مصر: رد انقلاب سے کیسے لڑا جائے؟

تحریر : ایلن ووڈز:-
(ترجمہ: کامریڈ علی)

مصری انقلاب نے پچھلے کچھ دنوں میں ایک نیا موڑ لیا ہے۔ حکمران ملٹری کونسل نے انقلاب پر بہت ہی زیادہ خطرناک حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔

اب، مصر کی ملٹری پولیس اپنی مرضی سے عام شہریوں کو گرفتار کرسکتی ہے اورپارلیمنٹ کو بھی تحلیل کردیا گیا ہے۔ مصری جرنیلوں نے مارچ 2011 ء کے آئینی ڈیکلیریشن میں ترامیم کا بھی اعلان کیا ہے،جس کے تحت انہیں لامحدودطاقت ملے گی۔یوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جس کو مصر کی تاریخ کا پہلا جمہوری صدارتی انتخاب سمجھا جارہا تھا، آخری تجزیے میں وہ مصر کی بورژوازی کے دو متضاد حصوں، اخوان المسلمین اور مسلح افواج میں طاقت کی جنگ کے تماشے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

یہ درست ہے کہ مرسی اورشفیق ایک جیسے افرادنہیں ہیں۔ اس وقت،اخوان المسلمین سب سے اہم رد انقلابی دھارا نہیں ہے، لیکن وہ کسی بھی طور سے ایک انقلابی قوت بھی نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ایسا تھا۔ وہ مصری بورژواژی کے اس حصے کی نمائندگی کرتے ہیں جو کہ د ہا ئیوں سے ریاستی طاقت میں شامل نہیں تھا اور اب ریاستی طاقت کی مشینری میں اپنا حصہ، اس طاقت کے ساتھ آنے والی دولت اور مراعات کے ساتھ مانگ رہا ہے۔
اخوان المسلمین نے شروع میں مبارک کے خلاف اٹھنے والی تحریک کی حمایت نہیں کی، لیکن، انہوں نے مبارک کے جانے کو ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھا کہ جس کو استعمال کر کے وہ سکاف یعنی سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز((SCAFکے ساتھ کام کرسکتے ہیں اورحکومت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے موقع جان کر،دھارے میں چھلانگ لگا دی تاکہ وہ اس کا حصہ بن سکیں، لیکن ہر قدم پر انہیں جرنیلوں اور حکومت کے پرانے ڈھانچے کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑے۔ ان کا مقصد حکومت کی پرانی مشینری اورنظام کو اکھاڑنا نہیں بلکہ اس کے ساتھ سمجھوتہ کرناہے۔
اسی لیے پچھلے سال کے زیادہ تر عرصے میں اخوان نے سکاف کے ساتھ مل کر کام کیا ہے، لیکن ان کی توقعات کے برعکس، ان کی خدمات کا انعام دینے کے بجائے، ان کے منہ پر مکا ماردیا گیا ہے۔ صدارتی انتخابات کے آخری مرحلے پر مقابلہ، اخوان المسلمین کے امیدوار محمد مرسی اور جرنیلوں کے امید وار احمد شفیق کے درمیان تھا۔ سرکاری نتائج تو نہیں آئے ہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ مرسی جیت گیا ہے۔ پھر بھی شفیق دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ جیت گیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑے پیمانے پر کنفیوژن کی صورت حال ہے۔ ایسے حالات کو جان بوجھ کر بنایا گیا ہے کہ جن سے عوام کو اضطراب اور الجھن میں ڈالا جاسکے، تاکہ رد انقلاب کے حملوں کا راستہ ہموار ہوسکے۔ یہ مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔
جمہ کے دن،15 جون کو سپریم کورٹ نے کورٹ آرڈر زائل کردیا، جس کو اسلامسٹ قیادت نے پالیمینٹ میں پیش کیا تھا، جس کے تحت مبارک کی حکومت میں شامل کوئی بھی افسر، آفس نہیں سنبھال سکتا تھا۔ اس سے ہفتے اور اتوار کے روز کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں شمولیت کے لیے احمد شفیق کا راستہ صاف ہوگیا۔ لیکن جس بات کے زیادہ گہرے نتائج نکلنے تھے وہ اس وقت آیا جب، مبارک کے نافذ کردہ ججوں نے صدارتی انتخابات میں کچھ قانونی مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے، اسلامسٹ قیادت میں تشکیل پانے والی پارلیمینٹ کو تحلیل کرنے کا حکم دے دیا۔
اگر یہ سب کافی نہیں تھا، قابل نفرت ایمر جنسی قوانین جن کو صرف ہفتوں پہلے ہی ختم کیا گیا تھا کو تبدیل کرکے نئے وحشی اور بربریت سے لیس قوانین لاگو کیے گئے، جن کے تحت فوج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شہریوں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ کریں، چھوٹے جرائم کے لیے بھی۔ اتوار کی رات، ووٹنگ ختم ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد، ((SCAF نے اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے کچھ مزید اقدامات کیے۔ انہوں نے آئینی ڈیکلیریشن میں ترامیم کا اعلان کیا، جن کی رو سے آنے والے صدر کی طاقت کم ہوجائے گی اور افواج کا کردار مزید حاوی ہوجائے گا، خاص طور پراس سے ملک کے نئے آئین کے لکھنے میں افواج کا کردار بہت زیادہ ہوجائے گا۔
