| تحریر: راشد خالد |
برطانیہ میں لیبر پارٹی کے لیڈرشپ کے داخلی انتخابات پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا چکے ہیں۔ برطانیہ میں حالیہ انتخابات میں بدترین شکست کے بعد لیبر پارٹی کے لیڈر ایڈ ملی بینڈ کے استعفیٰ کی وجہ سے اس داخلی چناؤ کا اعلان کیا گیا۔ لیکن یہ چناؤ اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بن گیا جب لیڈرشپ کے ایک امیدوار جیرمی کاربن نے اپنی مہم میں عوامی مطالبات کو شامل کیا اور کٹوتیوں کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس عمل نے ناصرف جیرمی کاربن کی کمپئین کو مقبولیت فراہم کی بلکہ لیبر پارٹی کی ممبر شپ میں بھی تیز ترین اضافے کا موجب بنا۔ مئی میں عام انتخابات کے وقت ممبر شب 2 لاکھ پر رکی ہوئی تھی مگر 14 اگست کو، چناؤ کے پیش نظر جب ممبرشب بند کی گئی، تو یہ 6 لاکھ 10 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
پارٹی لیڈرشب کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے ضروری تھا کے کسی بھی امیدوار کو 35 ممبران پارلیمنٹ نامزد کریں، بصورت دیگر کوئی بھی شخص لیڈرشب کے اہل نہیں ہو سکتا۔ نامزدگیوں کے عمل میں چار امیدوار کامیاب ہوئے جن میں اینڈی برنہیم 68 ووٹ لے کر، یویٹ کوپر 59 ووٹ لے کر، لیز کینڈال 41 ووٹ لے کر اور جیرمی کاربن 36 ووٹ لے کر آئے۔اس بنیاد پر جیرمی کاربن کو کمزور ترین امیدوار تصور کیا جا رہا تھا جسے ان نامزدگیوں کے لئے شدید محنت کرنا پڑی۔ کاربن کو کسی صورت اتنے ووٹ پڑنے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ کاربن نامزدگیوں کے محض 2 منٹ قبل 35 ووٹ حاصل کر پایا تھا اور اسے ووٹ کرنے والے ایم پیز میں سے 12 ایسے تھے جو کسی دوسرے امیدوار کے حمایتی تھے لیکن محض مقابلے کو دلچسپ بنانے کے لئے انہوں نے کاربن کو ووٹ کر دیا۔ ان میں سے ایک سابق خارجہ سیکرٹری مارگریٹ بیکٹ تھی جس نے بعد میں کاربن کو نامزد کرنے پر شدید پشیمانی کا اظہار کیا اور اپنے آپ کو ’’بیوقوف‘‘ کہا۔ کیونکہ نامزدگی کے بعد حالات نے ایک دم کروٹ لی اور کاربن اس وقت لیڈرشپ کے لئے سب سے مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے۔
کاربن 2001ء سے ہی عراق اور افغانستان جنگ کے خلاف مہم کا سرگرم ممبر رہا ہے، اس کے علاوہ وہ سوشلسٹ کمپئین گروپ، فلسطینی یکجہتی مہم اور کی جوہری ہتھیاروں کے دنیا سے خاتمے کی مہم میں بھی موجود رہا ہے۔ جس کی وجہ سے پہلے سے ہی اس کا تعارف ایک سامراج مخالف اور عوامی نمائیندہ کے طور پر تھا۔ پارٹی کی لیڈرشپ کے لئے نامزدگی کے بعد اس کی ٹوری مخالف اور دیگر بیانات نے تہلکہ مچا دیا اور سے بڑے پیمانے پر حمایت ملنا شروع ہو گئی۔ اس کے حریفوں کو ایک شدید جھٹکااس وقت لگا جب برطانیہ کی دو بڑی ٹریڈ یونینز ’’Unite‘‘ اور ’’UNISON‘‘ نے کاربن کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ان یونینز کی ممبرشپ بالترتیب 14 لاکھ 20 ہزار اور 12 لاکھ 83 ہزار ہے۔
اس چناؤ کے لئے نئے طریقہ کار کے مطابق کوئی بھی فرد 3 پاؤنڈ ادا کر کے سپورٹر بن سکتا ہے، جس کی وجہ سے عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد رجسٹرڈ سپورٹر کے طور پر پارٹی میں شامل ہونے کے لئے پارٹی کے دروازے پر کھڑی ہو گئی۔ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو پارٹی کی طرف آتے دیکھ کر پارٹی لیڈرشپ خوفزدہ ہو گئی۔ کاربن کی اس مہم میں برطانیہ کے مختلف بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپ بھی شامل ہیں۔ لیکن لیڈرشپ کو سب سے زیادہ خوف ماضی میں لیبر پارٹی میں موجود بڑے رجحان ’’ملیٹنٹ‘‘ سے تھا، ہر طرف ایک شور برپا ہو گیا کہ ’’انٹرسٹس‘‘ دوبارہ پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں، جس وجہ سے انہوں نے فوری طور پر اعلان کیا کہ ممبرشپ کو اوپن نہ رکھا جائے بلکہ تمام تر درخواستوں کو پارٹی آفسز میں بھیجا جائے گا جہاں سے ’’کلیئر‘‘ ہونے کے بعد ہی کوئی ممبرشپ حاصل کر سکتا ہے یا بطور سپورٹر رجسٹر ہو سکتا ہے۔
