| تحریر: منشی پریم چند |
رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی ہے۔ کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے۔ بچہ کی طرح پر تبسم، درختوں پر کچھ عجیب ہر یاول ہے۔ کھیتوں میں عجیب رونق ہے۔ آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے۔ آج کا آفتاب دیکھو کتنا پیارا ہے گویا دنیا کو عید کی خوشی پر مبارک باد دے رہا ہو۔ گاؤں میںکتنی چہل پہل ہے۔ عید گاہ جانے کی دھوم ہے۔ کسی کے کرتے میں بٹن نہیں ہیں، سوئی دھاگہ لینے جارہا ہے۔ کسی کے جوتے سخت ہوگئے ہیں اسے تیل اور پانی سے نرم کر رہا ہے۔ جلدی جلدی بیلوں کوپانی دے دیں۔ عید گاہ سے لوٹتے لوٹتے دوپہر ہوجائے گی۔ بچے سب سے زیادہ خوش ہیں، کسی نے ایک روزہ رکھا، وہ بھی دوپہر تک، کسی نے وہ بھی نہیں، لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کا حصّہ ہے۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لیے ہوںگے بچوں کے لیے تو عید ہے۔ انھیں گھر کی فکروں سے کیا واسطہ؟ سیوئیوں کے لیے گھر میں دودھ اور شکر میوے ہیں یا نہیں، انہیں کیا فکر۔ ان کی اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔ بار بار جیب سے اپنا خزانہ نکال کر گنتے ہیں۔ ان ہی دو چار پیسوں میں دنیا کی ساری نعمتیں لائیں گے۔ کھلونے اور مٹھائیاں اور بگل اور خدا جانے کیا کیا۔
اور سب سے زیادہ خوش ہے ”حامد ۔“ وہ سات آٹھ سال کا غریب صورت بچہ ہے۔ جس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کی نذر ہوگیا اور ماں نہ جانے کیوں زرد ہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔ کسی کو پتا نہ چلا کہ کیا بیماری ہے۔ اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے اور اتنا ہی خوش ہے۔ اس کی دادی اسے کہتی ہے کہ اس کے ابا جان بڑی دور روپے کمانے گئے ہیں۔ بہت سی تھیلیاں لے کر آئیں گے، امی جان اللّٰہ میاں کے گھر مٹھائی لینے گئی ہیں۔ اس لیے حامد خوش ہے۔ امید تو بڑی چیز ہے۔ حامد کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں۔ سر پر ایک پرانی ٹوپی ہے جس کا گوٹا سیاہ ہوگیا ہے۔ پھر بھی وہ خوش ہے۔ جب اس کے ابّا جان تھیلیاں اور امّاں جان نعمتیں لے کر آئیں گے۔ تب وہ دل کے ارمان نکالے گا۔
”تم ڈرنا نہیں امّاں! میں گاؤں والوں کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، بالکل نہ ڈرنا۔“ لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔
گاؤں کے بچے اپنے اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا؟ اس بھیڑ بھاڑ میں کہیں کھو جائے تو کیا ہوگا؟ نہیں امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان تین کوس چلے گا۔ پاؤں میں چھالے نہ پڑ جائیں گے۔
مگر وہ چلی جائے تو یہاں سیوئیاں کون پکائے گا؟ بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیا اس وقت سیوئیاں پکانے بیٹھے گی؟ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس دن فہیمن کے کپڑے سیے تھے، آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اَٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آتی تھی…. اس عید کے لیے۔ لیکن کل گھر میں آٹا نہ تھا اور گوالن کے پیسے چڑھ گئے تھے۔ دینے پڑے۔ حامد کے لیے دو پیسے کا روز دودھ تو لینا ہی پڑتا ہے۔ اب کل آٹھ پیسے بچ رہے ہیں۔ تین پیسے حامد کی جیب میں اور پانچ امینہ کے بٹوے میں، یہی بساط ہے۔ اﷲ ہی بیڑا پار کرے۔