ترمیم کی جانے والی شق نمبر 60 سکاف کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ ممکنہ طور پر ایک آئینی اسمبلی کو آئین لکھنے کیلئے مقرر کرسکتے ہیں، اگر موجودہ اسمبلی اپنے مینڈیٹ کو پورا نہ کرسکی تو۔ موجودہ اسمبلی کے انتخاب کو کورٹ کے حکم پر تحلیل کردیا گیا۔ آئینی اسمبلی کا مقصد ہے کہ وہ تین مہینوں کے اندر اپنا کام پوراکرے اورپھر اپنا ڈرافٹ عوامی ریفرنڈم میں ڈالے۔
جب ان سب عوامل کو ملا کر دیکھا جاتا ہے، تو ان کا مقصد اصل میں ایک ’’کو دیتا‘‘ کا لگتا ہے۔ اس سب کا بنیادی مقصد اصل میں انقلاب کی تمام حاصلات کو زائل کرنا اور اس کو قانونی طور پر ختم کرنا ہوگا۔ کیونکہ، انقلاب کو اس کی حتمی منزل تک نہیں پہنچایا گیا تھا اورریاست کے پرانے ڈھانچے کو قائم رکھا گیا، ایسا ہونا ناگزیر تھا۔
فوجی بغاوت کی تیاری کافی عرصے سے کی جارہی ہے۔ پچھلے ہفتے جو ہوا، وہ مہینوں سے ہونے والے عمل کا شدیداظہار تھا۔مسئلے کا واضح اشارہ پرانے آمر حسنی مبارک کو2 جون کو سزا سنانے پرابھرنے والے رد عمل کی صورت میں نظر آیا۔ احتجاج ہورہے تھے، لیکن اب ان کی تعداد پہلے سے کم تھی۔ وہ پچھلے سال سے حملے کے لیے حالات کا تجزیہ کر رہے تھے، خاص طور پر پچھلے کچھ مہینوں سے تو اس میں بہت شدت آگئی تھی۔اس حقیقت نے کہ کچھ عرصہ سے اشتعال انگیزیوں کا پہلے جیسا رد عمل نہیں آرہا تھا، بہت اہم کردار ادا کیا۔ 2 جون کو ہونے والا احتجاج اس بات کا سب سے واضح اشارہ تھا۔ اس نے سکاف کو، وہ اعتماد دیا کہ وہ کسی خاص رد عمل کا سامنا کیے بغیر کاروائی کر سکتی ہے۔ جرنیلوں کے بڑھتے ہوئے اعتماد نے ان میں یہ سوچ پیدا کی کہ وہ اخوان المسلمین کا سامنا کرسکتے ہیں۔

سراب کا خاتمہ
انقلاب کی شروعات میں اس کا کردار، ایک واضح پروگرام کی غیر موجودگی اور تھوڑی بہت سادگی پر مبنی تھا، خاص طور پر مصر کی فوج کے کردار کے حوالے سے۔ لیکن، اب انقلابی اپنے پرانے خیالات، سادگی اور سراب کو چھوڑنے کے حوالے سے اپنے تلخ اور شدید تجربوں سے سیکھ رہے ہیں۔
مصری فوج ہرگز ایک یکساں جسم نہیں ہے۔ وہ سماج میں پھیلے ہوئے طبقاتی تضادکی عکاسی کرتی ہے۔ فوج کے سپاہی اور چھوٹے افسروں کی کثیر تعداد نے انقلاب کے ساتھ ہمدردی دکھائی اور لوگوں پر گولیاں چلانے سے انکار کردیا، اوپر کی پرتوں کا حصہ پرانے راج کے شدید حمایتیوں پر مشتمل تھا۔
اپنی ہڈیوں تک بدعنوانی سے رچے ہوئے،جرنیلوں کی مراعا ت یافتہ زندگیوں کی وجہ ریاستی لوٹ کھسوٹ اور معیشت کے منافع بخش حصوں پر کنٹرول تھا۔ وہ اپنی ان مراعات یافتہ زندگیوں کو ایک لڑائی کے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے اعمال بالکل متوقع تھے۔ ایک حالیہ مضمون (6 جون 2012 ء) بڑے واضح طریقے سے سوال اٹھاتا ہے۔ ’’جنتا،واپس اپنی بیریکوں میں جانا چاہتی ہے، لیکن اس سیاسی، قانونی اور آئینی یقین دہانی کے بعدکہ ان کی پوزیشن، مراعات، معیشت پر کنٹرول، فیصلے کرنا، تبدیل نہیں ہوگا۔ مختصر یہ، کہ وہ ایک پرانے ’’ترکی کا ماڈل‘‘ چاہتے ہیں۔ ‘‘
لیکن، انقلاب نے خود یہ دیکھااور دکھا دیا کہ جرنیلوں کے ہاتھوں میں تمام طاقت نہیں ہے۔ اس کے برعکس، طاقت کی محدود حدود و قیود ہوا کرتی ہیں۔ جیسا کہ میکینیکس میں اور سیاست میں ہوتاہے، ہر عمل ایک برابر اور متضاد عمل کی پیداوار کرتا ہے۔ انقلاب کو مکاری اور چپ چاپ اغوا کرنے کی کوشش میں،جرنیلوں کو عوام کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا، جنہوں نے اب سمجھنا شروع کردیا ہے کہ، انہیں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اوربھی لڑنا پڑے گا۔ جمعہ کے دن(جب پارلیمینٹ کو تحلیل کیا گیا تھا) قاہرہ میں گارڈین اخبار کے نامہ نگا رجیک شنکر نے لکھا :’’یہاں پر غصہ اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے، لیکن لوگ اس سب کو نکالنے کا کوئی ذریعہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ لوگوں نے تحریر سکوئر کو ایک پھندے کے طور پر دیکھنا شروع کردیا ہے۔ ایک ایسی صاف جگہ جہاں پر ناخوشگوار طاقتوں کو مٹاکر طاقت کے توازن کوبرقرار رکھنے والی قوتیں اختلاف رائے پیش کرکے حالات کو مسخ کرتی ہیں۔ ایک ایسی شہری جگہ جہاں عوام غصہ تو نکال سکتے ہیں،لیکن آخر میں ایک ایسی بند جگہ جہاں کچھ بھی نہیں بدل سکتا۔‘‘
’’مبارک کے حوالے سے ہونے والے فیصلے کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد نے تحریر سکوائر کا رخ کیا۔ وہاں پر جشن کا عنصر بھی تھا اور غصے کا بھی۔ سیکیورٹی فورسز نے اپنے آپ کو اس سب سے دور رکھا،کچھ دنوں کے بعد سب واپس گھروں کو چلے گئے اور زندگی چلتی رہی اور رد انقلاب بھی چلتا رہا۔ لوگوں کو ڈر ہے کہ فوجی جرنیلوں نے کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے جس سے تحریرسکوائر کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور وہ ان کے کنٹرول میں آگیا ہے، جہاں پر جمع ہونے سے اب غداروں کی سیاست کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔‘‘’’اس کی جہ سے لوگوں نے حقائق کی روشنی میں چیزوں کو دیکھنا شروع کردیا ہے۔ عوام ابھی تک بے یقین ہیں کہ احتجاجوں اور اپنی طاقتوں کو کہاں پر لگایا جائے۔ہم سکوائر میں لوگوں کو دیکھیں گے، لیکن کیا یہ ایک فیصلہ کن تعداد میں ہونگے، ایسا ہونا ابھی تو مشکوک لگ رہا ہے۔لیکن یہ انتخابات کے بعد بدل سکتا ہے، خاص طورپر اگر شفیق جیتاتو۔ ‘‘
پچھلے عرصے میں سکاف نے پورے میڈیا میں ایک بہت بڑی مہم چلائی ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں انتشار کا خوف ڈالا جاسکے۔ پولیس سڑکوں پر قانون نافذنہیں کر رہی، جرائم پیشہ عناصر کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے کہ وہ اپنی مجرمانہ کاروائیاں بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھیں، تاکہ ایک عدم تحفظ کا احساس پھیلایا جاسکے۔ اس سب کا مقصد یہ ہے کہ مڈل کلا س اور لمپن پرولتاریہ کو رد انقلاب اور شفیق کی طرف دھکیلا جاسکے۔
اگر ہم اس سب کے ساتھ مہینوں سے چلتی آئی یکدم تبدیلیوں کے سلسلے اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والی تھکاوٹ کے عنصر کو شامل کریں، تو یہ دیکھنا بہت آسان ہے کہ کیسے رد انقلاب نے دوبارہ اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے، اپنے آپ کو یکجا کر کے، اعتماد بحال کیا اور طاقت حاصل کر کے بازیاب ہورہا ہے۔پھر بھی، رد انقلابی ابھی بھی عوام اور محنت کش طبقے میں موجود انقلابی صلاحیتوں کہ سامنے بہت کمزور ہیں۔
انقلابی ممکنات ابھی بھی بہت طاقت رکھتی ہیں، لیکن اس میں ایک منظم راستے اور ایک واضح سیاسی اظہار کی کمی ہے۔ یہ مصر کے انقلاب کی بنیادی کمی ہے۔

اخوان المسلمین کا کردار
اخوان المسلمین کے لیڈران سب سے گھٹیا ممکنہ طریقے سے کام کررہے ہیں، اگر ہم بورژوا جمہوری تسلسل کے اعتبار سے دیکھیں تب بھی انہوں نے سب سے بزدلانہ طریقے سے جرنیلوں کی تمام سازشوں، حملوں اور اقدامات کو مان لیا ہے۔
صرف انتخابات کے دوسرے مرحلے میں شریک ہوکر ہی انہوں نے رد انقلابیوں کو ’’قابل احترام ‘‘ پردہ فراہم کیا ہے۔ اب، جرنیلوں کے ساتھ مہینوں کام کرنے کے بعد، وہ چیخیں مار رہے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ لازمی سی بات ہے! یہ کوئی شطرنج کا کھیل نہیں کہ جس میںآپ کے پاس ایک کتاب میں پہلے سے متعین کردہ اصول موجود ہوں۔ جرنیل ایک لڑائی لڑ رہے ہیں جس سے وہ اپنی طاقت اور مراعات کو بچا سکیں اور اس کا مطلب ایک ایسی لڑائی ہے جس میں کسی قسم کا حیلہ اورحربہ منع اور ناجائز نہیں ہوتا۔
کل اخوان المسلمین نے ایک احتجاجی مظا ہرے کی کال دی،جو کہ تصویریں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ بہت بڑا تھا۔ دور سے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کہ عوامی مظاہرے کا رجحان کیا ہے، ممکن ہوتا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ یہ صرف کارکنان اورکیمپینرز وغیرہ ہی تھے۔ اس میں کچھ خطرہ بھی ہے۔ ایسے اوقات میں جدید عناصر عوامی رجحان سے بہت آگے جاسکتے ہیں، جو کہ تھکاوٹ اور الجھن کا شکار ہیں۔ اس وجہ سے شکست سے بھی دوچار ہوا جاسکتا ہے۔عوام کو وقت چاہئے ہوتا ہے تاکہ وہ حالات کو جذب کرتے ہوئے اسباق اخذ کرسکیں اور ان اسباق سے نتائج۔
یہ بات واضح تھی کہ بہت سی انقلابی تنظیموں (جیساکہ اپریل 6یوتھ مومنٹ) نے کل کے احتجاج میں حصہ لیا۔کیا یہ صحیح تھا، یا نہیں؟ لا زمی طور پر، باہر سڑکوں پر نکل کر رد انقلابی قوتوں کے عمل کے خلاف احتجاج کرنا بالکل درست عمل تھا۔
