشور پیش نہیں کر سکی ہے۔ اصلاحات، چہروں کی تبدیلی، کرپشن کے خاتمے، آزادی، خودمختاری، آئین سازی سمیت دیگر کھوکھلے اور بے بنیاد دعوؤں کے پیچھے صرف اور صرف لوٹ مار کی ہوس شامل ہے۔ بڑی پارٹیوں کے ٹکٹ ان امیدواروں کو دیئے جاتے ہیں جو اربوں روپے کے مالک ہیں، جبکہ آزاد حیثیت سے بھی انتخابات میں حصہ صرف وہی لے سکتا ہے جو کم از کم بیس سے تیس لاکھ روپے الیکشن پر اخراجات کرنے کی سکت رکھتا ہو۔ سرکاری طور پر بیس لاکھ روپے انتخابی اخراجات کی حد مقرر تو کی گئی ہے لیکن الیکشن میں صرف مقابلے کا امیدوار ہونے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ٹکٹوں کی خریدو فروخت پر بھی کروڑوں روپے کا جوا کھیلا جاتا ہے (حالیہ کشمیر کونسل کے انتخابات سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے)۔
تعلیم کی فراہمی کیلئے بنیادی ڈھانچہ انتہائی بوسیدہ ہو چکا ہے، محکمہ تعلیم کو بطور رشوت سیاسی نوکریاں تقسیم کرنے کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے، بنیادی تعلیمی اداروں کی اکثریت زمین پر موجود نہیں ہے، غیر معیاری، فرسودہ نصاب تعلیم رائج کیا گیا ہے جبکہ حکمران اشرافیہ کے نمائندگان نجی تعلیم کے نام پرجاری کاروبار میں براہ راست ملوث ہیں۔ حکمران تعلیم کے کاروبار کواب میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کے قیام کے ذریعے مزید پھیلا رہے ہیں، جہاں صرف اور صرف امیروں کی اولادیں ہی جا سکتی ہیں جنہیں بنیادی تعلیم نجی تعلیمی اداروں سے حاصل کروائی جائے اور نمبروں کی دوڑ میں آگے بڑھتے ہوئے مہنگی تعلیم خرید کر اس محرومیوں کی فروخت کاری میں حکمران طبقے کی نمائندگی کر سکیں۔ جبکہ غریب عوام کی اولادیں اگر غلطی سے یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کر بھی لیں تو انہیں روزگار کی فراہمی کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے، لاکھوں کی تعداد میں غریب محنت کش عرب کے تپتے صحراؤں سمیت یورپ کے مختلف ممالک میں اذیت ناک زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای سمیت یورپ میں معاشی بحران کے باعث ہزاروں کشمیری محنت کش شدید مشکلات سے دو چار ہیں، سعودی عرب میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف دیوالیہ ہونیوالی کمپنیوں کے کیمپوں میں مقید ہیں جنہیں وہاں سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔
صحت کی سہولیات بھی انتہائی مخدوش اور مہنگی کر دی گئی ہیں، ہسپتالوں، بنیادی مراکز صحت کی انتہائی کم تعداد بھی سٹاف اور ادویات سے محروم ہے، اڑسٹھ ارب کے معمولی بجٹ میں سے ستاون ارب روپے غیر ترقیاتی بجٹ پر صرف ہوتے ہیں جبکہ گیارہ سے ساڑھے گیارہ ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کو بھی مقامی ایجنٹ ٹھیکیداروں، ممبران اسمبلی کی کرپشن اور بدعنوانی کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ ستاون ارب روپے سے راولپنڈی میں میٹرو بس منصوبہ مکمل ہوا ہے اور اس پوری ’’آزاد ریاست ‘‘کیلئے گیارہ ارب کے ترقیاتی بجٹ سے کس قدر تعمیر وترقی ہو سکتی ہے یہ ایک عام انسان باآسانی سمجھ سکتا ہے اور پھر کروڑوں روپے خرچ کر کے اقتدار حاصل کرنیوالے کبھی بھی محدود سا بجٹ عوام پر خرچ کرنے کیلئے اتنی سرمایہ کار نہیں کر سکتے، سرمایہ کاری جہاں بھی کی جاتی ہے منافع حاصل کرنے کیلئے ہی کی جاتی ہے۔
دوسری جانب علیحدگی پسند جماعتوں کے نامزد اور آزاد امیدواران بھی کشمیر کی آزادی کا منجن فروخت کرتے ہوئے انتخابات میں سماج تبدیل کرنے کے دعویداربنے ہوئے ہیں۔ در اصل ٹھوس منشور، پروگرام اور عوامی حمایت سے عاری یہ شخصیات اور جماعتیں سماج کو حقیقی سائنسی بنیادوں پر دیکھنے اور سمجھنے کی بجائے ہوا کے رخ پر بہتے ہوئے یہ سمجھ رہے ہیں کہ الیکشن کا بائیکاٹ کرنے سے انکی عوامی حمایت کم ہوئی ہے اور اب وہ الیکشن میں جا کر وہ حمایت واپس حاصل کریں گے جبکہ دوسری جانب کچھ قوم پرست ایسے بھی ہیں جو الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس سب کو غلامی کو طوالت دینے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں ہی اس نظام کو چیلنج کرنے سے قاصر ہیں۔
کشمیر کی قومی اور معاشی محرومی کا ازالہ اس خطے کے محنت کش اور نوجوان بھارت اور پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کیساتھ طبقاتی بنیادوں پر جڑت بناتے ہوئے ہی کر سکتے ہیں، آج اگر مقامی حکمران بیرونی ایجنٹ ہیں تو پھر اسی نظام کی بنیاد پر (اگر ممکن ہوتو) حاصل کی جانیوالی قومی علیحدگی کے بعد بھی یہی مقامی حکمران چہرے اور روپ بدل کر اس خطے کے سامراجی ممالک، سامراجی اداروں کی ایما پر یہاں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کا خون چوسنے میں مصروف ہو جائیں گے۔ سابقہ حکومت اگر اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے تو آنیوالے حکمران بھی اس نظام کی موجودگی میں کوئی ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ موجودہ نظام کی موجودگی میں پوری دنیا میں اب کوئی بھی مسئلہ دیرپار اندار میں حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ مزید مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن کے تدارک کا کوئی بھی راستہ اس نظام کے حکمرانوں کے پاس موجود نہیں ہے۔
اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو سامراجی جکڑ اور اس نظام کیخلاف حقیقی لڑائی کیلئے میدان میں اتر کر اور انقلابی سوشلزم کے سائنسی نظریات سے خود کو لیس کرتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کیساتھ طبقاتی جڑت بناتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد کو منظم کرنا ہوگا۔
وقت آگیا ہے کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ جو ہاتھ اس معاشرے کا پہیہ گھما تے ہیں وہ ریاست کے امور بھی چلا سکتے ہیں، وسائل کو حکمرانوں کی لوٹ مار سے بازیاب کرنیوالے ہاتھ ان وسائل کو اپنی فلاح کیلئے، تعلیم، روزگار، علاج کیلئے خود منصوبہ بندی کے تحت استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ آج دولت کی فراوانی ہے، وسائل بے شمار ہیں۔ نجی ملکیت، دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز اور نظام زر انسانوں کی وسیع اکثریت کو ان سہولیات سے محروم کئے ہوئے ہے۔ وسیع تر عوام کے لئے یہ نتائج اخذ کرنے اور میدان عمل میں اترنے میں تھوڑا وقت ضرور لگے گا لیکن بہت زیادہ نہیں۔ معاشی، سیاسی و سماجی آزادی کے حصول اور محرومیوں سے نجات کیلئے سماج کو چلانے والے یہ محنت کش سماج کو تبدیل بھی کریں گے، حکمران طبقے کو اسکے استحصالی نظام سمیت جڑ سے اکھاڑکر بھی پھینکیں گے۔ رات بھر کا مہماں اندھیرا، کس کے روکے روکا ہے سویرا!
متعلقہ: