یکم نومبر2012ء کو جب تین جرنیل سپریم کورٹ کے سامنے بدعنوانی کے الزامات میں پیش ہوئے تو ان کی حالت چوہو ں جیسی تھی۔ وہ میڈیا سے ایسے بھاگ رہے تھے جیسے ملزم کی بجائے مجرم ہوں۔ انکی رعونت اور تکبر بڑا کھوکھلا سا ہو کر رہ گیا تھا۔ رسی جل چکی تھی گانٹھ قائم تھی۔ اس بات پرتو انکو یقین تھا کہ ان کے ساتھ کوئی بڑی واردات ہو نہیں سکتی۔ لیکن جرنیلوں کو ایسے سرعام رسوا ہونا بھی سماج نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ عدلیہ اس ریاست کے جبر کا آخری سہارا بن کررہی گئی ہے۔ لیکن جس نظام کو بچانے اور چلانے کے لیے اس ریاست کاوجود ہے وہ گل سڑ چکا ہے اور اس کو بچانے کے لیے جس بوکھلاہٹ کاعدلیہ مظاہرہ کررہی ہے وہ انکی غیر یقینی اورعدم استحکام کا اظہار ہے۔ لیکن فوج جب ناکام ونامراد ہے، سیاسی حکومتیں بربادیوں کا سندیسہ ہیں وہاں عدلیہ بھلا کیا کام کرسکے گی۔ لیکن فوجی افسران ان جرنیلوں کی اس ذلت پر دل برداشتہ بھی ہیں تلملا بھی رہے ہیں۔ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں کچھ کربھی نہیں سکتے۔ مالیاتی سرمائے کی سرائیت نے فوج کو اندر سے اتنا کھوکھلا کرچھوڑا ہے کہ وہ مارشل لاء بھی نہیں لگا سکتی۔ اس کو مسلط کرنے کے لیے جودل گردہ چاہیے اس کی آج کے جرنیلوں میں نہ اتنی ہمت ہے نہ جرات۔ این جی اوز کے پروگراموں میں سرگرم جرنیل سامراجی مصالحت پسندی (Reconciliation) کی پالیسی کے برعکس بھلا کیسے جاسکتے ہیں۔ کالے دھن اور سامراجی اسلحہ ساز کمپنیوں کے کمیشن ایجنٹ بھلا کیسے کوئی واردات کرسکتے ہیں۔ اسلامی بنیاد پرستی کو ضیاء الحق نے مکمل طور پر استعمال کرکے اس کو فارغ کردیاہے۔ پاکستانی قوم پرستی اور حب الوطنی کبھی اتنی طاقتور ہی نہیں تھی کہ صرف اس کے بلبوتے پر مارشل لاء لگائے جاسکیں۔ آج وہ اتنی لاغر اور بے معنی ہے کہ اس کا استعمال ممکن ہی نہیں رہا۔ آمریت اورجمہوریت کی بحث میں عوام کو مبتلا کرکے سیاست کرنے والوں سے عوام تنگ آچکے ہیں۔ اکتا گئے ہیں۔ بھلا کب تک لوگوں کو اس کھلواڑ میں الجھائے رکھاجاسکتا ہے۔ پولیس کے تھانوں سے لے کر سرمایہ داروں اورجاگیرداروں کے مزدوروں اور کسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں جمہوریت اور آمریت کے ادوار اور ’’نظاموں‘‘میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ انصاف اور قانون تک اس ملک کے 99فیصد عوام کی پہنچ نہیں ہے۔ تعلیم اور علاج امیروں کی عیاشیاں بن چکی ہیں۔ روزگار ٹھیکیداری نظام میں ایک عذاب مسلسل بن چکا ہے۔ مہنگائی اورغربت اس بحران زدہ سرمایہ داری میں مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ ان سے لوگ جسمانی اور ذہنی طور پر مجروح اور برباد ہورہے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں جمہوریت نے اذیتوں کو تقویت دی ہو‘جہاں آمریتوں نے جبر کی انتہا کردی ہو‘ جہاں سامراج نے بربریت کی انتہا کر دی ہو‘ جہاں مذہبی جنونیت کی دہشت گردی نے سماجی زندگی کو مفلوج اور گھائل کردیا ہو ‘وہاں عدلیہ کیاکرے گی۔ حکمران ریاست کے ان اداروں کا تصادم اس نظام کی بربادی کا اعلان کررہا ہے۔ عدلیہ کبھی پیپلزپارٹی دشمنی کا ڈھونگ کرتی ہے پھر معاملات طے ہوجانے کے بعد اسکی حلیف بن کر نظر آتی ہے۔ جہاں نواز لیگ اور عمران خان دائیں بازو کے ووٹ میں دراڑیں ڈال ر ہے ہوں‘ جہاں مذہبی جماعتیں اپنے سماجی اور سیاسی وجود کے خاتمے کو روکنے کے لیے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہوں، جہاں پیپلزپارٹی کی قیادت منظور وٹو کو لاکر اپنے مسلم لیگ ہونے کی کاوش کررہی ہو‘ وہاں سیاست سے عوام کی بیگانگی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ اورمحنت کش جب سیاست سے نالاں ہو کر اس سے بے مہر ہوجاتے ہیں تو پھر آخر کار انکو حالات وواقعات کسی اور ہی سیاست میں آنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ جب واپس تاریخ کے میدان کو لوٹتے ہیں تو وہاں ہاتھوں سے نہیں پیروں سے ووٹ ڈالتے ہیں۔ انقلاب کی سیاست کرتے ہیں۔ محنت کشوں کے سامنے تمام سیاست اورریاست کے ادارے بے نقاب اور مفلوج ہوچکے ہیں۔ یہ نظام اوراسکی ریاست وسیاست ان کے لیے سوائے بربادیوں کے کچھ نہیں لاتی۔ وہ اس کو اس وقت ذہنی طور پرمسترد کررہے ہیں۔ جلد اس کو عملی طورپر ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ کر اپنی نجات کے نظام کی تعمیر کریں گے۔
متعلقہ:
دیوتاؤں کا تصادم