اخوان المسلمین کے کارکنان کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کرنا درست اور ضروری تھا۔ لیکن، رد انقلابیوں کے خلاف احتجاج کرنا ایک بات ہے، اخوان المسلمین کی حمایت کرنا، ان کے لیے ووٹ کی کال دینا اوربائیں بازو کی جماعتوں کو ان کے ساتھ ایک اتحادی حکومت بنانے کی وکالت کرنا: یہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔

سٹالنسٹوں کا کردار
انقلابی موومنٹ کے کچھ حصوں نے جیسا کہ 6اپریل کی یوتھ مومنٹ نے بار بار غیر سیاسی ہونے کا کہا ہے یعنی کہ انہوں نے اپنا رخ سیاست سے موڑ لیا ہے اور کوئی بھی سیاسی پوزیشن نہیں لی ہے۔ لیکن اس چھوٹے سے عمل سے انہوں نے ایک شدید غلطی کر دی ہے، انہوں نے ایک بہت نقصان دہ قدم اٹھا لیا ہے، کیونکہ انہوں نے نوجوانوں کے سیاسی اظہار کو روک دیا ہے اور مستقل طور پر بڑی سیاسی پارٹیوں کے برعکس ایک حقیقی انقلابی پارٹی جو کہ نوجوانوں کے ایک انقلابی جذبات سے لیس ہوتی، کو ابھرنے سے روک دیا ہے۔ دوسری طرف سٹالنسٹوں کا کردار بہت نقصان دہ رہا ہے۔ ممکنہ طور پر بائیں بازو کی سب سے بڑی جماعت تجمع پارٹی ہے، جس کو پرانے سٹالنسٹ چلا رہے ہیں۔ سات جون کو مصر انڈیپینڈینٹ نے خبر دی کہ تجمع پارٹی کہ چیرمین رفعت السعید نے کہا ہے کہ عرب دنیا میں انقلابات ’’کوئی اتفاق نہیں، بلکہ ان میں باہر کی پارٹیاں شامل ہیں جو کہ یہاں پر انتشار پھیلا کر اپنے پیچھے گورننس کا نظام بدلنا چاہتی ہیں۔ ‘‘
یہ وہی زبان ہے جو رد انقلابی،انقلاب کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسے ’’بیرونی قوتوں‘‘ کی سازش قرار دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، روس کے رد انقلابیوں نے 1917ء میں لینن پر جرمن ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ہم تجمع پارٹی کے لیڈران سے یہ سوال پوچھنا چاہیں گے: کونسی بیرونی طاقتیں حسن مبارک کو ہٹانے میں شامل تھیں؟امریکہ اور اسرائیل پر تو یہ ذمہ داری عائد نہیں کی جاسکتی، کیونکہ حسنی مبارک اور اس کی حکومت کے دونوں کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے اور دونوں کو اس کی حکومت کو گرانے میں کوئی مفاد نہ تھا۔ شاید اس میں روس یا چین شامل تھے؟ ہم ایسا نہیں سمجھتے۔ شاید تحریر سکوائر کو سیارہ مریخ کے لوگوں نے منظم کیا تھا۔!؟
جمعرات کے دن الراواد کلب کے ممبران سے دس رمضان شہر میں ملاقات کرتے ہوئے، سعید نے صدارتی کونسل کے خیال کو ‘‘ناقابل قبول‘‘ قراد دیا۔اس نے کہا کہ کونسل کو پرانے صدارتی امیدواروں حمدین صباحی اور عبدل منیم ابو ال فتوح، اور ممکنہ طور پر محمد الباریدی پر مبنی ہونا چاہئے تاکہ وہ ایک سویلین گورنمنٹ بنا سکیں، ’’ یہ ایک بہت دیر سے ہونے والا عمل ہے اگر اس عمل نے سڑکوں پر حمایت حاصل کرلی تب بھی۔ ‘‘ ایسی کونسل اور اس کی ساخت ’’بہت متنازعہ ثابت ہوگی‘‘، اس نے کہا۔
یہاں ہمیں شائستگی کا آرٹ پہلے سے نامعلوم بلندیوں کو چھوتا نظر آتا ہے۔فوج کے خلاف حزب اختلاف، یعنی کہ پرانی حکومت کے خلاف حزب اختلاف، کو’’ متنازعہ‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے! تجمع کے لیڈران نے شاید مصر کی سوسائٹی میں تحریر سکوائر پر قبضے سے پہلے دیکھا ہی نہیں کہ مصر کی سوسائٹی اس سے پہلے بھی تقسیم تھی۔تقسیم امیر اور غریب میں، محنت کشوں اور مالکان میں، ظالم اور مظلوم میں۔ ہمیں، سماج میں ’’تقسیم ‘‘کی برائیوں کے بارے میں شاہانہ وعظ گھڑنے کے بجائے، ان کو اس بات کوواضح کرنا چاہئے، کہ وہ اس تقسیم کہ کس حصے کہ ساتھ ہیں اور کس کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس نے پوچھا’’کیا تحریر سکوائر کے مظاہرین،سماج کی تمام پرتوں کی نمائندگی کرتے ہیں؟‘‘ ’’اگر ایسا ہے تو پورے مصر میں باقی سکوائرز کے حقوق کہا ں ہیں کہ وہ اپنی مرضی کی صدارتی کونسل منتخب کرسکیں۔ ‘‘ کامریڈ سعید لازمی طور پر یادداشت کی کمزوری کا شکار ہیں۔ ان کو ابھی سے یہ بات بھول گئی ہے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے پورے مصر کی سڑکیں اور سکوائرز لوگوں سے بھر گئے تھے جو یہ مطالبہ کررہے تھے کہ حسنی مبارک اور اس کی بدعنوان حکومت کا خاتمہ ہو۔
