| تحریر: لال خان |
زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں عوام نہ صرف سفر بلکہ دوسری کئی سروسز کے لئے سرکاری شعبے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ لوگ ’’گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس‘‘ کی بسوں پر سفر کرنا پسند کرتے تھے۔ ریل کا سفر بھی بڑی حد تک وسیلہ ظفر ہوا کرتا تھا۔ بجلی، گیس یا ریلوے وغیرہ کے ادارے اگرچہ مکمل طور پر ریاستی ملکیت میں تھے لیکن تعلیم اور علاج کے سہولیات میں نجی شعبے کی محدود مداخلت کے باوجود عوام سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ آج کی نوجوان نسل شاید سوچ بھی نہیں سکتی کہ سرکاری شعبے کی خدمات اور سہولیات کی قیمت انتہائی کم جبکہ معیار حیران کن حد تک بہتر ہوا کرتا تھا۔
یہ درست ہے کہ فراڈ، دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی اور مطلب پرستی جیسی سماجی اور اخلاقی برائیاں اس وقت بھی موجود تھیں لیکن بدعنوانی اور منافقت کم از کم سماجی معمول نہ تھے۔ رشوت لینے والا شرمندگی، فریب دینے والا پراگندگی اور جھوٹ بولنے والا اضطراب کی کیفیت سے ضرور گزرا کرتا تھا۔ آج یہ سب دھڑلے سے کیا جاتا ہے اور ضمیر کی موت کامیابی کی ضمانت بن گئی ہے۔
1980ء کی دہائی میں سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کا وہ طریقہ کار عالمی سطح پر زوال پزیر ہونا شروع ہو گیا جیسے ’’ریاستی سرمایہ داری‘‘ یا ’’کینیشین ازم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس معاشی ماڈل کے تحت جاپان، کوریا اور یورپ جیسے ممالک میں بے پناہ ترقی ہوئی تھی۔ چار ’’ایشین ٹائیگر‘‘ معیشت میں ریاست کی بڑی مداخلت اور معاشی منصوبہ بندی کی پیداوار تھے۔ ریاستی سرمایہ داری کے تحت دوسری جنگ عظیم سے 1974ء تک قائم رہنے والے عالمی سرمایہ داری کے معاشی عروج کے ثانوی اثرات پاکستان جیسے سابقہ نوآبادیاتی ممالک پر بھی مرتب ہوئے۔ بڑے سرکاری اداروں کی تعمیر اور انفراسٹرکچر میں ریاستی سرمایہ کاری کے ذریعے یہاں کے حکمرانوں نے عوام کے لئے کچھ سنجیدہ اصلاحات کرنے کی کوشش بھی کی لیکن سرمایہ داری جیسے متروک نظام کو مصنوعی طریقوں سے لمبے عرصے تک چلانا نا ممکن تھا۔ یورپ اور امریکہ میں مہلک سٹیگ فلیشن (افراط زر کے باوجود منجمد معاشی نمو) کی موجودگی میں 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد OPEC کے عرب ممبران نے تیل کی برآمد پر پابندی عائد کر دی۔ تیل کی قیمت 3 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 12 ڈالر تک جا پہنچی۔ سطح کے نیچے پنپنے والے معاشی تضادات دھماکہ خیز انداز میں پھٹ پڑے اور تقریباً تین دہائیوں کے معاشی عروج کے بعد ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی معیشتیں گہرے بحران کا شکار ہو گئیں۔ عالمی سرمایہ داری کے اس بحران نے پاکستان جیسے ممالک کی معیشتوں پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب کئے اور ذوالفقار علی بھٹو کی ادھوری نیشنلائزیشن کی ناکامی زیادہ یقینی ہوگئی۔
