اداریہ جدوجہد
اس مرتبہ سینیٹ انتخابات میں جس وسیع پیمانے پر کالے دھن کی واردات ہوئی ہے اس کے بعد سرمائے کے اِس نظام اور اسکی نام نہاد جمہوریت کے پاس اپنے تسلط کا کوئی جوا ز نہیں بچتا۔ لیکن یہ سیاہ دھنوان ایسے با ضمیر اور بااصول بھلا کب ہوتے ہیں کہ ذرا سی بھی خجالت محسوس کرسکیں۔ کالی دولت کے اِن پجاریوں نے جس ڈھٹائی اور بے شرمی سے ’سینیٹ انتخابات‘ کا یہ کھیل کھیلا ہے ایسے داؤ پیچ تو ڈونلڈ ٹرمپ کی ملکیت میں چلنے والے دیوہیکل جوا خانوں میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتے۔ بڑے بڑے پراپرٹی ٹائیکونوں اور کالی دولت کے دوسرے انداتاؤں کے یہ سیاسی مہرے اب اس معیار پر ’رہنما‘ بنتے ہیں کہ مالیاتی سیاست کی ہیرا پھیری، عیاری و مکاری، ضمیر فروشی اور جھوٹ فریب کے فن پر کس حد تک عبور اور مہارت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے سارے تجربے اور سیاسی ساکھ کے معنی صرف یہی رہ گئے ہیں اور یہی اِس مروجہ سیاست کے بنیادی گن بن چکے ہیں۔
سب سے زیادہ قیمت فاٹا کے اراکینِ پارلیمنٹ کی لگی۔ دہشت گردی اور فوجی آپریشنوں سے برباد اس خطے کے عوام کی ’نمائندگی‘ کا سودا چند بالادست لوگوں کے ہاتھوں ہو گیا۔ بلوچستان کی پوری اسمبلی ہی بک گئی ۔ یہاں کے باسیوں میں اس جمہوریت، اس کے سیاسی رہنماؤں اور ریاستی آقاؤں کی طرف پائی جانے والی نفرت بے سبب تو نہیں ہے۔ ان کے وسائل اور محنت کے ساتھ ساتھ بنیادی سیاسی حقوق بھی غصب کر لئے گئے ہیں۔ ایسے میں اس حاکمیت کے خلاف بغاوت کے جذبات کیوں نہ ابھریں! اِسی طرح سندھ کی سیاست میں ریاست کی مداخلت گزشتہ کچھ ہفتوں سے تیز ہو رہی تھی۔ اب نتائج بتا رہے ہیں کہ کیسے مختلف سیاسی پارٹیوں کے جرائم پیشہ لیڈروں کو بلیک میل کرکے اپنے مکمل کنٹرول والی مخلوط حکومت بنانے کا کھیل مقتدر قوتوں نے کھیلا ہے ۔ سندھ کے وسیع رقبوں پر قبضے کروانے والی پارٹی قیادت کے لئے پراپرٹی ٹائکونوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے ہیں۔ ایم کیو ایم کی جانب سے وفاداریاں بدلنے اور اقتدارمیں رہ کر اپوزیشن ہونے کا ناٹک کرنے کا عمل تو بہت پرانا ہے لیکن داخلی ٹوٹ پھوٹ اب شدید ہوتی جا رہی ہے۔حد سے زیادہ حکم عدولی پر ریاست بھی ایم کیو ایم کو اس کی اوقات یاد دلا دیتی ہے۔ پشتونخواہ میں بھی کالے دھن اور ریاستی طاقت کا جبر ہی اس پیسے کی جمہوریت میں جیتا ہے۔ پنجاب میں چونکہ نواز لیگ کے مالیاتی اور حکومتی کاروبار کا تسلسل جاری ہے ا س لئے یہاں کے اراکین نے موجودہ مفادات سے وابستگی پر ہی اکتفا کیا۔
اس غیر منتخب ادارے کے’’انتخابات‘‘ کا واویلا زیادہ اس لئے بھی تھا کہ کالے دھن کو سیاسی طاقت کے ذریعے اپنے تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔ کالی دولت والے اس کھوکھلے سیاسی ڈھانچے کی ساکھ کو بھی اپنے مذموم عزائم کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سینیٹ، عدلیہ اور فوج جیسے اداروں کے تقدس اور احترام کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے سماجی شعور میں سرائیت کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن حالیہ کشمکش میں جہاں اس سیاست کی پارٹیوں کی مکروہ اصلیت بے نقاب ہوئی ہے وہاں ان اداروں کا تقدس بھی عوام کی نظروں میں ریزہ ریزہ ہو گیا ہے۔ سرکاری فکر تو بہت سنجیدگی سے عدالتی فیصلوں کو سچا، بلا امتیاز اور غیر جانبدار گردانتی ہے لیکن عوام اب اس فریب کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ ریاست کے طاقتور حلقوں نے حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی لڑائی اور ٹکراؤ میں جس حد تک اعلیٰ عدلیہ کو استعمال کیا ہے اس سے سرمائے کی حاکمیت کا یہ اوزار بالکل گھِس کر رہ گیا ہے۔ حالیہ انتخابات نے سینیٹ کے تقدس کی قلعی بھی کھول دی ہے جسے بالعموم ’’ٹیکنوکریٹوں کا ادارہ‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پس پردہ واردات کے باوجود بھی ریاست کے مقدس اداروں کی ساکھ تیزی سے گری ہے۔
پیسے کی اِس سیاست میں پارٹیوں کے نام اور نشان مختلف ہیں۔ لیکن پروگرام سب کا جارحانہ سرمایہ داری پر ہی مبنی ہیں۔ عوام کا ذکر ضرور ہے۔ انکااحسا س اور اعتماد نہیں ہے۔ غربت کے خاتمے کی بات جب ملک ریاض کے محلات سے کی جائے تو بدبودار فریب بن جاتی ہے۔ مذہبی جماعتیں اس پیسے کے کھلواڑ میں کیسے منڈی کی مصنوعات بن جاتی ہیں‘ سب نے دیکھ لیا ہے۔ نواز لیگ کی حالیہ ایجی ٹیشن کچھ بڑی ضرور نظر آتی ہے لیکن ٹھوس عوامی بغاوت نہیں بن سکتی۔ جب ریاست اور سیاست کالے دھن والوں کی آماجگاہ بن جائیں تو ان کے بڑے بڑے ایوان بھی سیاہ ہو کر کالی دیوی کا روپ دھار لیتے ہیں جن کا وجود مسلسل غریبوں کے خون کا پیاسا ہوتا ہے۔ یہ سارا نظام اپنے تمام اداروں سمیت آج عوام کے شعور میں ننگا ہے۔ اسکی غلاظت سے معاشرہ تعفن زدہ ہے۔ ایسے میں محنت کش عوام کے پاس ا س ذلت اور استحصال سے نجات کے لئے پھر صرف انقلاب کاراستہ ہی بچا ہے!