مبارک کی ناپسند حکومت کو ہٹانے میں’’مصر کے تمام سکوائرز‘‘ شامل تھے۔ اور انہوں نے یہ سب بغیر کسی ’’بیرونی طاقت کی امداد‘‘ سے کیا تھا۔مثلا یہ تھا کہ انہوں نے انقلاب کو آگے نہیں بڑھایا اور مکمل طورپر اس گلی سڑی ریاست کی عمارت کو نہیں اکھاڑ پھینکا جو مبارک کی طاقت تھی: انہوں نے بینکاروں اور سرمایہ داروں کی نجی ملکیتوں کو ضبط نہیں کیا، پرانی ریاست کی مشینری فوجی جرنیلوں، پولیس افسران، ججوں اور بیوروکریٹوں کا صفایا نہیں کیا۔یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انقلاب خطرے میں پڑگیا ہے۔
رپورٹ کے اختتام میں کہا گیا ہے: ’’ صدارتی کونسل سے سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ وہ طاقت کی منتقلی سویلین ہاتھوں میں آنے کا سوال اٹھا سکتی ہے۔اس نے مصری لوگوں سے اس بات کی اپیل کی کہ وہ فیصلہ کن انتخابات کا بائیکاٹ نہ کریں۔شہریوں کو انتخابات کے نتائج کو ماننا چاہئے، اس نے کہا، کیونکہ نتائج کو نہ ماننے سے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں، جن سے آگے چل کر سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔اپنی تقریر میں، سعید نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے کہا مصری سوسائٹی میں ابھرنے والے تنازعات اور تقسیم ریاست کے خاتمے کی وجہ بن سکتے ہیں۔‘‘
کیا یہ ناقابل یقین نہیں؟ اس ’’بائیں بازو ‘‘ کے نمائندے کے مطابق،ایک سویلین گورنمنٹ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ فوج کے امیدوار کے ہاتھوں میں طاقت دے دیں!اس نے مصری لوگوں سے اس بات کی اپیل کی کہ وہ فیصلہ کن انتخابات کا بائیکاٹ نہ کریں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’کھیل کے ان اصولوں ‘‘ کو مان لیا جائے، جو کہ ناقابل اعتماد جرنیلوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے بنائے ہیں۔ وہ شہریوں کو خبردار کرتا ہے کہ دھاندلی سے بھرپور انتخابات کے نتائج کو نہ ماننا، یعنی کہ رد انقلابیوں کی ’’جیت ‘‘ کو نہ ماننا، اس سے بہت’’ سنگین نتائج‘‘ مرتب ہوں گے۔ یعنی ’’ مصری سوسائٹی میں موجود تنازعات اور تقسیم ریاست کے خاتمے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ‘‘
ہم کس ریاست کی بات کر رہے ہیں؟ جمہوریت کے ایک صحافی ہمیں وضاحت دیتے ہیں’’جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ فوجی کونسل نے ان بنیادی پہلوؤں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جن کو مبارک کے جانے کے بعد پچھلے 16 مہینوں میں ہمیں سنبھالناچاہئے تھا۔ میرا مطلب ہے کہ پچھلے تین مہینے ہم انتخابات میں گئے، جو کہ بالکل بیکارثابت ہوئے۔ سیکیورٹی کے کام کرنے کے طریقہ کار میں کوئی اصلاحات نہیں ہوئیں، میڈیا میں بھی کوئی اصلاحات نہیں ہوئیں۔ عدلیہ میں بھی کوئی اصلاحات نہیں ہوئیں۔ تو حقیقت میں، مبارک کی حکومت ابھی بھی اسی جگہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ، اس حکومت کا آخری وزیر اعظم اب اخوان المسلمین کے مقابل ہے، یہی مصر کی سیاسی صورت حال کا منظرنامہ ہے جو کہ دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ ‘‘’’ سب سے بڑھ کر قابل نفرت ایمرجنسی قانون ابھی بھی چل رہے ہیں، جن کو کچھ ہی ہفتوں پہلے ختم کیا گیا تھا، ان کو تبدیل کر کے اس سے ملتے جلتے قوانین لاگو کیے گئے ہیں، جن کی رو سے فوجی پولیس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عام شہریوں کو گرفتار کر کے ان کا مقدمہ کرسکتے ہیں۔ منگل کے روز، اس میں اضافہ کر کے آئین میں ایسی ترامیم کی گئیں جن کے تحت سکاف کو آئینی اور بیرونی تعلقات کی حکمت عملی سے متعلق تمام اہم امور میں ویٹو کا حق حاصل ہوگا۔ ‘‘
ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات بہت واضح ہے کہ، ریاست کے ختم ہوجانے کے ڈر سے زیادہ، تمام حقیقی انقلابیوں کا فریضہ یہ ہے کہ وہ فوجی بیوروکریسی پر محیط ریاست کی تمام باقیات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیں۔ریاست جو کہ مصری لوگوں کا استحصال کرنے والوں کی نمائندہ ہے، اس کی جگہ ایک ایسی حقیقی جمہوری ریاست کا قیام جس کا اقتدار اکثریت کے ہاتھ میں ہو،یعنی محنت کشوں اور کسانوں کے ہاتھ میں۔
