11 ستمبر 2001 ء کے بعد کے گیارہ سال گزر جانے کے باوجود اس دہشت گردی کے واقعے کا حقیقی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے مفکروں اور تجریہ کاروں نے سیاق وسباق سے عاری سازشوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی لا محدود من گھڑت تھیوریا ں پیش کی ہیں۔امریکی سامراجی آقاؤں نے فٹا فٹ ایک مکمل تجزیہ اور منصوبہ پیش کر دیا جیسے کے پہلے سے تیا ر انکے درازوں میں پڑا ہوا تھا۔امن پر مبنی جسے سامراجی جارحیت کی انتقامی پالیسی کو فوری طور پر لاگو کر دیا اور پہلے افغانستان اور پھر عراق پر فوج کشی کا جواز بنا لیا۔ یہ واقعہ جس میں تین ہزار سے زائد امریکی محنت کش مارے گئے تھے جتنا المناک تھا اسکوامریکی سامراج نے اتنی ہی بے دردی اور سفاکی سے استعمال کیا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ 1990 ء کی دہائی میں رجعتیت پر ست سامراجی نظریہ دان سیمویل ہٹنگٹن نے جو ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا نظریہ پیش کیا تھا اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اتنا دیو ہیکل واقعہ تخلیق کیا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی تمام بڑی سلطنتوں نے اپنے معاشی سماجی اور ثقافتی زوال کے دوران ماضی کے فرسودہ نظاموں کو قائم رکھنے کے لئے ناکامی کی پراگندگیوں میں انتہائی بھیانک ظالمانہ اور سفاک حربے استعمال کئے۔ لیکن تاریخی طور پر متروک نظاموں کو وہ پھر بھی نہیں بچا سکے۔ امریکی سامراج کی تاریخ بھی جارحیت اور درندگی کی وارداتوں سے بھری پڑی ہے۔امریکی مداخلت سے پہلے ویت نام میں فرانسیسی سامراجیوں کی نو آبادکاری تھی جسکے خلاف چلنے والی جدوجہدِ آزادی نے 1950 ء کی دہائی میں ان کو ڈین بین پھو(Dien Bien Phu) کے مقام پر شکستِ فاش دی تھی۔ اس جنگ میں جب فرانسیسی سامراج کی شکست عیاں ہو گئی تو امریکی وزیرِ خارجہ جان فاسٹرڈلس نے فرانسیسی جرنیلوں کو دوایٹم بم ویت نام کے عوام پر پھینکنے کی پیش کش کی تھی۔ لیکن فرانس کے حکمران فرانسیسی محنت کشوں کے ردِعمل سے ڈر گئے اور ان کی شکست کے بعد امریکی سامراج نے ویت نام پر جو جارحیت کی اس میں جہاں امریکہ کے 58000 فوجی مارے گئے تھے وہاں 20 لاکھ ویت نامیوں کا خون کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود 1975 ء میں امریکی سامراج کو شکست اور ریخت کی ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن ستمبر 2001ء میں ہونے والی جدید تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی کی واردات سے القاعدہ اور اسلامی بنیاد پرستی کو بھی قطعاً مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ القاعدہ اور جدید اسلامی بنیاد پرستی کو بھی جنم اور فروغ دینے والا خود امریکی سامراج ہی تھا۔ افغانستان اور دوسرے ممالک میں بائیں بازو کے انقلابات اور تحریکوں کو کچلنے کے لئے امریکی سامراج نے پچھلی صدی سے لے کر آج تک‘ مصر سے لے کر انڈونیشیا تک اسلامی دہشت گردی کو استعمال کیا۔ سٹالنزم کے انہدام کی وجہ سے بائیں بازو کی وقتی پسپائی سے جنم لینے والے خلاء میں جب اسلامی بنیاد پرستی نے ابھرنے کی کوشش کی تو اس کی کالے دھن کی بنیاد کا سامراجی مالیاتی مفادات سے ایک ٹکراؤ پیدا ہو گیا۔سامراج کے یہ پالتو درندے اسی کو کاٹنے لگے۔ 2001 ء کے بعد کے گیارہ سالوں میں جہاں سامراجی جارحیت اور درندگی نے معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے وہاں ان اسلامی بنیاد پرست وحشیوں نے دنیا کے بیشتر خطوں میں بربر یت اور خونریزی کا بازار گرم کر رکھاہے۔ان درندوں کی اس باہمی لڑائی میں عام محنت کشوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ ذرئع ابلاغ حاوی سیاست دان اور ذرائع ابلاغ کے اَ ن داتا عوام کی ان دونوں نام نہاد وحشی حریفوں کی تفریق میں ایک یا دوسرے کا ساتھ دینے کا بھیانک کھلواڑ کر رہے ہیں۔’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریے کا مقصد محنت کش طبقات کی یکجہتی اور جدوجہد میں دراڑیں ڈال کر طبقاتی کشمکش کو کمزور کرنا ہے۔اسلامی بنیاد پرستی اور امریکی سامراجی ایک ہی معاشی نظام ‘سرمایہ داری پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی ظالمانہ اور دہشت ناک وارداتوں سے تقویت حاصل کرتے ہیں۔ نسلِ انسان کو آگ اور خون میں ڈبو کر وہ اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔دہشت گردی اور سامراجی جارحیت کے جبر سے محنت کشوں کو مسلسل خوف و ہراس کے عالم میں رکھ کر ان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس تشنگی اور ہیجان کی نفسیاتی کیفیت کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے محنت کشوں کا استحصال کہیں زیادہ شدید کر دیا ہے۔ دوسری جانب دنیا بھر میں محنت کشوں نے دوصدیوں کی جدوجہد سے جو تھوڑی بہت سہولیات اور مراعات حاصل کیں تھیں ان کو چھینا جارہا ہے۔ کرہ ارض کی وسیع تر آبادی کو غربت، بیروگاری، مہنگائی، بیماری، ناخواندگی اور بربادی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔لیکن حکمرانوں کی غلط فہمی ہے کہ وہ اس کھلواڑ کو لاامتناعی طور پر جاری رکھ سکیں گے۔ سامراجی ذرائع ابلاغ کامحنت کشوں پر مسلط کئے جانے والا اسلامی دہشت گردی کا خوف ٹوٹ رہاہے۔اسی طرح اسلامی بنیاد پرستوں کی جعلی اور پر فریب سامراج دشمنی بھی بے نقاب ہو رہی ہے۔ان کی عوامی اور سماجی بنیادیں بہت کمزور ہیں۔2011 ء کے ایک سال میں جتنی تحریکیں اور انقلابات ابھرے ہیں اتنے واقعات پچھلے 20 سال میں نہیں ہوئے۔عرب انقلاب سے لے کر امریکہ میں وال سٹریٹ پر قبضے کی تحریک ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔یہ انقلابات ردِ انقلابات اور جنگوں کا عہد ہے۔ لیکن اس عہد میں محنت کش طبقہ ایک مرتبہ پھر ایک لمبی نیند سے جاگ رہا ہے۔تاریخ کے میدان میں اُتر کر وہ اپنی تقدیر خودمرتب کرنے والا ہے۔دنیا کے کسی ایک بڑے ملک میں یہ طبقاتی جنگ ایک سوشلسٹ انقلاب کی فتح مندی کی صورت میں جیتی گئی تو سرمایہ داری اور اس کی بھیانک شکلوں سامراجیت اور مذہبی جنونیت کی تباہی کا تیز تر آغاز ہو جائیگا۔ جنہوں نے صدیوں سے نسلوں کو برباد کیا ہے اب اس سے بڑی بربادی ان باطل قوتوں کو نیست ونابود کر دے گی۔