فلسطین: کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل !

اداریہ جدوجہد:-

یروشلم میں ایک مرتبہ پھر تصادم اور قتل و غارت گری پھوٹ پڑی ہے۔ جبر، محرومی اور تضحیک کے ستائے فلسطینی نوجوان بے بسی کی انتہا پر صیہونی ریاست کے حامیوں پر چاقوؤں کے وار کر کے جواب میں گولیاں کھا کے مر رہے ہیں۔ ان کا جینا کس قدر دشوار ہو گا، زندگی کتنی اذیت ناک ہو گی کہ بے موت مر جانے پہ وار کر کے مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ سے لے کے مہذب مغرب کے حکمرانوں تک، سب کے سب اس صیہونی فسطائیت پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ پس پردہ اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ مذہبی جنون اور وحشت کو سلگا سلگا کر نیتن یاہو جیسے دائیں بازو کے حکمران ’’اسرائیل کی بقا‘‘ کے نام پر سات دہائیوں سے ظلم اور بربریت کا کھلواڑ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نہ صرف قدیم دیومالائی داستان کو جواز بنا کر فلسطینیوں سے ان کی زمین چھین لی گئی بلکہ اب تو انہیں دنیا کے سب سے بڑے اوپن ایئر قید خانے (غزہ) میں مقید کر دیا گیا ہے۔
امریکی سامراج دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود صیہونی ریاست کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ اس ریاست کے ہر ظلم کو تسلیم کر کے اس کی حمایت کرنا مغربی سامراجیوں کی مجبوری اور کلیدی پالیسی بن چکی ہیں۔ فلسطین کے مسئلے پر تین عرب اسرائیلی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ان جنگوں سے فلسطین کی غلامی میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی مظلومیت کو اپنے وحشی اقتدار کی طوالت کے لئے استعمال کرنے والے یہی عرب حکمران آج اسرائیلی حکمرانوں سے خفیہ اور سر عام خوب یارانے بڑھا رہے ہیں۔ اگر ان عرب آمروں اور بادشاہوں کی دولت اور عیاشی کا موازنہ فلسطین کے تباہ حال عوام سے کیا جائے تو اس ’’امت مسلمہ‘‘ کی حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے۔ خلیج سے لے کر مصر تک، یہ شاہی اور فوجی فرعون پورے خطے کو پاگل درندوں کی طرح چیر پھاڑ رہے ہیں۔ ’’امت مسلمہ‘‘ جس طرح آج آپس میں برسر پیکار ہے اس سے عیاں ہو جاتا ہے کہ مسلمان قوم پرستی کتنی بڑی جعل سازی ہے۔
فلسطین میں ایک طرف کٹھ پتلی صدر محمود عباس اسرائیلی حکمرانوں سے ’’مذاکرات‘‘ کا ناٹک رچا رہا ہے تو غزہ کے اسلامی بنیاد پرست، حماس سے لے کر ’اسلامک جہاد‘ تک، اسرائیل دشمنی کو استعمال کرتے ہوئے ہر ترقی پسند سوچ اور انقلابی نظرئیے کو بے دردی سے کچلنے میں مصروف ہیں۔ فلسطینی نوجوانوں کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں: مزاحمت یا موت! محکومی اور زندگی اور زندہ لاشوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ اور محکومی صرف مذہبی یا قومی ہی نہیں ہوتی بلکہ معاشی اور سماجی محکومی زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔ لیکن فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی میں اضافے کا ہی باعث بنی ہے۔ مذاکرات میں صرف مذاکرات ہی ہوتے ہیں۔ امیر فلسطینی حکمرانوں کو سفارتی نمائش ملتی ہے اور محنت کشوں کو گمنامی اور ذلت کے اندھیرے۔
اس نظام زر کے اقتدار کے تقاضے ہر اصول، سچائی اور ضمیر کا سب سے پہلے قتل کرواتے ہیں۔فلسطینی عوام کو ہر طرف سے غداری اور بے وفائی ہی ملتی ہے لیکن پھر بھی وہ جھکنے اور گھٹنے ٹیکنے سے انکاری ہیں۔ فلسطین کے سماج میں بار بار موج بے کراں ابھرتی ہے جسے ساحل نصیب نہیں ہوتا۔ مزاحمت کی یہ لہر اگلی بار پھر سے ابھرنے کے لئے بیٹھ جاتی ہے۔ سب حکمران پرکھے ہوئے ہیں۔ رنگ، نسل، مذہب، مسلک اور قومیت کے تمام رشتے دغاباز ثابت ہوئے ہیں۔ اس نظام کی نمائندہ ہر شخصیت، ادارے اور ریاست نے اس مسئلے کو اپنے مفادات کے لئے ہی استعمال کیا ہے۔ لیکن کب تلک؟
مشرق وسطیٰ میں 2011ء کے انقلابی طوفان جہاں بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے وہاں یہ پتا دیا ہے کہ اپنا کون ہے اور پرایا کون۔۔۔! اپنے وہی ہیں جن کے حالات زندگی اور مسائل مشترک ہیں۔ جن کی جڑت کی بنیاد قوم یا مذہب نہیں بلکہ غربت، بیروزگاری اور بھوک ہے۔ ان کی مشترک قدر ان کا طبقہ ہے۔ فلسطین میں انتفادہ پہلے بھی ابھرا تھا اور یہ عوامی بغاوت پھر سے بھڑکنے کے آثار پھر سے پیدا ہو رہے ہیں۔ صیہونی ریاست کے ستم سے گھائل اور عرب حکمرانوں کی غداریوں سے چُور فلسطینی عوام اب اگر بغاوت میں ابھرتے ہیں تو انہیں جس جنگ کو جیتنا ہو گا وہ قومی یا مذہبی نہیں بلکہ طبقاتی جنگ ہے۔ یہ جنگ تب ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی جب صیہونی ریاست کے ساتھ ساتھ رجعتی عرب حکمرانوں کے تخت بھی اکھاڑ دے۔ مشرق وسطیٰ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو یہ فریضہ ریاستوں کی جعلی لکیروں کو روندتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر ادا کرنا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ کی رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی خطے میں آزادی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ یہی 2011ء کے عرب انقلاب کی تکمیل ہو گی جو یروشلم سے قاہرہ، تیونس سے تل ابیب اور بحرین سے حائفہ تک ابھرا تھا۔