کیونکہ انقلاب یہ سب کرنے کے بیچ میں رک گیاہے، اسی وجہ سے پرانی حکومت کی قوتیں واپس آنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔وہ گھڑیال کو واپس گھمانے کی کوشش کر رہے ہیں، مصر کے انقلاب کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور لوگوں کی گردنوں پر ایک بھاری فوجی بوٹ رکھ کر ان کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے تناظر کے مد نظر، ہر کمیونسٹ اور سوشلسٹ، ہر طبقاتی شعور رکھنے والے محنت کش اور ترقی پسند دانشور، ہر مستقل مزاج انقلابی ڈیموکریٹ کو رد انقلابی قوتوں کا ڈٹ کے مقابلہ کرنا ہوگا۔
تجمع کے لیڈروں پر ابدی شرم کیونکہ وہ مورچوں کی غلط سمت پر کھڑے ہوئے ہیں: انقلابی لوگوں کے مخالف، رد انقلابیوں کے ساتھ۔

لیڈرشپ کا سوال
جیسے، جیسے وقت گزتا جارہا ہے، ایک انقلابی پارٹی اور لیڈرشپ کی ضرورت اور زیادہ واضح ہوتی جارہی ہے۔ لیکن یہ موجود نہیں ہے، یا اس کا وجود اپنے ابتدائی مرحلوں میں ہے۔ انقلابی سوشلسٹوں کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنے آپ کو اس مقام تک اٹھا لیں۔ نوجوانوں میں ان کی بنیادیں موجود ہیں،کچھ محنت کشوں پر ان کا اثر بھی قائم ہے اور ان کی انتھک محنت کی وجہ سے تحریر سکوائر میں بھی ان کی اتھارٹی ہے۔ لیکن ان سب حاصلات کا بغیرکسی انقلابی حکمت عملی کو اپنائے کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا۔
ہم نے پہلے ہی ان کامریڈوں کی اخوان المسلمین کے حوالے سے مؤقف پر اپنے تجزیہ دے دیا ہے۔ انہوں نے انتخابات کے دوسرے مرحلے پر اخوان المسلمین کو ووٹ دینے کے لیے صرف کال ہی نہیں دی بلکہ انہوں نے بائیں بازو کی جماعتوں کو اخوان المسلمین کے ساتھ ایک متحدہ گورنمنٹ بنا نے کا کہا تاکہ ’’انقلاب کو بچایا جاسکے۔ ‘‘ یہ ایک بنیادی غلطی ہے۔ معاملات کو مزید پیچیدہ بنانے کے لیے، بورژوا اخوان المسلمین کی طرف تو ان کا رویہ بڑا مصالحت آمیز ہے، لیکن محنت کشوں کی موومنٹ میں انہوں نے بڑا میکینیکل رویہ رکھا ہے۔ یہ بالکل واضح طور پر ویسا نہیں ہے جیسا ہم مارکس وادیوں سے توقع کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے وہ علیحدہ ہوگئے ہیں۔
بغاوت کے بعد آر ایس نے ایک بیان دیا کہ یہ اپنے مواد میں بہت اچھا ہے، لیکن مایوسی اور ناشناسی اس کی بنیادوں میں نظر آتی ہے۔ ایسی مایوس تعریف،جو کہ محنت کشوں اور عوام کی طاقت پر اعتماد کی کمی کی غمازی کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ غلط سیاسی تناظر بناتے ہیں۔
ایک طرف آر ایس کہتے ہیں’’ 11 فروری 2011 ء سے اخوان المسلمین ایک قدامت پسند جماعت رہی ہے۔‘‘ دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ اخوان المسلمین انقلابی موومنٹ کا حصہ ہے۔ اسی وجہ سے، وہ اپنی غلطیاں دہرا رہے ہیں، اور مزید گہری غلطیاں کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں’’ ہم انقلابی قوتوں کو کال دے رہے ہیں،تاکہ فوجی بغاوت اور آئین کی ڈیکلیریشن میں تبدیلی کے خلاف ایک موومنٹ بنائی جاسکے۔‘‘ان ’’انقلابی قوتوں‘‘میں اخوان المسلمین بھی شامل ہیں۔
یہ بالکل جھوٹ ہے۔ اخوان المسلمین کبھی بھی ایک انقلابی قوت نہیں رہی ہے۔ انقلابی سوشلسٹوں کی لیڈرشپ نے ایک ایسی غلطی کی ہے، جو کہ تجمع پارٹی کی لیڈرشپ کی غلطی کا دوسرا رخ ہے۔تجمع پارٹی اخوان المسلمین کی مخالفت کرتی ہے لیکن انہوں نے ایک انتہائی غلط پوزیشن لی ہوئی ہے، مصری بورژوازی کے رد انقلابی حصے کی کھلم کھلا حمایت۔ جب تک اخوان المسلمین،جو کہ ’’حزب اختلاف ‘‘بنی ہوئی ہے اور جوبورژوازی کے اسلامسٹ ونگ کی رد انقلابی نمائندہ ہے، سکاف کی مجبوری کے تحت مخالفت کرتی ہے۔
عمل سے، نہ کہ صرف لفاظی سے، ہم کسی بھی ایسی کاروائی میں شامل ہوں گے، جس سے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو حکومت کے خلاف لایا جاسکے، اپنے انقلابی نعروں کے ساتھ،جن کا مقصد اخوان المسلمین کے چہرے سے نقاب اتارنا اور اس کو بدنام کرنا ہوگا، نہ کہ اخوان المسلمین کی ’‘انقلابی‘‘ساکھ کے بارے میں مزید کوئی بدنامی پھیلانا۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اخوان المسلمین کے بورژوا لیڈران بالکل بھی انقلابی نہیں ہیں، اور وہ حکومت کے خلاف عمل کا بہت ہچکچاہٹ کے بعد ہی کہیں گے، ان کی طاقت میں جو بھی ممکن ہوا، وہ کریں گے تاکہ عوام کو محدود کرسکیں اور ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈال کر انہیں حقیقی انقلابی عمل کرنے سے روک سکیں، اور وہ عوام کا سہارا صرف اس لیے لے رہے ہیں تاکہ وہ اپنے لیے کچھ مراعات حاصل کرسکیں، اور یہ کہ وہ موومنٹ سے علیحدہ ہوجائیں گے جیسے ہی انہوں نے اپنے لیے کچھ معمولی مراعات حاصل کرلیں۔