گاؤں سے لوگ چلے اور حامد بھی بچوں کے ساتھ تھا۔ کبھی سب کے سب دوڑ کر نکل جاتے۔ پھر کسی درخت کے نیچے کھڑے ہو کر ساتھ والوں کا انتظار کرتے۔
شہر کا سرا شروع ہو گیا ۔ سڑک کے دونوں طرف امیروں کے باغ ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں آنے لگیں۔ یہ عدالت ہے۔ یہ مدرسہ ہے۔ یہ کلب گھر ہے۔ پھر آگے چلو۔ حلوائیوں کی دُکانیں شروع ہو گئیں۔ آج خوب سجی ہوئی تھیں۔ اتنی مٹھائیاں کون کھاتا ہے؟ دیکھو نا! ایک ایک دُکان پر منوں ہوں گی۔ آگے چلیے! یہ پولیس لائن ہے۔ یہاں پولیس والے قواعد کرتے ہیں۔ رائٹ لپ، پھام پھو۔ رات کو بے چارے گھوم گھوم کر پہرا دیتے ہیں، نہیں تو چوریاں ہو جائیں۔
اب بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانے والوں کے مجمع نظر آنے لگے۔ ایک سے ایک زرق برق پوشاک پہنے ہوئے۔ کوئی تانگے پر سوار کوئی موٹر پر چلتے تھے تو کپڑوں سے عطر کی خوشبو اُڑتی تھی۔ دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سرو سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شاکر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے، تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔
وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو رہی ہے ۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے۔ اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں۔ جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رُتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں ، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں۔ اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کیے ہوئے ہے۔
نماز ختم ہو گئی ہے لوگ باہم گلے مل رہے ہیں ۔ کچھ لوگ محتاجوں اور سائلوں کو خیرات کر رہے ہیں۔ جو آج یہاں ہزاروں جمع ہو گئے ہیں۔ ہمارے دہقانوں نے مٹھائی اور کھلونوں کی دُکانوں پر یورش کی۔ بوڑھے بھی ان دلچسپیوں میں بچوں سے کم نہیں ہیں۔
یہ دیکھو ہنڈولا ہے ایک پیسہ دے کر آسمان پر جاتے معلوم ہوں گے۔ کبھی زمین پر گرتے ہیں یہ چرخی ہے لکڑی کے گھوڑے، اُونٹ، ہاتھی منجوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے کر بیٹھ جاو اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن دونوں ہنڈولے پر بیٹھے ہیں۔ آذر اور سمیع گھوڑوں پر۔
ان کے بزرگ اتنے ہی طفلانہ اشتیاق سے چرخی پر بیٹھے ہیں۔ حامد دور کھڑا ہے تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ ذرا سا چکر کھانے کے لیے وہ اپنے خزانہ کا ثلث نہیں صرف کر سکتا۔ محسن کا باپ بار بار اسے چرخی پر بلاتا ہے لیکن وہ راضی نہیں ہوتا۔ بوڑھے کہتے ہیں اس لڑکے میں ابھی سے اپنا پرایا آ گیا ہے۔حامد سوچتا ہے: ”کیوں کسی کا احسان لوں؟“ عسرت نے اسے ضرورت سے زیادہ ذکی الحس بنا دیا ہے۔
سب لو گ چرخی سے اُترتے ہیں۔ کھلونوں کی خرید شروع ہوتی ہے۔ سپاہی اور گجریا اور راجہ رانی اور وکیل اور دھوبی اور بہشتی بے امتیاز ران سے ران ملائے بیٹھے ہیں۔ دھوبی راجہ رانی کی بغل میں ہے اور بہشتی وکیل صاحب کی بغل میں۔ واہ کتنے خوبصورت…. بولا ہی چاہتے ہیں۔ محمود سپاہی پر لٹو ہو جاتا ہے خاکی وردی اور پگڑی لال، کندھے پر بندوق ، معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد کے لیے چلا آ رہا ہے۔ محسن کو بہشتی پسندآیا۔ کمر جھکی ہوئی ہے اس پر مشک کا دھانہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے۔ دوسرے ہاتھ میں رسی ہے،کتنا بشاش چہرہ ہے، شاید کوئی گیت گا رہا ہے۔ مشک سے پانی ٹپکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نوری کو وکیل سے مناسبت ہے۔ کتنی عالمانہ صورت ہے، سیاہ چغہ نیچے سفید اچکن، اچکن کے سینہ کی جیب میں سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب لیے ہوئے ہے۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی کسی عدالت سے جرح یا بحث کر کے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب دو دو پیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں۔ اگر دو کا ایک کھلونا لے لے تو پھر اور کیا لے گا؟ نہیں ….کھلونے فضول ہیں۔ کہیں ہاتھ سے گر پڑے تو چور چور ہو جائے۔ ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دُھل جائے۔ ان کھلونوں کو لے کروہ کیا کرے گا، کس مصرف کے ہیں؟
محسن کہتا ہے: ”میرا بہشتی روز پانی دے جائے گا صبح شام۔“
نوری بولا: ”اور میرا وکیل روز مقدمے لڑے گا اور روز روپے لائے گا۔“
حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ہے۔ مٹی کے ہی تو ہیں، گریں تو چکنا چور ہو جائیں، لیکن ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لیے انہیں ہاتھ میں لے سکتا۔
کھلونوں کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا، کسی نے ریوڑیاں لی ہیں، کسی نے گلاب جامن، کسی نے سوہن حلوہ۔ مزے سے کھا رہے ہیں۔ حامد ان کی برادری سے خارج ہے۔ کمبخت کی جیب میں تین پیسے تو ہیں، کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا۔ حریص نگاہوں سے سب کی طرف دیکھتا ہے۔
محسن نے کہا: ”حامد! یہ ریوڑی لے جا کتنی خوشبودار ہیں۔“
حامد سمجھ گیا یہ محض شرارت سے کہہ رہا ہے۔ محسن اتنا فیاض طبع نہ تھا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس گیا۔ محسن نے تھیلی سے دو تین ریوڑیاں نکالیں۔ حامد کی طرف بڑھائیں۔ حامد نے ہاتھ پھیلایا۔ محسن نے ہاتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اپنے منھ میں رکھ لیں۔ محمود اور نوری اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنسنے لگے۔ حامد کھسیانہ ہو گیا۔ محسن نے کہا:
”اچھا اب ضرور دیں گے۔ یہ لے جاو ٔ۔ اللہ قسم۔“
حامد نے کہا: ”رکھیے رکھیے….کیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟“
سمیع بولا، ”تین ہی پیسے تو ہیں، کیا کیا لوگے؟“
محمود بولا: ”تم اس سے مت بولو۔ حامد! میرے پاس آؤ۔ یہ گلاب جامن لے لو۔“
حامد: ”مٹھائی کون سی بڑی نعمت ہے۔ کتاب میں اس کی برائیاں لکھی ہیں۔“
محسن: ”لیکن جی میں کہہ رہے ہو گے کہ کچھ مل جائے تو کھا لیں۔ اپنے پیسے کیوں نہیں نکالتے؟“
محمود: ”اس کی ہوشیاری میں سمجھتا ہوں۔ جب ہمارے سارے پیسے خرچ ہو جائیں گے، تب یہ مٹھائی لے گا اور ہمیں چڑا چڑا کر کھائے گا۔“
حلوائیوں کی دُکانوں کے آگے کچھ دُکانیں لوہے کی چیزوں کی تھیں کچھ گلٹ اور ملمع کے زیورات کی۔ لڑکوں کے لیے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا۔ حامد لوہے کی دُکان پر ایک لمحہ کے لیے رک گیا۔ دست پناہ رکھے ہوئے تھے۔ وہ دست پناہ خرید لے گا۔ ماں کے پاس دست پناہ نہیں ہے۔ توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتا ہے۔ اگر وہ دست پناہ لے جا کر اماں کو دے دے، تو وہ کتنی خوش ہوںگی۔ پھر ان کی انگلیاں کبھی نہیںجلیں گی، گھر میں ایک کام کی چیز ہو جائے گی۔ کھلونوں سے کیا فائدہ۔ مفت میں پیسے خراب ہوتے ہیں۔ ذرا دیر ہی تو خوشی ہوتی ہے پھر تو انھیں کوئی آنکھ اُٹھا کر کبھی نہیں دیکھتا۔ یا تو گھر پہنچتے پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہو جائیں گے یا چھوٹے بچے جو عید گاہ نہیں جا سکتے ہیں ضد کر کے لے لیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ دست پناہ کتنے فائدہ کی چیز ہے۔ روٹیاں توے سے اُتار لو،چولھے سے آگ نکال کر دے دو۔ اماں کو فرصت کہاں ہے کہ بازار آئیں اور اتنے پیسے کہاں ملتے ہیں۔ روز ہاتھ جلا لیتی ہیں۔