ایوب آمریت کے عہد (1958-69) میں بلند شرح نمو سے ہونے والی تیز معاشی ترقی کا سماجی کردار انتہائی غیر ہموار تھا۔ اس دور میں ہونے والی صنعتکاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر سے سماجی تضادات بھڑک کر 1968-69ء میں ایک انقلابی تحریک کی شکل میں پھٹ پڑے۔ سوشلسٹ انقلاب کی امنگ سینوں میں لئے محنت کش عوام اور نوجوانوں نے پورے نظام کو چلنج کر ڈالا۔ فیکٹریوں، تعلیمی اداروں اور جاگیروں پر قبضے ہونے لگے، ریاست مفلوج ہو گئی، ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑالیکن انقلابی قیادت اور پارٹی کے فقدان کی وجہ سے یہ تحریک سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہی۔
ریاستی سرمایہ داری کی ناکامی کے بعد 1980ء کی دہائی میں عالمی سرمایہ داری کے معاشی پالیسی سازوں نے ’’آزاد‘‘ منڈی پر مبنی 1860ء کی دہائی کا معاشی ماڈل دوبارہ سے نافذ کرنے کی کوشش کی۔ مانیٹر ازم، نیو لبرل ازم اور ٹریکل ڈاؤن اکانومکس جیسی اصطلاحات اسی معاشی ماڈل کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ امریکی صدر رانلڈ ریگن اور برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی مناسبت سے ان معاشی پالیسیوں کو ریگن ازم یا تھیچر ازم کا نام بھی دیا جاتا تھا جن کے تحت معیشت میں ریاست کے کردار کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ تیسری دنیا میں سامراج کے حواری معیشت دان اپنے آقاؤں کا پڑھایا ہوا سبق طوطے کی طرح دہراتے ہیں۔ یہ حضرات تماشے کے ان بندروں سے زیادہ مختلف نہیں ہیں جو مداری کی آواز پر کبھی ناچتے تو کبھی ’سیلوٹ‘ مارتے ہیں۔ ہمارے حکمران طبقات کی معاشی اور سیاسی پالیسیاں ہمیشہ مغربی سامراج کی اسیر ہوتی ہیں چنانچہ 1980ء کی دہائی میں یہاں بھی نجکاری اور نیو لبرل سرمایہ داری کے نفاذ کا آغاز ہوا۔ اس ملک کے سب سے خونخوار آمر ضیا الحق نے وہ تمام صنعتیں ’’سود سمیت‘‘ سرمایہ داروں کو واپس کیں جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں نیشنلائز کیا گیا تھا۔ شریف خاندان سمیت حکمران طبقے کے جن افراد یا خاندانوں کو پیپلز پارٹی حکومت کی پالیسیوں سے ضرب لگی تھی انہیں فوجی آمریت کے سیاسی اقتدار میں حصہ دیا گیا۔ قومیائی گئی صنعتوں کی سرمایہ داروں کو واپسی کے بعد ہر شعبے میں نجی کاری کے عمل کا آغاز ہوا۔
سوویت یونین اور چین میں سٹالن ازم کی ناکامی کی طرح سرمایہ دارانہ بنیادوں پر نیشنلائزیشن کی بدعنوانی اور نامرادی کا الزام بھی سوشلزم کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔ موت کسی کی اور ماتم کسی اور کا ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن دراصل بیوروکریٹائزیشن تھی۔ سرکاری شعبے کا کنٹرول اور فیصلہ سازی محنت کشوں کی اشتراکی کمیٹیوں کو دئیے بغیر سرمائے کا کردار ختم نہیں ہو سکتا اور بدعنوانی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ کسی بیوروکریٹ یا سابقہ جرنیل کو ادارے کا کرتا دھرتا بنا دینے سے حاکم اور محکوم کی تفریق اور مفاد پرستی کی نفسیات ختم نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن ہجم کے لحاظ سے بھی ادھوری تھی۔ پوری معیشت اور مالیاتی شعبے کو ریاستی تحویل میں لے کر منڈی کا خاتمہ اور معاشی منصوبہ بندی کا آغاز نہیں کیا گیا۔ سب سے زیادہ استحصال اور لوٹ مار میں ملوث سامراجی اجارہ داریوں کو تو چھوا بھی نہیں گیا تھا۔ ان ادھوری اور بعض صورتوں میں بے دلی سے کی گئی اصلاحات اور اقدامات نے بھٹو حکومت کو بحران اور انتشار سے دو چار کر دیا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی سامراج کی ایما پر فوج نے انہیں معزول کر دیا۔ بھٹو نے اپنی آخری کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں ادھورا انقلاب کرنے کی غلطی کو تسلیم کیا ہے۔
نیو لبرل ازم کی بنیاد دراصل ’’ٹریکل ڈاؤن‘‘ معیشت کا بیہودہ مفروضہ ہے۔ یعنی محنت کش عوام کے ٹیکسوں اور خون پسینے سے تعمیر کئے گئے ریاستی اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ سرمایہ داروں کو بیچ دیا جائے، ریاست معیشت میں سے ہر قسم کی مداخلت اور کنٹرول ختم کر دے یعنی سرمایہ داروں کو استحصال اور لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے کر سرمایہ کاری کے لئے ’’ساز گار‘‘ ماحول پیدا کیا جائے، سرمایہ دار طبقے اور امیروں پر نہ صرف ٹیکسوں کی شرح کم کردی جائے بلکہ بوقت ضرورت ریاست سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ یا قرضے کی معافی کی شکل میں ’’ٹیکس‘‘ ادا کرے۔ ان تمام مراعات، سہولیات اور عیاشیوں کے ذریعے سرمایہ دار اپنی شرح منافع میں لا محدود اضافہ کریں گے اور جب ان کے جام بھر جانے کے بعد چھلکنے لگیں گے تو نیچے گرنے والے چند قطروں (ٹریکل ڈاؤن) سے کروڑوں اربوں کیڑے مکوڑے اپنی پیاس بجھائیں گے۔ یہ سرمایہ داری کا ’’جدید‘‘ ماڈل ہے جس پر اس ملک کی تمام حاوی سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔
عالمی سطح پر سرمایہ دارطبقے اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے جام گزشتہ چار دہائیوں سے نہیں بھر پائے ہیں اور نہ ہی بھر سکتے ہیں۔ امریکہ میں محنت کشوں کی حقیقی اجرت 1975ء کے بعد سے منجمد ہے۔ یورپ میں نجکاری کے ذریعے فلاحی ریاست کو تار تار کیا جارہا ہے۔ سرمایہ داروں نے 32 ہزار ارب ڈالر اپنی تجوریوں میں یرغمال بنا رکھے ہیں اور مطلوبہ شرح منافع نہ ملنے کی وجہ سے سرمایہ کاری کرنے سے انکاری ہیں۔ 2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد سے ایک کے بعد دوسری ریاست غیر اعلانیہ طور پر دیوالیہ ہو رہی ہے۔ بیروزگاری دنیا بھر میں ایک وبا کی طرح نوجوان نسل کا مستقبل اندھیر کر رہی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے سرمایہ دار روز اول سے ہوس، کمینگی اور لالچ میں اپنی مثال آپ رہے ہیں۔ انہوں نے دولت کو ’’ٹریکل ڈاؤن‘‘ تو کیا کرنا تھا الٹا بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کے ذریعے ریاست کو ہی کنگال کر ڈالا ہے۔ اس ملک کے سرمایہ دار کبھی ریاست کو ٹیکس دیں گے نہ ہی یہ بدعنوان اور مفلوج ریاست ان سے لے سکتی ہے۔ ریاستی قرضوں کے گھن چکر میں 90 فیصد بالواسطہ ٹیکس دینے والے عوام برباد ہورہے ہیں۔ 1977ء کے بعد آنے والی ہر حکومت ڈاؤن سائزنگ، قرضہ خوری اور نجکاری کے اسی نیو لبرل ماڈل پر عمل پیرا رہی ہے جس کے ’’فضائل‘‘ آج سب کے سامنے ہیں۔