یہ سب ایسی کیفیت میں ہوا جب حالیہ عام انتخابات میں لیبر پارٹی کوئی واضح موقف رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اور لیبر پارٹی کی اس کمزوری کی بدولت ٹوریز کو ایک مرتبہ پھر اکثریت لینے اور حکومت بنانے کو موقع ملا۔ اپنے گزشتہ دور میں ٹوریز اسی کٹوتیوں کی عوام دشمن پالیسی پر عمل پیرا رہے جس کی وجہ سے ان کی عوام میں مقبولیت کم ہوئی مگر کوئی بھی پارٹی اس سے مختلف پروگرام دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی، صرف اسکاٹ لینڈ میں SNP، جو ایک قوم پرست پارٹی ہے، نے کٹوتیوں کے خلاف نعرے پر کمپئین کی جس کی بدولت وہ اسکاٹ لینڈ کی 59 میں سے 56 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن لیبر پارٹی ’نرم کٹوتیوں‘کا پروگرام پیش کرتی رہی۔ جس کی بدولت عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کر پائی۔ لیبر پارٹی اپنے نام کے برعکس ایک بورژوا پارٹی ہے اور اس کا پروگرام بھی وہی ہے جو ایک بورژوا پارٹی کا ہوتا ہے، سرمایہ دارانہ نظام کی بقا۔ اسی وجہ سے وہ اپنی روایتی بنیادیں جو محنت کشوں اور ان کی ٹریڈ یونینوں میں موجود ہیں، ختم ہوتی جا رہی ہے۔جیرمی کاربن کی مہم نے لیبر پارٹی کو ایک بار پھر نئی زندگی عطا کی ہے۔ لیکن لیبر کی سابقہ اور موجودہ قیادت کاربن کی لفاظی اور پروگرام سے سخت نالاں ہے۔ پارٹی اشرافیہ اپنے کنٹرول کو کھونا نہیں چاہتی اور نہ ہی کسی ایسے پروگرام کی متحمل ہو سکتی ہے جو کسی عوامی ابھار کا باعث بنے یا عوام کو کسی بہتری کی امید فراہم کرے۔ اسی لئے لیبر کے تمام سرکردہ افراد کاربن کے شدید خلاف ہیں۔ پارٹی اشرافیہ کاربن پرشدید حملے کر رہی ہے۔
لیبر پارٹی کے سابقہ وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ اگر کاربن جیت گیا تو لیبر پارٹی کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے گارڈین کے لئے لکھے گئے مضمون میں لکھا کہ ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ پارٹی کے دائیں بازو یا بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں، یا سنٹر سے، چاہے آپ میری حمایت کرتے ہیں یا مخالفت، لیکن خدارا اس خطرے کو بھانپیں جس کا ہمیں سامنا ہے۔‘‘ ٹونی بلیئر جس خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے وہ یقیناًعوامی حمایت ہے، جس کے تحت لیبر پارٹی کو ٹوریز کی کٹوتیوں کی پالیسیوں کی مخالفت کرنا ہو گی اور عوام کی مراعات کو بحال کرنے کی لڑائی لڑنا ہو گی۔ اسی طرح ایک اور سابق وزیراعظم، گورڈن براؤن نے بھی پارٹی ممبرز کو کاربن کو ووٹ دینے سے خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ ازلنگٹن نارتھ سے یہ امیدوار حزب اللہ، حماس، وینزویلا اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرتے ہوئے عالمی تعلقات میں تباہی کا موجب بنے گا اور پارٹی ایک حکومتی پارٹی کی بجائے محض ایک احتجاجی پارٹی بن کر رہ جائے گی۔ کاربن نے ان اعتراضات کے شدید جوابات بھی دئے ہیں اور ٹونی بلیئر کو اس وقت منہ کی کھانی پڑی جب کاربن نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے پر بلیئر کہ خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ ہونا چاہئے۔