اس کے ساتھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ سبیل پر سب کے سب پانی پی رہے ہیں۔ کتنے لالچی ہیں ۔ سب نے اتنی مٹھائیاں لیں کسی نے مجھے ایک بھی نہ دی۔ اس پر کہتے ہیں میرے ساتھ کھیلو۔ میری تختی دھو لاؤ۔ اب اگر میاں محسن نے کوئی کام کرنے کو کہا تو خبر لوں گا، کھائیں مٹھائی…. آپ ہی منہ سڑے گا، پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی۔ آپ ہی زبان چٹوری ہو جائے گی، تب پیسے چرائیں گے اور مار کھائیں گے۔ میری زبان کیوں خراب ہوگی۔
اس نے پھر سوچا : ”اماں دست پناہ دیکھتے ہی دوڑ کر میرے ہاتھ سے لے لیں گی اور کہیں گی۔ میرا بیٹااپنی اماں کے لیے دست پناہ لایا ہے، ہزاروں دُعائیں دیں گی۔ پھر اسے پڑوسیوںکو دکھائیں گی۔ سارے گاؤں میں واہ واہ مچ جائے گی۔ ان لوگوں کے کھلونوں پر کون انھیں دُعائیں دے گا؟ بزرگوں کی دُعائیں سیدھی خدا کی درگاہ میں پہنچتی ہیں اور فوراً قبول ہوتی ہیں۔ میرے پاس بہت سے پیسے نہیں ہیں۔ جب ہی تو محسن اور محمود یوں مزاج دکھاتے ہیں۔ میں بھی ان کو مزاج دکھاؤں گا۔ وہ کھلونے کھیلیں، مٹھائیاں کھائیں، میں غریب سہی۔ کسی سے کچھ مانگنے تو نہیں جاتا۔ آخر ابا کبھی نہ کبھی تو آئیں گے ہی، پھر ان لوگوں سے پوچھوں گا کتنے کھلونے لو گے؟ ایک ایک کو ایک ٹوکری دوں اور دکھا دوں کہ دوستوں کےساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ جتنے غریب لڑکے ہیں سب کو اچھے اچھے کرتے دلوا دوں گا، اور کتابیں دے دوں گا، یہ نہیں کہ ایک پیسہ کی ریوڑیاں لیں تو چڑا چڑا کر کھانے لگے۔ “
حامد نے ڈرتے ڈرتے دکان دار سے پوچھا: ”یہ دست پناہ بیچو گے؟“
دوکان دار نے اس کی طرف دیکھا اور ساتھ کوئی آدمی نہ دیکھ کر کہا: ” تمھارے کام کا نہیں ہے۔ “
“بکاؤ ہے یا نہیں؟“
”بکاو ٔہے جی اور یہاں کیوں لادکر لائے ہیں۔“
”تو بتلاتے کیوں نہیں؟ کے پیسے کا دو گے؟“
”چھ پیسے لگیں گے۔“
حامد کا دل بیٹھ گیا۔ کلیجہ مضبوط کر کے بولا: ”تین پیسے لو گے؟“ اور آگے بڑھا کہ دکان دار کی گھرکیاں نہ سنے، مگر دکان دار نے گھرکیاں نہ دیں۔ دست پناہ اس کی طرف بڑھادیا اور پیسے لے لیے۔
حامد نے دست پناہ کندھے پر رکھ لیا، گویا بندوق ہے اور شان سے اکڑتا ہوا اپنے رفیقوں کے پاس آیا۔
محسن نے ہنستے ہوئے کہا: ”یہ دست پناہ لایا ہے۔ احمق اس کا کیا کرو گے؟“
حامد نے دست پناہ کو زمین پر پٹک کر کہا: ”ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرا دو، ساری پسلیاں چور چور ہو جائیں گی بچو کی۔“
محمود: ”تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟“
حامد: ”کھلونا کیوں نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گیا“ ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا، چاہوںتو اس سے تمہاری ناک پکڑ لوں۔ ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناہ۔“
سمیع متاثر ہو کر بدلا: ”میری خنجری سے بدلو گے؟ دو آنے کی ہے۔“
حامد نے خنجری کی طرف حقارت سے دیکھ کر کہا: ”میرا دست پناہ چاہے تو تمہاری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔ بس ایک چمڑے کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولنے لگی۔ ذرا سا پانی لگے تو ختم ہو جائے۔ میرا بہادر دست پناہ تو آگ میں پانی میں آندھی میں طوفان میں برابر ڈٹا رہےگا۔“