ضیا الحق کی ہلاکت کے بعد جب ریاست شدید سیاسی بحران سے دوچار تھی تو سامراج کی مداخلت سے بینظیر کے ساتھ پہلی ڈیل کے ذریعے پیپلز پارٹی کو اقتدار دے کر عوام کی ابھرتی ہوئی بغاوت کو زائل کیا گیا۔ محنت کش طبقے کی کھلی دشمن، نجکاری کی عالمی علمبردار اور برطانوی عوام میں ’’بچوں کا دودھ چھیننے والی ڈائن‘‘ کے نام سے مشہور مارگریٹ تھیچر، محترمہ بینظیر بھٹو کی ’’آئیڈیل‘‘ تھی۔ یاد رہے کہ 1988ء کے انتخابی منشور میں پیپلز پارٹی قیادت نے واضح طور پر ڈی نیشنلائزیشن اور نجکاری کرنے کے ساتھ ساتھ ’’ریاستی مداخلت کی بجائے دوسرے طریقوں سے صنعتکاری‘‘ کے عمل کو آگے بڑھانے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ ’’دوسرا طریقہ‘‘ دراصل مارگریٹ تھیچر طرز کی جارحانہ نجکاری تھی جس سے برطانوی صنعت اور محنت کش طبقے کا بیڑا غرق ہوا۔ بینظیر نے برسر اقتدار آنے کے بعد پیپلز پارٹی کی 1967ء کی تاسیسی دستاویزات کو یکسر رد کرتے ہوئے ضیا الحق دور کی سرمایہ دارانہ اور سامراجی معاشی اور اقتصادی پالیسیاں جاری رکھیں۔ ’’مصالحت‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے نام پرنظریاتی انحراف اور موقع پرستی کا رجحان وقت کے ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔ 1993ء کی انتخابی مہم میں ایک ٹیلیوژن انٹرویو میں بینظیر نے فرمایا تھا کہ ’’نظریاتی سیاست اب پچھلی نشست پر چلی گئی ہے۔‘‘ اگلی نشست پر حکمران طبقے کی اطاعت، سامراج کی پیروی اور نجکاری کی پالیسی براجمان ہو چکی تھی۔ 1993ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ اور سامراج کی خوشنودی کے لئے ماضی کی نسبت زیادہ بڑے پیمانے پر نجکاری کا عمل شروع کیا اور 1996ء تک بیس صنعتی یونٹس اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ کے 12 فیصد شیئرز کے ساتھ ساتھ کچھ مالیاتی اداروں اور پاور پلانٹس کی نجکاری کی گئی۔ بعد ازاں پرویز مشرف نے PTCL کا کنٹرول مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کر دیا۔ بجلی کی پیداوار میں IPPs کی زہریلی سرایت بھی بینظیر بھٹو کے دور میں شروع ہوئی۔ سستی بجلی کے ریاستی منصوبوں کو ترک کے آٹھ گنا زیادہ قیمت پر نجی شعبے سے بجلی خریدنے کا عمل شروع کیا گیا۔ تھرمل پاور کے منصوبوں میں ریاست کی 75 فیصد سرمایہ کاری کے باوجود ملکیت اور منیجمنٹ نجی شعبے کو دے دی گئی، پیداواری صلاحیت کے 60 فیصد کے برابر ادائیگی کی گارنٹی اور ریٹ آف ریٹرن کی مد میں دوسری ادائیگیاں اس کے علاوہ تھیں۔ آج توانائی کا بحران، نہ ختم ہونے والی لوڈ شیڈنگ، برباد ہوتی ہوئی صنعت اور ہر مہینے بڑھتے ہوئے بجلی کے ریٹ اسی نجکاری کے ثمرات ہیں۔