انقلابی سوشلسٹوں کا کام یہ نہیں کہ اخوان المسلمین کو ’’انقلابی تحریک کا حصہ ‘‘ بنا کر پیش کریں، محنت کشوں کو ان کو ووٹ دینے کا کہیں اور ڈیمانڈ کریں کہ ایک متحدہ گورنمنٹ بنے جس میں اخوان المسلمین بھی شامل ہوں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ ہرایک موقع جو انہیں ملتا ہے، اس کو استعمال کر کے اخوان المسلمین کو عوام میں بے نقاب کریں اور عوام کو اخوان المسلمین کے مہلک اثرات سے آزاد کریں۔

ہمارا رویہ کیسا ہو؟
میں نے انتخابات کے پہلے مرحلے کے بارے میں لکھا ہے، جو کہ انتخابات کا سب سے دلچسپ مرحلہ تھا، لیکن انتخابات کہ دوسرے مرحلے میں بھی کچھ دلچسپ تبدیلیاں نظر آئیں۔ شاید ہم کبھی اصلی نتائج نہ جان پائیں، لیکن یہ بات صاف ہے کہ اس میں شدید دھاندلی ہوئی۔ تمام معتبر ذرائع اس بات کا اشارہ کر رہے تھے کہ 15 سے 20 فیصد ووٹروں نے ووٹ دیے تھے، لیکن سرکاری ذرائع ( جو کہ لیک ہوگئے تھے) 45 فیصد ووٹ کی طرف اشارہ کرتے ہیں (جو کہ پہلے مرحلے میں پڑنے والے ووٹوں کے برابر یا کچھ زیادہ ہے)۔ یہ ایک مذاق ہے۔
بہت زیادہ تعداد میں غیر حاضریاں تھیں، جس سے پہلے مرحلے میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف نفرت نظر آرہی تھی۔ کئی لوگوں نے انتخابات کا بائیکا ٹ کرنے کو ترجیح دی، جو کہ موجودہ حالات میں بالکل صحیح حکمت عملی تھی۔ جیسا کہ عمر کمیل، ایک مصری کارکن نے کہا: ’’اگر مصریوں کو گندگی کھانے اور گندگی کھانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو، تو مصری کہیں گے، ہمیں بھوک نہیں لگی۔ ‘‘
ساتھ ہی، سکاف کی طرف پارلیمینٹ کو تحلیل کرنے اور ملتے جلتے اقدامات کرنے کی وجہ سے بہت غصہ ہے۔کسی نے الجزیرہ چینل سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہمیں معلوم ہے کہ پارلیمینٹ میں بیٹھے بدعنوان حرامزادے کسی کام کے نہ تھے، لیکن سکاف کو کوئی حق نہیں کہ وہ پارلیمینٹ کو تحلیل کرے۔‘‘ یہ حالات کا بالکل صحیح خلاصہ ہے۔
فوج اور اخوان المسلمین کے تضاد نے مصر کی بورژوازی کے دو مخالف کیمپوں میں کھلی جنگ شروع کردی ہے۔ محنت کش طبقہ بورژوازی کے ان گروپوں میں سے کسی کی حمایت نہیں کرتا۔لیکن ہم اس جدوجہد سے آنکھیں بند نہیں کیے ہوئے، جو کہ اب مصر کی سیاسی زندگی پر حاوی ہے۔
مصری مارکسسٹوں کو پارلیمینٹ کے تحلیل ہونے کے حوالے سے کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟ ایک طرف ہمیں، پارلیمینٹ کے کردار کے حوالے سے کوئی بھی دھوکہ نہیں ہے، اور اس پارلیمینٹ کے حوالے سے تو قطعی طور پر نہیں ہے، جو کہ ایک عام بورژوا پارلیمینٹ کے سامنے ایسا ہے جیسا کہ ایک بلی شیر کے سامنے۔یہ ایک قابل رحم لاش ہے۔ جی ہاں بالکل ایسا ہے! لیکن ساتھ ہی ہمیں پرانی حکومت کی اس پارلیمینٹ کو تحلیل کرنے کی کسی بھی چال کے خلاف لڑنا ہوگا، کیونکہ اس کا مطلب انقلاب کے لیے ایک قدم پیچھے جانا ہوگا اور رد انقلاب کے لیے ایک جیت۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جرنیل اس وقت طاقت اور برتری کے احساس سے پھولے نہ سما پا رہے ہوں گے اور ان کا اعتماد حد سے زیادہ بڑھا ہوا ہوگا اور یہی ان کی سب سے سنجیدہ غلطی ثابت ہوسکتی ہے۔ شفیق کے گرد جمع رد انقلاب کے ایجنٹ اس وقت جیتنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔یہ ایک بہت بڑی دھمکی ہے۔جس سے عوام کا غصہ بھڑک سکتا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ ان دھمکیوں کی وجہ سے انقلاب اور زیادہ ریڈیکلائز ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سامراج کسی بھی قسم کی پبلک ڈیکلیریشن دینے سے بہت محتاط ہے۔ ان کی’’جمہوریت‘‘ کی مو شگافیوں کے برعکس، کلنٹن اور ان کے باقی غنڈے ساتھی بالکل بھی پریشان نہیں ہوں گے اگر جرنیل دوبارہ طاقت میں آکر ان کی گود میں آجائیں۔ لیکن، وہ سمجھتے ہیں کہ، اس سمت میں وقت سے پہلے اٹھایا جانے والا کوئی بھی قدم ایک ناقابل کنٹرول دھماکے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔اسی وجہ سے واشنگٹن بڑے محتاط طریقے سے اخوان المسلمین کے لیڈروں کے ساتھ روابط قائم کررہا ہے۔