میلہ بہت دور پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ دس بج رہے تھے۔ گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اب دست پناہ نہیں مل سکتا تھا۔ اب کسی کے پاس پیسے بھی تو نہیں رہے، حامد ہے بڑا ہوشیار۔ اب دو فریق ہو گئے، محمود، محسن اور نوری ایک طرف، حامد یکہ و تنہادوسری طرف۔ سمیع غیر جانب دار ہے جس کی فتح دیکھے گا اس کی طرف ہو جائےگا۔ محمود، محسن اور نورے کے پاس تعداد کی طاقت ہے، حامد کے پاس حق اور اخلاق کی۔ ایک طرف مٹی ربڑ اور لکڑکی کی چیزیں دوسری جانب اکیلا لوہا جو اس وقت اپنے آپ کو فولاد کہہ رہا ہے۔
محسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہا: ”اچھا تمھارا دست پناہ پانی تو نہیں بھر سکتا۔“
حامد نے دست پناہ کو سیدھا کر کے کہا: ”یہ بہشتی کو ایک ڈانٹ پلائے گا تو دوڑا ہوا پانی لا کر اس کے دروازے پر چھڑکنے لگے گا۔ جناب اس سے چاہے گھڑے مٹکے اور کونڈے بھر لو۔“
محسن کا ناطقہ بند ہو گیا۔ نوری نے کمک پہنچائی: ”بچہ گرفتار ہو جائیں تو عدالت میں بندھے بندھے پھریں گے۔ تب تو ہمارے وکیل صاحب ہی پیروی کریں گے۔ بولیے جناب؟“
اس وار سے بچاؤ اتنا آسان نہ تھا، دفعتاً حامد نے ذرا مہلت پا جانے کے ارادے سے پوچھا: ”اسے پکڑنے کون آئے گا؟“
محمود نے کہا: ”یہ سپاہی بندوق والا۔“
حامد نے منھ چڑا کر کہا: ”یہ بے چارے اس رستم ہند کو پکڑ لیں گے؟ اچھا لاؤ ابھی ذرا مقابلہ ہو جائے۔اس کی صورت دیکھتے ہی بچہ کی ماں مر جائے گی، پکڑیں گے کیا بے چارے!“
محسن نے تازہ دم ہو کر وار کیا: ”تمھارے دست پناہ کا منھ روز آگ میں جلا کر ے گا۔“
حامد کے پاس جواب تیار تھا: ”آگ میں بہادر کودتے ہیں جناب۔ تمھارے یہ وکیل اور سپاہی اور بہشتی ڈرپوک ہیں۔ سب گھر میں گھس جائیں گے۔ آگ میں کودنا وہ کام ہے جو رُستم ہی کر سکتا ہے۔“
نوری نے انتہائی جدت سے کام لیا: ”تمھارا دست پناہ باورچی خانہ میں زمین پر پڑا رہے گا۔ میرا وکیل شان سے میز کرسی لگاکر بیٹھے گا۔“ اس جملہ نے مُردوں میں بھی جان ڈال دی۔
حامد نے دھاندلی کی: ”میرا دست پناہ باورچی خانہ میں رہے گا، وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو جا کر انھیں زمین پر پٹک دے گا اور سارا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا۔“
اس جواب میں بالکل جان نہ تھی، بالکل بے تکی سی بات تھی۔ لیکن قانون پیٹ میں ڈالنے والی بات چھا گئی۔ تینوں سورما منھ تکتے رہ گئے۔ حامد نے میدان جیت لیا۔ دست پناہ رستم ہند ہے۔ اس میں کسی کو چوں چرا کی گنجائش نہیں۔
محسن نے کہا: ”ذرا اپنا چمٹا دو۔ ہم بھی تودیکھیں ۔ تم چاہو تو ہمارا وکیل دیکھ لوحامد!“
” ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ وہ فیاض طبع فاتح ہے۔ دست پناہ باری باری سے محمود، محسن، نور اور سمیع سب کے ہاتھوں میں گیا اور ان کے کھلونے باری باری حامد کے ہاتھ میں آئے۔ کتنے خوبصورت کھلونے ہیں، معلوم ہوتا ہے بولا ہی چاہتے ہیں۔مگر ان کھلونوں کے لیے انھیں دُعا کو ن دے گا؟ کون کون ان کھلونوں کو دیکھ کر اتنا خوش ہوگا جتنا اماں جان دست پناہ کو دیکھ کر ہوں گی۔ اسے اپنے طرزِ عمل پر بالکل پچھتاوا نہیں ہے۔ پھراب تو دست پناہ تو ہے اور سب کا بادشاہ۔ راستے میں محمود نے ایک پیسے کی ککڑیاں لیں۔اس میں حامد کو بھی خراج ملا حالاں کہ وہ انکار کرتا رہا۔ محسن اورسمیع نے ایک ایک پیسے کے فالسے لیے، حامدکو خراج ملا۔ یہ سب رستم ہند کی برکت تھی۔
گیارہ بجے سارے گاؤں میں چہل پہل ہو گئی۔ میلے والے آ گئے۔ محسن کی چھوٹی بہن نے دوڑ کر بہشتی اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور مارے خوشی جو اچھلی تو میاںبہشتی نیچے آ رہے۔ اس پر بھائی بہن میں مار پیٹ ہوئی۔ دونوں خوب روئے۔ ان کی اماں جان یہ کہرام سن کر اور بگڑیں ۔ دونوں کو اوپر سے دو دو چانٹے رسید کیے۔
میاں نوری کے وکیل صاحب کا حشر اس سے بھی بدتر ہوا۔ وکیل زمین پر یاطاق پرتو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی پوزیشن کا لحاظ تو کرنا ہی ہوگا۔ دیوار میں دو کھونٹیاں گاڑی گئیں۔ ان پر چیڑ کا ایک پرانا پٹرا رکھا گیا ۔ پٹرے پر سرخ رنگ کا ایک چیتھڑا بچھا دیا گیا جو منزلہ قالین کا تھا۔ وکیل صاحب عالم بالاپہ جلوہ افروز ہوئے۔ یہیں سے قانونی بحث کریں گے۔ نوری ایک پنکھا لے کر جھلنے لگا۔ معلوم نہیں پنکھے کی ہوا سے یا پنکھے کی چوٹ سے وکیل صاحب عالم بالا سے دُنیائے فانی میںآ رہے۔ اور ان کی مجسمہ خاکی کے پرزے ہوئے۔ پھر بڑے زور کا ماتم ہوا اور وکیل صاحب کی میت کوڑے پر پھینک دی گئی۔
اب رہے میاں محمود کے سپاہی ۔ وہ محترم اور ذی رُعب ہستی ہے اپنے پیروںچلنے کی ذلت اسے گوارا نہیں۔ محمود نے اپنی بکری کا بچہ پکڑا اور اس پر سپاہی کو سوار کیا۔ محمود کی بہن ایک ہاتھ سے سپاہی کو پکڑے ہوئے تھی اور محمود بکری کے بچہ کا کان پکڑ کر اسے دروازے پر چلا رہاتھا۔ اور اس کے دونوں بھائی سپاہی کی طرف سے ”سونے والے جاگتے رہو“ پکارتے چلتے تھے۔ معلوم نہیں کیا ہوا، میاں سپاہی اپنے گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑے اور اپنی بندوق لیے زمین پر آ رہے۔ ایک ٹانگ مضروب ہو گئی۔
اب میاں حامد کا قصہ سنیے۔ امینہ اس کی آواز سنتے ہی دوڑی اور اسے گود میں اُٹھا کر پیار کرنے لگی۔ دفعتاً اس کے ہاتھ میں چمٹا دیکھ کر چونک پڑی۔
”یہ دست پناہ کہاں تھا بیٹا؟“
”میں نے مول لیا ہے، تین پیسے میں۔“
امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔ ”یہ کیسا بے سمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہو گئی۔ نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ لایا کیا یہ دست پناہ۔ سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی۔“
حامد نے خطاوارنہ انداز سے کہا: ”تمھاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں کہ نہیں؟“
امینہ کا غصہ فوراً شفقت میں تبدیل ہو گیا۔ اور شفقت بھی وہ جو بیان نہیں کی جا سکتی۔ اور اپنی ساری تاثیر لفظوں میں منتشر کر دیتی ہے۔ یہ بے زبان شفقت تھی۔ درد التجا میں ڈوبی ہوئی۔ اُف کتنی نفس کشی ہے۔ کتنی جاں سوزی ہے۔ غریب نے اپنے طفلانہ اشتیاق کو روکنے کے لیے کتنا ضبط کیا۔جب دوسرے لڑکے کھلونے لے رہے ہوں گے، مٹھائیاں کھا رہے ہوں گے، اس کادل کتنا لہراتا ہوگا۔ اتنا ضبط اس سے ہوا کیوں کر۔ اپنی بوڑھی دادی کی یاد اسے وہاں بھی رہی۔ میرا لال میری کتنی فکر رکھتا ہے۔ اس کے دل میں ایک ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں دنیا کی بادشاہت آ جائے اور وہ اسے حامد کے اوپر نثار کر دے۔
اور تب بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ بوڑھی امینہ، ننھی سی امینہ بن گئی۔ وہ رونے لگی۔ دامن پھیلا کر حامد کو دعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سے آنسو کی بڑی بڑی بوندیں گراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیا سمجھتا اور نہ شاید ہمارے بعض ناظرین ہی سمجھ سکیں۔