پاکستان میں دائیں بازو اور سرمایہ داری کے کلاسیکی علمبردارشریف خاندان نے ضیا آمریت سے فیض حاصل کرتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا تھا۔ 1990ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے پہلی نشری تقریر میں وہی کہا تھا جو 2013ء میں وزیر اعظم بننے کے کچھ ہفتوں بعد کہا: ’’سیاست اور حکومت کا کاروبار میں کیا کام ہے؟ معیشت اور کاروبار تو بزنس کرنے والوں کا کام ہے۔ ‘‘سرمایہ داروں کی اس پارٹی نے برسر اقتدار آکر ہمیشہ وحشیانہ نجکاری اور مزدور دشمن پالیسیاں نافذ کی ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار بینکوں کی نجکاری کا آغاز 1991ء میں نواز شریف نے ہی کیا تھا جب مسلم کمرشل بینک کو کوڑیوں کے بھاؤ میاں منشا کو بیچ دیا گیاتھا۔ اس وقت بھی سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے دیو ہیکل قرضے معاف کئے گئے تھے اور یہ سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈال دیا گیاتھا۔ آج تقریباً پچیس سال بعداگر کوئی چیز مختلف ہے تو یہ کہ شریف خاندان اور میاں منشا سمیت سرمایہ دار طبقے کی دولت کے انبار کئی گنا بڑھ چکے ہیں جبکہ عوام 1990ء کی نسبت کہیں زیادہ محرومی، ذلت اور غربت کا شکار ہیں۔
ماضی میں ریاست اور دائیں بازو کے سیاستدان نجکاری کا نام لیتے ہوئے تھوڑا ہچکچایا ضرور کرتے تھے جس کی وجہ مضبوط ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک تھی۔ آج نجکاری کی ’’برکات‘‘ سر عام بیان کی جاتی ہیں۔ ٹیلی وژن اینکر ہوں یا حکمران طبقے کے تجزیہ نگار اور دانش ور، ہر مسئلے کا حل نجکاری کو قرار دیا جاتا ہے۔ یورپ سے لے کر چین اور ’’ایشین ٹائیگرز‘‘ تک، نجکاری کی تباہ کاریوں پر ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ پاکستان میں نجکاری نے ایک طرف کالے دھن کو فروغ دیا ہے تو دوسری طرف سامراجی اجارہ داریوں کے لئے لوٹ مار کے وسیع مواقع میسر آئے ہیں۔ محنت کش طبقے کے لئے یہ نجکاری مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، دہاڑی یا ٹھیکے کی مزدوری اور ’کچی نوکری‘ کے سوا کیا لائی ہے؟ پچھلی تین دہائیوں کی ہر ’’جمہوری‘‘ اور فوجی حکومت میں ’’وزارت نجکاری‘‘ قائم رہی ہے۔
نواز لیگ کی موجودہ حکومت نے نجکاری کا تازہ وار کرنے کی ذمہ داری IBM کے سابقہ چیف فنانشل افسر محمد زبیر کو سونپی ہے۔ محمد زبیر نے 25 ستمبر کو نئی دہلی میں ایک خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے پی آئی اے اور چند دوسرے اداروں کی نجکاری کے منصوبے پر روشنی ڈالی ہے۔ اس منصوبے کے مطابق کسی بکرے کی طرح پی آئی اے کے حصے بخرے خریداروں کو فروخت کئے جائیں گے۔ ادارے کو دو کمپنیوں میں تقسیم کیا جائے گا جبکہ متوقع خریداروں میں امارات، قطر اور اتحاد ایئرویز شامل ہیں۔ محمد زبیر نے تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ تازہ بیل آؤٹ سمجھتے کے تحت نجکاری کا عمل تیز کیا جارہا ہے اور چند ماہ میں 4ارب ڈالر کے اثاثے فروخت کئے جائیں گے۔