محنت کش طبقے کا اہم کردار
انقلاب، باجے بجاتے ہوئے کوئی مارچ کرنا نہیں ہوتاہے۔ یہ کئی سالوں تک چلتا ہے، جس میں ناگزیر طور پر رکاوٹیں اور تیزی آتی ہے۔رد انقلاب حملے کر رہا ہے، جیسا کہ روس کے انقلاب میں جون اور جولائی 1917ء کو ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد ایک زیادہ شدید، طاقتور موومنٹ انقلاب کی سمت میں چلی تھی، جس کا اختتا م بالشویک انقلاب کی صورت میں ہوا۔ انقلاب روس صرف کچھ مہینوں کے عرصے میں اس لیے ہوا تھا کیونکہ وہاں بالشویک پارٹی لینن اور ٹراٹسکی کی لیڈرشپ میں موجود تھی۔ اگر مصر میں ایسی کوئی پارٹی موجود ہوتی، تو محنت کش طبقہ اب تک طاقت میں آچکا ہوتا۔ یہ قیادت کا بحران ہی ہے جس کی وجہ سے انقلاب ابھی تک اپنے مقاصدنہیں حاصل کرسکا۔
انقلابی عوام نے بار بار اپنے لڑائی لڑنے کی صلاحیتوں کا لوہا، مظاہروں، احتجاجوں اورْ قبضوں کی صورت میں منوایا ہے۔ یہ عوامی موومنٹ کی طاقت ہے، نہ کہ اوپر بیٹھے ہوئے لوگوں کا مخصوص اکٹھ، جو کہ جنتا کو واپس جانے پر مجبور کرے گا۔ اخوان المسلمین کے ساتھ ڈیلز کرنے کا بالکل متضاد نتیجہ نکلے گا۔ وہ عوام کے طبقاتی شعور کو کم کریں گے اور ان کو کہیں گے کہ وہ تماشائیوں کی طرح بیٹھ کر پارلیمینٹ اور سیاست دانوں کو دیکھنے کا رول مان لیں اور سیاسست دانوں کی طرف دیکھیں کہ کب وہ ان کے مسائل حل کریں گے، بجائے اس کے کہ وہ اپنی طاقت پر بھروسہ کریں۔
الیکشن کے مختلف مرحلے یا معاہدوں سے نہیں، بلکہ مظاہرے اور احتجاج ہی وہ طریقہ ہیں، جو کہ واحد امید ہیں جس سے پہلے سے چلی آرہی حکومت کا تختہ الٹایا جاسکتا ہے۔جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ایک مصر بھرمیں عام ہڑتال ہے، جس میں پرانی حکومت کو ہٹانے کا مطالبہ بھی ہو۔ اس کی تیاری صرف سڑکوں پر احتجاجوں اور ہڑتالوں کے سلسلے کو بڑھا کر ہی کی جاسکتی ہے، جس میں روٹی، نوکریوں اور گھروں کے مطالبے بھی جمہوری نعروں کے ساتھ ہوں، خاص طور پر ایک انقلابی آئینی پارلیمینٹ کے قیام کا مطالبہ۔
مصر کے انقلاب کی سب سے اہم موٹر فورس محنت کش طبقہ ہے۔ ہڑتالوں کا سلسلہ اپنے چھٹے سال تک آپہنچا ہے، ابھی اس کا کوئی اختتام نہیں نظر آرہا۔ کوئی صدارتی امیدوار، کوئی ملا اور کوئی جرنیل اس کو نہیں روک سکتا، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی محنت کشوں اور ان کے خاندانوں کے اصل اور شدید مسائل کا حل نہیں دے سکتا۔ان ہڑتالوں نے بار بار محنت کشوں کوفوج کے آمنے سامنے مقابلے میں کھڑا کیا ہے۔محنت کش اپنے تجربے سے سیکھ رہے ہیں کہ جب تک فوجی جنتا طاقت میں رہے گی تب تک کوئی بھی حل ممکن نہیں ہے۔محنت کشوں کی جدوجہد، ضرورت کے تحت، ایک سیاسی جدوجہد ہے۔محنت کشوں کی جدوجہد نے انہیں اخوان المسلمین کے سامنے بھی ایک تضاد کی وجہ سے کھڑا کیا ہے، اخوان المسلمین جو کہ مالکان کی نمائندہ ہے۔ محنت کشوں کی باشعور پرتیں کسی طرح کے دھوکے میں نہیں کہ اس آرگنائزیشن کا طبقاتی کردار کیا ہے اور یہ کس کے مفادات کا دفاع کرتی ہے۔جیسے، جیسے وقت گزرتا جائے گا، اخوان المسلمین شدت کے ساتھ بے نقاب ہوتی جائے گی۔غریبوں اور نوجوانوں کے حصوں میں بے نقاب ہونے کے بعد یہ عمل اور تیز ہوجائے گا، جس سے مزید ٹوٹ پھوٹ اورسپلٹس ہوں گی۔
اس وقت اور بھی فائدہ ہوگا اگر انقلابی سوشلسٹ اخوان المسلمین سے بالکل علیحدگی اختیار کرلیں اورایک واضح اور آزاد طبقاتی نقطہ نظر اپنائیں۔ہم انقلابی سوشلسٹوں کے کارکنوں کو کال دیتے ہیں کہ وہ اپنی قیادت کی غلط پوزیشن کو درست کریں۔سب سے خاص شرط آپ کی کامیابی کے لیے اور مصر کے انقلاب کی کامیابی کیلئے یہ ہے کہ محنت کش طبقہ مصر کی عوام کی قیادت کرے۔ لیکن، یہ تب ہی ممکن ہوگا، جب مصر کی بورژوازی کے ہر حصے کہ خلاف ایک شدید لڑائی لڑی جائے، خاص طور پر اخوان المسلمین کے خلاف۔
اخوان المسلمین پر کوئی اعتماد نہیں!
مصر کے محنت کشوں کو صرف اپنی طاقت اورتنظیم پر اعتماد کرنا ہوگا!
احتجاجوں اور ہڑتالوں کومنظم کرنا ہوگا تاکہ ایک عام ہڑتال کی تیاری کی جاسکے!
فوجی جنتا مردہ باد! ایک انقلابی آئینی اسمبلی کے لیے جدوجہد!

مارکسسٹ ڈاٹ کام، 21جون 2012ء
متعلقہ:

اخوان المسلمون کی جیت؛ لگا ہے مصر کا بازار دیکھو