جمہوریت کے بلند و بانگ دعوے کرنے والی پارٹی اور اس کے رہنما اس عمل میں کھل کر ننگے ہو رہے ہیں۔ ان کا پاگل پن اس بات سے عیاں ہو رہا ہے کہ کاربن کے خلاف وہ کوئی بھی واضح پوزیشن نہیں رکھ پا رہے۔ یہ تمام تر حملے کاربن پر دائیں جانب سے کئے جا رہے ہیں اور کاربن پر جتنے دائیں طرف سے حملے کئے جائیں گے وہ اور زیادہ بائیں جانب جھکاؤ دکھائے گا اور یہ عمل اس کی مضبوطی کا باعث بنے گا۔ اور اسی عمل میں لیبر پر حاوی دایاں بازو عوام کے سامنے مزید عیاں بھی ہو گا۔ برطانیہ کا محنت کش طبقہ اس وقت ایک بڑے امتحان سے گزر رہا ہے۔ یہ امتحان ان کے مستقبل میں ایک بڑی لڑائی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ابھی تک کے تمام تر ’’پولز‘‘ اس بات کا واضح اظہار کر رہے ہیں کہ اس چناؤ میں کاربن کا پلہ بھاری رہے گا۔ دائیں بازو کا کوئی بھی امیدوار اس کے مقابلے میں اتنی عوامی پذیرائی حاصل نہیں کر پایا۔ اسی ہفتے ٹائمز میں شائع ہونے والے’’YouGov‘‘ کے ایک پول کے مطابق کاربن 57 فیصد ووٹ لے گا، جو اس کے حریفوں میں سب سے زیادہ مضبوط حریف سے 32 پوائنٹ زیادہ ہے۔ اس کیفیت میں کاربن کی ناکامی کے امکانات بہت ہی محدود ہیں۔
کاربن کی جیت کی صورت میں لیبر پارٹی کو ٹوریز کی کٹوتیوں کی پالیسی کی شدید مخالفت کرنا ہو گا۔ لیکن ساتھ برطانوی پارلیمنٹ میں موجودلیبر پارٹی کے ارکان کی بڑی اکثریت کوربن کے خلاف ہے ۔ ایسے میں لیبر پارٹی کے اندر ایک بڑی لڑائی اور پھوٹ کے امکانات بھی موجود ہیں۔ کاربن کی کامیابی حکومت کے خلاف نفرت اور غصے کو ایک نیا ابھار بھی دے سکتی ہے اور برطانیہ میں ایک نئی عوامی تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ سب باقی یورپ سے کٹا ہوا نہیں ہے۔ یورپ اس وقت شدید تناؤ کا شکار ہے۔ یونان میں عوامی ابھار اور پھر بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لئے سائریزا کا دائیں جانب جھکاؤ، سپین میں کٹوتیوں کے خلاف پوڈیموس کا تیز ترین مقبولیت حاصل کرنا ایسی سماجی تبدیلیاں ہیں جو برطانیہ کے عوام پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ لیبر پارٹی اور دیگر پارٹیوں کی اصلاح پسندی کی پالیسی بھی سرمایہ دارانہ بحران کے ساتھ ہی کھل کر بے نقاب ہو چکی ہے اور محنت کش اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ اصلاحات کے ذریعے اس نظام کو بہتر نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس نظام کی مکمل تبدیلی ہی واحد حل ہے۔ لیکن یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ کاربن کوئی مارکسسٹ نہیں ہے اور فیصلہ کن موقع پر وہ یونان کی حکمران جماعت سائریزا کے سربراہ سپراس کی طرح غداری بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کاربن کی دائیں بازو کے خلاف حمایت کے ساتھ ساتھ اس کی اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کوئی بھی حل دینے کی کوشش پر تنقید کی جائے۔کیونکہ موجودہ نظام میں اگر کوربن برسر اقتدار آ بھی جاتا ہے تو اسے وہی اقدامات کرنے پڑیں گے جو اس کیمرون کر رہا ہے۔ اس لیے کٹوتیوں اور محنت کشوں پر دیگر حملوں سے نجات کا واحد حل ایک مکمل سوشلسٹ تبدیلی ہی ہے۔
برطانیہ کا محنت کش طبقہ اس صورتحال میں تیزی سے نئے نتائج اخذ کر رہا ہے۔اسکاٹ لینڈ میں ہونے والا ریفرنڈم اور اس کے بعد عام انتخابات میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔اس وقت ضرورت ایک واضح اور دو ٹوک پروگرام کی ہے جو محض کٹوتیوں کیخاتمے تک ہی محدود نہ ہو بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے، تمام تر کارپوریٹ سیکٹر کا خاتمہ کر تے ہوئے صنعتوں اور اداروں کی نیشنلائزیشن اور ان کا مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیے جانے کے نعرے پر مبنی ہو۔ اگر سوشلسٹ پروگرام پر کوئی بھی قیادت ابھر کر سامنے آتی ہے تو وہ نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کو تبدیل کرنے کا آغاز کر سکتی ہے۔