تیل اور گیس کی سرکاری کمپنی (OGDCL) کے 815 ملین ڈالر کے شیئر بھی فروخت کئے جارہے ہیں۔ OGDCL انتہائی منافع بخش ادارہ ہے جس کا ریونیو 223ارب روپے جبکہ سالانہ منافع تقریباً 100ارب روپے ہے۔ اس کے بعد نومبر اور مارچ کے دوران حبیب بینک کے 40 فیصد ریاستی شیئر فروخت کئے جائیں گے جن کی مالیت کا تخمینہ 1.2ارب ڈالر ہے۔ الائیڈ بینک میں 150 ملین ڈالر کے 7.5 فیصد ریاتی شیئر بھی فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ محمد زبیر کے مطابق اس ’’آمدن‘‘ سے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو ایک ہزار ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کی جائے گی۔ یہ سامراجی IPPs بعض اندازوں کے مطابق 1995ء سے اب تک 50 سے 75 ارب ڈالر کے منافع یہاں کے عوام سے نچوڑ کر بیرون ملک منتقل کر چکی ہیں جبکہ 2020ء تک ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت میں 20 ہزار میگا واٹ کے اضافے کے لئے صرف 32 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے۔
ہر دوسرے ریاستی ادارے کی طرح پی آئی اے ایک منافع بخش ریاستی ادارہ تھا جسے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت برباد کرنے کا عمل ضیا الحق کے دور حکومت میں نااہل اور بدعنوان افسران کی بھرتی کے ذریعے شروع کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ادارے کے منافع بخش روٹ ’’یار دوست‘‘ لوگوں کی نجی ایئر لائنز کو دے دئیے گئے جبکہ ادارے پر افسر شاہی کی طفیلی پرت براجمان کرنے کا عمل جاری رکھا گیا۔ آج ادارے پر 18 ڈائریکٹر اور 122 جی ایم مسلط ہیں جو محل نما دفاتر میں بیٹھ کر ادارے کو برباد کرنے کی موٹی تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کا کہنا ہے کہ مزدور ادارے پر بوجھ ہیں۔ تمام ائیر لائنز اپنی آمدن کا تیس فیصد ایمپلائز پر خرچ کرتی ہیں جبکہ پی آئی اے تمام تر سہولیات اور تنخواہیں ملا کراپنی آمدن کاصرف اٹھارہ فیصد ایمپلائز کو دیتی ہے۔ دنیا کی تمام ائیر لائنز سے سستا اور ہنر مند مزدور پی آئی اے کے پاس ہے جن سے دن رات کام لیا جاتا ہے اور معاوضہ انتہائی کم دیا جاتا ہے۔ مالیت اور اثاثوں کے اعتبار سے پی آئی اے بہت بڑا ادارہ ہے جس کے ’’موٹے مال‘‘ پر سرمایہ داری کے گدھ لمبے عرصے سے منڈلا رہے ہیں۔ نیویارک میں پی آئی اے کے ہوٹل روز ویلٹ کی قیمت ہی 300 ملین ڈالر (31 ارب روپے) سے زائد ہے۔ پی آئی اے کے پاس آپریشنز، انجینئرنگ، سروسز، ٹرانسپورٹ، کچن، کیٹرنگ، مارکیٹنگ، سٹورز، ہوٹلز، ریپئرنگ اور مینٹیننس سمیت تمام شعبہ جات اپنے ہیں جبکہ پرائیویٹ ائیر لائنز یہ تمام کام ٹھیکے پر کرواتی ہیں۔
اگر سرمایہ داروں کی یہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری میں کامیاب ہو جاتی ہے تو نہ صرف بارہ ہزار سے زائد محنت کش پہلے مرحلے میں ہی بیروزگار ہو جائیں گے بلکہ حکمران زیادہ خونخوار ہوکر دوسرے اداروں کو نوچ ڈالیں گے۔ یہ صورتحال پی آئی اے کے ان ملازمین کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جو خود کو دوسرے اداروں کے مزدوروں سے برتر سمجھتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کے مزدور تنہا اس بربریت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پورے طبقے کو یکجا ہوکر حکمرانوں کے ساتھ ساتھ غدار ٹریڈ یونین قیادتوں سے ٹکرانا ہوگا اور طبقاتی جنگ کو آخری معرکے تک لڑنا ہوگا۔
متعلقہ: